Wednesday, April 6, 2016

بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات اوران کی حقیقت

:بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات
۔ہمارے ہاں چھ ماہ تک بچے کی ہر بیماری کی ذمہ داری ماں کے کھانے پینے پر ڈال دی جاتی ہے اور چھ ماہ کے بعد ہر بیماری کی جڑ دانت نکالنے کے عمل کو قرار دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ماں کی سگھڑمندی اور سلیقہ شعاری کا معیار بچے کے سر کی گولائی میں پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے کی رونے کی آواز نحوست ہوتی ہے اور بچے کا رونا ماں کی نااہلی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچوں کے ہراس رونے کی وجہ جو والدین ڈھونڈ نہ سکیں نظر لگنا ہوتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے سبز پخانے ٹھنڈ لگنے کی نشانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔بچوں کی تیل کے ساتھ جتنی مالش کی جائے گی ، اس کی ہڈیاں اتنی مضبوط ہونگی۔۔۔۔ ۔بچوں کو ٹھنڈ لگنے سے بچانے کیلئے اسے پانی سے جتنا دور رکھ سکیں، اتنا اچھا ہے۔۔۔۔ ۔اگر ماں کپڑے دھونے یا نہانے کے فورا بعد بچے کو دودھ پلا دے تو بچے کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کو ٹھوس غذا جتنی جلد شروع ہو سکے، شروع کر دینی چاہیئے۔۔۔ ۔ماں کے دودھ کے ساتھ بچے کو فیڈر کا استعمال لازمی شروع کروا دینا چاہییے ورنہ بچہ بڑا ہو کر دوسرے دودھ کی طرف توجہ نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ۔بچے کی دوائی اگر ماں کو کھلا دی جائے تو وہ دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے میں مٹی کھانے کا رجحان پیٹ کے کیڑوں اور کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔سر کا بڑھنا اورسوکڑہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف دم ہے۔۔۔۔ ۔بچے کی اچھی صحت چار عرق، گھٹی یا گرائپ وااٹر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔۔۔ ۔بچوں کو دوائی نقصان پہنچا سکتی ہے ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار سے کم استعمال کروانا چاہیئے۔۔۔۔۔ :حقیقت
اگر بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے تو اس اسکی ماں کے کھانے پینے سے اس کے ہاضمے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا نہ تو سائنٹفک ثبوت موجود ہے اور نہ ہی عملی زندگی میں اس کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔اس کی وجہ شائد ہماری عام زندگی میں ہر بیماری کا منبع ڈھونڈنے کی خود ساختہ عادت ہے۔ جیسے نزلہ کھانسی سے لیکر گلے کی خرابی تک اورجسم کی الرجی سے لیکر پیٹ کی خرابی تک کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈی ہوتی ہے۔ جو کبھی درست بھی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہم زیادہ ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دانت نکالنے کے عمل کی، تودانت نکالنے کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ بچہ چڑچڑا اور ضدی ہو جاتا ہے۔ اور اس ٹینشن میں ایک سے دو پخانے معمول سے زیادہ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ بچہ ہر چیز منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اس کوشش میں کوئی جراثیم اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے۔ ناصرف اپنی زندگیوں بلکہ بچوں کو فطرت کے قریب رکھیں۔۔۔ بچے کا رونا فطرت ہے اسے خوب رونے دیا کریں۔ ۔ رونے سے بچے کی ورزش ہوتی ہے اور اور اس سے بچوں کا ہاضمہ اور صحت ہمیشہ اچھی ہوتی ہے۔۔ روتے ہوئے جب بچہ اپنے سر کو بستر پر گھماتا ہے تو اس کا سر خود ہی گول ہوتا ہے اس کیلئے ریت کی تھیلیوں یا کسی گتے کے تکیے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔ بچوں کے بلا وجہ رونے کی وجوہات بیماری کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ۔ بھوک کی وجہ سے، پیمپر والی جگہ پر ریش کا ہونا، مناسب وقفے کے بغیر بار بار دودھ پلانے کی وجہ سے یا بچے کو بہت زیادہ ہاتھوں میں رکھ کر ہلانے کی وجہ سےپیٹ میں ہوا کا بھرنا، موسم کے مطابق کپڑوں کا نہ ہونا، ہر وقت بہت زیادہ لپیٹ کر رکھنا، گرمیوں میں نہانے سے دور رکھنا، ، بچے کا رونا نحوست نہیں بلکہ اس میں بچے کی صحت مندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کو مناسب رونے کے بعد دودھ دیا جائے ان کی صحت اور نیند ہمیشہ اچھی ہو گی بچوں کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک قسم کی فنگس ہوتی ہے سبز پخانے کی میڈیکلی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ بچوں کے پخانے کی ساخت اور رنگت بدلتی رہتی ہے۔ عام طور پر گھروں میں جتنی توجہ مالش پر دی جاتی ہے ۔ اس کی بجائے بچے کو کچھ دیر رو لینے دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی ورزش بچے کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے میرے تجربے کے مطابق تو ایسے بچے جن کی مالش کی گئی اور ایسے بچے جن کی نہیں کی گئی، دونوں کی صحت میں کوئی فرق نہیں دیکھا۔اور نہ ہی اس کا فائدہ میڈیکلی ثابت شدہ ہے ۔۔ میں نے تو ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جن کے گھر کھانے کو کچھ نہیں لیکن بچے کی مکھن کے ساتھ روزانہ مالش کی جاتی ہے ۔ بچے کو خواراک کی کمی ہوتی ہے اور اس کی صحت مالش کی ذریئے بنائی جارہی ہوتی ہے۔۔ اس کیلئے مکھن کا استعمال، دم کیا ہوا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔۔ آجکل فیس بک سے زیتون کے فوائد پڑھ کر اس کی مالش کرنے کا بھی کافی ٹرینڈ ہوچکا ہے بچوں کو نہلانے سے بھی ان کو ٹھنڈ نہیں لگتی تو ماں کے نہانے یا اس کے جسم کے گیلا ہونے سے بچے کو کیسے ٹھنڈ لگ سکتی ہے؟ نہلانے کے بعد ہمیشہ جسم خشک ہونے تک مناسب کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا جائے تو کبھی ٹھنڈ نہیں لگے گی ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پی رھا ہے اور اس کی صحت اچھی ہے تو اس کی ابتدائی خوراک کو چھ ماہ سے موخر کرکے ساتویں آٹھویں مہینے تک لے جائیں۔۔ ایسے بچے ناصرف تندرست رہیں گے بلکہ ایسے بچوں کی قوت مدافعت زیادہ اچھی ہوگی۔۔۔ میرے مشاہدے میں "صرف" ماں کا دودھ پینے والے بچے ہمیشہ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ بچے کو فیڈر کے استعمال سے جتنا زیادہ بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ کیونکہ بچوں میں بیماریوں کی ایک بڑی وجہ فیڈر کی مناسب صفائی نہ ہونا ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ذریئے کچھ دوائیوں کی تھوڑی سی مقدار بچے کے پیٹ میں جا سکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچے کیلئے تجویز کردہ دوائی ماں کو کھلا دی جائے مٹی کھانے کا پیٹ کے کیڑوں یا کیلشیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک عادت ہوتی ہے جو سیکھنے کے عمل کے دوران ہر چیز منہ میں ڈالنے کی وجہ سے بچے اپنا لیتے ہیں۔ چونکہ مٹی ہر جگہ میسر آتی ہے اس لئے زیادہ تر بچے اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ورنہ اگر بچے کو ریت دستیاب ہو ، کاغذ دسترس میں آئیں یا دیواروں کا چونا میسر آجائے تو وہ ان کو کھانے کی عادت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔ عام طور پر مٹی چھڑوانے کیلئے دوائیوں پر اصرار کیا جاتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ماں ضد کرے کی بچہ ننھیا ل والوں سے کم پیار کرتا ہے اس کیلئے کوئی دوائی تجویز کریں
چھٹے ماہ کے بعد عام طور بچے کی گروتھ کے ساتھ جسم اور سر کا تناسب اس طرح ہو جاتا ہے کہ دیکھنے میں سر کچھ بڑا دکھائی دیتا ہے جو لگ بھاگ سال کی عمر کو پہنچنے پر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر سوا سال کے بعد بھی فرق محسوس ہو تو توجہ دینا چاہیئے ۔ اور بچے کو کسی ماہر ڈاکٹر کو ضرور چیک کروا لینا چاہیئے۔ کیونکہ کیلشیم اور وٹامن ڈی تھری کی کمی کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے سوکڑہ غذائی قلت کی بیماری ہے۔ بچوں میں کسی بیماری کی موجودگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور عدم موجودگی میں بھی جیسے فیڈر کا دودھ بہت پتلا دینا اور دودھ سے زیادہ عرق اور دوسری چیزوں کے استعمال ۔اس لئے بچوں مین سوکڑے کی علامات نظر آئیں تو دم کئے ہوئے پانی پلانے کے ساتھ کسی ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔ دوائی کی ہمیشہ تجویز شدہ مقدار میں دیں۔ اور دوائی کی اس مقدار کو تجویز شدہ میں شامل کریں جو بچے کے پیٹ میں چلی جائے، جو دوائی بچہ نکال دے یا پلانے کے عمل میں گر جائے ، اتنی مقدار مزید دیں بچوں کو غیر ضروری خاندانی ٹوٹکوں سے بچائیں،روایتی اور غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں میم سین

Tuesday, March 29, 2016

سیکولر امیج کی ضرورت


چلو ایک لمحے کیلئے، میں مان لیتا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مذہب اور مذہبی تشخص ہے اور اس کا حل سیکولر پاکستان ہے۔چلو میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ ہمار ی آج تک کی ساری پستی اور گرانی کی ذمہ داری مدرسوں کے سر ہے۔ چلیں ایک بار اس مذہبی فیکٹر کو نکال کر بات کرتے ہیں۔
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا? جب کہ انصاف کے حصول کیلئے دوھرے معیار قائم رہیں گے؟ 
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب کہ ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی تفریق پر مبنی ہوگا؟
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک مساوات کا نعرہ سڑکوں پر وی آئی پی کلچر کے ٹائروں کے نیچے روندا جاتا رہے گا
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ اگر لاہور اور پشاور کے شہریوں میں فرق کیا جاتا رہے گا
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک ترقی کے معیار پل اور سڑکوں کی بجائے تعلیم اور صحت نہیں ہوجائیں گے
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک ہم تھانے کچہری کے غلام رکھے جائیں گے۔
کیا مذہب کو نکال کر جنوبی پنجاب کی محرومیاں کم ہوجائیں گی؟ 
کیا اندرون سندھ کی عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا جا سکے گا؟ 
کیا آب گم کے لوگوں کو ٹرین کے ڈبوں سے پانی چوری کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی؟ 
کیا تھر کے لوگوں اور جانوروں کے لیئے پینے کے پانی کے الگ الگ  تالاب میسر آجائیں گے؟ 
کیا ملوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کو اعلان شدہ حقوق میسر آجائیں گے؟
کیا زمیندار مزارعوں کو ان کی محنت، وقت پر ادا کرنا شروع کر دیں گے؟ 
اگر مذہبی تشخص ختم کرنے سے یہ سب کچھ نہیں ہونے والا تو پھرمان لیں کہ مسائل کے پیچھے عوامل وہ نہیں ہیں جن کی نشاندہی کی جارہی ہے
میم سین

بے حسی


بات کچھ تلخ ہے۔لیکن حقیقت یہی ہے
....اس دن اگر بنگلہ دیش سے فتح کا جشن منانے کی بجائے پشاور میں سترہ افراد کی ہلاکت کا سوگ منایا ہوتا تو شائد لاہور کا سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا
جن دنوں میں پشاور اور کوئٹہ کے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل کر افغان پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔  لاہور اور کراچی کی عوام نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہوتا تو شائد گلشن اقبال لہو میں رنگا نہ جاتا
جس دن پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا اس دن پوری قوم نے مل کر یوم سیاہ منایا ہوتا تو اقبال ٹاؤن کا پارک شہ سرخیوں کا مرکز نہ بنتا
بات بے حسی کی ہے۔اجتماعی بے حسی کی ۔ آج حقائق سے نظریں چرائیں گے تو کل سانحے میرے گھر کا رستہ ڈھونڈ نکالیں تو اس میں تعجب کیسا ؟ اس پہ افسوس کیوں
آج گوادر میں سولہ ارب ڈالر کی لاگت سے ہسپتال بن گیا ہے۔لیکن کیا وہاں آج سے پہلے کوئی مخلوق آباد نہیں تھی؟ 
بلوچستان کی کئی تحصلیں آج بھی ایسی ہیں جن سے رابطہ رکھنے کیلئے کوئی سڑک موجود نہیں ہے۔
ملتان سے آگے سفر کریں تو لگتا ہے پنجاب کا علاقہ ختم ہوگیا ہے۔
پشاور سے باہر نکل  جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے نادر شاہ چند ماہ پہلے گزر کر گیا ہے۔
جہاں سے قبائلی علاقوں کی حدود شروع ہوتی ہے۔ وہاں سڑکیں اپنا وجود روک لیتی ہیں۔ بجلی کے کھمبے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ سکول کالج تو دورکی بات ان کو کبھی کسی نے صاف پانی بھی نہیں پوچھا۔
جو قوم ترقی کا معیار صحت اور تعلیم کی بجائے میٹرو اور اونچی عمارتوں کو سمجھنا شروع کر دے۔ ۔تہذیب کا معیار فاسٹ فوڈ کھانے اور شاپنگ مال پر خریداری کو سمجھنے لگے ۔۔جہاں انصاف اور مساوات کے قتل سے زیادہ کرکٹ ہارنے کا غم منایا جاتا ہو
 تو اس قوم کے اندر دہشت گردوں کا داخل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا
میم سین

Monday, March 28, 2016

محسن انسانیت


ہم سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوی دار ہیں۔لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ شائد اتنا ہی جتنا مسجد کے مولوی سے سن لیا یا شائد جتنا ہمیں ہماری درسی کتابوں میں پڑھا دیا گیا۔ محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی ہو۔ ان کی تعلیمات کے بارے میں ہم صحیح طور پر جان سکیں۔ اس لئے سیرت کی کتابوں کا مطالعہ ہماری بنیادی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔ لیکن چند دن پہلے ایک ایسی کتاب کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا ہے۔جس کو پڑھنے کے بعد ایک خلش محسوس ہوئی کہ اس کا مطالعہ مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیئے تھا۔ ایسی نادر کتاب کہ جس کا اسلوب روایتی کتابوں سے بالکل مختلف ہے۔ابتدا سے ہی ہمیں ایک بہت مختلف شخصیت کا تعارف ھاصل ہوتا ہے۔وہ شخص جس سے ہمیں محبت کا دعوی ہے اس کی وضع قطع کیسی تھی۔۔۔ اس کا چال چلن، تکلم دوسروں سے منفرد کیوں تھا۔۔۔معاملات کیسے تھے۔۔ سماج کے ساتھ رویہ کیسا تھا۔۔۔جذبات کے اظہار میں کیوں کر مختلف تھے۔۔۔ان کی معاشرت جداگانہ حیثیت کیوں اختیار کر گئی۔۔۔۔ ۔۔ہمارے لئے بہترین نمونہ قرار دیئے جانے کے پیچھے کون سا انداز زندگی تھا۔۔۔۔کونسے مسائل کا سامنا تھا اور کس طرح آزمائشوں سے گزرے۔۔۔۔کس طرح دین کو متعارف کروایا اور کس طرح مسائل سے گزرتے ہوئے اسے غالب کرکے دکھایا۔۔۔بعثت کے مقاصد کو جس طرح اجاگر کیا ہے اور جس طرح بہت سی غلط فہمیوں کو سادہ انداز اور جملوں سے رفع کیا ہے وہ اس کتاب کا خاصہ ہے..۔ایک بہت بے ساختہ انداز میں لکھی کتاب جو قاری کو پہلے صفحے سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔۔اور جس کا سحر آخری لفظ تک قائم رہتا ہے۔ ایک بہترین کتاب جس کا مطالعہ ہر شخص کیلئے ناگزیر ہے۔۔۔اس کتاب سے متعارف کروانے پر ابو محمد مصعب بھائی کو اللہ جزا دے۔ان کیلئے بہت سی دعائیں۔۔ 
نعیم صدیقی صاحب کی لکھی محسن انسانیت ۔۔پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کو نیچے دیئے گئے لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں
https://drive.google.com/open?id=0BzAeJGIfHBo8LUZKaDFna0pLVm8م

سپاہی سے صوبیدار تک ۔۔ایک تبصرہ


ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے اور کسی بھی دور کی تاریخ کو سمجھنے کیلئے اس شعور کو سمجھنا ضروری ہوتاہے۔وہ شعور اس دور کی ثقافت ۔سیاست، رہن سہن، تمدن، رسم ورواج کے زیر اثر جنم لیتا ہے۔اور کسی بھی دور کی تاریخ کو سمجھنے کیلئے اس دور کے شعور کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور ہماری تاریخ کا یہ المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غلط دور کے شعور کے ساتھ لکھی گئی ہے، جہاں تاریخ دان اپنے عہد کے شعور سے ماضی کے شعور کو جانچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور تاریخ لسانی، مذہبی اور سیاسی فرقوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔۔
تمہید لمبی ہوگی۔ لیکن کتابوں پر تعارف کے سلسلے میں ایک اور کتاب پیش خدمت ہے
From Sepoy To Subedar
ایک اونچی ذات کے ہندو سیتا رام کی سوانح حیات ہے جس میں 1812 میں فوج میں شمولیت سے لیکر 1860 میں اس کی ریٹائرمنٹ تک کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ایک بہت دلچسپ انداز میں لکھی گئی کتاب انیسویں صدی کے ہندوستان کے عام لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر گہری روشنی ڈالتی ہے۔ بدلتے سیاسی ماحول اور سیاسی ڈھانچوں کو ایک عام شہری کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔۔ایک فوجی ہونے کے ناطےکمپنی اوربعد میں برطانوی فوج کے نظم ونسق کے فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سکھوں کے عہد کو بھی بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اور افغانستان پر پہلی برطانوی فوج کشی کے واقعات بھی بہت حقیقت پسندانہ انداز میں لکھے گئے ہیں ۔ اسی طرح غدر کے پس منظر پر بھی اپنی رائے دی ہے۔ اور بغاوت کے الزام میں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے کے حکم اور پنشن کے سلسلے میں مشکلات کو جس افسانوی اسلوب میں بیان کیا ہے اس سے مصنف کیلئے بہت ہمدردی ابھر آتی ہے ۔۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے پڑھنے کیلئے اس کتا ب کو درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں 
https://drive.google.com/file/d/0BzAeJGIfHBo8N2JDcGZFQVhNZDg/view?usp=docslist_api

کتابوں پر تبصرہ



رضا علی عابدی صاحب کا نام صحافت اور براڈکاسٹنگ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے یقیناًاجنبی نہیں ہوگا۔بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک طویل عرصہ تک بی بی سی کی اردو نشریات سے وابستہ رہے ہیں
کتابیں اپنے آباء کی.... بھی ان کی ایک منفرد اور دلچسپ تصنیف ہے جس میں برصغیر میں کتابوں کی باقائدہ اشاعت کے آغاز سے لیکر انسیویں صدی کے اختتام تک سو منتخب کتابوں پر ناصرف تبصرے لکھے ہیں بلکہ کتابوں سے اقتباس بھی شامل کئے ہیں۔
انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمانے کے دوران اور برصغیر میں بکھری طوائف الملوکی کے دنوں میں ہندوستانی ثقافت کون سی قلابازیاں کھا رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اردو زبان اپنی شیرخوارگی کی عمر کے بعد کس طرح بلوغت کی طرف گامزن تھی۔ ۔۔۔۔۔۔لوگوں کے رجحان کیا تھے ۔۔۔۔۔۔ کون سا فنون لطیفہ کس کروٹ بیٹھ رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ادب کا معیار کیا تھا۔۔۔۔۔ کون سے موضوعات میں لوگ دلچسپی رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ عنوان کیسے بدلے رہے تھے اور بات کہنے کے انداز میں کیا تبدلیاں آرہی تھیں۔۔۔۔۔۔اور اخلاقی قدروں نے کون سے لبادے تبدیل کئے۔۔۔۔ یہ چند کتابوں پر لکھا گیا تبصرہ ہی نہیں بلکہ پوری ایک صدی کی تاریخ ہے
انیسویں صدی کے ہندستان کے ذہن، سوچ اور مزاج کو سمجھنے کیلئے ایک بہترین کتاب ہے۔۔۔۔
باوجود کوشش کے اس کتاب کا کوئی آن لائن ایڈیشن یا پی ڈی ایف فارمیٹ نہیں مل سکا۔اس لئے اگر ایسی دلچسپ کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں تو سنگ میل پبلیکیشنز سے 2012 میں شائع شدہ ہے۔ آساانی سے مارکیٹ سے مل جائے گی

Sunday, March 20, 2016

دعا


چند دن پہلے کی بات ہے۔ رات کو گھر اچانک مہمان آگئے۔ کھانا تو گھر پر بنا لیا گیا لیکن روٹیوں کے بارے میں طے ہوا کہ کسی ہوٹل سے پکڑ لیتے ہیں۔ گھر سے نکلا ہوٹل ڈھونڈتے ڈھونڈتے بسوں کے اڈے جا پہنچا۔ جہاں ایک ہوٹل کھلا ہوا تھا ۔ انتطارکےکچھ لمحے گزارنے کیلئے اندر جا کر بیٹھ گیا۔۔ سامنے دیوار پر کھانا کھانے سے پہلے کی دعا لکھی ہوئی تھی ۔۔ جسے پڑھ کر دیر تک مسکراتا رھا۔۔ ۔۔۔
بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِيْ الأَرْضِ وَلَا فِيْ السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيْعُ العَلِيْمُ،
یہ وہ دعا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ جوشخص یہ دعا صبح شام تین بارپڑھ لے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی 
ہوٹل کے مالک نے گاہکوں کو اپنے کھانوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کےلئے جو انوکھی ترکیب ڈھونڈی، اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا
میم سین