ایک انگلش مووی میں چند دوست شہر سے باہر ایک حویلی میں گزارتے ہیں اور روزانہ ان میں سے ایک فرد مر جاتا ہے۔۔اور اسکا کردار کہانی سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔ ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔ اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔ بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔ اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔ گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟ ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔ مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔ مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔ تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔ کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔ کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔ سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔ اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔ اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ انشاءاللہ میم سین۔ ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔
کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔
ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔
اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے
شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔
بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔
لیکن پھر بھی
ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔
اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔
گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔
آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔
یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں
راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟
ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔
مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔
مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔
اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔
تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔
کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔
کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔
سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔
اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔
اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
انشاءاللہ
میم سین۔
ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔