چند سال پہلے ہمیں ایک تعریفی
خط موصول ہوا تھا..خوشی سے ہم پھولے نہ.سمائے تھے..پھر ایک غزل نما بھی موصول ہوئی
جس میں ہماری تعریف کچھ کچھ ڈبے میں کیک رکھ کر کی گئی تھی...پاس ہی عید تھی .عید کا
کارڈ بھی ملا...جس پر ایک چھوٹا سا دل بھی بنا ہوا تھا.سرخ مارکر کے ساتھ جس میں ایک
تیر بھی پیوست تھا...جس دن غائبانہ مداح نے اپنا تعارف کروایا تو معلوم ہوا ان کی تو
پوری فیملی ہی ذہنی مریض ہے اور خود بھی ڈیپریشن کا ہی علاج کروا رہی تھی....
ایک فیملی اپنی لڑکی کو بے ہوش
حالت میں لائے جس نے زہر پی لیا تھا.چونکہ پرانا تعلق تھا اس لیئے ریفر نہ کرسکا .جب
معدہ واش کرنے کیلئے نالی لائی گئی تو لڑکی نے کن اکھیوں سے موٹی سی نالی دیکھی تو
اوسان خطا ہوگئے اور جونہی موقع ملا کہ تو ہاتھ جوڑ دیئے. میں نے تو اسے پریشان کرنا
تھا جو کئی دن سے میری کال نہیں سن رھا تھا اور میرے میسجز کا جواب نہیں دے رھا تھا..
ایک لڑکی چہرے کی دوائی لینے
آئی.ہاتھ میں موبائل تھا.جونہی سٹول پر.بیٹھی تو سکرین آن ہوگئی...اس پر اس کی تصویر
لگی تھی....بڑی گلاسز ...سیلفی سٹائل .. سفید شفاف جلد کے ساتھ ...
نقاب ہٹایا تو سارا چہرہ دانوں
اور سیاہیوں سے بھرا ہوا تھا..بےساختہ منہ سے نکلا..
دیتے ہیں دھوکہ یہ موبائل کے
فلٹر کھلا..
یہ ابھی کل کی بات ہے..ایک پٹھان
فیملی کو بچے کے بارے سمجھایا کہ گھر جاکر پہلے گرم.پانی سے نہلانا ہے پھر اس کو دوائی
پلانی ہے اس کے آدھے گھنٹے بعد دودھ پلانا ہے...
اور آج خان صاحب کافی غصے میں
تھے..ہمارے بچے کو کوئی افاقہ نہیں ہوا..
گھر جا کر ہم نے دوائی سے نہلایا
پھر اس کوگرم.پانی کرکے پلایا ..آدھے گھنٹے بعد دودھ پلایا لیکن اس نے پھر الٹی کر
دی...
چلتے چلتے ایک بھولی بسری کہانی
سناتا چلوں۔یہ کہانی ہے ایک چار جوان بچوں کی ماں کی جو ایک نوجوان ڈاکٹر کی اداؤں
پر فریفتہ ہوگئی تھی۔خاتون کو اس نوجوان سے محبت ہوگئی تھی یا پھر صرف عقیدت تھی۔ اس
کا جواب شائد اتناآسان نہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ نوجوان ڈاکٹرنے ایک قصبے میں نیا نیا
کلینک کھولا تو وہ خاتون جو اپنے ایک سو بیس کلو وزن سے نالاں تھی ۔ اس ڈاکٹر کو بھی
آزمانے پہنچ گئی۔ اور نوجوان جو نیا نیا ڈگری لیکر کالج سے نکلا تھا۔ پوری توجہ سے
اسکی رہنمائی کی۔ اور خاتون اس توجہ پر کچھ اس طرح فدا ہوئیں کہ ناصرف ہدایات کو وحی
سمجھ کر عمل کرنا شروع کردیا بلکہ ڈاکٹر کیلئے کبھی تازہ پھلوں کا جوس، کبھی ملک شیک،
کبھی گاجروں کا حلوہ کے تحفے میں لانا شروع کردیئے۔ نوجوان ڈاکٹر تکلف کا مارا انکار
تو نہ کرتا لیکن خاتون کے جانے کے بعد وہ کلینک کے عملے میں تقسیم کر دیتا۔ اور یوں
خاتون نے چند مہینوں میں پورے تیس کلو وزن کم کرلیا۔ اور پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ
وہ خاتون بہت محبت کے ساتھ میووں میں بنا سوجی کا حلوہ بنا کرلائی۔ اورڈاکٹر نے حسب
عادت اس کے جانے کے بعد پلیٹ عملے کے حوالے کر دی۔ لیکن خاتون کو کسی کام سے واپس لوٹ
کر آنا پڑااور سویپر کے ہاتھ میں سوجی کے حلوہ کی پلیٹ دیکھ کر اس کے دل پر کیا گزری
اس کا تو پتا نہیں لیکن وہ دوبارہ لوٹ کر کلینک پر نہیں آئی۔ راوی لکھتا ہے کہ ایک
ماہ بعد ہی خاتون کا وزن دوبارہ ایک سو بیس کلو ہوگیا تھا اور وہ نوجوان ڈاکٹرآجکل
کلینک سے کتاب تک لکھنے کے بعد اس کے اگلے حصے کی تیاری میں مصروف ہے۔
میم سین
No comments:
Post a Comment