Tuesday, June 21, 2022

 ایک انگلش مووی میں چند دوست شہر سے باہر ایک حویلی میں گزارتے ہیں اور روزانہ ان میں سے ایک فرد مر جاتا ہے۔۔اور اسکا کردار کہانی سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔ ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔ اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔ بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔ اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔ گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟ ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔ مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔ مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔ تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔ کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔ کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔ سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔ اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔ اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ انشاءاللہ میم سین۔ ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔

ایک انگلش مووی میں چند دوست شہر سے باہر ایک حویلی میں گزارتے ہیں اور روزانہ ان میں سے ایک فرد مر جاتا ہے۔۔اور اسکا کردار کہانی سے نکل جاتا ہے۔
کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔
ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔
اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے

شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔

بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔

لیکن پھر بھی
ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔
اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔

گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔

آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔

یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں
راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟

ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔

مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔
مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔

اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔
تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔

کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔

کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔

سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔

اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔
اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
انشاءاللہ

میم سین۔

ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔

 قناعت کا راستہ


بہت بچپن میں جب جنت کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں آپ جس چیز کی خواہش کریں گے وہ آپکو مل جائے گی تو فورا ذہن میں ارادہ کرلیا کہ جنت میں جا کر برفی کھانی ہے کیونکہ کبھی اتنی برفی کھانے کا موقع نہیں ملا تھا کہ نیت بھر سکے۔۔
آئسکریم کے بارے میں صرف عید کے موقع پر سوچا جا سکتا تھا جو گنتی کی چند دکانوں پر دستیاب ہوا کرتی تھی۔ قلفی بھی روزانہ کھانے کی استطاعت نہیں تھی۔
ریسٹورنٹ صرف بڑے شہروں تک محدود تھے اور چھوٹے شہروں میں ہوٹل ہوا کرتے تھے جہاں پر مسافر یا پھر وہ لوگ کھانا کھایا کرتے تھے جن کے گھر پرکوئی موجود نہیں ہوتا تھا۔
گرمیوں میں چھتوں پر ایک پنکھے کے سامنے سارا گھر سو جایا کرتا تھا۔ اور کوئی بہت زیادہ حیثیت والا گھرانا ہوتا تو وہ کولر استعمال کرلیا کرتا تھا۔ کپڑے لکڑی کی تھاپی کی مدد سے دھوئے جاتے تھے جو فارغ اوقات میں کرکٹ کھیلنے کے کام آتی تھی۔ بیٹ تو خوش قسمت لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ بیٹ ہوتا تو بال کی دستیابی ایک بڑا
مسئلہ ہوتا تھا۔
کریم رول عیاشی کا سامان ہوتے تھے۔ کیک رس تو مہمانوں کیلئے ہوتے تھے ورنہ تو چائے کے ساتھ پاپے ہی کھائے جاتے تھے۔۔
خاص مہمان کو کوک کی بوتل پیش کی جاتی تھی ورنہ لیموں کی شکنجبین ہی مہمان نوازی کیلئے کافی سمجھی جاتی تھی۔ سوجی سے بنا حلوہ یا پھر پنیاں سردیوں کی سوغات ہوا کرتی تھی۔۔ گوشت تو ہفتے میں جس گھر میں دو بار پکا کرتا تھا ان کو کافی رشک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔۔اور آلو یا سبزی کے بغیر تو عیاشی کے ضمرے میں آتا تھا۔
گرمیوں میں خربوزے اور تربوز کے بعد سردیوں میں کینو ایسے پھل تھے جو ہر گھر میں بکثرت آسکتے تھے۔ ورنہ باقی پھل تو ناپ تول کر ہی کسی کسی گھر پہنچا کرتے تھے۔ بچے کی جرسی اور جوتا اس نیت سے خریدا جاتا تھا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کے کام آجائے گا۔ اور جوتا اس وقت پھینکا جاتا تھا جب موچی مزید گانٹھ لگانے سے انکار کر دیتا تھا۔۔۔

اور یہ صرف میرا ہی ناسٹیلجیا نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد ہر شخص کو کہیں نہ کہیں اپنا بچپن چلتا پھرتا نظر آجائے گا۔
لیکن اگر ہم اپنے آج پر نظر دوڑائیں تو یقینا ہم میں سے اکثریت کا رہن سہن کئی ہزار گنا اوپر جا چکا ہے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہے کہ ہماری پریشانیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر نئی گاڑی کا سوچنے لگتے ہیں کہ اس کا اے سی اچھی طرح کام نہیں کر رھا۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر اس کے نقشے میں بیسیوں نقص نظر میں رہتے ہیں ۔ فرج سے کبھی گوشت ختم نہیں ہوتا ۔ بہترین سے بہترین پھل ملک کے طول وعرض میں دستیاب ہے۔ جدید واشنگ مشین سے لیکر ویکیوم کلینر ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں۔ بچے الگ الگ اے سی والے کمروں میں سوتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری زبان سے شکوے ختم نہیں ہوتے۔۔۔
اور یہ جو شکوے ہیں یہ ناشکری پیدا کرتے ہیں۔ اور ناشکری برکت ختم کردیتی ہے۔

اور جب برکت ختم ہوجائے تو پھر چاہے قارون کے خزانے مل جائیں۔ہفت اقلیم میسر آجائے، کسی بادشاہ کی مسند مل جائے۔ آپکی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی ہیں۔ آپکو زندگی کا سکون نہیں مل سکتا۔

یہ درست ہے کہ مسلسل مسرتوں کے کیا معنی؟ انسانی خوشیوں کا وجود بھی دیر پا نہیں۔ حسرتوں کا تعاقب مسرتوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا جو حاصل ہے، جو میسر ہے،اس کو بھول کر ہم ان نوازشوں پر توجہ مرکوز کر دیں جو دوسروں پر برس رہی ہیں؟

فسانہ دل کی دنیا بسانے کی بجائے پاس موجود لذت آفرینی کو بھی تعفن کا شکار کر دیتے ہیں۔
وہ جو حسن سلوک میسر ہے، وہ جو کیف و سرور مل رھا ہے اسے بھول کر ہم دل گرفتہ باتوں کو یاد رکھنے پر توجہ دے کر رکھتے ہیں۔ وہ جو لمحہ موجود کی ناز آفرینیاں ہیں، وہ جو زندگی کی نیرنگیاں ہیں وہ جو گہماگہمی ہمیں دستیاب ہے۔ وہ بھول کر اس آب فیض پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو ابھی آپ کی پہنچ سے دور ہے۔

اور ہم نے فسوں در فسوں کے جال میں خود کو جکڑ رکھا ہے۔

حالات تو اورنگ زیب بادشاہ کے زمانے میں بھی ٹھیک نہیں تھے جب شیوا جی نے خط لکھ کر آمن عامہ کی بگڑتی صورتحال کی جانب توجہ دلوائی تھی۔ مہنگائی کا ذکر تو ڈپٹی نزیر احمد کے ناولوں میں جابجا ملتا ہے۔ سماج کی گراوٹ کے تذکرے تو تقسیم سے پہلے کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔

تو سکون کیلئے کونسی گیدڑ سنگی درکار ہے؟
خوشیوں کے حقیقی ذائقے سے ہم آشنا نہیں ہوسکتے، ہم مسرتوں کو محسوس نہیں کر سکتے جب تک اس گوشہ عافیت کو ڈھونڈ نہ لیں جس میں حقیقی سکون چھپا ہے۔جب تک اس عرفان کو نہ پا لیں جو دائمی خوشیوں کا ضامن ہے۔ وہی جو ہمہ گیر سچائی کا پہلا قدم ہے
اور وہ ہے

کلمہ شکر۔۔
اس کو پکڑ لیں تو بےکنار خوشیاں آپکو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔ سکون کے طلسم خانے آپکے حیرت کدوں میں پہنچ کر آپکو لذت آفرینیوں سے متعارف کروا دیں گے۔ اور آپکی زندگی کو قناعت سے بھر دیں گے۔

اور جس کے پاس قناعت کی دولت ہاتھ آگئی۔
اس سے امیر شخص بھی بھلا کوئی ہو سکتا ہے؟
میم سین

 بارھا ایسا ہوا ہے کہ مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ

آپ لکھتے کیوں ہیں؟
آپ پھول کیوں اگاتے ہیں؟
آپ سفر کس لیئے کرتے ہیں
تصویریں کھینچ کر آپکو کیا ملتا ہے؟
سبزیاں اگا کر کیا کرتے ہیں؟

میرا جواب ایک ہوتا ہے۔
کیونکہ یہ مجھے خوشی دیتے ہیں۔۔

وہ خوشی جس کیلئے ہم ہر قربانی کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ جس کی تلاش میں ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں۔
لیکن خوشی حاصل کرنا کتنا آسان کام ہے۔
مجھے اپنی خوشیاں بہت عزیز ہیں کیونکہ خوشی کا یہ احساس مجھے مثبت سوچ دیتا ہے۔۔ پر امید بناتا ہے ۔ میری شخصیت کو استحکام دیتا ہے۔۔
اور چاہتا ہوں یہ خوشیاں دوسروں تک پہنچاتا رھوں۔۔
پر امید بن کر۔۔۔ امید دلا کر۔۔
میم سین

 میم سین

اچھا ہوا
اس نے خط لکھنا چھوڑ دیا ہے
خط لکھتا بھی تو
سوائے
مایوس لہجوں
  لاحاصل جملوں کے
اس میں کیا ہونا تھا
کچھ ان کہی ادھوری باتیں
جن کا تمھیں انتظار ریتا ہے
وہ تو اس کے جانے کے ساتھ ہی مکمل ہوگئی تھیں

 بہار آئی توجیسے یک بار۔۔۔۔


کچھ قربتیں , کچھ تعلق زبان کے محتاج نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی ہم ان سے باتیں کرتے ہیں ۔ آبشار کے پتھروں سے ٹکرا کر نکلتی ترنم کی زبان ، ہوا سے ٹکراتے، سرسراتے پتوں کی زبان، ندی کے پانی کی، پتھروں سے ٹکرا کر پیدا ہوتی گونج کی زبان۔ خشک مٹی پر پڑنے والے بارش کے پہلے چھینٹوں سے اٹھتی خوشبو کی زبان۔ پسینے سے شرابور جسم سے ٹکرانے والی ہوا کے پہلے جھونکے کی زبان۔ ساحل پر سمندر کے پانی کے پاؤں پر پہلے لمس کی زبان ۔ پتوں میں سے چھن چھن کر آتی سورج کی شوخ کرنوں کی زبان ۔
جذبات اور احساسات خود ساختہ نہیں ہوتے۔ یہ فطری ہوتے ہیں۔ فطرت جب فطرت سے باتیں کرتی ہے تو روحیں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔ایک خودفراموشی کا عالم ہوتا ہے۔ مسرت، طمانیت، ایک جذباتی یگانگت، اپنائیت۔
پرندوں کی خوش الحانی میں صدا سنائی دیتی ہے۔ درختوں کے پتوں کے رنگوں میں سانسوں کا گماں ہوتا ہے۔پھول کی پنکھڑیوں میں خوشبو کسی سنگیت میں رنگ بھرتی نظر آتی ہیں۔ یہ کتنا دلکش احساس ہے۔ کس قدر دل نشیں۔
چلیں پھر پھولوں سے باتیں کریں ۔ایک نیا رنگ ایک نیا روپ ایک نیا کیف محسوس کریں۔ ایک الہام کو۔ ایک وجدان کو ۔محبت کے اس اھساس کو جو لہو کی طرح ہمارے جسموں میں رواں ہے۔کائنات کی ان بہاروں کو جو ہمارے ارد گرد سماں باندھے کھڑی ہیں۔ زندگی کی ان گنت رعنائیوں کو جو آرزوئوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔اس ابدی خوشی کیلئے جس کو زوال نہیں ۔
میم سین

 خوشیوں کے تعاقب میں۔۔


کبھی کبھی جب میں اپنے اضطراب اور وارفتگی کو اپنے مخصوص انداز میں کاغذ پر سمونے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کی دلفریب مہک مجھے دیر تک اپنے حصار میں رکھتی ہے۔ اپنے تخیل کی کھڑکی سے جن مناظر کو سامنے لاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے قابل تعریف ہی نہیں قابل ستائش بھی ہے۔ کیونک یہ امید کی دنیا کی جھلکیاں ہیں۔یہ زندگی سے بھرپور دنیا کے خواب ہیں۔ ایک ایسے تخیل پرست شخص کے جو اپنے تصورات کے سہارے ساری دنیا کو حزن وملال سے نکال کر اپنے ساتھ لیکر چلنا چایتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اداسی کے مارے لوگوں کو ایسی دنیا سے متعارف کروائوں کہ جس کو دیکھ کر وہ پاتال سے موتی چن کے امید اور آس کے استعاروں کی آب گیری کرنے کیلئے تیار نظر آئیں

ہمارے ارد گرد چھوٹی چھوٹی خوشیاں بکھری ہوئی ہیں ۔ چنبیلی کی بیل کے گرد گرے ہوئے پھولوں کی طرح۔ ان کو چن کر ان کی خوشبو کو اپنےاندر سمو لیں یا پھر ان کے پاس سے گزر جائیں، پھولوں کو فرق نہیں پڑتا لیکن آپ کے ان رویوں سے آپ کے سوچ اور انداز پر گہرے اثرات نظر آتے ہیں

کسی کی مسکراہٹ ہو یا پھر کسی کی محبت بھری کوئی ادا، کوئی آپ کو مسکرانے پر مجبور کر دے یا پھر کوئی آپ کا غم بٹا لے۔ رات کے پہر چلتے ہوئے چاند کا ساتھ میسر آجائے یا پھر کسی گہری اندھیری رات میں ستاروں کی اٹھکیلیاں۔۔بہتے پانی کی آواز کی جھنکار ہو یا پھر پرندوں کی چہچہاہٹ کی موسیقی ۔۔ ان کو محسوس کرنا شروع کر دیں۔

یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کیلئے یادوں کا گلدستہ ترتیب دیتی ہیں۔جن کی دلفریب مہک آپ کو افق تک پھیلے نیلگوں آسمان تک اڑان بھرنے کیلئے مجبور کر دیتی ہے۔ اور زندگی کے ہنگاموں سے تھکے ہوۓ اعصاب کو سکون دیتی ہیں۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی حسین منظر آپ کے ذہن پہ اتنا پختہ رنگ جماتا ہے کہ اسکی یاد آپکو پرامید اور خوش کردینے کیلیے کافی ہوتی ہے۔

اپنی نظم ڈیفوڈلز میں ولیم ورڈز ورتھ نے ایک ایسی ہی یاد کا تذکرہ کیا ہے ۔جب جھیل میں کنول کے پھول کھلے دیکھے اور تاروں بھری رات میں ستاروں کا عکس پانی میں نظر آرھا تھا۔ ان مناظر نے جو خوشی اور تسکین کا احساس دلایا اس نے اپنی کلاسک نظم میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا۔
کبھی کبھی ایک منظر فسانہ دل اور حکائیت شعور کی ایسی دنیا بسا دیتے ہیں جو نیرنگی خیال کا ایسا ذائقہ چکھا دیتی ہے کہ انسان حیات جاودانی کے معنی پا لیتا ہے۔۔

ہمارے ارد گرد ایسے مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ اور ہم ان سے بے خبر ہیں۔ان کو محسوس کرنا سیکھیں ان کو اپنے احساس میں شامل کریں۔۔

لمحہ موجود کو محسوس کریں ۔ خدشات کے بادلوں کے ڈر سے نوازشوں کے جو پھول کھل چکے اور حیات میں جو سعادتوں کے جام برس رہے ان کو نظر انداز مت کریں۔
ہمیشہ خوش رہیں
میم سین
تصاویر۔۔ بلوچستان یاترہ
ڈی جی خان لارالئی کوئٹہ چمن زیارت سبی کے آس پاس کے مناظر

 کیا آپ سوشل میڈیا پر مشہور ہونا چاہتے ہیں؟


تو ہم نے بنا دی ہے لائف ایزی
ہر طرح کی پوسٹ کمنٹس میسجز کے ٹیملیٹس دستیاب ہیں۔۔
عورت مارچ کے موقع پر 50 فیصد سیل

علمی پوسٹ پر کمنٹ۔۔

سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے۔ اور اس ہجوم میں سے موتی ڈھونڈنا سمندر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ لیکن میری خوس قسمتی ہے کہ مجھے پاتال سے موتی ڈھونڈنے کی نوبت نہیں آئی اور بن مانگے ایک جوہر میرے حصے میں آگیا۔ لکھتے کیا ہیں جناب بس ایسا لگتا ہے علم و فن کا ایک نور ہے جو آپکی وال سے امڈتا رہتا ہے اور ہم اس سے اپنے حصے کی روشنی سمیٹتے رہتے ہیں

انباکس گھسنے کیلئے۔۔

آپکا نام بہت پیارا ہے۔
مجھے یقین ہے آپ بھی بالکل اپنے نام کی طرح پیاری ہیں۔
آپ کے پروفائل پر موجود چند پوسٹوں پر سیکورٹی نہیں لگی ہوئی تو دیکھ کر مجھے لگا ہے کہ میں آپ سے پہلے بھی کہیں مل چکا ہوں۔ شائد پچھلے جنم میں۔ جیسے ہم ایک ساتھ رہے ہیں۔ کیونکہ ہماری سوچ اور پسند بالکل ملتی جلتی ہے۔ آپ کو غروب آفتاب کا منظر اچھا لگتا ہے اور مجھے تو لگتا ہے میں ہی وہ آفتاب ہوں جو افق کے پار آپکو دیکھتے دیکھتے اتر جاتا ہے۔ آپ نے بریانی کی جو تصویر شیئر کی ہے ۔اس سے آپ کے ہاتھ کا ذائقہ آرھا ہے۔ اگرچہ تصویر کے اینگل سے کسی ریسٹورنٹ کا گمان ہورھا لیکن میرا دل گواہی دے رھا ہے وہ بریانی آپ نے ہی اپنے نرم حسین ہاتھوں سے بنائی ہوگی۔
آپ بہت ذہین ہیں۔۔
لیکن آپ بہت مختلف ہیں
کچھ خاص ہے آپ کے اندر
جو آپکو منفرد بناتا ہے۔۔
آپ شائد سمجھی ہونگی
میں آپکو بنا رھا ہوں
بخدا ایسا کچھ نہیں
آپ کے اندر ایک بہت مہذب اور سلیقہ شعار انسان موجود ہے۔
اوہو
یہ تو بتانا ہی بھول گیا
کہ جیسے صحرا میں گمشدہ قافلے سے بچھڑ کر انسان جب دو گھونٹ پانی ہونٹوں کو لگاتا ہے تو آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے وہ احساس ملتا پے
آپ سکھ چین کے درخت کی ٹھنڈی چھائوں ہیں۔ مجھے لگتا پے کہ میں کڑی دھوپ میں رستہ بھٹک کر دھوپ کی شدت سے جلس رھا تھا کہ مجھے آپکا سایہ میسر آگیا
آپکا اچھا مشاہدہ اور انسانوں کی پہچان آپ سے بڑھ کر کسی کو کیا ہوگی۔۔
اور مجھے یقین ہے جتنی خوبصورت شخصیت آپکی مجھے دکھائی دے رہی ہے۔۔
اس سے کہی زیادہ آپ خوبصورت ہیں۔
اگر آپ میری فرینڈز ریکوئسٹ قبول کرلیں تو
کیا میں آپکو دیکھ سکتا ہوں؟

کتاب کھولے بغیر کتاب پر تبصرہ

جب کتاب پڑھنے کیلئے کھولی تو ابتدائی صفحات میں روایتی انداز دکھائی دیا تو کچھ بوریت کا احساس ہوا لیکن اس کے بعد جب آگے بڑھا تو تحریر کا طلسم کچھ ایسا طاری ہوا کہ میں جیسے کسی سحر میں مبتلا ہوگیا اور پھر جب بھوک اور تکھاوٹ نے اپنے ہونے کا احساس دلایا تو اس وقت تک آدھی سے زائد کتاب ختم کر چکا تھا۔
کیا اسلوب ہے اور خیالات کی کیا روانی ہے۔ ایسے لگتا ہے مصنف کا ناصرف مشاہدہ بہت جاندار ہے بلکہ اس کے تخیل کی پرواز بھی بہت بلند ہے۔۔ اگرچہ موضوع کافی بکھرا ہوا تھا اور اس پر قلم اٹھانا اور اسکو سمیٹنا اتنا آسان نہیں تھا لیکن ۔مصنف نے جس خوبصورتی سے اسکا احاطہ کیا اس پر جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔
اگرچہ ایک عرصے سے موضوعات کی قلت اور معیار کی گرانی پر میرے تفکرات سے اکثر دوست باخبر ہیں۔ لیکن "مصنف کانام" ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہین۔اور میرے لئے سیاہ اندھیری رات میں امید کی ایک کرن۔۔اور مجھے امید ہے اب وہ قلم سے اپنا رشتہ کمزور نہیں کریں گے اور مجھے یقین ہے آنے والا وقت میں اردو زبان کے محسنوں میں ان کا نام بھی شامل ہوگا۔۔

کسی کے کمنٹ کے جواب میں

ارے واہ۔۔
اگرچہ آپکو صاحب بصیرت سمجھتاہوں لیکن نظریاتی بنیادوں پر مجھے آپکی اکثر باتوں سے اختلاف رھا ہے لیکن یہ بات تو جیسے دل پر اتر گئی ہے۔ آپ کی رائے سے اختلاف کرنا ممکن نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں زرا ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کہ آپکا ناصرف مطالعہ غیر معمولی ہے بلکہ حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر طرح کے ٹیمپلیٹس ارزاں نرخوں میں دستیاب ہیں۔
ان ڈیمانڈ ٹیمپلیٹس بھی تیار کیئے جاتے ہیں

پیکجز ریٹ اور مزید معلومات کیلئے انباکس رابطہ کریں

میم سین اینڈ کمپنی
اعتماد کے پندرہ سال

نوٹ۔۔ ہماری کوئی شاخ نہیں