Tuesday, October 22, 2019

شاہی مسجد چنیوٹ ۔۔




میں اس وقت چنیوٹ شہر میں جس تاریخی عمارت میں کھڑا ہوں اس کا نام شاہی مسجد ہے۔۔ اور مسجد کو اپنی اصل حالت کے قریب دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ تزئین و آرائش کے نام پر اس کے ساتھ روایتی سلوک نہیں کیا گیا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس مسجد کو گھوڑوں کے اصطبل کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کے بعد کئی سال مسجد عدم توجہی کا شکار رہی۔ پاکستان کے قیام کے کوئی دس سال بعد اس مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ایک بحالی کمیٹی تشکیل دی گئی اور پھر مختلف ادوار میں اس کو اپنی اصل شکل کی طرف واپس لیجانے کیلئے کوششیں کی گئیں۔۔
صحن میں کھڑے ہوکر ابھی دو چار تصویریں ہی کھینچی تھیں کہ ایک باریش آدمی نے پاس آکر سلام لیا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میرا نام عبدالوھاب ہے اور میں یہاں مسجد کا خادم بھی ہوں اور اوقاف کے دفتر میں بھی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوں ۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو ایک بار پھر مصافحہ لیتے ہوئے بہت خلوص کےساتھ ہاتھ تھاما اور کہنے لگے آئیں پہلے چائے پیتے ہیں پھر مسجد دیکھتے ہیں۔ میں نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا ۔
یہ مسجد کس کے عہد میں بنی تھی؟ ابتدائی چند باتوں سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ مجھے ایک اچھے ٹورسٹ گائیڈ کا ساتھ مل چکا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ یہ مسجد شاہجہاں کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی لیکن اس کی تعمیر وزیر خان یا پھر سعداللہ خان کے دور میں ہوئی اس بارے تاریخ خاموش ہے۔ لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر سعد اللہ کے عہد میں ہوئی تھی۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سعد اللہ خان اسی شہر میں مصائب سے گزر کر پلا بڑھا تھا۔ شہر سے انسیت فطری تھی۔ دوسرا دھلی کا قلعہ سعداللہ کی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا۔اور قلعہ کے دیوان خاص اور مسجد کی نقشے میں بہت مماثلت ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر مسجد کی تعمیر کے سال کو دیکھا جائے تو وزیر خان اس وقت فوت ہوچکا تھا۔اور چوتھا یہ کہ دروازوں کا اندازتعمیر، اور دیوروں پر تزئین آرائش ان عمارات سے ملتی جلتی ہے جو سعد اللہ خان کے عہد میں تعمیر ہوئی تھیں۔

میں ایک ستون پر لگے پتھر کا جائزہ لے رھا تھا جب خادم صاحب نے لقمہ دیا کہ اس مسجد کی عمارت میں سرخ پتھر ہی نہیں استعمال ہوا بلکہ چنیوٹی پتھر کا استعمال بھی جابجا ملتا ہے۔۔

ہال کی تصوریں لینے کے بعد کچھ سستانے کیلئے بیٹھا تو عبدلوہاب صاحب نے میری توجہ حاصل کی۔ اگر آپ مسجد کی صدر دروازے کو دیکھیں ، اس کے دروازوں کا انداز، محرابیں ، گنبدوں کا سٹائل،دیوروں پر کی گئی پچی کاری کو بغور دیکھیں تو جامع مسجد دہلی آپ کی نظروں کے سامنے آجائے گی۔۔
اگر آپ پسند کریں تو چھت کیلئے سیڑھیوں کا دروازہ کھول دیتا ہوں جہاں سے ناصرف مسجد کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ ملے گا بلکہ پورے شہر پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑا سکتے ہیں۔

میں نے ہنس کرکہا نیکی اور پوچھ پوچھ؟

اور عبدلوہاب صاحب ایک مسکراہٹ کے ساتھ اٹھے اور ایک کمرے سے چابی لے آئے اور سیڑھیوں کا دروازہ کھول کر پہننے کو سلیپر دیئے ۔ چھت پر گنبدوں کی بناوٹ اور چھوٹے میناروں کی دیدہ زیب آرائش کی تصویریں لے رھا تھا جب عبدالوھاب صاحب ہاتھ کے اشارے سے بتانے لگے وہ سامنے چنیوٹ کی پہاڑی ہے جو یہاں کا بلند ترین مقام ہے اور وہاں سےپورا شہر نظرآتا ہے۔ یہ جو سامنے ایک عمارت کے پیچھے سے پرانا سا برج دکھائی دے رھا ہے۔ یہ ایک مندر کےآثار ہیں ۔ادھر جس گھر پر پیلے رنگ کا چونا کیا ہوا ۔ یہ کوئی سو سال پرانی عمارت ہے اور اس کی بالکونی دیکھیں ۔ لکڑی پر کیا ہوا کام ابھی تک کافی حد تک محفوظ ہے۔ سامنے گورنمنٹ سکول کی عمارت ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک طرف لے گئے اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا یہ اس رہٹ کے آثار ہیں جہاں سے بیلوں کی مدد سے پانی نکالا جاتا تھا۔ اورناصرف مسجد کی پانی کی ضرورت کو پوری کی جاتی تھی بلکہ علاقے کے لوگ بھی مستفید ہوتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں قومیں ہمیشہ اپنی ماضی کو اون کرنے سے بنا کرتی ہیں۔ تاریخ کے صفحے آپ کی شناخت ہوتے ہیں ۔ یہ ممکن ہے کچھ صفحے آپ کیلئے شرمندگی کا باعث ہوں اور کچھ قابل فخر۔۔ لیکن قوم بننے کیلئے اپنے شجرہ نسب کو ہر حالت میں قبول کرنا پڑتا ہے۔
میم سین

No comments:

Post a Comment