Tuesday, October 22, 2019

گردوارہ چووا صاب اور ہمارا ذوق جمال


آوارہ گرد کی ڈائری..
..

مجھے نہیں معلوم استھیٹک سینس کو اردو میں کیا کہتے ہیں ۔ شائد احساس جمال ؟ جمالیاتی ذوق یا پھر رعنائی خیال
خوراک انسان کیلئے ضروری ہے اور اس کا پہناواہ بھی ۔ لیکن جو ضرورت انسان کو ممتاز بناتی ہے وہ ہے احساس جمال ۔

بات کو کچھ گہرائی سے دیکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا یونانیوں نے نیکی اور حسن کو ایک ہی چیز کانام دیتے ہوئے کہا کہ حسن روحانی اضطراب کی تسکین کیلئے ضروری ہے اور نیکی زندگی کی بقا کے لیئے۔حسن ہماری خوشی کی معروضی شکل ہے یعنی ہمارے احساسات کا حصہ۔اس حسن اور اس حسن کی اہمیت کو سمجھنے کانام ایستھیٹک سینس ہے ۔ جمالیاتی ذوق

سبزہ گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا ہے ؟ ہوا کیا ہے؟

رضائے فطرت کیا ہےْ؟

ادائے زیست کیا ہے؟

تقاضائے بشریت کیا ہے؟

محبت خدا کا ہی ایک روپ ہے۔اس روپ کو کیسے دیکھیں گے؟

فطرت لذت آفریں احساس ہے اس احساس تک رسائی کیونکر ممکن ہوگی

سربکف پہاڑوں کے کیا معنی؟ دریاؤں سمندروں کے سینوں میں چہل قدمی کیا معنی؟ کائنات کا سارا دم خم کہاں ہے؟ روح کی سرشاری کیا ہے؟ روح سے ہمکلامی کیسے؟

لیکن ٹھہریئے۔پہلے ایک واقعہ سن لیں۔

سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے اپنے زندگی میں پیدل پانچ بڑے سفر کیئے تھے۔ اپنے چوتھے سفر کے دوران اپنے بہت قریبی دوست اور عقیدت مند بھائی مردانہ کے ہمراہ سفر کررہے تھے۔جب وہ ٹلہ جوگیاں سے کچھ آگے پہنچے تو بھائی مردانہ کو پیاس لگ گئی لیکن اس علاقے میں پانی بہت کمیاب تھا اور جب کہیں سے پانی نہ مل سکا تو بابا گرونانک نے اپنی عصا زمین پر مار کر ایک پتھر کو ہٹایا تو ایک چشمہ بہنے لگا۔ اس چشمے کا پانی اتنا زیادہ تھا کہ جب اس کے قریب قلعہ روہتاس تعمیر ہوا تو اس کے پانی کو قلعے کے اندر پہنچانے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔چرت سنگھ نے اس جگہ ایک عبادت گاہ تعمیر کروائی اور پانی کو محفوظ بنانے کیلئے تالاب بنوادیا گیا۔ گرو نانک سے نسبت کی وجہ سے راجہ رنجیت سنگھ نے اس پر ایک گردوارہ تعمیر کروادیا جس کی عمارت آج بھی موجود ہے۔

اب آئیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ اس واقعہ میں ساری اہمیت اس چشمے کی ہے. جس کی نسبت بابا گرو نانک سے ٹھہری۔

لیکن تزئین و آرائش کے نام پر سیمنٹ سے پلستر کرکے اس کو ایک کنواں نما کی شکل دے دی گئی ہے ۔ گوردوارے کی عمارت کا مرکزی دروازہ ایلومینئیم کا لگا دیا اور اور بحالی کا اسلم مستری سے کروا کر تاریخ کے ساتھ جس طرح کا مذاق کیا گیا ہے اس پر ذہن سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس قوم میں ایستھیٹک سینس ہی موجود نہ ہو ۔اسے تاریخ کے حسن کا شعور کیسا؟
میم سین

No comments:

Post a Comment