بیٹی نے مڑ کے جواب دیا
اماں پہلے بھی کہا تھااپنی عینک کے شیشوں کو صاف رکھا کر
تجھے رنگ دکھائی نہیں دیتے
تجھے پہاڑوں پر کہر دکھائی دیتی ہے
لیکن وادی میں اگا سبزہ دکھائی نہیں دیتا
تجھے ہوا کے گالوں کو چھوتے جھونکے نہیں ستاتے ہیں
مگر
تجھے آلودہ فضا دکھائی دیتی ہے
بوڑھے پتے زمین سے گلے مل رہے ہیں لیکن
تجھے کھلے پھول، پرندوں کی گونج سنائی نہیں دیتی
اپنی دھندلی عینک اتار کر دنیا کو دیکھ
رنگ بھی ہیں خوشبو بھی
اور دور تک بکھرے خواب بھی
خوابوں کے ساتھ چلتے مسافر بھی
اور ہنستے مسکراتے بچوں کی ٹولیاں بھی
لوگ اب بھی امید کی کونجوں کا تعاقب کرتے ہیں
وہ اب بھی نور کے پردے کے ساتھ
ناامیدی کی پرچھائیوں کو رات کے اندھیرے میں چھوڑ آتے ہیں
شبنمی آنسوئوں کے درمیان
ان کے نقرئی قہقہے گونجتے ہیں۔
آگ کے لپکتے شعلوں کے درمیان
ان کے کی ہنسی پہاڑی آبشار بن کر نکلتی ہے
دیکھ اماں
جب وصل کی راحت طویل نہیں
تو ہجر کا روگ اتنا طویل کیوں
ہم اضطراب، بے تابی بے چین روح
کے استعاروں میں زندہ کیوں رہنا چاہتے ہیں
سکون اطمینان مسرت کے بادبان کھول کر
اسے زندگی کے دریا میں کیوں نہیں دھکیلتے۔۔
پیاری اماں
جائو اپنی دھند سے اٹی عینک کو اتار دو
اپنی آنکھوں میں رنگوں کو اترنے دو
خوشبو کو رستہ ڈھونڈنے دو۔۔
No comments:
Post a Comment