ایک تعلق کے مر جانے سے
ستارے بجھ نہیں جاتےچاند بھٹک نہیں جاتا
سورج ابدی گہن کا شکار نہیں ہوا کرتا۔
قطبی تارے کا ریچھ بھیڑیا بن بھی جائے تو
راستہ بھول جانے والے مسافروں کو کھا نہیں سکتا
ایک آواز کے نخلِ سماعت سے دور جانے پر
نئی آبشاروں کا شور سنائی دے رھا ہے
پرندے پھر سے چہچہانے لگے ہیں
داستان گو الاؤ کے گرد بیٹھنا نئی کہانی سنانے کو بے چین ہے
اور آگ سے نکلتا الائو دور سے دکھائی دے رھا ہے
ایک نگاہ کا حصار ختم ہو جانے پر
مناظر منجمد ہو گئے تھے
افق نظر سے دور ہوتا دکھائی دے رھا تھا
درخت پتے گرانے لگے تھے
سبزہ سیاہ ہو گیا تھا
اور رنگ اپنی شناخت کھوتا دکھائی دے رھا تھا
لیکن
ایک لمس کے کھو جانے سے
حدت یخ بستگی میں مستقل ڈھل نہیں جایا کرتی
پوریں بے جان ہو بھی جائیں تو
خواہشِیں کبھی مرا نہیں کرتیں۔
برف چاہے ساری زمین کو ڈھانپ لے
خواہش کے نئے بیج نئے پودوں کو جنم دے دیا کرتے ہیں
نئی زندگی نئی خواہشیں نئی سوچ
ہر بہار کا مقدر ہوا کرتی ہے
بہار کو آنے سے کوئی برف روک نہیں سکی
اور
نہ روک سکے گی
میم سین
No comments:
Post a Comment