Thursday, February 27, 2014

کچھ فون روٹنگ کے بارے میں


کچھ فون rooting کے بارے میں

ایک دوست نے اینڈرائیڈ فون کی روٹنگ کے بارے مین سوال کیا ہے،کہ اس کے بارے میں بتایا جائے۔
ٹیکنیکی دیکھا جائے تو یہ ایک مشکل ٹرم دکھائی دیتی ہے،لیکن اگرسادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب اینڈرائیڈ فون کا کنٹرول اپنے ہاتھ مین لینا ہوتا ہے۔ یعنی اینڈرائیڈ سسٹم میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں لانا ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک سادہ مثال دوں گا کہ جب آپ کوئی بھی اینڈرائیڈ فون خریدتے ہیں تو اس میں انسٹال اپلیکیشن کو آپ ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح فونٹ سائز، فونٹ سٹائل، لاک سٹائل، وغیرہ تبدیل نہیں کرسکتے۔لیکن روٹنگ کے ذریئے اپنے موبائل کا کنٹرول آپ اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔آئی فون کیلئے جیل بریک کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے 
روٹنگ کی اہمیت؟
اس کی اہمیت اس وقت بہت زیادہ تھی جب اینڈرائیڈ فون بہت کم فون میموری کے ساتھ آتے تھے۔ چند دن کے استعمال کے بعد فون میموری ختم ہونے کا الارم بجنے لگتا تھا۔اس کے علاوہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ اینڈرائیڈ فون کے سپیکر کی آواز بہت کم ہوتی تھی اس لئے کسی بھی اینڈرائیڈ فون کو روٹ کرنا ناگزیر ہوتا تھا۔ لیکن اب چونکہ موبائل فون وافر فون میموری کے ساتھ دستیاب ہیں، اسلئے روٹ کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسے اہم ضروری کام ہیں جن کیلئے فون کو روٹ کیا جاسکتا ہے
1۔روٹ کرنے کے بعد آپ فون کی غیر ضروری اپلیکیشن کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں
2۔فون کے استعمال کے دوران بار بار تنگ کرنے والے اشتہارات کی یلغار کو روک سکتے ہیں
4۔فون کی آواز کو بڑھا سکتے ہیں
5۔اپنی مرضی کا سسٹم انسٹال کر سکتے ہیں۔ پاکستانی برینڈز کیلئے بہت آپشن موجود نہیں لیکن انٹرنیشنل برینڈز کیلئے ان گنت سہولتیں موجود ہیں۔
نوٹ۔۔۔ فون سیٹ کو روٹ کرنے کے بعد وارنٹی ختم ہوجاتی ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

کچھ سمارٹ فون کے بارے میں


آج کے دور میں موبائل فون کا استعمال صرف بات چیت کی حد تک ہی نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس نے کمپیوٹر کے متبادل کے طور پر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اور سمارٹ فون کی صورت میں ہمارے روزانہ کے معمولات میں حصہ دار بن گیا ہے۔سمارٹ فون کی اصطلاح اس فون کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے بنیادی کام یعنی فون سننے اور کرنے کے علاوہ دیگر کام بھی سرانجام دے، جیسے کیمرہ، جی پی ایس ،وائی فائی وغیرہ۔سمارٹ فون میں عموماً کوئی اوس چل رہی ہوتی ہے۔جیسے ہم کمپیوٹرز میں ونڈوز کے نام سے واقف ہیں۔۔سمارٹ فون کونسا بہتر ہے۔؟ کتنی پرائس میں لینا چاہیے؟ کس کمپنی کا ہونا چاہیئے؟ کچھ ایسے سوال ہیں جو سمارٹ فون کے بارے میں ہمیشہ اٹھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اس مضمون کی صورت میں ایک کوشش کی گئی ہے کہ بنیادی معلومات ایک عام آدمی تک پہنچائی جائے تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو
سمارٹ فون لینے سے پہلے اپنی ضرورت کو ضرور سامنے رکھیں۔
کیمرہ آپ کیلئے زیادہ اہم ہے؟
سٹائل ضروری ہے؟
براؤزنگ کیلئے استعمال کرنا ہے؟
ویڈیوز یا آڈیو کا استعمال زیادہ کرنا ہے؟
جی پی ایس کتنا اہم ہے؟
وائی فائی رینج کتنی ہونی چاہیئے؟
1:کونسا سمارٹ فون؟
اس وقت دستیاب سمارٹ فون میں استعمال ہونے والے اوس سسٹم میں اینڈرائیڈ، آئی اوس، ونڈوز، بلیک بیری قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ ونڈوز اور بلیک بیری نے کافی نام کمایا ہے لیکن ایسے سیٹ جن پر یہ سسٹم دستیاب ہیں ان کی تعداد محدود ہے اور دستیاب سافٹ ویئرز بھی بہت کم ہیں۔بلیک بیری تو فی الحال صرف بلیک بیری سیٹ کیلئے دستیاب ہے۔لیکن ونڈوز نے بھی زیادہ مقبولیت حاصل نہین کی ہے۔ سیٹ خریدنے سے پہلے چونکہ پرائس رینج کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اور آئی فون سسٹم چونکہ صرف آئی فون کیلئے دستیاب ہے اس لئے آئی فون کو اپنی قیمت کی وجہ سے سمارٹ فون کی اس بحث سے نکال دیتے ہیں۔ اسلئے اینڈرائیڈ ایک آپشن رہ جاتی ہے جس پر معلومات حاصل کر کے اسے اپنی جیب کیلئے قابل قبول بنایا جاسکے۔
اینڈرائیڈ کیوں؟؟
1۔قیمت اور خصوصیات کے لحاظ سے فون سیٹوں کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔۔
ْْ2۔دستیاب سافٹ ویئرز کی تعداد کروڑوں میں ہے
3استعمال میں بہت آسان ہے
4۔سافٹرز کو انسٹال کرنا ڈیلیٹ کرنا، ڈیٹاٹرانسفر کرنا، کمپیوٹر یا کسی دوسرے فو ن کے ساتھ لنک کرنا انتہائی آسان ہے
5۔لیکن میرے لئے اس سسٹم کا استعمال اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ کسی بھی دوسری کمپنی کے پیڈ(پیسوں والے) سافٹرز کے کریک اتنے آسانی سے دستیاب نہیں ہیں جتنے اینڈرائیڈ میں ہیں۔اور ان کا انسٹال کرنا بھی بہت آسان ہے
چائینیز یا برینڈڈ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ برینڈڈ سیٹ کا معیار چائینہ کے سیٹ سے بہت بہتر ہوتا ہے، خاص طور پر سکرین ٹچ، ڈسپلے اور بیٹری لائف میں۔لیکن جب سے کچھ پاکستانی برینڈ مارکیٹ میں آئے ہیں چائینیز سیٹ کا معیار بہت بہتر ہوا ہے۔ان کا مقابلہ انٹرنیشنل برینڈز کے ساتھ تو شائد نہ کیا جاسکے لیکن قیمت کو دیکھتے ہوئے ان کے معیار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
انٹرنیشنل برینڈز کونسا؟؟
اس وقت سیم سنگ کل موبائل کے تیس فیصد شیئر پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ ایچ ٹی سی، سونی، موٹرولا، ایل جی، ہوائی ، الکا ٹیل جیسے برینڈ بھی دستیاب ہیں۔اور اب تو نوکیا نے بھی ضد چھوڑ کر اینڈرائیڈ میں قدم رکھ دیا ہے۔سب کا معیار ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔کوئی کیمرہ شاندار دے رہا ہے، کسی کی کمپنی سپورٹ بہت اچھی ہے۔کسی کا جی پی ایس بہت اچھا کام کرتا ہے تو کسی کے وائی فائی کی رینج بہت زیادہ ہے۔ چونکہ سب کے اندر اینڈرائیڈ سسٹم چل رہا ہیں، اسلئے کوئی بھی ایسابرانڈ لے سکتے ہیں جو آپ کے ذوق کو مطمئین کر سکے۔۔ڈسپلے ، کیمرہ کوالٹی اور استعمال میں میرےنزدیک سام سنگ اورایچ ٹی سی کا معیار بہت بہتر ہے۔اگرچہ ایچ ٹی کے سیٹ وزن میں عموماً کچھ بھاری ہوتے ہیں
سستا میں کونسا؟؟؟
پاکستان میں اس وقت کیو موبائل، وائس موبائل، ہوائی موبائل، جی فائیو،کے سستے اور معیاری سیٹ دستیاب ہیں۔ لیکن جب آپ کوئی بھی خریدنے جائیں تو آپ کو ایک فون سیٹ کے بارے میں چند چیزوں کے بارے میں علم ہونا چاہیئے۔ اس وقت دستیاب زیادہ تر سیٹ میں استعمال ہونے والی اینڈائیڈ سسٹم جیلی بین ہے، جس کو چلانے کیلئے پانچ سو ایم بی کی ریم دستیاب ہوگی۔ اس لئے کوئی بھی سیٹ جس میں جیلی بین انسٹال ہو اس کی ریم ایک جی بی سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔جیلی بین کے بھی دو ورژن دستیاب ہیں دوسرے والا زیادہ بہتر اورسموتھ ہے۔آئس کریم سینڈوچ یا جنجر بریڈپر چلنے والے موبائل کیلئے پانچ سو بارہ کی میموری بھی کافی ہوتی ہے چونکہ ہر روز نیا سافٹ ویئر مارکیٹ میں آرھا ہے تو جس قدر پروسسیسر اچھا ہوگا، اتنا زیادہ فون کا اور آپ کا ساتھ لمبا ہوگا۔اس وقت کواڈ کور پروسسر کے ساتھ لوکل موبائل فون کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔ اس وقت سکرین سائز میں موبائل تین انچ سے پانچ اشاریہ سات انچ تک دستیاب ہیں۔پانچ ایم بی سے تیرہ ایم بی کے کیمرہ کی رینج دستیاب ہے اورمختلف کمپنیوں کے کیمرہ کولٹی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔سکرین میں آٹھ سو سے بارہ سو میگا پکسل کا ڈسپلے دستیاب ہے۔اس وقت سبھی موبائلز میں لیتھیم بیٹریز استعمال ہورہی ہیں۔جن کی عمر اور کوالٹی سب کمپنیوں کی ایک جیسی ہے۔دو ہزار ملی ایمئیر کی بیٹری ایک سیٹ کو مناسب استعمال پر ایک دن سے زائد چلانے کیلئے کافی ہے۔ تقریباً سبھی موبائل چار جی بی کی انٹرنل میموری دے رہی ہیں۔ جو سسٹم کو چلانے والی فائلز کے انسٹال ہونے کے بعد یوزر کو ایک سے ڈیڑھ جی بی ملتی ہے۔اور سب کے ساتھ ایس ڈی کارڈ ڈالنے کی سہولت ہوتی ہے۔جو عام طور پر بتیس جی بی تک کے کارڈ کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ لیکن عام دستیاب چائینہ کے میموری کارڈ کا آٹھ جی بی سے زیادہ کا ساتھ نہیں چلتا۔
نوٹ
موبائل ہمیشہ کسی قابل اعتبار دکاندار سے لیں۔ دوبارہ پیک اور ری فرب سیٹ کو نیا کہہ کر بیچنے کی شکایات عام ہیں
پاکستان میں کوئی بھی کمپنی سیٹ کی وارنٹی کے سلسلے مین سنجیدہ نہیں۔اس لئے دعووں پر نہ جائیں ۔ اگر کبھی ضرورت پیش اآجائے تو اپنے زور بازو پر حاصل کریں
کسی بھی کمپنی کا سیٹ ڈیفیکٹو نکل سکتا ہے۔ اس کیلئے کسی کمپنی کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔ سیم سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کے سیٹ کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پر جاتا ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

Tuesday, February 4, 2014

متضاد رویے


 محبت لا محدود ہوتی ہے ۔ وہ بے کنارہ ہوتی ہے۔وہ کہیں نہیں ڈوبتی ہے۔ وہ کہیں ختم نہیں ہوتی۔محبت محبوب مانگتی ہے محبوب کا قرب اور اطاعت مانگتی ہے۔محبت تو خود غرضی کی موت ہے، محبت تو انمول بناتی ہے۔تڑپ پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے؟ جو ہماری راحت کی تسکین کا سبب نہیں بن رہی؟ یہ کیسی محبت ہے جس میں ہجر کا درد ہے؟ یہ کیسی محبت ہے کہ جس کے ساتھ نفرتیں ٹکرا کر چور چور نہیں ہوتی ہیں ؟ یہ محبت کا جبر ہے یا پھر اس کی معنویت سے بے خبری ؟ کہ ہم محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں اس کا ورد بھی کرتے ہیں ۔ہم نےمحبت کے دعوی سےکبھی دستبرداری بھی اختیار نہیں کی لیکن مرجھائی ہوئیں ، مضمہل صبحیں ہمارا استقبال کیوں کرتی ہیں ؟ ہمارے چاروں طرف محرومیت اور ، بےچارگی اور اداسی کا غبار کیوں ہے؟
 میں دیر تک خود کو عریاں محسوس کرتا رہا۔ ایک شرمندگی اور احساس ندامت تھا جس نے مجھے اپنے حصار میں لئے رکھا ۔ چند دن پہلے ایک فورم پر لگنے والے اس لطیفے کو جس پر بہت سوں کی دینی حمیت بھڑک اٹھی تھی، دین کے بارے میں ہمارے عمومی رویے پر ایک گہرا طنز چھپا تھا۔ وہ طنز جو اس معاشرے کی اصل بیماری پر ہے,جو ایک غیر محسوس طریقے سے ہمارے اندر سرائیت کر گئی ہے۔دلوں کے اس کھوٹ پرہے جس کی جڑیں ہمارے عقیدوں میں بہت گہرائی میں جاچکی ہیں ۔ایک صاحب کو کو ان کی بیوی نے فجر کی نماز کیلئے جگایا تو تو وہ بولے کہ قضا پڑھ لوں گا۔ بیوی نے کہا شریعت میں جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہوتی،جس پر خاوند نے طنزاً کہا شریعت میں تو چار شادیوں کی بھی بات موجود ہے وہ کیوں بھول رہی ہو۔ اس پر بیوی بولی۔کوئی بات نہیں سوئے رہو اللہ بڑا غفور اور رحیم بھی ہے۔بات انتہا پسندی کی نہیں ہے۔زندگی کی اقدار کے مجروح ہونے کی بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوجاتی۔مصنوعی لہجوں میں حقیقت اور تصنع کے بیچ کسی مقام کو موردالزام ٹھہرا کر بری الزمہ نہیں ہوا جاسکتا بلکہ یہ معمولی سا لطیفہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بے شمار پہلوئوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جن کو احساس برتری کے غیر محسوس رویوں سے انسانی خواہشوں کے جال میں الجھا کر یکسر بھلا دیا گیا  ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بے شمار کردار بکھرے ہوئے نظرآئیں گے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اور شائد بہت سے معاملات میں ہم خود بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔یہ حاجی بشیر صاحب کھاد کی ایجنسی کے مالک ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے لیکن کھاد کے پچھلے بحران نے مالی حیثیت اتنی اچھی کر دی ہے کہ اگلا کاروبار شروع کرنے سے پہلے حج کی فرضیت کو نہیں بھولے۔ یہ ہیں اسلم صاحب ، انڈے کے آڑھتی ہیں۔ اس بار سردیوں کا سیزن اتنا شاندار رھا ہےکہ سامنے والی مسجد کا مینار وہی تعمیر کروا رہے ہیں ۔فقیر اللہ صاحب ہمیشہ رمضان کا مہینہ مکہ اور مدینہ میں گزارتے ہیں لیکن اس بار ان کی ہمشیرہ کی طرف سے اپنی خاندانی جائیداد میں سے حصہ کا دعوی کرنے کی وجہ سے، نہیں جا سکے، جس کا انہیں بہت صدمہ ہے۔ مہرذکااللہ صاحب کو اللہ نے گمراہی سے نکال دیا ہے۔اپنے والد کی وفات پر قل کا ختم کروانے سے صاف انکار کردیا اورمقامی مسجد میں اجتماعی دعا کروا دی اور شہر کے ایک مشہور عالم سے گمراہی سے بچانے کیلئے درس کا اہتمام کیا ۔فضل صاحب نے بارہ ربیع الاول کے روز پوری گلی کو سجایا اور سارا دن اس کوعام ٹریفک کیلئے بند رکھا ۔ اکبر صاحب نے بینک کا قرضہ واپس نہ کرنا ہوتا تودرس کی تعمیر میں اپنا خطیر حصہ ڈالتے۔ ایسے ہی بے شمار کردار جو ہماری منافقت اور متضاد رویوں کو عیاںکرتے ہیں ۔اور یہ متضاد رویے ہی اصل میں ہمارے زوال اور پستی کا سبب ہیں ۔ دین نام ہے احکامات کو بلاتامل قبول کرلینے کا ۔اپنی پسنداور ناپسند کو پس پشت ڈال دینے کا۔ اپنی عقل اور رائے کو چھوڑ دینے کا۔ جب حکم سامنے ہو پھر عذر کیسا؟ پھر حیلے بہانے کیسے؟ ایک صحابی کے انگلی میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کیلئے سونا پہننے کو حرام قرار دیا تھا تو اس نے نا صرف اس کو ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا بلکہ ساتھیوں کے یہ کہنے پر کہ اسے اپنی بیوی یا بہن کو دے دو تو بھی اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کہ جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار پھینکا ہو اسے میں اٹھا نہیں سکتا۔ شراب کی حرمت نازل ہوتی ہے تو گھڑوں کے گھڑے انڈیل دیے جاتے ہیں ۔ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کی حرمت نازل ہوتی ہے تو پکا ہوا گوشت بھی پھینک دیا جاتا ہے۔قتال کا وقت آتا ہے تو پکی ہوئی کجھوریں چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں ۔
 پستی اور گمراہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ہمارے رویے اور ہمارے فیصلے ہیں ۔ ہماری پسند ناپسندہے ، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ہم سماج کے قیدی ہیں ۔ہمیں دنیا کے اصول وضوابط اور ذاتی خواہشات عزیز ہیں ۔زندگی کی اقدار، حالات کی مجبوریاں ، معاشرتی تقاضے مقدم ہیں ۔حصول تسکین کی خواہشات اور جذباتی بہائو ہیں ۔۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے، حکم ربی سامنے ہو اور خواہشیں روند دی جائیں ، بات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو رہی ہو تو ذاتی پسند ایک طرف ہوجائے،اعجاز قرآن کی بازگشت ہو ہو توجذبوں کی تسکین کی تلاش نہ ہو۔سیرت کے سنہری موتی ہوں اور ضد میں حقیقتوں کو جھٹلایا نہ جا رھا ہو۔بات محبت کی ناکامی کی نہیں ہے ان رویوں کی واپسی کی ہے۔وہ رویے، جو ہماری تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے گئے تھے
میم سین

Sunday, December 22, 2013

شعور کا المیہ


کباڑیے کی دکان پر، میں کس غرض سے گیا تھا، وہ تو میں بھول چکا تھا۔لیکن میں ایک جیتے جاگتے انسان سے ایک احساس میں ڈھل چکا تھا۔سٹیل کے ان گلاسوں کو جب لڑکی کے جہیز میں دینے کیلئے خریدا گیا ہوگا تو وہ پل کتنے مسحور کن ہوں گے۔ کسی نئے گھر کےسفر پر روانگی سے پہلے خوف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو کیسے سنبھالا ہوگا ؟ ڈھولکی بجی ہوگی تو دل کے دروازوں پر کتنے ساز ابھرے ہونگے۔نقرئی قہقہوں کے پیچھے کتنے شبنمی آنسو گرے ہونگے۔اپنی محبت کے خمیر سے کسی کی آبیاری کرنے کو کتنی بے چین ہوگی۔ریشمی بندھن کے خیال سے اس کے شہابی رخسار کتنی بار دمک اٹھے ہونگے ۔ 
قدآورآرائشی گلدان کو دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ جب نیا گھر بنایا ہوگا تو کتنے چاؤ کے ساتھ اس کے دروبام کو سجایا گیا ہوگا۔دیواروں پر فریم آویزاں کئے ہونگے۔چھوٹا سا ایک گھر، کتنا پر سکون ہوگا۔دن کو سورج کی کرنیں اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہونگی اور رات کو چاند کی روشنی اپنے حصار میں ۔ کمروں کو سفید کلی سے دھویا گیا ہوگا۔ دروازوں اور کھڑکیوں کو پردوں کے ساتھ ڈھانپا ہوگا۔کسی کمرے کے فرش کو دری سے سجایا ہوگا۔ نئی کرسیاں اور میز بھی خریدی ہونگی، اور صحن میں بھی کرسیاں لگائی ہونگی۔ گرمیوں میں صبح کو ان کرسیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہونگے۔کبھی شام کی چائے کیلئے ان پر بیٹھتے ہونگے۔بچے ان کرسیوں پر بیٹھ کر سکول کا کام کرتے ہونگے۔ ایسے ہی کبھی جب بارش برکھا برستی ہوگی تو سب صحن میں موجود چیزوں کو بارش کے پانی سے بچانے کیلئے بھاگ کر برآمدے میں دھکیلتے ہوں گے۔ برسات بھی کیا خوب ہوتی ہے۔۔۔۔
ایک طرف پرانے کمپیوٹرز کا ڈھیر لگا ہوتھا ۔جب پہلی بار ان کو خریدا گیا ہوگا تو کتنی چاہتیں ہوں گی ان کے ساتھ۔کتنے خواب ہوں گے جن کے سہارے وہ نئی دنیائیں آباد کی گئی ہونگی۔نئے زمانے کے نئے انداز، نئے علم ، نیا شعور، نئی ترقیاں۔۔۔۔ کچھ دنیا سے رابطے کے خواب ہونگے، کچھ دوستوں یاروں سے ملنے کی خوشی ہوگی۔ کچھ کر دکھانے کی، کچھ سیکھ لینے کی جستجو ہوگی۔۔۔
ایک پرانا قالین دیکھ کر دھیان ڈرائینگ روم میں اس پر لگنے والی لڈو اور کیرم کی بازیوں کی طرف نکل گیا۔جیت اور شکست کےدرمیان ایک جستجو سینے میں مچلتی ہوگی۔دھوپ اور چھاؤں کی طرح ارمان دلوں میں مچلتے ہونگے۔ کسی کا فتح کا کوئی نعرہ بلند ہوتا ہوگا،کوئی سر جھکا کراپنی شکست سر تسلیم خم کرتا ہوگا۔ کسی کو دروازے پر لگے پردے کے اس پار کسی کے آنچل کی سرسراہٹ کا انتظار ہوگا۔ بچے اس پر کشتیاں کرتے ہوں گے۔ لڑتے جھگڑتے ہوں گے۔ کبھی پانی کا گلا س کسی ٹھوکر سے گر جاتا ہوگا تو ماں سے ڈانٹ کا سوچ کر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہوگا۔
ایک پرانے سے ٹی وی کو دیکھ کر تنہایاں اور دھوپ کنارے یاد آگئے، اور اندھیرااجالا ، الف نون، ففٹی ففٹی، کے دن یاد آگئے۔جب آٹھ بجے کے بعد گلیاں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ جب شادیوں کی تاریخ رکھنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا ، اس دن کسی ڈرامے کا دن تو نہیں ہے۔ٹی وی ایک ساتھی کی طرح تھا جو ہر روز ایک نیا جذبہ لے کر آتا تھا،ایک نئی خوشی پہنچاتا تھا۔ایک جذباتی گرفت تھی ہر کسی کی زندگی کے اوپر۔۔
پرانی اخباروں کو دیکھ کر دل میں ایک آہ سی اٹھی کہ یہی وہ اخبار ہے۔ہر صبح جس کے انتظار میں نظریں گھر کے بیرون دروازے کا طواف کرتی تھیں۔ہر آہٹ پر دل دھڑکنے لگتا تھا۔کہیں آج دھند زیادہ تو نہیں، کہیں آج ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تو نہیں،۔ جب تک اخبار ہاتھوں میں پہنچ نہیں جاتا تھا، ایسے ہی کتنے اندیشے سینے میں اٹھتے رہتے تھے۔ چند منٹوں کا انتظار گویا صدیوں کا سماں لئے ہوتا تھا۔۔
ایک ٹوٹی ہوئی سائیکل کے ٹوٹے ہوئے حصے، جو کبھی کسی نے اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجی خرچ کرکے خریدی ہوئی ہوگی۔ جب وہ اس کے پیڈل پر پاؤں کا زور دیتا ہوگا تو خود کو ہوا مین اڑتا ہوا محسوس کرتا ہوگا۔اس کا ذہن تیزی سے بھاگتا ہوگا۔ وہ آسمان کو چھونا چاہتا ہوگا۔وہ ہر گلی ہر محلے ہر بستی کو ڈھونڈنا چاہتا ہوگا۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہونگی۔ لبوں پر کوئی گیت مچلتا ہوگا۔کسی کی یاد ستاتی ہوگی۔۔۔۔
پرانے برتن، مشروبات کی خالی بوتلیں، گھروں کے آرائشی سامان، پرانے قالین، دریاں، پرانے صوفے، الیکٹرانکس کا خراب سامان، ایسا ہی ان گنت سامان جب خریدا گیا ہوگا۔ تو ان کیلئے چاہت کے کتنے آلاؤ بھڑکے ہونگے، کتنے خواب دیکھے گئے ہوں گے۔ کتنے سپنے خیالوں میں ڈگمگائے ہونگے۔ کتنے منظر اپنی بے تاب روح کی تسکین کیلئے دیکھے ہونگے۔لیکن جب وقت گزرتاہے۔ان کی ضرورت ان کی طلب ان کی چاہت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جنون میں بھی وہ تڑپ باقی نہیں رہتی۔امنگوں میں بھی وہ جذباتیت موجود نہیں رہتی۔۔اور شائد اگر وہی خواب دوبارہ دیکھنے کا کہا جائے تو ان میں وہ لذت باقی نہ ہو جو پہلی بار محسوس کی تھی۔وہ دیوانگی نظر نہ آئے جو پہلی بار دکھائی دی تھی۔ایک جذبہ وہ تھا جو پہلی بار محسوس کیا تھا اور ایک جذبہ وہ ہے ، جس کا احساس آج دلایا جارہا ہے۔دونوں میں کتنا تضاد ہے ، کتنا فاصلہ ہے۔۔ 
شائد،شائد یہ حقیقت سے فرار ہےیا تسکین اپنی پیاس بجھا چکی ہوتی ہے۔ہم اپنی زندگی خوابوں کے تعاقب میں گزار دیتے ہیں۔۔جب تک یہ خواب قائم رہتے ہیں، تب تک سرشاری برقرار رہتی ہے۔جب یہ خواب حقیقتوں میں ڈھل جاتے ہیں ۔جب جذبوں کو زباں مل جاتی ہے۔ تو یہ حقیقتیں بہت جلد اپنی قدریں بھلا دیتی ہیں، اپنا وجودگنوادیتی ہیں۔ 
یا شائد ہم خودفریبی کی لذت کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم خود آگہی کے سفر کی تلخیاں برداشت نہیں کرسکتے۔ زندگی میں ہم ہزاروں خواب دیکھتے ہیں۔ جو ہماری ملکیت ہوتے ہیں اور ہم ان سے دستبرداری پرتیار نہیں ہوتے۔لیکن جب یہ خواب ہم سے چھین کر حقیقتوں میں ڈھال دیے جاتے ہیں،توجذبات کی بدمست موجوں میں وہ سکون آجاتا ہے جو دریائوں کے پہاڑی علاقوں سے نکل کر میدانی علاقوں میں بہنے میں آجاتا ہے۔۔۔۔
رات بھر کے خوابوں کو جب تعبیر ملتی ہے تو وہ فرحت بخش تسکین میں ڈھل جاتے ہیں۔لیکن ان خوابوں کا ایک شعور ہوتا ہے۔وہ شعور خودآگہی کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔جن باتوں پر آپ آج اصرار کر رہے ہوتے ہیں کل ان کی نفی میں دلائل گھڑ رہے ہوتے ہیں۔۔جن باتوں کو آج حتمی سمجھ رہے ہوتے ہیں، کل ان کے ارتقا کے بارے میں نوید سنا رہے ہوتے ہیں۔۔آج جن نظریات کے ترجمان ہیں، ہوسکتا ہے کل وہ نظریات اپنا مفہوم کھو چکے ہوں۔ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے۔اس دور کے فیصلوں، رویوں، قدروں، کو اس شعور کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ہم آج کے شعور کو لیکر ماضی کے احساسات اور اور جذبات سے لیکر آج کے سماج کی آلائشوں اور خواہشوں کو ایک ہی لڑی پر پڑونا شروع کردیتے ہیں. آج کے شعور کو حتمی سمجھتے ہوئے ماضی کے شعور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں،انکار تو کیا اس کے وجود سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔۔جو لاشعوری طور پر ایک تعصب کو جنم دیتا ہے۔وہ تعصب جو ہماری بیمارنسل کی اصل بیماری ہے۔
میم سین

Thursday, December 19, 2013

لافانی لمحے



لافانی لمحے


زندگی میں ہر شے کا مول نہیں ہوا کرتا۔کچھ چیزیں انمول ہوا کرتی ہیں۔ جیسے رشتوں کی قیمت، خلوص کا معیار، جیسے محبتوں کا ترازو ،سچائی کی پاکیزگی،جیسے وفا کی لطافت۔۔۔۔۔۔
لیکن میں یہ سب کچھ ایک ان پڑھ اور دیہاتی عورت کو کیسے سمجھاتا؟ ایک ایسی عورت جس نے اپنی آنکھ ہی خودغرض ، اناپرست ، خواہشوں اور محرومیوں کے معاشرے میں کھولی ہو۔ اسے محبت کے ان لازوال جذبوں کی داستان کیسے سمجھاتا ؟۔ کچھ چیزیں لافانی ہوتی ہیں۔جن کا حصول انسانی معراج ہوتا ہے۔کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جو سچائی کے آئینہ دارہوتے ہیں۔ایسے جذبے جو جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ایسے جذبے جن پر تہذیب فخر کرتی ہے۔ایسے جذبےجو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں۔ 
لیکن میں یہ سب باتیں کیسے سمجھا سکتا تھا ؟  میں نے دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے بوڑھی اماں سے رخصت چاہی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی اگلی صبح اناٹومی بی کا پیپر تھا۔ سبھی لڑکے اپنے پیپر کی تیاری میں مصروف تھے ۔صرف مصروف ہی نہیں بلکہ پیپر کی ٹینشن نے ان کے چہروں کی ساری خوشیاں ہی چھین لی تھیں۔ ساری مسکراہٹیں خزاں زدہ ہو گئی تھیں۔ ایک لڑکے نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حشر کے امتحان کے بعد دنیا کا سب سے مشکل امتحان یہی ہے۔
 جب مسلسل پڑھائی سے آنکھوں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے تو رات دس بجے کے لگ بھگ میں نے چائے پینے کی غرض سے کینٹین کا رخ کیا۔ ابھی ہوسٹل کے دروازے سے باہر نکلا ہوں تو  نجیف سا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑعمر کے شخص نے مجھے روک کر ایک پرچی میری طرف بڑھا دی۔اور مجھے بتایا کہ میری بیٹی جناح ہسپتال میں داخل ہے اس کا فوری طور پر بڑا آپریشن ہونا ہے لیکن خون کا بندبست نہیں ہو پارہا۔ میں نے پرچی لیکر پڑھی تو اس پر بی نیگیٹو لکھا ہواتھا۔جو کہ میرا بھی گروپ تھا۔ اس کی بیچارگی اور مفلوک الحالی دیکھ کر ایک لمحے کو میرا دل پسیجا لیکن پھر پیپر کا خوف میرے اوپر حاوی ہوگیا۔ اور میں نے ٹالنے کی غرض سے دوسرے ہوسٹل کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ کیا ۔لیکن اسی گھڑی، اخلاق اور اقدار کی موجیں فرض اور احساس کی چٹانوں کے ساتھ ٹکرائیں تو میں ایک لمحے کو آنے والے کل کی پریشانی کو بھول کر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔
جب واپس آیا ہوں تو دوستوں کے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لائیبریری چلا گیا تھا۔ جھوٹ بول کر میں نے نیکی کے اس جذبے کے بھرم کو تحفظ دینے کی کوشش کی تھی جو میری امتحان میں ناکامی کی صورت میں فرض اور تکمیلِ فرض کے فلسفے کو سوالیہ نشان بنا دیتی۔اور میں ضمیر کے بوجھ تلے زندگی کے احساس اور اورہر جذبے سے خالی ہوجاتا۔
اگلی صبح میرا پیپر، توقع کے برخلاف بہت اچھا ہوا اور اسی شادمانی کے نشے میں جناح ہسپتال کے گائنی وارڈ کا رخ کیا۔ وارڈ میں لگے بیسیوں بیڈز پر رات والے مریض کے اہل خانہ کو پہچاننا بہت مشکل تھا لیکن ایک بوڑھی اماں نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور مجھے ایک عورت کے بستر تک لے گئی، جس کے پہلو میں ایک نوزائیدہ فرشتہ آنکھیں بند کئے ساری دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔فرط مسرت سے میرے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔میں اس بچے کی روح سے بات کرسکتا تھا کیونکہ میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا،وہ زبان کی محتاج نہیں تھی۔میری روح جس سرشاری سے ہمکنار ہو رہی تھی، وہ لافانی تھی۔میرا من جو ابھی تک بے یقینی کی تاریکی میں لپٹا ہوا تھا ایک دم روشنیوں مین نہا گیا۔ میں نے انسانی جذبوں کے وارث ہونے کا ثبوت دیا تھا اور روح کی بالیدگی کی طرف پہلا قدم اٹھایاتھا،جس نے قناعت اور سنجیدگی کے جذبے اور احساس سے روشناس کروایا تھا۔
میں جونہی وارڈ سے باہر نکلا ہوں ۔بوڑھی اماں عقیدت کے موتی سنبھالے، پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اسے قبول کرنے پر اصرار کرنے لگیں۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں تو انسانی جذبوں کا امین ہوں میں ان جذبوں کا بیوپاری کیسے بن سکتا ہوں؟میں نے جاگتی آنکھوں کے ساتھ فردوسی سرور کو محسوس کیا ہے، میں اس کا سودا کیسے کر لوں؟ لیکن سادہ دل دیہاتی عورت کو ان لمحوں کے مخمور جھونکوں کی کیا خبر جو مسرتوں کے سندیسے لیکر میری زندگی میں آئے تھے۔جو میری روح کو گداز کرگئے تھے۔مجھے کیف اور وجدان سے ہمکنار کر گئے تھے۔یہ چند لمحے ہی تو تھے ۔لیکن کتنے دلفریب، کتنے لطف انگیزتھے،کتنے پاکیزہ، کتنے مخمور لمحے تھے۔ لیکن کبھی کبھی یہ چند لمحے آپ کی عطائے زندگی بن جاتے ہیں۔

میم سین

Sunday, December 15, 2013

آہوں کا دریا

ہر دن کی طرح کا یہ ایک عام سا دن ہے۔ اور میں اپنے معمول کے مطابق بستر سے نکلتا ہوں۔تیار ہوکر  کلینک کیلئے روانہ ہوتا ہوں۔ ابھی کچھ سفرطے کیا ہے کہ ایک جیپ تیزی سے مجھے اوور ٹیک کرتی ہے اور ڈرائیور کی سیٹ پر موجود شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے رکنے کا کہہ رہا ہے۔ میں ساری صورتحال کو نہ سمجھتے ہوئے بریک لگا کر گاڑی کو سڑک کی ایک طرف لے جاتا ہوں۔ جیپ میں سے بڑی سرعت کے ساتھ تین افراد نکلتے ہیں اور میری جانب بڑھتے ہیں ۔ میں ان سے بات کرنے کیلئے باہر نکلتا ہوں ۔ لیکن ایک شخص مجھے دھکا دے کر سڑک پر گرا لیتا ہے اور میرے ہاتھوں کو کھینچ کر کمر کے ساتھ لگا کر باندھ دیتا ہے ۔اور ایک سیاہ کپڑامیرے چہرے پرچڑھا کر مجھے اٹھا کر اپنی جیپ کے پچھلے حصے میں پھینکتے ہیں اور کسی نامعلوم جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔شہر میں اسے اغوا کی ایک کہانی سمجھ کراس پر مختلف تبصرے کئے جاتے ہیں۔اخبار کے کسی صفحے پر اغوا کی ایک سطری خبر بھی چھپتی ہے۔ مریض چند دن تک کلینک کا رخ کرتے ہیں اور پھر تالا لگا دیکھ کر دوسرے ہسپتالوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ گھر میں ایک کہرام مچتا ہے اور رشتے دار بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ گمشدگی کاکوئی سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چند دن بعدزندگی معمول پر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر ایک دن کسی نامعلوم شخص کی فون کال آتی ہے کہ ڈاکٹر ایجنسیوں کی تحویل میں ہے، فکر نہ کریں۔چند دن میں واپس آجائے گا۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں ۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو دیکھنے کی حسرت لئے اپنی تمناؤں کا گلا گھونٹ کر اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ بیوی خاوند کی زندگی میں ہی بیوگی کو سینے سے لگا لیتی ہے اورزندگی بھر کیلئے آنسوؤں کا کفن پہن لیتی ہے۔ بچے باپ کے دنیا میں ہوتے ہوئے بھی یتیمی کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔محرومیوں کا احساس لئے، یہ پھول زندگی بھر کیلئے بکھر جاتے ہیں۔اگر قسمت نے ساتھ دیا تو یہ بچے کسی لاغر ٹی بی زدہ شخص کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ورنہ ان کی ساری عمر کسی معجزے کے انتظار میں ،تہذیب کے دامن پر سچائی اورانصاف کے چھینٹے ڈھونڈنے میں گزر جائے گی ۔
میم۔سین

Saturday, November 30, 2013

تکمیل کی جستجو

تم بھی جاناں عجیب باتیں کرتی ہو۔بھلا تکمیل کیا ہے اور رشتوں کا آپس  میں کیا تعلق ہے؟ دو متضاد لہجوں کی دو متضاد باتیں ۔کمال کی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔تم بھی نا۔۔ بھلا انسان بھی مکمل ہوسکتا ہے ؟ وہ تو موت ہے جو اسے ختم کر سکتی ہے اور وہی اس کی تکمیل ہے۔

تم ابھی معصوم ہو۔ انجان ہو۔ تم وہ دیکھ کر سوچتے ہو جو تمہیں نظر آتا ہے۔ لیکن  انسان کا ایک چہرہ وہ ہے جو تم  دیکھتے ہو اور دوسرا وہ روحانی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں۔ عورت کا ظاہر مکمل ہے لیکن اس کی روح ادھوری ہے وہ تلاش میں ہے ،وہ تکمیل کیلئے سرگرداں ہے ۔اس کے اس ادھورے پن کو آپ جبلی بھی کہہ سکتے ہیں اور سماجی بھی۔ہمارا سماج عورت کی پیدائش پر اس کے اندر ایک زخم لگا دیتا ہے اور وہ زخم کسی ناسور کی شکل میں اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔۔ کچھ ادھوراپن فطری ہے،جو نسل در نسل اور پشت در پشت چلا آرہا ہے۔اس کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب ہوتا ہے ۔وہ کرب،جس کو مرد کبھی محسوس نہیں کرسکتا۔لیکن اس کی تکمیل کا رستہ مرد کے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔اس لئے اپنی روحانی اور نفسانی الجھنوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔عورت ایک بے جان بت کی مانند ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ذریئے اس میں جذبات بیدار کرتی ہے۔ اسے احساسات سے بھر دیتی ہے

جاناں تم بھی کمال کرتی ہو!!   تم کہتی ہو کہ عورت کا رشتہ مرد کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے وہ مرد کے ذریئے اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے تواس کی ہراساں روح کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔لیکن جاناں! جب وہ مکمل ہوگئی تو۔ بھلا  وہ مرد کا ساتھ کیوں چاہے گی ؟جب تکمیل ہوگئی تو مرد کا سہارا کیسا ؟

عورت کی گاڑی کا انجن مرد ہوتا ہے۔ وہ جب تک سانس لیتی رہتی ہے اس کوہواکی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جب دھوپ کی تپش سے پریشان  ہو جاتی ہے تو اس کو سایے کی ضرورت ہوتی ہی ۔جب تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے توایک بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ مرد اس سے باتیں کرے۔ باتیں نہیں کرسکتا ہے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔وہ تو اپنی محرومیوں کا ذکر بھی اسی سے کرنا چاہتی ہے۔وہ اپنی حساسیت اورکمزوریوں کا مداوہ بھی اسی سے چاہتی ہے۔ ۔ وہ تو اپنے پل پل کے لئے اس کی محتاج ہوتی ہے۔۔ ۔وہ موزوں الفاظ کی تلاش میں رہتی ہے جن کا حصول مرد کے قرب کا سبب بنتا ہے ۔ وہ ہمیشہ  انجانے فیصلوں کے خوف میں گرفتار رہتی ہے جو کسی بھی وقت اس کی جنت کو کسی آزمائش میں مبتلاکر سکتے ہیں

۔ تم بھی  جاناں اپنے فلسفہ کے تحفظ کیلئے کیسی کیسی تاویلیں ڈھونڈتی ہو۔تم بھی نا !!!۔ اگر عورت کی تکمیل ہوسکتی ہے تو مرد کب مکمل ہوتا ہے؟۔ کیا مرد اندھا ہے؟یا بہرہ ہے؟ جو یہ سب نہیں جانتا کی عورت اس کو اتنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ یہی نہیں سمجھتا کہ عورت احمدشاہ ابدالی کی طرح اس کی ذات میں آتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر خود کو فاتح منواتی ہے۔ وہ اپنی شخصی محرومیوں کو کو کبھی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ وہ تو حقیقتوں کی ان گہرائیوں سے بھی واقف نہیں ہوتی جو مرد کی روح کو دکھی کرتی ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے شک  کے رویے سے  احساس کمتری کا بیج بوتی ہے۔ وہ  مرد کو سہارا تو سمجھتی ہے لیکن کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتی ہے۔ وہ مرد کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مرد مکمل ہوگیا تو مرد کے پاس اس کیلئے جگہ کہاں ؟ وہ تو اپنے قطعی لہجے کے ساتھ مرد کے گرد ایک حصار بنا کر رکھتی ہے۔عورت جب مرد کو پا لیتی ہے تو وہ ا ساری کھڑکیاں بند کر دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ مرد تک آنے والے رستوں اور دروازوں کو بھی۔ وہ تو یہ بھی بھول جاتی ہے کہ  گھرکو اگر آگ لگ گئی تو اس کو بجھایا کیسے جائے گا۔
 عورت مکمل ہو بھی جائے تو  تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔وہ تو محبت کرکے بھی مرد کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ وہ کبھی مرد کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ مرد کو کمزور کرکے اپنی سرشاری کو داؤ پر نہیں لگاسکتی ہے۔اس کی تمنائیں اور خواہشیں اس کیلئے ایک امید کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ انہیں اپنا فرض سمجھتے ہوئےان سے وابستہ شخص کو کمزور نہیں کرسکتی۔وہ تو مرد کے سکوت سے بھی ھراساں ہوجاتی ہے۔کہیں کوئی خاموشی کسی طوفان میں نہ ڈھل جائے۔
یہ بھی خوب کہی تم نے جاناں۔ایک پھونک مار کر محبت جگاتی بھی ہو ۔اپنےسحر میں جکڑ بھی لیتی ہو اور پھر خود ہی اس سحر کو توڑ بھی دیتی ہو۔عورت اپنی تکمیل کی خاطر مرد کی اخلاقی اقدار اور عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔اس کی آزادی اور اپنی وارفتگی کا دعوی بھی کرتی ہے لیکن اپنے کردار اور اپنےرویوں سے ان اصولوں کی نفی بھی کرتی ہے

 بچہ  یہ نہیں جانتا  کہ وہ عدم سے سے کیسے وجود میں آیا تھا۔لیکن جس لمحے وہ اپنی پہلی سانس لیتا ہے۔ عورت ایک ہی جست میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتی ہے۔وہ فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتی ہے۔اس کی روح جس بالیدگی کومحسوس کرتی ہے وہ لافانی ہوتی ہے۔وہ جن  جذبوں کا سامنا کرتی ہے،وہ اسے  وجود کا جواز بخشتے ہیں۔وہ زندگی کی رمزوں سے آشنائی کا دعوی کر سکتی ہے۔وہ خود کو قوی اور توانا محسوس کرتی ہے۔ عدم سے وجود کا یہ سفر عورت کی تکمیل کا سفر ہے۔لیکن عورت کی یہ تکمیل مرد کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے وہ مرد کی زندگی میں کنول کھلا کر اس کی آبیاری کرنا بھول جاتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بہار کی آمد کے انتظار میں اپنی تمناؤں کا ہجوم خاک میں ملاتا رہتا ہے۔وہ زندگی بھر اخلاق، اقدار اور زندگی کی آدرشوں کے ساتھ محاذ آرا رہتا ہے۔ ہمیشہ متانت اور اطمینان کی اس لہر کے لمس سے محروم رہتا ہے جس میں محرومی یا مصلحت کے احساس کی نمی موجود نہ ہو۔
میم سین