سفرنامہ یوسف خان کمبل پوش۔۔۔۔۔
تہذیبوں کو قومیں جنم دیا کرتی ہیں اور قوم بنتی ہے اپنی ماضی کو اون کرنے سے، اپنی ثقافت رسم و رواج کو اون کرنے سے۔ افراد کو متحرک بنا کر ۔ان کی توانائیوں کو مسلسل استعمال کرکے۔۔۔
ہر تہذیب کا ایک ارتقا ہوتا ہے۔۔اس کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔۔
سترویں صدی کے بعد دنیا کی تہذیبوں نے کروٹ بدلنا شروع کی۔ اور اپنے نئے تقاضے دنیا کے سامنے رکھے۔جن قوموں نے ان تقاضوں کو سمجھ لیا اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا شروع کردیا انہوں نے اپنی بقا کی جنگ کا کامیابی سے دفاع کرلیا ۔۔اور جو ان کو سمجھ نہ سکے وہ دنیا سے ایسے مٹے کہ ان کے نشان بھی باقی نہ رہے۔۔
تہذیبوں کی اس کروٹ اور تبدیلیوں کو مختلف قومیں کس طرح مخاطب تھیں اس کا اندازہ سفرنامہ یوسف خان کمبل پوش میں بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔1847 میں شائع ہونے والے اس سفرنامہ میں لندن اور اس کے گرد و نواح کی عمارات عجائبات اور ثقافت کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس قدر دلچسپ ہے کہ پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈبو دیتی ہے۔
ناصرف لندن بلکہ کچھ دیگر یورپی ممالک، افریقہ کے ساحلی ممالک اورخاص طور ہندوستان کی کچھ ریاستوں کا جو خاکہ کھینچا ہے۔اس سے آنے والے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے اور تبدیلیوں کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔۔۔
چند ماہ پہلے ایک جگہ کتاب کے اقتباس پڑھے تو لگا کہ اس کو جدید اردو میں ڈھالنے کی ضرورت ہے لیکن جب کتاب پڑھنا شروع کی تو قلمی موسیقی کا ایسا مسحور کن احساس ملا کہ اپنے پہلے خیال کو رد کردیا۔۔کتاب نثریہ شاعری کی ایک عمدہ مثال ہے
کتاب میں استعمال ہونے والے شہروں کے پرانے نام اور حوالہ جات کو حواثی میں بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔۔
تاریخ سے دلچسی رکھنے والے افراد کیلئے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے
No comments:
Post a Comment