Tuesday, October 22, 2019

قصہ، جنوں کا میرے:




فسانہ دل اور قصہ جنوں؛. ایک ایسی دنیا آباد کرتے ہیں، جہاں سعادتوں کے ستارے، دلوں کے رستوں کو سجا دیتے ہیں. جہاں نوازشوں کے پھول، زندگی کو مہکا دیتے ہیں. جہاں حیات، اپنے معنی بھول جاتی ہے ...
ہر دور کا انسان خواب دیکھتا ہے. تعبیر ملے یا نہ ملے..
لیکن ان خوابوں سے وابستگی کا سحر، ایسا پراسرار اور ایسا دل آویز ضرور ہوتا ہے جو آپ کو ایسی خوشی اور ایسی شادمانی سے دوچار کردیتا ہے کہ آپ کو جسم کے ساتھ جڑی، اپنی روح کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے. رگوں میں لہو کی جگہ نور دوڑنے لگتا ہے. وجدان تجلیوں سے دمکنے لگتا ہے. انسان جو اپنی ذات کے عرفان کو جاننے سے قاصر ہوتا ہے. وہ اپنی روح کے دکھ کو پہچان کر مرہم رکھنا سیکھ لیتا ہے..
جینے کے سندیسے ملنے لگتے ہیں..
زندگی میں نگہتیں بکھرنے لگتی ہیں...

تم پوچھتے ہو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟

زندگی کے کچھ لمحے انمول ہوا کرتے ہیں. جو کبھی کبھی زندگی بھر کا سرمایہ بن جاتے ہیں. ظلمتوں کو منور کردیتے ہیں. دل کے نہاں خانوں میں مدتوں سے دفن، مخفی راز افشا کردیتے ہیں. خود فریبی، تصوّر کی حدوں سے نکل کر کسی حقیقت میں ڈھلنے لگتی ہے ..
دلکش اورنازک خوابوں کی تخلیق..
کسی وارفتگی کا آغاز..
وہ لمحے کسی خوشنما جذبے کے ساتھ لمس بن کر آپ کے سپنوں میں بسیرا کرلیتے ہیں. وہ لمحے خوشبو بن کر زندگی کی پنکھڑیوں میں رچ بس جاتےہیں. خلوص، پیار اور یقین کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے.
وہ لمحے سعادت کے ہوتے ہیں..
ہر رشتے سے قوی، ہر تعلق سے بالا، ہر قدر پر بھاری.
وہ لمحے کبھی نور بن کر چاندنی میں بدلتے ہیں. کبھی کٹھن منزلوں کو آساں بناتے ہیں.. کبھی زندگی کو کسی نئے سنگ میل تک پہنچاتے ہیں..
اور میرے ان لمحوں کا تم حصّہ ہو . اس ساتھ کو کیا نام دو گے.؟؟

تم پوچھتے ہو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟

کچھ آفاقی لمحوں میں فردوسی قربتیں، نصیب ہوتی ہیں. جن میں جنم لینے والے تعلق بے نامی ہوتے ہیں لیکن وہ تعلق آپ کی زندگی بھر کا سرمایہ بن جاتے ہیں. ایک ایسا سرمایہ جس کے احساس سے فضا میں نغمے بکھرنے لگتے ہیں. جس کی لرزش سے وجود میں ارتعاش گونجنے لگتا ہے....

ہماری قربتیں بے زبان رہی ہیں. تمہاری آنکھیں دیکھ رہی ہوتی تھیں لیکن تمہارے لب خاموش رہتے تھے. تمہاری خامشی کے سامنے میرے سینے میں ایک بے نام خواہش پنپتی تھی. تمہیں ان انمول لمحوں سے باخبر کرنے کی..

لیکن میں خواب اور حقیقت کے درمیان کسی پڑاؤ پر جامد تھا. جہاں خواب کے ٹوٹنے کا خوف اور حقیقی مسرت ، ایک الجھن کا شکار رہتی تھی..
پھر ایک دن تم نے بھنووں کو کچھ جنبش دی. ناک کو کچھ سکیڑا. ہونٹوں کو ہلکی سی حرکت دے کر اپنی آنکھوں کی پتلیوں کونچایا..؛ تو لفظوں کے دیپ روشن ہونے لگے. جن میں تمہاری دل کی دھڑکنوں کا عکس نمایاں تھا.
ایک دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ تمہاری آنکھیں پھیل چکی تھیں.تمہارے لبوں کا تبسّم کھل اٹھا تھا...
ساری کائنات کا شعور ایک طرف اور وہ ایک لمحہ بس........
ایک قلبی اور روحانی تعلق..... ایک وجدانی سرور...

ایک حسین جاذبیئت میرے جسم میں سرائیت کرچکی تھی. اور میں کسی سحر میں لپٹا اس لمحے کی قید میں جاچکا تھا...
تم اس قید کو کیا نام دو گے؟

تم پوچھتے ہو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟

سورج مغربی افق میں چھپ رھا تھا. بادلوں کی اوٹ سے سرخ روشنائی کا تاج پہنے آسمان کے کینوس پر دل نشین منظر بن رھا تھا. پہاڑیوں کے درمیان جھاڑیوں اور درختوں کے سائے میں چھوٹی سی سڑک پہ گزرتے ہوئے، سورج کی سرخ کرنیں پتوں سے چھن کر تمہارے چہرے پر کسی تتلی کی طرح رقصاں تھیں..بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پہ ٹھوڑی ٹکائے جب تم سورج کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی بدلیوں پہ ٹکٹکی لگائے کسی سوچ میں گم تھے. تو تمہاری نظروں میں ایک اطمینان تھا . ایک ٹھہراؤ تھا..
جیسے یہ نظریں کوئی نغمہ گنگنا رہی ہوں.جس میں ایک انوکھی گونج تھی.
وہ نغمہ جو زمین اور آسمان کی قید سے آزاد کردے.
وہ نغمہ جو پژمردہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دے.
اوراس گھڑی؛ ایک روح دوسری روح سے ہم کلام ہوئی تھی..

تم اس ہمکلامی کو کیا نام دو گے؟؟

تم پوچھتے ہو کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟

گہرے بادل آسمان کو اپنی آغوش میں لے چکے تھے..تیز ہوا نے پانی پر پراسرار لہروں کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا.جو مستی میں کناروں سے ٹکڑا کر اپنی بےخودی پہ نازاں کسی خمار میں ڈوبی ہوئی تھیں ...

میں جو زندگی کی قدروں کو روندے جارھا تھا.سماج کے اصولوں، آدرشوں کو کچل رھا تھا. زندگی کے کسی نئے مفہوم کی تلاش میں سرگرداں تھا. لیکن اس پل تمہاری موجودگی، میرے لیئے زندگی کے نئے معنی ڈھونڈ رہی تھی.

ہمارے اغراض و مقاصد الگ ہوسکتے تھے .ہماری خواہشوں میں بھی شائد یگانگت نہ ہو.ہمارے جذبے عارضی بھی ہوسکتے تھے اور یہ جذبے مر بھی سکتے تھے لیکن فطرت نے ہمیں ایک جگہ اکھٹا کردیاتھا....
جب تم دریا کے پانی میں پاؤں لٹکائے ہاتھ سے پانی کی لہروں کو جواب دے رہے تھے تو میں نے ایک خواہش کو شدت سے محسوس کیا تھا. کچھ ملے یا نہ ملے، لیکن تمہارا قرب میسر رہے .تمہاری موجودگی کا احساس کبھی ختم نہ ہو.. تمہاری باتوں کا ساتھ ہمیشہ قائم رہے..

اس بے ساختہ امڈ آنے والی خواہش کو کیا نام دو گے؟

تم پوچھتے ہو کیا تمہیں مجھے سے محبت ہے؟

مندر کے چبوترے پہ جب بادل ہمارے گرد رقصاں تھے. ہوائیں جب تمہارے چہرے کو چھو کر ملکوتی تبسم بکھیر رہی تھیں. تو اس گھڑی مجھے صرف تم دکھائی دے رہے تھے...
لائم سٹونز پہ بکھری تمہاری پرچھائیاں دکھائی دے رہی تھیں. جھاڑیوں کی صورت، سورج کی تپش کو اپنے سائے کی آغوش میں لیتے ہوئے تمہیں دیکھ رھا تھا. مندر کے ہر پتھر سے تمہاری آنکھیں جھانک رہی تھیں.
پرندوں کے شور میں تمہاری آواز کی بازگشت سنائی دے رہی تھی. ہوا کے دباؤ سے درختوں کے پتوں کے سنگیت میں تمہاری سانسوں کا گمان ہورھا تھا. میں نے بار ہا تمہاری آنکھوں میں جھانکا تھا.اور اپنی سب توانائیوں کے ساتھ، زندگی کو میں نے ان میں موجزن پایا......

دل کا ساز بجتا ہے تو دماغ مدہوش ہوجاتا ہے .اس عالم بے خودی کو کیا نام دوگے؟

ہاں مجھے تم سے محبت ہے..

اس اجنبی آسمان کے نیچے کھڑے ہوکہ میں نے تمہیں آنکھیں بند کرنے کو کہا اور اک بڑے سے پتھر کے قریب روک کر سیدھ میں دیکھنے کو کہا تھا. سامنے گہری وادی میں دور ، دور تک سبزہ، مخمل کی طرح بچھا ہوا تھا. دور افق پر بادلوں کی ایک دھندلی سی لکیر تھی جیسے سمندر کا ساحل ہو اور سمندر کا پانی مستی کے عالم میں موجوں کی صورت اسے گلے لگا رھا ہو . یا پھر دریا ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ کوئی ساز بجا رھا ہو. اور بدلیوں کی ٹولیاں اس ساز پر رقصاں ہوں. جابجا وادی میں فطرت کے ہاتھوں تراشے ہوئے لائم سٹون کے ستون بکھرے ہوئے تھے. جیسے ماضی میں یہاں کسی قلعے کی فصیل ہو اور اب زمانے کے ستم سے کسی کھنڈر میں بدل چکےہوں. سامنے سرخ پہاڑی پہ ایک بڑی سی بدلی آکر رک گئی تھی. اور اس نے سرخ پہاڑی پر اپنا سایہ کرلیا تھا..
بدلی آگے بڑھنا بھول گئی تھی...
اس نے شائد تمہیں دیکھ لیا تھا...
اور تم،... وادی کے طلسم سے سحرزدہ بے یقینی کے عالم میں کچھ دیر سانسیں لینا بھول گئے تھے.. تجسّس اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تم نے قدم بڑھائے تو میری نظروں نے پتھروں کے درمیان گہری کھائی کو دیکھ لیا ..اور اندیشوں سے گھبرا کر بےاختیار تمہارا ہاتھ تھام لیاتھا..........

کیونکہ مجھے تم سے محبت ہوچکی تھی.

میم.سین

No comments:

Post a Comment