Monday, August 10, 2020

 


پیر دا کھارا ...تاثرات....

ڈپ شریف میں رستہ بھول کر ایک گھنٹہ خواری کے بعد چشمہ تک تو نہ پہنچ سکے لیکن ایک خوبصورت ٹریک سے متعارف ضرور ہوگئے...کوئی رہنمائی کیلئے بندہ دستیاب نہ ہوا اورموبائل سگنل ختم ہوجانے کی وجہ سے گوگل سے رہنمائی بھی میسر نہ تھی....واپسی پر جب ایک چرواہا نظر آیا اور اس سے رستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ٹریک درست تھا لیکن سفر ابھی مزید کرنا باقی تھا...
لیکن اس دوران مرید خاص ایک نیا روٹ ترتیب دے چکا تھا...جس کے مطابق ہمیں پیر دا کھارا کا چشمہ دیکھنا تھا.. موٹر وے سے للا انٹرچینج سے اتر کر فاصلہ صرف چودہ کلومیٹر کا تھا لیکن ہم نے خوشاب سرگودھا روڈ کی مدد سے نئے علاقوں سے گزر کر پہنچنے کافیصلہ کیا.کٹھہ سگھرال چوک سے للا کی طرف مڑ کر کاکیاں والی سرکار کے مور ، سارس اور دوسرے پرندے دیکھتے، جب پیردا کھارا پہنچے تو سورج غروب ہونے کے قریب تھا..
اس دوران اس جگہ کے بارے کافی معلومات اکھٹی ہوچکی تھی.چشمے کے پانی کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور معجزے سننے کو مل.چکے تھے...کچھ دوستوں نے تو تاکید کی آپ کا عقیدہ اپنی جگہ لیکن وہاں کا پانی ایک بار ضرور پینا ہے..ہر مرض کی شفا موجود ہے اس پانی میں...
وہاں پہنچے تو ایک.میلے کا سماں دیکھنے کو ملا.. پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ پانی حاصل کرنے وہاں پہنچے ہوئے تھے..اور اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ وہاں موجود عارضی دکانوں سے ہورھا تھا جو عموما میلوں وغیرہ میں لگائی جاتی ہیں اور یہاں لگ بھگ سو سے زائد دکانوں کے سٹال مستقل.بنیادوں پر قائم تھے...جس سے وہاں آنے والے زائرین کی تعداد کا اندازہ بھی ہورھا تھا...
چشمے کا پانی دیکھنے پہنچے تو معلوم ہوا چشمہ
کا پانی ایک ٹینک میں جمع ہوتا ہے اور وہاں سے نلکوں کی مدد سے سے لوگ اپنے کین پانی سے بھرتے ہیں..جس چشمے کے بارے معجزے گنوائے جارہے تھے کہ اس کا پانی اج تک خشک نہیں ہوا .. وہاں پہنچ کر معلوم ہوا جس ٹینک میں پانی اکھٹا ہوتا تھا وہ خالی ہوچکا ہے اور اب صبح تک پانی دستیاب نہیں ہوگا...اور لوگوں کا جم غفیر دھائی دے رھا تھا کہ میں ملتان سے آیا ہوں پانی لینے.. تو کوئی ڈی جی خان سے کوئی پنڈی سے کوئی مردان سے...خواتین کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے وہاں تصویر کشی سے پرہیز کیا..
مزار کے ذمہ داران سے بات چیت ہوئی تو ان سے جو معلومات ملیں اس کے مطابق پیر کرم شاہ صاحب اپنے مرشد کی اجازت سے بھیرہ سے اٹھ کر اس جگہ تشریف لائے تھے اور ایک پہاڑی پر قیام کیا تھا جہاں کی زیارت کیلئے اب چیئر لفٹ لگا دی گئی ہے..وہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق یہاں پر موجود چشمے کا پانی پہلے پینے کے قابل.نہیں تھا لیکن پیر صاحب کے قیام کی برکت سے ناصرف میٹھا ہوگیا بلکہ ہر بیماری کی شفا بھی اللہ نے اس پانی میں ڈال دی ہے.. لیکن مزار کے ذمہداران نے اس بات کی مخالفت کی کہ شفا پانی میں نہیں بلکہ پیر صاحب کے دم.میں ہے اور اس کیلئے تعویذ لینا ہوگا......
حقیقت کیا ہے اس بارے کیا کہا جاسکتا ہے....
لیکن شام کے وقت چیئر لفٹ کی مدد سے پہاڑی پر پہنچ کر جب نیچے آبادی پر نظر دوڑائی تو ایک خوابناک منظر موجود تھا.....سالٹ رینج کے آغاز میں واقع وادی کا حسین نظارہ اور دامن میں واقع مزار اور اس کے ارد گرد آباد خوبصورت شہر کا منظر ناقابل فراموش تھا...
میم سین

No comments:

Post a Comment