لاہور کی پہلی مغلیہ عمارت ...
کس قدر رومانوی اور پرکشش احساس ہے کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک باغ ہو اور وہاں تک پہنچنے کیلئے دریا کو عبور کرنے کیلئے کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہو...باغ میں خوبصورت عمارت ہو. جہاں پر کھڑے ہوکر آپ نظاروں سے دل بہلاتے ہوں. اور اور دریا سے آتی ہوا آپ سے ٹکراتی، نغمے بجاتی نامعلوم منظر کو روانہ ہوجاتی ہو..
اور یہ سب خواب ناک مناظر دیکھنے کیلئے ایک عمارت جی ٹی روڈ پر لاہور سے نکلنے کے فورا بعد دریائے راوی میں موجود ہے..جس کو کامران کی بارہ دری کہتے ہیں..
بابر بادشاہ کے تین بیٹے تھے..بابر کے مرنے کے بعد سلطنت ہمایوں نے سنبھال لی تو اسکے بھائی کامران مرزا نے بغاوت کرکے لاہور شہر پر قبضہ کرلیا..اور لاہور میں دریائے راوی کے دوسری طرف مغلیہ عہد کی پہلی نشانی ایک بارہ داری کی شکل میں تعمیر کرکے رکھی..
پھر دریائے راوی اپنا رستہ بدلتا گیا اور بارہ دری کے ارد گرد بہتا ہوا دریا اسے ایک جزیرے کی شکل دے گیا....
لاہور سے نکلیں تو راوی کے پل سے گزرتے ہوئے آپکی نظر بے اختیار جزیرہ نما میں موجود اس عمارت پر پڑتی ہے..اس لیئے اس.عمارت کا تعارف لگ بھگ ہر دوسرے بندے کے پاس موجود ہے..
اور گرمیوں کے اختتام پر میں ایک عرصے سے اپنی اس نامکمل ملاقات کو مکمل ملاقات میں بدلنے کیلئے جاپہنچا .اگرچہ شام.ہوچکی تھی لیکن ابھی سورج غروب ہونے میں کچھ وقت باقی تھا.بارہ داری کی لوکیشن اور اس کا وسیع رقبہ ایک بہترین ٹورسٹ سپاٹ ثابت ہوسکتا ہے لیکن کرکٹ کھیلتے نوجوانوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ جگہ بھی ایک کھلے پارک سے زیادہ اہم نہیں سمجھی جاتی ہے..اگرچہ پھولوں کی کیاریاں اور درخت اچھی حالت میں تھے اور صفائی کا بھی مناسب انتظام تھا لیکن اس.قدر اہم تاریخ عمارت کے شایان شان ہر گز نہیں تھا...بارہ دری کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر پتھروں سے بنی ایک عمارت ہے.جس کی دیواروں پر نقش ونگار بنائے گئے ہیں لیکن اس میں کہیں بھی لکڑی کا استعمال نظر نہیں آتا..
جہانگیر بادشاہ کے بیٹے خسرو نے جب بغاوت کی تھی تو اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اسی بارہ دری پر سلائی پھیر کر اندھا کرنے کے بعد گھسیٹ کر لاہور کے قلعے میں قید کیلئے بھیجا گیا اور اس کے تین سو ساتھیوں کو پھانسی پر چڑھانے کے موقع پر جہانگیر نے وہ جملہ بولا جو آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے.
"بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا"
اگرچہ اصل عمارت فواروں سے مزین تالاب اور تالاب کے بیچوں بیچ بارہ دری پر مشتمل تھی لیکن موجودہ عمارت اس سے کافی مختلف ہے..بارہ دری کے ارد گرد وسیع پھلوں کا باغ تھا جو دریا کے رخ بدلنے کے بعد ختم ہوچکا ہے..اب نہ تالاب میں پانی باقی ہے اور نہ فوارے اور ایک پرشکوہ عمارت اپنی اداسی اور.تنہائی کے ساتھ کرکٹ کھیلتے نوجوانوں اور دیواروں پر کوئلے اور چاک سے لکھتے پریمیوں کو دیکھتے وقت گزار رہی ہے...
کشتی میں سوار جب بارہ دری کے پس منظر میں غروب ہوتا سورج اور دریا میں سیر کراتی کشتیاں مجھے فوٹوگرافی کیلئے خوبصورت مناظر فراہم کررہی تھیں لیکن یہ سب تصوریں نامکمل تھیں کیونکہ ان تصاویر میں دریا کا متعفن پانی اور دریا کے کناروں کے ساتھ ساتھ بکھرا لاہور کے شہریوں کا کچڑا ، غلاظت کے ڈھیڑ اور ہوا میں بکھری ایک اذیت کی حد تک پھیلی بدبو کہیں نظر نہیں آرہی تھی..
میم سین
No comments:
Post a Comment