Friday, July 21, 2017

غیبی امداد


اسے میں جب بھی دیکھتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ رستہ بدل لوں ۔بات یہ نہیں ہے کہ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے یا میرے اس سے کوئی اختلاف چل رہے ہیں۔   وہ  جب بھی مل جائے تو اس کے پاس سنانے کو اپنی بہت سی مجبوریاں  موجود ہوتی ہیں۔ بجلی کا بل بہت زیادہ آگیا ہے۔  بچوں کی فیس ادا کرنا ہے ۔ گھر کا پنکھا خراب ہوگیا ہے،ٹھیک کروانا ہے ۔ ساس بیمار ہے اور تیمارداری کیلئے جانے کیلئے کرایہ نہیں ہے ۔۔ جتنے بہانے اس کے پاس اپنی  مجبوریاں ثابت کرنےکیلئے ہوتے ہیں، اتنے ہی کام نہ کرنے کے بھی اس کے پاس موجود ہیں ۔الرجی کا مسئلہ ہے ۔معدہ کام نہیں کرتا ۔جگر خون نہیں بناتا۔پٹھے کمزور ہیں  ...اس لیئے جونہی اس پر نظر پڑے میری کوشش ہوتی ہے کہ راستہ بدل لوں
یہ پچھلے سال ستائیس اگست کی بات جس دن بارش نے سارا شہر ڈبو دیا ۔ ایک جگہ کھڑے پانی سے گزرتے ہوئے  گاڑی بند ہوگئی ۔سخت پریشانی میں  کھڑا تھا کہ وہ شخص سامنے آگیا اور کچھ بندوںکی مدد سے گاڑی کو دھکا لگوا کر  گاڑی سٹارٹ کروا دی..۔۔۔مجھے اس کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرنا پڑی اور چند ماہ تک اسکی ضروریات پوری کرتا رھا...لیکن پھر روز روز  کے مطالبوں سے  تنگ آکر مشکل سے جان چھڑائی۔۔
چند ماہ بعد  گٹر کے ڈھکن  کے اوپر سے گزرتے ہوئے  ڈھکن ٹوٹنے کی وجہ سے گاڑی کا ٹائر  پھنس گیا لیکن یہ بندہ پھر کہیں سے نکل آیا اور دو تین بچوں کی مدد سے گاڑی نکلوائی...جس کے بعد مجھے اس کی ماں کے ختم.میں بھی حصہ ڈالنا پڑا اوراس کے بعد اس کی فیملی کو ماسی کے جنازے پر جانے کیلئے کرایہ بھی دینا پڑا..اور والد کی قبر کی مرمت کیلئے پیسے  الگ سے دینا پڑے۔لیکن روز روز کے مطالبوں سے تنگ آکراس سے جان چھڑانے پر مجبور ہوگیا 

اور اب پرسوںکی بات ہے جب شدید بارش میں گاڑی سڑک کے درمیان بند ہوگئی ..اور وہ بندہ پتا نہیں کہاں سے مدد کیلئے آن پہنچا..اور آج گھر  کا بوسیدہ دروازہ تبدیل کروانے کیلئے پیسے لیکر گیا ہے اور ساتھ ہی گھر کی بیرونی دیوار کی کمزوری کی نوید بھی سنا گیا ہے 
یاد رہے یہ سارے واقعات الگ الگ مقامات پر پیش آئے
اور میں ابھی بیٹھا سوچ رھا ہوں کہ یہ بندہ میری غیبی مدد ہے یا ۔۔۔۔۔

Tuesday, May 30, 2017

یادش بخیر


 امام صاحب نے نماز کے بعد مقتدیوں کے ہاتھ دعا کیلئے بلند کروائے تو میرے سامنے بیٹھے صاحب نے جیب سے فون نکال کر ایک ہاتھ کان کو لگا لیا اور دوسرا ہاتھ دعا کیلئے  بلند کر دیا۔مسجد و بازار کے درمیان تفریق کے فلسفے میں الجھے بغیر ایک طرف وہ کسی شخص کو مسلسل ٹالنے کیلئے بہانے بنا رھا تھا تو دوسری طرف مقتدیوں کی آمین کا ساتھ نبھا رھا تھا۔

یادش بخیر! وہ اگلا وقت جب ہمار ابھی بچپنا تھا لیکن ہمارے دادا جی اپنے بڑھاپے کا دور گزار رہے تھے۔جب دادا جی کی باتیں یاد کرنے کی کوشش کی تو ذہن پر تالا سا پر گیا جسے یاداشت کی کنجیوں سے کھولنے کی کوشش شروع کی تو ایک مختصر سا کیلنڈر بن گیا
دادا جی کا کرکٹ سے لگاؤ جنون کی حد تک تھا ۔پاکستانیت کے ساتھ کرکٹ  کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ جس دن پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا تھا اس دن گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ پاکستان کی ٹیم ویسٹ اینڈیز کے دورے پر گئی ہوئی تھی تو ساری رات کمنٹری سن کرفجرکی نماز پڑھ کر سو جاتے۔کمنٹری سننا بھی ایک نشے سے کم فعل نہیں لیکن یہ فعل اعلان صحت ہے جو شب بیداری اور سحر خیزی میں مدد دیتا ہے ۔۔ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہوتی تو تہجد سے بھی پہلے ان کے کمرے سے کمنٹری کی آواز سنائی دے رہی ہوتی تھی۔اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ تہجد کے وقت کمنٹری سننے میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں تو اس کا جواب آسان سا ہے کہ تہجد چھوڑنے میں اگر کوئی قباحت نہیں تو اعتراض کمنٹری پر کیسا۔آسٹریلیا یا ویسٹ انڈیز میں کرکٹ سیریز کا دکھ ان چوروں سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہوسکتا جو ساری رات کمنٹری نشر کرنے والوں کو کوستے رہتے ہیں۔۔ اچھے وقت تھے گرمیوں میں رات کو چھتوں پر سویا کرتے تھے۔ مٹی کی چھت ہو اور زرا سی ہوا چلےتو گرمی کا سارا احساس جاتا رہتا ہے۔کچھ ایسے ہی گرمی کے دن تھے جب ایک رات ہمسائی نے شور مچا دیا کہ فوجی کے گھر چور دیکھا ہے۔ گھر سے گھر جڑا تھا ۔اس کا شور مچانا تھا کہ چند ہی منٹوں بعد گھر کا دروازہ بجنا شروع ہوگیا۔ کنڈی کھولی گئی ۔ سارا محلہ ڈنڈے ، ہاکیاں اور کرکٹ کے بیٹ تھامے ہمارے گھر داخل ہونا شروع ہوگیا۔ دو نوجوان پندرہ فٹ کا بانس لیکر گھر میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے ۔شائد ان کا ارادہ چور کو باندھ کر لے جانے کا تھا۔مشیت ایزدی تھی کہ چور کو ملنا تھا اور نہ ملا اور سب لوگ اس عورت کی تلاش میں لگ گئے جس نے آدھی رات کو محلے کی غیرت اور دلیری کو للکاڑا تھا 
ہاں تو بات ہو رہی تھی دادا جی کی کرکٹ سے محبت کی۔ جس طرح پرانے زمانے کے شہزادوں کی جان اور آن طوطوں میں بند ہوتی تھی ،کبھی کبھی گمان ہوتا تھا داداجی کی جان پاکستان کی کرکٹ میں بند ہے ۔جس کی حفاظت پر کھلاڑی مامور تھے ۔ریڈیو کی کمنٹری سے ایمپائرز کی جانب داری ڈھونڈ نکالتے تھے۔ ۔ اس قدر متعصب پاکستانی تھے کہ کسی کھلاڑی کی کارکردگی پر تنقید  غداری سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستانی بیٹسمین کے آؤٹ ہونے میں ایمپائرز کی ساز باز پر یقین رکھتے تھے۔اگرچہ ہمیں بچپن میں  سانپ سیڑھی اور لڈو جیسے ذہنی استعداد بڑھانے والی کھیلوں میں دلچسپی زیادہ تھی۔لیکن پھر بھی  کرکٹ  میں ان کا خوب ساتھ نبھایا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان آسٹریلیا کے دورے پر تھا ۔ ایک ون ڈے میچ کا اختتام دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ۔ لیکن ادھر مغرب کی اذان ہوگئی۔ آخری اوور کا کھیل تھا اور بے یقینی کی کیفیت ۔ایک طرف اللہ کا بلاوہ اور دوسری طرف طوطے کی جان ۔مغرب کی نماز تھی، زیادہ التوا میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا ۔ ریڈیو کی آوا ز کو تھوڑا سا ہلکا کیا اور اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت کر لی۔ 
دادا جی جہاں دیدہ شخص تھے، مزاج شناس لیکن مردم شناس نہیں ہر خاص وعام پر بھروسہ کر لیتے تھے۔رہن سہن میں ایک سادگی تھی اپنے کان اور قول کے پکے لیکن دھن کے نہیں اس لیئے زندگی میں اپنے لیئے کوئی جائیداد نہ بنا سکے تھے۔لیکن  اپنی متانت اور اپنی شرافت کے سہارے زندگی کا بھرم قائم رکھا 



کسی زمانے میں حقے کے بلا کے شوقین تھے لیکن پھر کسی دن احساس ہوا  کہ تمباکو ایسا کڑوہ اور بدذائقہ ملغوبہ  ہے جس سے بہت زیادہ دوری یا نزدیکی اہمیت نہیں رکھتی اس لیئے سگریٹ پر شفٹ ہوگئے ۔لیکن حقے سے دوری نے ان کو بہت سے دوستوں سے بھی دور کر دیا۔لیکن دوستیاں نبھانے کیلئے اپنے فیصلے سے ر جوع کرنے سے ساری عمر انکاری رہے۔لوگ سگریٹ نوشی سے اپنے غم غلط کرتے ہیں لیکن اباجی کے غم اتنے ضدی ہیں کہ روازانہ پندرہ بیس سگریٹ پینے کے باوجود ختم نہیں ہورہے ۔ اب پتا نہیں کون سے ابدی غم تھے جو ابا جی کو بچپن سے لاحق ہوگئے تھے اوربڑھاپے میں بھی کش پر کش لگاتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ سننے میں آیا ہے کہ سگریٹ پی کر کچھ لوگ بہت سنجیدہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم نے ابا جی کو کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا۔ ۔ ایک دفعہ دادا جی سے کہاکہ جب ابا جی کی سگریٹ نوشی کا علم ہوا تھا تو  ان کو سمجھانا چاہیئے تھا۔ بڑے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے۔ سمجھایا تو بہت تھا کہ بیٹا  سگریٹ حقے کی چلم والی جگہ پر لگا کر پیا کرو لیکن یہ کہاں مانتا تھا ۔
ہم نے اپنی آنکھ نوائے وقت کے ساتھ کھولی۔بلکہ نوائے وقت نے ہی ہمیں گھٹی دی تھی اس لیئے  غیر مشروط پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی ہونا ہمارے خون میں شامل ہوگیا تھا ۔ جونہی ہاکر اخبار پھینک کر جاتا تو ہماری کوشش ہوتی کہ اخبار دادا جی کے ہاتھ نہ لگ جائے کیوں کہ ان کا اخبار کا مطالعہ صرف ہیڈ لائینز تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ بقیہ نمبر نکال کر خبر کی تہہ تک پہنچتے تھے۔ نو بجے ناشتہ کرنے کے بعد مزید خبروں کی تلاش میں نکل جاتے۔ رات کو عظیم سرور کا سپورٹس راؤنڈز اپ سن کر ہم ان کے پاس سے اٹھ آتے اور وہ ریڈیو کی سوئی گھما کر بی بی سی پر منتقل ہوجاتے۔
اگر متعصب پاکستانی تھے تو بنیاد پرست پیپیلئے بھی۔ یعنی پیپلز پارٹی کے بھرپور جیالے ۔  ضیا دور میں نوائے وقت کا مسلسل مطالعہ بھی انہیں بھٹو کے خلاف نہیں کر سکا۔ انیس سو اٹھاسی کے الیکشن  کے بعد ہمارا گھر واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ایک جو نوائے وقت کے زیر اثر پیپلزپارٹی کے خلاف تھا اور دوسرے ہمارے دادا جی۔اب ہم ٹھہرے سرسری نظر سے اخبار کو نظروں سے گزارنے والے اور وہ جنگ پاکستان نوائے وقت مشرق کا ست بنا نے والے ۔اب یہ کہنا آسان نہیں کہ بحث کن دل آزار مرحلوں سے گزرتی تھی لیکن اخباروں کے دقیق مطالعے اور اپنے بزرگی کے سہارے اپنے سیاسی نظریے کا جواز ڈھونڈ نکالتے تھے اور ہم اپنی کم فہمی اور ان کے کی بزرگی کی تاب نہ لاتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرلینے پر مجبور ہوجاتے ۔الیکشن کا رزلٹ جو بھی نکلے لیکن اپنے  مطالعے اور عالمی سیاست پر بھرپور نظر رکھنے کی وجہ سے ہمارے گھر کے جمہوری نظام میں پلڑا  انہی کا بھاری ہوتا تھا
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب کہیں جسے 
جب لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ان کے اچھے پہلوئوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دادا جی کی زندگی میں بھی ان کا کوئی منفی پہلو نہیں ملتا تھا۔اپنی زندگی ہنستے مسکراتے گزار گئے کوئی بھی ایسا نہ ملا جو انہیں اچھا نہ کہے
آسمان اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Thursday, May 18, 2017

یاداشتیں


بات کچھ یوں ہے کہ جب ہم نے اپنا کلینک کھول کر مریضوں پر تجربات شروع کیئے تو ٹھیک ہونے والے مریضوں میں بچوں کی شرح کچھ زیادہ ہوگئی جس بنا پر بچوں والے کلینک کے نام سے شہرت پائی۔۔ باوجود ہمارے اس دعوی کے، ہم بلڈ پریشر اور شوگر کے بارے میں بھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ، لیکن بوجوہ جو ہمارے علم میں نہیں, اس دعوے کو عوام نے زیادہ پزیرائی نہیں بخشی اور تاحال بچوں کے ڈاکٹر سے ہی جانے جاتےہیں ۔ لیکن میرا ذاتی ماننا ہے کہ ہمارے ہاں عوام بیمار ہونے کے فنی آداب سے ناواقف ہیں ۔ اور ان کی ڈاکٹرز کے بارے میں خوش اعتقادی بھی کوئی بہت زیادہ پرستائش نہیں ہے۔ ہمارا بیمار مختلف گروہوں میں بٹ چکا ہے ایک وہ ہے جو علاج بالغزا پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا پرہیز پر اور تیسرا گروہ بھی ہےجو صرف ڈاکٹر سے مشورے کو ہی علاج سمجھتا ہے۔ اور نسخہ کا مقصد دلجوئی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اور میڈیکل سٹور تک جانا کیپیٹلزم کے فروغ سے زیادہ کچھ نہیں ۔علاوہ ازیں دماغی صحت بھی کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔ جو طب یونانی اور طب جدید کے درمیان منتشر رہتی ہے ۔۔ اور بچے ان لوازمات سے ابھی مبرا ہوتے ہیں۔ وہ ابھی کڑوی دوا اور مصفی خون کے فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں اور دوسرا دوا کے پمفلٹ نکال کر سائیڈ ایفیکٹس پڑھے بغیر نوش جاتے ہیں ۔ شائد اس لیئے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں 
کل شام ایک خاتون نے ایک دوائی کے بارے میں مشورے کیلئے انباکس رابطہ کیا میرے جواب کے بعد ان کا میسج آیا کہ آپ کے کلینک کے تجربات دلچسپ ہوتے ہیں ۔ شیئر کرتے رہا کریں۔ ذہن فورا بچوں کی طرف نکل گیا جن سے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ڈائیریا اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے واسطہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے
چند دن پہلے ایک خاتون گول مٹول سے چھ ماہ کے بچے کو چیک اپ کروانے کیلئے لائیں ۔ جونہی میں نے اس کے پیٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اس نے قہقہہ لگایا۔ جس سن کے میں مسکرائے بنا نہیں رہ سکا۔ دوبارہ ہاتھ لگایا تو اس نے بے ساختہ ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر تو اس نے تماشہ ہی سمجھ لیا جونہی ہاتھ لگاتا ایک قہقہہ لگا دیتا۔ بس بچے کی اس بے ساختہ ہنسی نے دل میں پیار امڈ دیا اور اس کی ماں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا۔ لیکن اس وقت تک مسلسل قہقہوں کی وجہ سے اس کا مثانہ کمزور ہوچکا تھا۔
اس دن ڈیڑھ سال کے بچے کو چیک اپ کیلئے جب ہاتھ لگایا تو اسے میری دست درازی کچھ پسند نہ آئی اور اپنے ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو دھکیلنا شروع کر دیا ۔جس پر اس کی ماں نے اسکے بازووں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بچہ بھی اکسویں صدی کی پیداوار تھا۔ جس کی آنکھ ٹی وی اور موبائل سکرین کے سامنے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کشتیاں دیکھتے ہوئے کھلی تھی۔ ماں کے یوں جکڑنے نے اس مشتعل کر دیا ۔اور اپنا سارا اشتعال میرے ہاتھ کی انگلی کو دانتوں میں دپوچ کر نکالا اور اس تکلیف کو سہنے کی اپنی ساری کوشش کے باوجود کرسی سے اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوگیا
ابھی تو مجھے دوسال کا وہ بچہ بھی نہیں بھولا تھا کہ جس کو ایک دن پہلے انجیکشن لگایا گیا تھا ۔ اگلے دن میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی میرے اوپر گھونسوں اور پاؤں کی ککس کے ساتھ حملہ آوور ہوگیا تھا۔ اورمیں سپورٹس مین سپرٹ کے تحت اس وقت تک اس کے سارے حملوں کو برداشت کرتا رھا جب تک اس کی ماں نے بڑھ کر مداخلت نہیں کر دی 
اورابھی کل کی ہی تو بات ہے جب ڈاکٹر فوبیا کا شکار ایک ڈیڑھ سال کے بچے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی گلا پھاڑ کر وہ دھائی مچائی کہ اس کا چیک اپ مشکل ہوگیا۔ لیکن چند لمحوں بعد اس چیختے چلاتے بچے نے یکدم ناصرف خاموشی اختیار کر لی بلکہ اس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ امڈ آئی ۔ میں ابھی بے یقینی میں اس کی اس اچانک تبدیلی پر غور ہی کر رھا تھا کہ اس نے جھپٹ کر میری جیب سے موبائل نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کی ماں نے اس سے چھیننے کی کوشش کی تو موبائل اس دھینگا مشتی میں فرش پر جا پڑا ۔اور میں نے چشم زدن میں اس کو اٹھا کر شکر ادا کیا کہ اس ساری ناگہانی صورتحال میں محفوظ رھا تھا۔ شام کو اپنے ایک دوست ابوزر کاٹھیہ صاحب سے اس واقعے کے حوالے سے بچوں کی موبائل میں بڑھتی دلچسپی اور اس کے اثرات پر بات شروع کی تو کاٹھیہ صاحب کہنے لگے لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے بڑی داڑھی کے پیچھے چھپی جیب کو، اس نے ڈھونڈا کیسے؟
میم سین

Saturday, April 22, 2017

کچھ خسرہ کے بارے میں


خسرہ کیا ہے؟

خسرہ  کے مرض کی وجہ ایک وائرس ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں آج بھی خسرہ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی اموات کا  بڑا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔تین سال پہلے، خسرہ کی وبا نے سندھ اور پنجاب میں لاکھوں بچوں کو متاثر کیا ۔اور بہت بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت اور دوسرے مسائل کا سبب بنا ۔ جس کے بعد ویکسین کے شیڈول کو بھی تبدیل کردیا گیا۔خسرہ سے عام طور پر بچے متاثر ہوتے ہیں لیکن کسی بھی عمر کا فرد اس سے متاثر ہوہوسکتا ہے
خسرہ کیسے مریض تک پہنچتا ہے
خسرہ  ، متاثرہ مریض کے ناک اور منہ کی رطوبتوں کے ذریئے صحت مندمریض تک منتقل ہوتا ہے ۔خسرہ سے متاثرہ شخص جب کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو اس سے نکلنے والے رطوبتیں یا تو صحت مند  مریض اپنی سانس کے ساتھ اپنے اندر لے جاتا ہے یا پھر وہ رطوبتیں ارد گرد کی چیزوں پر گر جاتی ہیں جہاں سے مریض کے ہاتھوں پر  اور وہاں سے جسم کے اندر منتقل ہوجاتی ہیں
علامات
بچہ کو کھانسی اور چھینکیں شروع ہوجاتی ہیں جس کے بعد بخارکا شروع ہوجاتاہے۔بچہ جسم میں بہت زیادہ درد محسوس کرتا ہے ۔ آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، جن سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔۔ اس کے بعد کان کے ارد گرد اورچہرے پر بہت  باریک سرخ دانے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور گردن سے ہوتے ہوئے سینے پیٹ پر اور ساتھ ساتھ بازوؤں سے ہوتے ہوئے ٹانگوں تک پھیل جاتے ہیں ۔ اور وقت کے  ساتھ، اسی ترتیب سے ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ بچے کا گلا بھی خراب ہوجاتا ہے اور کھانے پینے میں دقت محسوس کرتا ہے ۔ نڈھال ہو جاتا ہے اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔کھانا پینا کم ہوجاتا ہے۔جسم پر دانے نمودار ہونے کے بعد ان کو کو ختم ہونے میں لگ بھگ ایک ہفتہ لگ جاتا ہے
علاج
چونکہ وائرل انفیکشن ہے اور اس کاکوئی باقائدہ علاج موجود نہیں ہے۔ اپنی مدت پوری کرکے  بیماری  ختم ہوجاتی ہے۔
بچے کو دوسرے بچوں سے الگ کردیں ۔ سکول مت بھیجیں تاکہ دوسرے بچے محفوظ رہ سکیں 
بچے کے آرام کا بہت زیادہ خیال کریں 
بخار کیلئے پیراسیٹامول استعمال کروائیں 
بہت سا پانی اور جوسزز وغیرہ پینے کو دیں
بچہ جو بھی پینا چاہے یا کھانا چاہے اسے منع مت کریں
کھانسی کو کم کرنے کیلئے گرم پانی کی بھاپ یا نیبولائز کیا جا سکتا ہے۔
خسرہ سے متاثرہ بچوں میں وٹامن اے کا استعمال کروایا جاسکتا ہے ۔ اس کے استعمال سے خسرہ کی وجہ سے درپیش مسائل سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر سے فوری رابطہ کرنا چاہیئے اگر
بچہ قوت مدافعت کی کمی یا کسی پیدائشی بیماری کا شکار ہے
بخار کنٹرول نہ ہورھا ہو
بچہ سانس میں دقت محسوس کر رھا ہے
ہوش وہواس میں کسی قسم کی تبدیلی محسوس کریں
بار بار پخانے کرنا شروع کردے
حاملہ ماں خسرہ کا شکار ہوجائے

کچھ متھ کے بارے میں
لوگوں میں عام خوف پایا جاتا ہے کہ خسرہ کے دوران کسی قسم کی کوئی دوائی استعمال نہیں کرنا  چاہیئے ورنہ دانے اندر رہ جائیں گے۔، نہانے نہیں دینا چاہیئے۔  گرم چیزیں کھلا کر دانے باہر نکالنے چاہئیں۔  ٹھنڈی چیزیں سے پرہیز کروانا چاہیئے ۔
ایسی کسی بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے

بچاؤ
جب بچہ نو ماہ کا ہوجائے تو اس کو خسرہ سے بچاؤ کا پہلا ٹیکہ لگوادیں اور جب پندرہ ماہ کا ہوجائے تو دوسرا ٹیکہ لگوانا چاہیئے
دوسرے ٹیکے کیلئے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین کی بجائے اگر ایم ایم آر ویکسین استعمال کی جائے تو وہ خسرہ کے ساتھ ساتھ ممپس(کن پیڑوں) اور روبیلا( خسرہ سے ملتی جلتی ایک بیماری) سے اضافی بچاؤ مل جاتا ہے
ویکسین کے بعد ہلکا پھلکا بخار ہونا معمول کی بات ہے۔جس کیلئے پیراسیٹامول استعمال کروایا جاسکتا ہے ۔ کچھ بچوں میں ویکسین کے بعد خسرہ کی طرح کے دانے بھی جسم پر نمودار ہوجاتے جاتے ہیں ۔ جو کہ خطرے والی بات نہیں ہوتی ایک آدھ دن بعد خود ہی غائب ہوجاتے ہیں
ویکسین کیوں ضروری ہے؟
خسرہ کا کوئی باقائدہ علاج موجود نہیں ہے اور بیماری کے حملے کی صورت میں مریض بہت سے مسائل میں الجھ سکتا ہے اس لیئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ بچے کو ویکسین لگوا کر پہلے ہی اس مرض سے بچا لیا جائے
بچہ نمونیا کا شکار ہوسکتا ہے
دماغ کی سوزش کا شکار ہوسکتا ہے
سانس کی تکلیف میں الجھ سکتا ہے
کان میں انفیکشن ہوسکتی ہے
بہت زیادہ پتلے پخانے لگ سکتے ہیں ۔جس سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے
خون کی کمی ہوسکتی ہے
خسرہ کی وجہ سے بچے کا مدافعتی نظام کافی کمزور پر جاتا ہے ۔ اور ایسے بچوں میں ٹی بی کا مرض لاحق ہونے کی چانس بہت بڑھ جاتے ہیں
میم سین

Thursday, April 13, 2017

سکیبیز کی خارش کیا ہے؟



سکیبیز کی خارش کیا ہے؟

سکیبیز کی خارش، خارش کی ایک ایسی قسم ہے جو ہمارے ہاں بہت عام ہے ۔ اور اس کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے طویل عرصے تک لوگ خارش کا عذاب برداشت کرتے رہتے ہیں ۔ لوگوں کی طرف سے مرض کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ٹائیفائیڈ اور نمونیا کا علاج تو آسان ہے لیکن سکیبیز کا نہیں کیونکہ یہ بیماری فرد واحد کی نہیں بلکہ پورے گھرانے کی ہے۔ بلکہ پورے معاشرے کی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا

سکیبیز (خارش) کیا ہے؟

سکیبیز خارش کی ایک قسم ہے جو ایک کیڑے کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس کی مادہ انسانی جلد میں سوراخ بنا کر انڈے دیتی ہے۔تین سے چار دن پر لاروا نکل کر بڑا ہوتا ہے اور نئی جگہیں تلاش کرکے انڈے دیتا رہتا ہے اور یوں جسم میں اس کی نسل کشی جاری رہتی ہے۔ خارش کے عمل کے دوران اس کا کیڑا کپڑوں میں گر جاتا ہے اور ان کپڑوں کے ذریئے دوسروں تک پہنچ جاتا ہے یا خارش کے عمل کے دوران ہاتھوں کے ذریئے دوسروں تک پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اگر کیڑا بستر پر گر جائے تو جسم سے باہر بھی چوبیس سے چھتیس گھنٹے زندہ رہ سکتا ہے۔ خارش کا آغاز سکیبیز کا کیڑا جسم میں داخل ہونے کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسلئے جب تک بیماری کا علم ہوتا ہے سارا گھر متاثر ہوچکا ہوتا ہے۔کیڑے سے متاثر بستر اور کپڑے بیماری کے فروغ کی ایک بڑی وجہ بن جاتے ہیں ۔


سکیبیز سے کون لوگ زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں ۔
یہ کیڑا کسی کے بھی جسم میں ڈیڑے ڈال سکتا ہے لیکن عام طور پر یہ مرض ان لوگوں میں زیادہ پھیلتا ہے ۔جوایک دوسرے کے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ جیسے ہوسٹلوں میں رہنے والے طالب علم، دینی مدارس، کلاس روم، کمبائن فیملی سسٹم میں رہنے والے افراد ۔۔اور ایسے گھروں میں رہنے والے لوگوں میں بھی جہاں دھوپ کم آتی ہے نمی کا تناسب زیادہ رہتا ہے اور صفائی کا خیال کم رکھا جاتا ہے۔ ۔خارش والے مریض کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کیڑا صحت مند جسم میں منتقل ہوجاتا ہے۔

علامات 
سب سے واضح علامت خارش ہوتی ہے۔ جو دن بھر تنگ کرنے کے بعد، رات کو زیادہ ہوجاتی ہے۔ کمبل، رضائی لینے سے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو خارش بھی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ مصالحے دار کھانے کے ساتھ بھی خارش کی شدت کو زیادہ محسوس کرتے ہیں ۔ اور اکثرلوگ گوشت کی الرجی سمجھ کر گوشت کھانا چھوڑ چکے ہوتے ہیں ۔
بڑوں میں زیادہ تر خارش ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان، کلائیوں پر، کہنیوں کے پیچھے اور بغلوں میں ہوتی ہے۔ عورتوں میں چھاتیوں کے نیچے اور مردوں میں پیشاب والی نالی کے اوپر خارش کے نشانات کافی واضح ہوتے ہیں ۔ چہرہ عام طور پر محفوظ رہتا ہے۔ بچوں میں پورا جسم متاثر ہوسکتا ہے۔جس میں پاؤں اور پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ بھی شامل ہوتی ہے 
مناسب لائٹ کے ساتھ خارش والی جگہوں کو دیکھیں تو باریک باریک سوراخ نظر آئیں گے۔ یہ وہ پناہ گاہیں ہیں جن میں کیڑا انڈے دیتا ہے۔ جو خارش کی وجہ سے دانوں یا زخم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ 
بہت سے مریضوں میں بار بار خارش کرنے کی وجہ سے بیکٹرییل انفیکشن داخل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے پیپ والے دانے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو اکثر اوقت زخم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں

علاج
علاج سے پہلے ضروری ہے کہ ان رستوں کو بند کیا جائے، جہاں سے کیڑا مریض تک منتقل ہوا ہے
سکول جانے والے بچوں کے یونیفارم کی صفائی میں بہت زیادہ احتیاط برتی جائے۔ گھر واپسی پر پہلا کام یہ کریں کہ یونیفارم تبدیل کروا کر یا تواسے دھو ڈالیں یا پھر استری کرکے اگلے دن کیلئے تیار کریں
ہوسٹل یا مدرسوں میں رہنے والے لوگ خارش والے لوگوں سے دور رہیں۔ اپنا تولیا صابن، بستر ہر چیز دوسروں سے الگ رکھیں۔
بستروں کی چادریں جلدی تبدیل کریں، تولیئے جلدی دھوئیں ہوسکے تو الگ الگ تولیا اور بستر استعمال کریں
سارے بستر ، رضائیاں، کمبل سرھانے، قالین، اور پردوں کو دھوپ لگوائیں تاکہ ان میں موجود کیڑا مر سکے 
بچوں کے کپڑے دن میں دو تین بار بدلیں ، اور بڑے افراد بھی روزانہ تبدیل کریں
کپڑے جب بھی پہنیں استری کرکے پہنیں
جراثیم کو مارنے کیلئے بہت سی کریمیں لوشن دستیاب ہیں جن کو جسم پر ملا جاتا ہے۔ جیسے پرمیتھرین، سلفر پلس کروٹامیٹون یا پھر صرف سادہ سلفر کسی لوشن میں ملا کر لگایا جاتا ہے۔
پرمیتھرین کو چونکہ ہر عمر کیلئے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور اگر صحیح طرح استعمال کیا جائے تو صرف ایک بار لگانے سے سارے کیڑوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اسلیئے اس کا استعمال مناسب بھی ہے اور محفوظ بھی ۔ 
لوشن کو جسم پر لگانے سے پہلے درج ذیل باتوں کو دھیان میں رکھیں
ایک تو لوشن لگانے سے پہلے اگر جسم پر کوئی زخم وغیرہ موجود ہے تو اس کا پہلے علاج کروا لیں 
دوسرا لوشن استعمال کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے سب افراد دستیاب ہوں اور لوشن لگانے پر راضی بھی۔ بے شک کسی کو خارش ہے یا نہیں۔۔ یا پہلے تھی اب نہیں ، وہ بزرگ ہے یا کوئی شیر خوار بچہ 
ایک ہی دن سب لوگ لوشن لگائیں
لوشن لگانے سے پہلے نہائیں
نہانے کے بعد جسم کو تولیئے سے تھوڑا سا خشک کرکے سارے جسم پر لوشن کو ملیں 
اس بات کو یقینی بنائیں کہ جسم کا کوئی حصہ بغیر دوائی کے نہ رہ جائے ۔ خاص طور پر ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان، بغلوں میں ، (عورتوں میں چھاتیوں کے نیچے)، پیشاب والی جگہ پر ، پخانے والی جگہ کے ارد گرد، پاؤں کے تلوئوں پر۔چار سے پانچ منٹ تک دوائی کو جسم میں جذب ہونے کا موقع دیں
جس دن دوائی جسم پر لگائی جائے اگر اس دن آئورمیکٹن کی تین گولیاں سب کو کھلا دی جائیں تو کیڑے کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے
دوائی لگانے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہنیں جو استری شدہ ہوں ۔ 
دوائی کو کم ازکم بارہ گھنٹے ورنہ مناسب ہوگا کہ چوبیس گھنٹے جسم پر لگا رہنا دیں 
اگر اس دوران کہیں سے دوائی اتر جائے تو فوری طور پردوبارہ لگائیں 
چوبیس گھنٹے بعد اچھی طرح صابن سے نہا کر دوائی کو صاف کر دیں اور صاف کپڑے پہن لیں
اتارے گئے کپڑوں کو گرم پانی سے دھوئیں اور اچھی طرح سے دھوپ لگوا دیں

Monday, April 3, 2017

کچھ چکن پاکس کے بارے میں



چکن پاکس کیا ہے؟
.عام زبان میں اسے لاکڑا کاکڑا بولا جاتا ہے 
ایک وائرس کی وجہ سے انسانی جسم کو یہ بیماری لگتی ہے. عام طور پر اس سے بچے متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ کسی بھی عمر کے انسان کو متاثر کر سکتا ہے۔ بیماری لگنے کی صورت میں جسم میں اس کے خلاف مدافعتی نظام قائم ہوجاتا ہے جس کی وجہ یہ زندگی میں عام طور پر صرف ایک بار لاحق ہوتی ہے۔

بیماری کیسے لگتی ہے
یہ ایک وبائی یا متعدی مرض ہے جو ایک متاثرہ شخص سے صحت مند شخص کو منتقل ہوتا ہے۔ مریض کے تھوک سے، کھانسی کرنے سے یا چھینکنے سے یا پھر دانوں کا پانی صحت مند مریض تک پہنچنے سےاسے چکن پاکس کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔

علامات
عام طور پر تیز بخار کے ساتھ بچہ کھانا پینا چھوڑ جاتا ہے سستی کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بخار کے ایک دو دن کے بعد جسم پر سرخ رنگ کے دانے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں جن کے اندر پانی بھرا ہوتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ان دانوں میں خارش بڑھتی جاتی ہے ۔کئی دفعہ دانے پہلے نکل آتے ہیں اور بخار بعدمیں شروع ہوتا ہے ۔بخار اور دانوں کی شدت ہر مریض میں مختلف ہوسکتی ہے
چند دنوں بعد دانے پھٹ جاتے ہیں اور کرسٹ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو براؤن یا کالے رنگ کے نشان بناتا ہے۔کچھ دنوں بعد کرسٹ اتر جاتا ہے ۔ اور لگ بھگ ایک ڈیڑھ ماہ بعد نشانات مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں

علاج
چکن پاکس چونکہ ایک وائرل بیماری ہے اور اپنے دن پورے کرکے جسم سے ختم ہوجاتی ہے اس لیئے کسی باقائدہ علاج کی ضرورت نہیں ہوتی ۔صرف علامتوں کے مطابق دوائی کاستعمال کروانا چاہیئے۔جیسے بخار کیلئے پیراسیٹامول کا استعمال ۔ اور خارش کوکم کرنے کیلئے کیلامین لوشن یا کسی انٹی ہسٹامین کا استعما ل کافی ہوتا ہے۔خارش کیلئے نہانے کے پانی میں میٹھے سوڈے کا استعمال یا دانوں پر برف کی ٹکور بھی خارش کی تکلیف کو کم کرتی ہے 
لیکن
اگر بچے کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں یا پھر دانوں میں پیپ کی علامات نظر آرہی ہیں یا پھر ساتھ کھانسی یا سانس کا مسئلہ محسوس ہورھا ہے تو فوری طور پر اپنے قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ایسے افراد بھی ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔ جنہیں کوئی دل کا عارضہ ہے یا پھر انہیں کوئی قوت مدافعت کی کمی کی بیماری ہے یا زیادہ عمر رسیدہ شخص ہے ۔
حاملہ ماں یا نوزائیدہ بچے میں اس بیماری کی علامتیں دیکھنے پر بھی اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر نا چاہیئے

احتیاطی تدابیر
بچوں کو چکن پاکس کے مریض سے دور رکھیں 
چکن پاکس کا حفاظتی ٹیکہ دستیاب ہے ۔ جو کہ بچے کو ایک سال کی عمر میں لگ جانا چاہیئے اور اس کے بعد بوسٹردو سال کی عمر میں لگوا دینا چاہیئے۔اگر گھر میں کسی کو چکن پاکس نکل آئے تو باقی گھر والے فوری طور پر ویکسین لگوا لیں تو کافی چانس ہیں کہ وہ اس مرض سے محفوظ ہوجائیں گے۔کچھ لوگ شکایئیت کرتے ہیں کہ ٹیکہ لگنے کے باوجود ان کے بچے کو چکن پاکس کا مرض لاحق ہوا ہے۔ ایسا ممکن ہے لیکن ایسے بچوں میں بیماری کی شدت بہت معمولی نوعیت کی ہوتی ہے

کچھ متھ کے بارے میں
عام طور پر لوگوں میں یہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ چکن پاکس نکلنے کی صورت میں بچے کو نہلانا نہیں چاہیئے ۔ اسی ٹھنڈی چیزیں نہیں دینا چاہیئے ۔ بچے کو گرم چیزیں کھلائیں تاکہ سارے دانے باہر نکل آئیں اور کوئی دانہ جسم کے اندر نہ رہ جائے
ان تمام باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ بلکہ نہانے سے بچہ خارش اور جلن سے سکون پاتا ہے ۔ ہاں کوشش کریں کہ نہانے کے بعد کسی سخت کپڑے سے جسم کو صاف نہ کریں تاکہ دانے پھٹنے نہ پائیں۔

چکن پاکس کے نشانات کا علاج
جو دانے نکل کر اپنی طبعی عمر پا کر ختم ہوجاتے ہیں ان کی نشانات کچھ عرصے بعد مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں لیکن جن دانوں کو خارش کے دوران چھیل دیا جائے یا پھر کسی رگڑ کی وجہ سے پھٹ جائیں ان کے نشانات عام طور پر ختم نہیں ہوتے ان کے علاج کیلئے سکن سپیشلسٹ سے رابطہ کرنا چاہیئے
میم سین

ایک مخلصانہ اور ضروری مشورہ:



جب بھی اپنے بچے کو ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے جائیں تو اس بات کا اہتمام ضرور کریں کہ بچے کی والدہ ساتھ ہو۔ ۔کیونکہ بچے کی بیماری کے حوالے سے ڈاکٹر کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات کیلئے سب سے مناسب رشتہ وہی ہوتا ہے۔
کیونکہ کسی بھی بیماری کی تشخیص کیلئے سب سے اہم چیز ہسٹری ہوتی ہے اوراکثر اوقات بیماری کا ستر فیصد سے بھی زیادہ درست اندازہ صرف اچھی ہسٹری سے ہوجاتا ہے
لیکن مصروفیت کے اس دور میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مائیں بچے کو ڈاکٹر کے پاس دفتر سے شام کو لوٹنے والے باپ کے ہاتھ بھیج دیتی ہیں یا پھر ماموں چچا یا کسی کزن کے ساتھ ۔۔ جن کو صرف بیماری کی بنیادی نوعیت کے بارے میں بتایا گیا ہوتا ہے اور جب ان سے بچے کی بیماری کے بارے میں سوالات کیئے جاتے ہیں تو لاعلمی میں یا تواندازے سے جواب دینا شروع کردیتے ہیں یا پھر فون نکال کر ماں سے رابطہ کرنا ۔ جو یا تو اس وقت کہیں مصروف ہوتی ہے یا پھر سوالات کی نوعیت کو صحیح سمجھ نہیں پا رہی ہوتی ہے
اور اس ساری صورتحال کا نقصان بچے کی بیماری کی غلط تشخیص کی صورت میں نکل سکتا ہے
کوشش کیا کریں کسی بھی ڈاکٹر سے چیک اپ کروائیں تو اس کی کی لکھی ہوئی دوائیوں والی پرچی اور کروائے گئے ٹسٹ ہمیشہ ایک فائل کی صورت میں محفوظ رکھیں۔ جب بھی بچے کے کسی مسئلے میں ڈاکٹر سے ملنے جائیں تو بچے کی اس فائل کو ہمیشہ ساتھ لے کر جائیں ۔ بہت سی بیماریوں کی نوعیت اور بچے کی صحت کے حوالے سے اس فائل کی ڈاکٹر کیلئے کافی اہمیت ہوتی ہے
میم سین