Monday, August 10, 2020

 وبا کے دنوں میں امید اور حوصلے ایک اور داستان۔۔۔


ہوا کچھ یوں کہ جس جگہ اپنا باغبانی کا شوق پورا کرنا شروع کیا، خواہش پیدا ہوئی کہ وہاں پر قدرتی پرندے بھی چہچہاتے پھریں۔۔۔جس کیلئے دیوار کے ساتھ پرندوں کو گھر بنانے کیلئے مٹی کے کجے جن میں سوراخ ہوتا لٹکا دیئے۔اور روزانہ کی بنیاد پر دانہ اور پانی رکھنا شروع کیا۔۔ پرندے آنا تو شروع ہوگئے۔ لیکن ابھی انسانوں سے خوفزدہ دکھائی دے رہے تھے۔۔

کسی نے مشورہ دیا کہ کبوتر رکھو ۔جہاں کبوتر ہوں وہاں پرندے خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔۔بس پھر کیا تھا قاصد نسل کا ایک جوڑا خرید لیا۔۔یہ جوڑا غالبا حکیم سلیمان کے دوا خانے پر پیغام رسانی کا کام کرتا رھا تھا اس لئےابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ کبوتری امید سے ہوگئی۔اور کبوتروں کی جوڑی میٹرنٹی لیو پر چلی گئی ۔۔۔

اس دوران تتیری کے ایک جوڑے نے بھی بحریہ ٹائوں سمجھ کر جگہ کو اپنی رہائش کے لئے پسند کرلیا اور تتیریوں کے تاجی کھوکر کی مدد سے بندے بھیج کر سٹابری کی ایک ٹوکری پر قبضہ کرلیا۔۔اور ٹوکری میں انڈے دے کر جعلی کاغذات بھی تیار کرلئے۔۔
اور ہم نے ہمدردی کے انسانی جذبے سے مجبور ہوکر ان سب دوستوں سے معذرت کرکے جن کو سٹابری بھیجنے کا لاڑا لگا رکھا تھا علاقے کو قرنطینہ میں تبدیل کردیا ہے۔۔۔۔۔

اور کل شام کبوتروں کے گھر اللہ نے خوشی دے دی۔ایک بچہ نارمل اور دوسرا چھوٹے آپریشن سے دنیا میں آگیا۔۔اور فقہ کبوتریہ کے مطابق آج ان کے عقیقے کی رسم ادا کرتے ہوئے چکن پلائو پکوا کر تقسیم کردیا ہے۔۔

سب دوستوں سے تتیریوں کے حق میں دعا کی درخواست کی جاتی ہے کہ اللہ ان کی گود کو جلد ہرا کرے۔تاکہ سٹابری کی فصل دوبارہ حاصل کرسکیں ۔ورنہ جن کو سٹابری کا لاڑا لگایا ہوا ان میں سے کئی گلو بٹ ہمیں تتیریوں کے کندھے پر بندوق چلانے کے مینے دے چکے ہیں جن سے ان کے عزائم مناسب معلوم نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment