Wednesday, June 13, 2018

بات سے بات


کل عید ہے ۔ چلیں کل اگر عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں تو ہوہی جائے گی۔
عید کے موقع پر ایک دوسرے کو تحفے بھیجنے ، مٹھائیاں، بانٹنے اورآجکل کیک بھیجنے کی روایت کافی پرانی ہے۔یہ کافی پرانی بات ہے شائد ہمارے بچپن کی.جی ہمارا بھی ایک.بچپن تھا ۔ ابو کے ایک دوست کے ہاں کسی نے سپیشل مٹھائی بھیجی جو انہوں نے عید کی مناسبت سے ہماری طرف بھیج دی ۔ شائد ہم بھی کہیں فارورڈ کردیتے لیکن کسی وجہ سے پیکنگ کھولنی پڑی۔ بہت خوبصورت گفٹ پیپر میں لپٹے ڈبے کو اگرچہ کھولنے کو دل تو نہیں کر رھا تھا لیکن جب گفٹ پیپراتارا تو اندر سے ایک عید کارڈ اور پانچ سو روپے عیدی نکلی۔جس کے بعد ہمیشہ کیلئے ایسے گفٹ فارورڈ کرنے سے پہلے نئی پیکنگ کی روایت رکھ دی ۔
تایا کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے ہوسٹل سے سیدھا ان کے ہاں پہنچا تو انہوں نے میرے اس قدم کی خوب پزیرائی کی اور واپسی پر سب خوبصورت پیکنگ والا مٹھائی کا ڈبہ ساتھ دیا جو وزن میں بھی یقیناًسب سے بھاری تھا۔لیکن جب ہوسٹل آکر دوستوں کو مٹھائی تقسیم کرنے کی غرض سے ڈبہ کھولا گیا تو اندر سے لڈو نکلے اور دوستوں نے تاحیات ہوسٹل سے شادیاں اٹینڈ کرنے پر پابندی لگا دی۔
ہمارا ایک دوست تھا ۔وہ جب وجد میں آتا تھا یا موڈ کے انتہائی اونچے نوڈز میں ہوتا تھا تو بلند آواز میں کاریڈور میں یا باتھ روم میں گانا شروع کردیتا تھا لیکن آواز کے سر اتنے خراب تھے کی ایک بار سب دوستوں نے اس کے گانے پر پابندی لگا دی کہ آئیندہ سے کمرہ بند کرکے بھی نہیں گانا۔ اس معاملے میں, میں خوش قسمت واقع ہوا تھا کہ مجھے کمرے کو کنڈی لگا کر گانے کی اجازت مل گئی تھی۔ کسی زمانے میں یقین کی حد تک وہم تھا کہ میری آواز سہگل سے بہت ملتی ہے۔ چھپو نہ چھپو نہ او پیاری۔۔۔۔ ایک دن اپنے یقین کے بارے ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ اس میں قصور سہگل کی آوازکا نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں ریکارڈنگز ہی اتنی خراب ہوتی تھی۔
ابھی جب ان پیج پر لکھنے کا ہنر نہیں آیا تھا تو اس وقت اپنی تحریریں اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے ایک ویب پیج پر اپلوڈ کردیتا تھا۔ یہ فیس بک کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب اپنی گھریلو سبزیوں کی کاشت کے حوالے پوسٹیں لگائیں تو ایک خاتون نے رہنمائی کیلئے انباکس رابطہ کیا۔باتوں کے دوران جب انہوں نے پوچھا کہ باغبانی کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں تو جھٹ سے اپنی آڈیو فائلز کا لنک بھیج دیا۔چند دن بعد ان کی طرف سے ایک ریکوئسٹ موصول ہوئی کہ اگر فلاں آڈیو والی تحریر ان پیج کردیں تو مہربانی ہوگی۔ اور اگلے ہی لمحے ان پیج پر مصروف ہوچکےتھے۔دو تین دن لگا کر ایک ڈیڑھ صفحے کی تحریر کو کی بورڈ سے کمپیوٹر سکرین پر منتقل کردیا۔ ٹاسک تو مکمل ہوگیا لیکن ہاتھ کی انگلیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور اپنی ساری تحریریں اپنی ڈائری سے اٹھا کر کمپیوٹر میں محفوظ کرلیں۔ 
ایک بلاگ بنا رکھا تھا جو دراصل میری ڈیجیٹل ڈائری تھی جس میں تصوریریں ویڈیوز، اقتباسات، شاعری پوسٹ کیا کرتا تھا۔وہ سب وہاں سے ڈیلیٹ کیا اور اپنی تحریریں وہاں سجانا شروع کردیں۔کچھ دوستوں کو لنک بھیجا تو ایک مہربان نے مشورہ دیا کہ کہاں چھپے بیٹھے ہو ۔ ان کو فیس بک پر شیئر کرو۔ ڈرتے ڈرتے فیس بک پر شیئر کرنا شروع کیا تو حوصلہ افزائی پا کر باقائدہ لکھنا شروع کردیا۔
پھر ایک دن کسی نے چورنگی نام کے ایک گروپ میں ایڈ کردیاتو فیس بک کی ایک نئی دنیا کا علم ہوا۔وہاں سے آواز سے ہوتے ہوئے بے شمار گروپوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان گروپس کی بدولت بہت سے نئے لوگ ملے ۔ نئی سوچ، نئے انداز زندگی اور نیا فہم ملا۔ان لوگوں کے بارے میں کسی دن تفصیل سے لکھوں گا کہ جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جن کی بدولت دماغ کی بہت سے بتیاں روشن ہوئیں۔ اور سوچ کے بے شمار نئے زاویے دریافت ہوئے۔
کل عید ہے۔ اور اگر کل عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں ہوجائے گی اور ہماری فیس بک سے وابستگی کے دس سال بھی مکمل ہوجائیں گے.
میم.سین

Sunday, March 18, 2018

ایک لازوال داستان


یہ ان دنوں کی بات ہے جب  سبزی فروشوں نے پرائیویٹ سیکورٹی رکھنا شروع کر دی تھی

جب ٹماٹر کے کاشکاروں نے کھیتوں کے اردگرد خاردار تار بجھا کر کرنٹ چھوڑ رکھا تھا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جہیز کی فہرست میں لوگوں نے  ٹماٹروں کو سرفہرست رکھنا شروع کردیا تھا

جب ڈاکو گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے سے پہلے گھر کے کچن میں ٹماٹروں کو تلاش کیا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوجوان اپنی پہلی تنخواہ سے ٹماٹر خرید کر والدین کو گفٹ کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے

جب خاوند ناراض بیویوں کو منانے کیلئے دفتروں سے گھر کا رخ  کرنے سے پہلے  ٹماٹر خریدنے کیلئے منڈی کو نکل جایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سبزی کی دکان پر کھڑے ہوکر ٹماٹروں کو دیکھ کر لوگ سرد آہیں  بھرا کرتے تھے

جب لڑکے آسمان سے تاڑے توڑ کر لانے کا وعدہ  کرنے کی بجائے  ٹماٹر لا کر دینےکی آس  دلا کر لڑکیاں پھنسایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے

جب ہم نے دوبارہ ٹماٹر اگانے کا فیصلہ کیا۔

جہاں ہمارے اس فیصلے پر گردونواح میں خوشی کی شدید لہر دوڑ گئی وہیں اس فیصلے سے ہمارے ضمیر نے ہمیں تھپکی دے کر بتایا کہ اس قوم کا اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف تم ہی ہو۔ ہم جو مصیبت کی ہر گھڑی میں، مشکل کی ہر دوڑ میں اس قوم کے مسائل کے سامنے سینہ سپر ہوئے ہیں تو اس بہادری عزم صمیم اور لازوال قربانیوں نے ہمیں یہ رتبہ عظیم بخشا کہ ہم اس قوم کی مسیحائی کرسکیں۔

لہذا ہم صبح تہجد کے وقت اٹھے اس قوم کے گناہوں کی معافی مانگی۔ اوزار سنبھالے، بیج لیےاکیلے ہی جانب منزل گامزن ہوئے۔

منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے زمین کے ساتھ مختصر خطاب کیا جس میں اسے بتایا گیا کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے اور ہماری اس سے کیا توقعات ہیں۔پانی دے کر زمین کی صدیوں کی پیاس بجھائی۔ بیج ڈال کر اسے معتبر کردیا اور مٹی اور کھاد کے ساتھ زمین کی آبیاری کی۔

پھر کسی پریمی کی طرح ان کے گرد منڈالتے کئی ہفتے گزار دیئے۔ کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی سامنے آکر دیکھتے رہے۔مستقبل کا خوف دل میں چھپائے۔اردگرد پھیلی ناکامیوں کے درمیان امید کے دیئے کو بجھنے سے بچانے کی جستجو میں لگے رہے ۔مجھے معلوم ہے بدھ نے ایک درخت کے نیچے نروان کا گیان پایا تھا ۔اب میری آتما بھی شانتی کی تلاش میں تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ٹماٹروں کے یہ ننھے ننھے پودے میرے لیئے نروان کا سندیسہ لانے والے ہیں

ایک دیہاتی صبح  یہ اطلاع ملی کہ ہماری تپسیا رنگ لائی ہے اور ہمارے  لگائے پودوں کی گود بھرنے لگیں ہیں۔ پھول کھلنے لگے اور پھولوں سے  پھل بننے لگا تو ٹہنیاں جھکنے لگیں۔ سبز ٹماٹر محنت کے سرخ رنگ کو پانے کے قریب پہنچ گیا۔ گویا ہماری زندگی میں سرخ انقلاب کا زمانہ آنے ہی والا ہے۔

ہم سوچتے ہیں یہ قوم کیسے احسان مند ہوسکتی ہے ہماری۔

لیکن یہ سوچ کر درگزر کردیتے ہیں کہ ناداں ہیں سمجھ جائیں گے۔ کبھی تو قدردان ہوں گے  ہمارے۔

تب تک ہم ٹماٹروں کے اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔

Wednesday, February 28, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


چلیں آج پھر ایک بادشاہ کی کہانی سناتے ہیں ۔جس کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے سیکھنے والوں کیلئے بڑی نصیحت ہے۔

یہ انیس سو انیس کی بات ہے افغانستان پر امیر حبیب اللہ کی حکومت تھی ایک دن اس کو کسی نے سوتے میں قتل کردیا ۔جس کا فائدہ اٹھا کر سردار نصراللہ نے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ ان دنوں کابل کا گورنر امان اللہ تھا۔اس نے ہمت دکھائی اور تخت پر قبضہ کرکے بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 
امان اللہ چونکہ روس کے بہت قریب تھا اس لیئے شہ پا کر برطانوی انڈیا پر حملہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک تو برطانوی حکومت پہلے ہی کافی کمزور تھی اور کچھ انڈیا کے حالات بھی کروٹ کھا رہے تھے اس لیئے زیادہ مزاحمت نہ کرسکے اور افغانستان سے صلح پر مجبور ہوگئی ۔جس کے بعد کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے سٹک اینڈ کیرٹ والی پالیسی کا آغاز ہوا۔
امان اللہ ایک انتہائی آزاد خیال انسان تھا اور ملک کو مغربی طرز پر چلانے کا ارادہ رکھتا تھا۔کافی آزاد خیال پالیسیوں پر گامزن ہوا۔ نہ صرف طرز حکومت بلکہ مغربی کلچر بھی نافذ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ملک میں امن امان بحال ہوا تو امان اللہ نے ملکہ کے ساتھ یورپ کا قصد کیا۔ انڈین گورنمنٹ کیلئے کیرٹ پالیسی کیلئے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا تھا۔فوری طور پر لاہور میں  ریل کے چار سپیشل ڈبے تیار کرکے چمن پہنچائے گئے۔جہاں سے بادشاہ سلامت اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی پہنچے اور کراچی سے فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پہنچے۔ماسیلز پہنچنے پر امان اللہ کا استقبال فرانسیسی صدر نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھرپور انداز میں کیا اور ملکہ ثریا بھی مغربی لباس میں داد تحسین وصول کرتی رہیں ۔بادشاہ کو نپولین کے بستر پر سونے کا اعزا بخشا گیا۔ اس کے بعد جس شہر بھی گیا بھرپور استقبال کیا گیا ۔بہت سے شہروں کی اعزازی چابیاں حوالے کی گئیں۔فرانس کا دورہ مکمل کرکے برطانیہ پہنچے تو کنگ جارج بمع اپنی ملکہ  استقبال کیلئے واٹرلو کے اسٹیشن پر موجود تھا۔تین دن شاہی مہمان رہے اس کے بعد ایک ہفتہ سرکاری مہمان ۔برطانیہ سے بلجیئم کے دورے کا ارادہ تھا اور اندازہ یہی تھا کہ بلجیم کا دورہ مکمل کرکے  واپسی کا سفر شروع کریں گے۔ لیکن ابھی برطانیہ میں ہی تھے کہ بادشاہ سلامت نے اعلان کردیا کیا بلجیم کے بعد وہ روس کا دورہ بھی کریں گے۔حکومت برطانیہ نے اپنے نمائیندو ں کے ذریئے اشاروں کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ عالی جاہ بندے بن جاؤ۔ یہ ساری شان شوکت جو آپ کو دی ہے وہ روس سے دور رکھنے کیلئے ہی دی تھی لیکن بادشاہ پھر بادشاہ ہوتا ہے اورمرضی کا مالک ۔ اور اپنی ضد پر اڑا رھا اور روس کا دورہ کرکے ہی واپس گیا۔
اب کیرٹ والا معاملہ توہوگیا تھا ختم اور اب شروع ہونی تھی کہانی سٹک والی
لارنس آف عریبیہ کے نام سے کون واقف نہیں ۔ جس نے ترکوں کے خلاف عربوں کو اکسایا اور خلافت سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرنے میں مدد کی ۔ ترکی کا عربوں سے رابطہ ہجاز ٹرین کے ذریعے تھا ۔اور اس ٹریں کی پٹری کو نقصان پہنچانے کیلئے لارنس نے جس حکمت عملی پر عمل کیا وہ کسی ہالی وڈ کی فلم کی کہانی سے مختلف نہیں۔ لیکن یہاں ہم لارنس کا عرب مشن نہیں سنائیں گے بلکہ  آپ کو افغانستان لیئے چلتے ہیں
سٹک پالیسی پر عمل کرنےکیلئے لارنس آف عریبیہ کی خدمات لی گئیں اورایک بزرگ کا روپ دھار کر پشتو سیکھی ۔عربی پر پہلے ہی کمال حاصل تھااور جگہ جگہ وعظ دینا شروع کر دیا ۔جلد ہی ایک نیک بزرگ کی حیثیت سے افغان لوگوں میں اپنا نام بنالیا۔ اس کے معجزوں نے جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔جب اپنے معتقدین کا ایک اچھا حلقہ قائم ہوگیا تو اس کے بعد اس نے امان اللہ کے خلاف وہی کام شروع کیا جو آئی جے آئی نے اٹھاسی کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔اور نوائے وقت اخبار نے رعنا لیاقت علی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ یورپ کے دورے کی ملکہ کے مغربی لباس میں ملبوس، غیر ملکیوں سے ہاتھ ملانے کی تصویریں اور ایکٹرسز کی تصویروں کو ملکہ کی تصویر کے ساتھ ملا کر بنائی گئی تصویریں عوام میں تقسیم کی گئیں۔ اور بادشاہ کے بارے میں  زوردار پرپیگنڈہ کیا گیا کہ روس جا کر کافر ہوگیا ہے۔ اور اب الحاد کو ملک میں نافذ کرنے کے درپر ہے۔اور یوں بادشاہ کے خلاف نفرت کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی کہ اسے عوامی حمایت سے یکسر محروم ہونا پڑ گیا
ایسے حالات میں ایک سابقہ افغان فوجی نظام سقہ نے انگریزوں کے تعاون سے شہروں میں ماڑ دھاڑ شروع کردی اور جلد ہی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔اور پھر ایک اور ڈاکو سید حسین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک رات سرکاری محل پر حملہ کردیا۔اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا ہے لیکن امان اللہ کو محل سے فرار ہونا پڑا اور نظام سقہ کابل کے تخت پر قابض ہوگیا۔ امان اللہ اپنی فیملی کے ہمراہ چھپتا چھپاتا چمن پہنچا۔وہی چمن جہاں سے چند سال پہلے انتہائی لگزری ڈبوں میں اور سرکاری پروٹوکول میں کراچی کیلئے روانہ ہوا تھا اب بے یارومددگار عام مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر بمبئی پہنچا اور اور پھر وہاں سے نکل کر باقی عمر اٹلی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔

Monday, February 26, 2018

تاریخ کے جھروکوں سے


چلیں آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ایک بادشاہ کی ۔ بادشاہ بھی ہندستان کا یعنی میرا  آپ کا سب کا بادشاہ۔
 نام تھا اس کا علاؤالدین خلجی ۔ ارے نہیں یہ بالی وڈ کی باتوں میں آکر پہلے ہی منہ نہ بنالیں ۔میں اس کی کسی ملکہ یا غلام کی کہانی نہیں سنانے جا رھا۔بلکہ بادشاہ کی  زندگی کا ایک واقعہ بیان کرنے جا رھا ہوں  ۔علائوالدین  ایک ان پڑھ حکمران تھا جس نے بیس سال تک ہندستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔انتظامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حروف  پہچاننا  سیکھ لیئے جس سے تحریر کا مدعا سمجھ جاتا تھا ۔ 
ہندستان پر مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اگر کھولی جائے تو صرف تین یا چار حکمران  نظروں سے گزریں گے جن کو آپ مضبوط حکمران قرار دے سکتے ہیں۔ان میں سے ایک علائوالدین کا دور بھی تھا۔ اس کا عہد انتظامی حوالے سے بہترین عہد سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ کچھ لوگ اس کی سفاکی اور ظلم کے واقعات بہت بڑھا چرھا کر پیش کرتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ ہندستان کو ایسے اعلی منتظم کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔جس کے فیصلوں اور طرز حکومت سے ایک عام آدمی کو بھی کچھ فائدہ مل سکا تھا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی بادشاہ کی ۔بادشاہ قسمت کا کچھ ایسا دھنی ثابت ہوا کہ جو مہم شروع کرتا  وہ کامیاب ہوجاتی ۔ ایک طرف فتوھات اور دوسری طرف کسی میں بغاوت کی جرات نہ ہوئی ۔کچھ امرا ایسے میسر آئے کہ وہ بادشاہ  سے  وفاداری کی اپنی مثال آپ تھے ۔  

جب بادشاہ اپنی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات کے نشے میں تھا۔منگول حملہ آوروں کا قلع قمع کر چکا تھا ۔ملک میں غلے اور سامان معیشت کی فراوانی تھی ۔ملک کا انتظام اس قدر مضبوط ہوچکا تھا کہ سلطنت کے راستے اور شہر گڈ گورنس کی بہترین مثال پیش کررہے تھے تو ایسے میں بادشاہ کو خیال آیا کہ قسمت اتنی مہربان ہے تو کیوں نہ سکندر کی طرح پوری دنیا کو فتح کرنے نکلوں یا پھر کچھ ایسا کام کروں کہ میرا نام قیامت تک رہے۔
اس کے چار بہت معتمد ساتھی تھے جن کو وہ چار یار کہا کرتا تھا ان کی مدد سے پہلے نئی شریعت جاری کرنے کا سوچا۔پھر  دنیا کو فتح کرنے کا خبط ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔بلکہ مسلسل فتوحات کے بعد سکندر ثانی کا لقب اختیار کرلیا اورناصرف جمعہ کے خطبوں میں  یہ لقب بولا جانے لگا بلکہ سکوں پر بھی کھدوا دیا گیا۔ بادشاہ کے غیص و غضب سے ڈرنے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا کر بادشاہ کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ ایسے میں ایک دن کوتوال دھلی علاؤالدین علاؤلملک ملنے کیلئے آیا۔ بادشاہ اس کی بڑی قدر کرتا تھا اسلئے  اپنے دونوں منصوبوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بادشاہ کے چاروں یاروں کے علاوہ سب کو محفل سے اٹھوا دیا شراب کی بوتلیں بھی ہٹا دی گئیں اور بادشاہ کو جو دلائل دیئے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں اور بادشاہ جیسا بھی تھا جہاندیدہ تھا اور باتیں سمجھ میں آگئیں۔
جب نئی شریعت نافذ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو علائوالدین گویا ہوا
شریعت کا تعلق وحی آسمانی سے ہوتا ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے اور یہ بات سب خاص و عام کو پتا ہے ۔اگر آپ ایسا کوئی سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے تو فساد اور بدنظمی ہوگی۔چنگیز خان اور اس کی اولادکی اسلام دشمنی ایک مثال ہے۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا لیکن وہ اسلام کی روشنی کو ختم نہ کر پائے بلکہ ان کی اولاد مسلمان ہوگئی اور کفار سے جنگ بھی کی 
بادشاہ علاالملک کے جواب سے خاصا مطمئن ہوا اور دنیا کو فتح کرنے کے ارادے کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو جواب ملا
بادشاہ سلامت پہلے تو یہ سوچیں کہ کس کو دھلی کی حکومت سونپ کر جائیں گے جو آپ کی عدم موجودگی میں سلطنت کا انتظام بھی سنبھالے اور آپ کی واپسی پر حکومت بھی آپ کے حوالے کر دے۔اور سکندر کے زمانے میں تو بغاوتوں کی مثال شاذ ونادر ہی ملتی تھی اور آج تو حالات ہی مختلف ہیں۔سکندر کے پاس ارسطو جیسا وزیر باتدبیر تھا جس نے نہ صرف سکندر کی عدم موجودگی میں انتظام سنبھالا بلکہ سکندر کی واپسی پر محفوظ حکومت واپس بھی کر دی ۔اگر بادشاہ کو اپنے امرا پر اس قدر اعتماد ہے تو ضرور اپنے ارادے پر عمل کریں ۔بادشاہ مشورہ ماننے میں کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور پوچھا کہ پھر میرا یہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے لاؤلشکر کس کام کا؟ تو علاؤلملک نے توجہ ہندستان کی بہت سے مہمات کی طرف دلوائی کہ وہاں بہت ساز وسامان درکار ہوگا بہت توانائی اور پیسے کی ضرورت ہوگی اگر آپ وہی مہمات مکمل کرلیں تو آپ کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ بادشاہ نے علاءالملک کو بہت سے انعام اکرام سے نوازا اور اپنے دونوں ارادے ترک کردیئے ۔
 علاؤالدین خلجی ایک جہاندیدہ بادشاہ تھا ۔ جب منگولوں کا ایک سپہ سالار دھلی پر چڑھ دوڑا تھا توعلاالملک نے لڑائی سے بچنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ نے اس مشورے کو رد کرکے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ نے بادشاہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا 

Saturday, February 10, 2018

ایک خط کے جواب میں


سدا خوش رھو!

اتنے عرصے بعد خط ملا پہلے تو اچنبھا ہوا پھر وہ خوشگوار حیرت میں بدل گیا
دوبارہ پڑھا تو ناسٹیلجیا کے گہرے بادلوں میں خود کو محبوس پایا
میں دیر تک اسی سوچ میں اٹکا رھا کہ تم کہاں ہو؟ کیونکہ یہ خط تو تمہارا ہے لیکن یہ لفظ تمہارے نہیں
وہی انداز لیکن بے روح تحریر۔جیسے تم اداس رہنے لگی ہو، جیسے تمہارا دھیان زندگی میں نہیں رھا۔جیسے تمہارے قدم راستے کی گرد سے بوجھل ہوگئے ہوں۔ جیسے تمہارا سنگ میل تمہاری نظروں سے کسی نے اوجھل کر دیا ہو۔
لیکن جب میں نے تمہاری یاد کے بادلوں میں جھانکا تو تو مجھے تمہارے الفاظ کی روح پر وہ سب بھاری پتھر نظر آنے لگے۔ جنہون نے تمہارے لہجے کو یہ تھکاوٹ بخشی ہے۔ 
تم پوچھتی ہو کہ وہ کونسی امپلس ہے جو تمہیں چٹھیاں لکھنے پر مجبور کرتی ہے تو سنو تمہیں خدا نے ایک امتیاز بخشا ہے، تمہاری سوچ کو ایک جلا دی ہے لکھنے کی قدرت عطا کی تم خیالات کی شمعیں جلا سکتی ہو تم وہ صلاحیت رکھتی ہو کہ جو بن مانگے اپنے حصے کی روشنی دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اس لیئے مجھے یقین ہے کہ تم کبھی لکھنے سے نہیں رک سکتی ۔ تم اب بھی سنگ بہاروں کی تلاش میں نکل سکتی ہو تم ہمالیہ کے شفاف پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ کم زور تو میں تھا جب تم نے گل پوش وادیوں کی سحرانگیزیاں ڈھونڈنے کیلئے مجھ سے وعدہ مانگا تھا تو میں وہ حوصلہ ڈھونڈ نہیں پایا تھا جس کو پا کر میں تمہارے ساتھ شبنی قطروں کی راہ میں ساتھ چلنے کیلئے ہاں کرتا ۔ میں عذر ڈھونڈ سکتا تھا ۔لیکن میں میں ان دیکھی ان کڑیوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا جنہوں نے میرے وجود کو باندھ رکھا تھا
تم واقعی بربت ہو۔ تمہاری سوچ تمہارے ارادے واقعی پربتوں کی طرح بلند اور سنگلاخ چٹانوں کی طرح پائیدار ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں کہا کرتا تھا میں کسی دن وہ حوصلہ وہ عظم ڈھونڈ لاؤں گا جو تمہیں تسخیر کرنے کیلئے کافی ہوگا تو تم نے مسکرا کر کہا تھا کہ تم صرف ارادہ باندھ لو میں خود تمہیں سرسبز وادی کے دامن میں بنی اپنی جھونپڑی میں لے جاؤں گی جو چیل اور چنار کے درختوں سے اٹی ہوگی۔ جس کے اوپر نیلا آسمان ہوگا جس کے ساتھ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہونگے ۔لیکن وہ سب باتیں دھرانے کا اب کیا فائدہ ؟
تمہاری باتیں ویسی ہی ہیں جیسی تم پہلے کیا کرتی تھی۔وہی خواب بسنانے کی باتیں، وہی ہوا میں معلق آشیانوں کو ڈھونڈنے کی باتیں ۔ پہلے تم آسمان کے تارے اس سے جدا کرنے کی باتیں کرتی تھی اور اب آسمان کی ریشمی چادر کی بات کرتی ہو لیکن کچھ نہیں ہونے والا ۔ کوئی نئی دنیا دریافت نہیں ہونے والی ۔کوئی تعلق نیا نہیں ملنے والا 
ہم میں سے کوئی بھی غلط نہیں تھا۔ اپنی جگہ ہم دنوں درست تھے ۔ میں مجبوریوں کا پابند تھا تم اپنی خواہشوں کی۔ بالوں میں چاندی اتر اائی تو کیا ہوا مجھے یقین ہے تمہارے خواب آج بھی تمہارے ارد گرد آباد ہیں تمہارے خط میں موجود وارفتگی اور اضطراب بتا رھا ہے کہ تم اپنے افسانوں کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے آج بھی بے تاب ہو
تم پہلے بھی خواب دیکھتی تھی، خیالوں کے اڑن کھٹولے لیئے پھرتی تھی تم زندگی کو کو بھی خیالی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل تھی ۔ تم امنگوں پر جیتی تھی اور تمہارے تصور کی جنت بھی ایسے ہی حسیں تصورات کے سہارے مہک جاتی تھی ۔ مجھے یقین ہے تم آج بھی خواب دیکھتی ہو انہی خوابوں نے تمہیاری جستجو کی حس کو تمہیں ایک بار پھر میرے سامنے لاکھڑا کیا ہے 
لیکن کیا کیا جائے میرا اور تمہارا رشتہ زمین اور آسمان کا ہے جو ایک ساتھ نظر آنے کے باوجود ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ ہم دونوں ایک بینچ پر اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کو تنگ نہیں کر سکتے ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں تڑپ کے کنول کھلنے سے روکناکسی کے بس میں نہیں ہوتے ۔ایک مجروح مسکان کی طرح ،روح کی تسکین کیلئے 
لیکن میری جان! زندگی چند رنگینیوں کا نام نہیں ہے یہ یکطرفہ خیالوں کا مجموعہ نہیں ہے ۔مجھے ڈر لگتا ہے جس دنیا کو تم آسمانوں کے پڑے ڈھونڈتی تھی کہیں وہ جیون کے سپنوں کا سحر توڑ نہ دے ۔ مجھے ڈر ہے ریشمی چادر کے پیچھے کی دنیا تمہاری بسائی جنت کو تحلیل نہ کر دے۔ تمہارے نازک سے دل کا آبیگینہ کہیں دوبارہ نہ ٹوٹ جائے
کیونکہ اب تمہارے دل کا ٹوٹنا کافی دردناک ہو سکتا ہے.میں بتا نہیں پایا کبھی لیکن یہ مجھے بھی بہت عزیز رہا ہے.تمہارا دل تمہارے قلم ہی کی طرح تتلیاں بناتا ان میں رنگ بھرتا ہے خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو دوسری طرف آس کے جگنو بھی بناتا ہے جو رستے کو پرنور کر کے مسافروں کے لیے آسانی کر دیتے ہیں.
نا چاہتے ہوئے بھی خط ختم کرنا پڑ رہا ہے. کیونکہ صفحہ کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو ختم ہوجاتا ہےزندگی کا ہو چاہے کتاب کا صفحہ پلٹنا تو پڑتا ہے.
فقط
تمہارا

Wednesday, November 15, 2017

ناقابل فراموش


چند دن پہلے پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے سوئمنگ پول میں ایک نوجوان کے ڈوبنے کی خبر سنی تو ذہن بے اختیار کئی سال پیچھے چلا گیا ۔جب میں نے پہلی بارسوئمنگ پول میں قدم رکھا تھا اور پہلا قدم ہی ڈگمگا گیا اور چار فٹ گہرے پانی سے سترہ فٹ گہرے پانی کی طرف بہہ گیا۔
میڈیکل کالج کے ابتدائی دنوں کی بات تھی، جب ایک شام کمرے میں دوستوں نے انکشاف کیا کہ کالج کا سوئمنگ پول کھل گیا ہے۔ اسی وقت پرانی پینٹ کو کاٹ کر نیکر بنایا اور ان کے ہمراہ ہولیا۔مغرب سے کچھ دیر پہلے جب پول کے بند ہونے کا وقت تھا۔ بہت کم لڑکے وہاں موجود تھے۔
جب اپنے جسم کو پانی میں سنبھالنے کی کوشش شروع کی تو جسم سطح پر آنے کی بجائے گہرائی میں ڈوبتا جارھا تھا۔ باوجود اس کے کہ میرے حواس قائم تھے لیکن میں بے بس تھا۔آواز دینے کی کوشش کرتا تو منہ میں پانی چلا جاتا۔ ہاتھ پائوں مارتا تو پانی کی مزید گہرائی میں اتر جاتا۔دماغ میں بس ایک ہی خیال گھومے جارھا تھا۔ کسی کی میرے اوپر نظر پر جائے اور گارڈ تک خبر پہنچ سکے۔جو وہیں کہیں موجود تھا۔ لگ بھگ تین چار منٹ کے بعد سوئمنگ کرتے ایک لڑکے نے مجھے پانی میں ہچکولے کھاتے دیکھ لیا اور چیخیں مارنا شروع کردیں۔اس وقت تک میرے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ گارڈ نے کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دی۔ پیٹ دبا کر پانی نکالا، ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلا کر ان کی ورزش کروائی۔ چند منٹ بعدہوش آیا تو لگا سب کچھ خواب تھا ۔۔۔۔۔
دو سال تک کیفیت، یہ رہی کہ نالی میں بھی بہتا پانی دیکھ لیتا تو چکر آنے لگتے اور دل ڈوبنے لگتا ۔لیکن پھر ہمت کرکے دوبارہ پول میں اترا اور تیرنا سیکھا اور پھر بہت سے لوگوں کو سکھایا بھی۔چند سال پہلے جناح ہسپتال کے باہر ایک سٹور پر ایک دوائی لینے رکا۔جب دوائی کی قیمت پوچھی تو اس نے لینے سے انکار کردیا کہ بہت سال پہلے میں اپنے کزن کے ہمراہ آپ کے کالج کے سوئمنگ پول آیا کرتا تھا تو آپ نے مجھے سوئمنگ سکھائی تھی۔ آپ کا نام مبشر ہیں نا؟۔۔۔
بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر شہباز ایاز کا یہ قرض میں زندگی بھر نہیں اتار سکتا جس کی بروقت چیخ وپکاڑ نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کی طرح ایک خبر بن چکا ہوتا


دو ہزار چھ میں ایک کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔رات کو ایک ڈیڑھ بجے کام سے فارغ ہوگئے تو سوچا  اب یہاں کیا رکنا۔ ڈرائیور ساتھ ہے واپس نکلتے ہیں۔فروری کا مہینہ تھا اور کچھ جگہوں پر دھند سے واسطہ پر رھا تھا۔جب تاندلیانوالہ سمندری روڈ سے اتر کر کنجوانی روڈ پر گاڑی مڑی تو میں نے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی کہ اب گھر زیادہ دور نہیں رھا۔ اور اگلے ہی لمحۓ دھند کا ایک ٹکڑا سامنے آگیا اور اس سے پہلے ڈرائیور گاڑی کی رفتار کم کرتا، گاڑی سڑک کے درمیان گنے کی ایک خراب ٹرالی کے نیچے گھس گئی۔ میں اچھلا اور میرا سرگاڑی کی ونڈ سکرین سے ٹکرایا اور گاڑی کا کنارہ ٹرالی کے پریشر سے پچک کر اس سیٹ کے ساتھ جا لگا جہاں لمحہ پہلے میں بیٹھا تھا۔ اگر سیٹ بیلٹ لگی ہوتی تو یقینا وہ مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا۔
ہوش اس وقت آیا جب لوگ مجھے نکال چکے تھے۔ اللہ کا شکرتھا کہ سر میں چند ٹانکوں کے علاوہ کہیں کوئی ضرب نہیں آئی تھی۔ 

مکھی شہد کیوں بناتی ہے


شہد دراصل وہ غذا ہے جو شہد کی مکھی اپنے لیئے سردیوں کیلئے محفوظ کرتی ہے۔ اور جس خوارک پر وہ اپنے بچے پالتی ہے
شہد کی مکھی پھولوں سے دو طرح کی چیز اکھٹی کرتی ہے۔ ایک تو نیکٹر ہوتا ہے اور دوسرا پولنز۔پولن پھول کا نر حصہ پیدا کرتا ہے جو فیمیل حصے تک پہنچ کر پولی نیشن کا عمل کرواتا ہے۔نیکٹر ایک میٹھی رطوبت ہوتی ہے جو پھول پولی نیشن کیلئے مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے پیدا کرتا ہے۔
نیکٹر سے شہد بنتا ہے۔ جو شہد کی مکھی اپنے معدے میں بنی تھیلیوں میں جمع کرتی رہتی ہے اوراگر جسم کو ضرورت محسوس ہوتو جسم ان تھیلیوں کو پھاڑ کر اس کو استعمال بھی کر لیتا ہے۔ عام طور پر جب نیکٹر کا وزن شہد کی مکھی کے وزن کے برابر ہوجاتا ہے تو مکھی اپنے چھتے کو لوٹ جاتی ہے۔۔ اور وہاں سے ایک کھیل شروع ہوتا ہے وہ ہے نیکٹر کا ایک مکھی سے دوسری مکھی کو منتقلی ۔۔ اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک نمی کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔جو لگ بھگ ستر فیصد سے کم ہوکر بیس فیصد پر آجاتا ہے۔۔۔جب نمی کا تناسب اس قدر کم ہوجاتا ہے تو شہد کی تیاری مکمل ہوچکی ہوتی ہے۔اسےچھتے میں بنی ویکس کی نالیوں میں ڈال کر اوپر سے ویکس کا ڈھکن لگا کر محفوظ بنا دیا جاتا ہے۔
اب آتا ہے سوال شہد تو نیکٹڑ سے بن گیا پولن کہاں گیا؟
تو جناب جب بچوں کو شہد کھلایا جاتا ہے تو مکھی کو معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اس لیئے شہد کے ساتھ پولن کا سینڈوچ تیار کرکے بچوں کو کھلایا جاتا ہے۔