کلینک سے کتاب تک کتاب سے اہلیانِ کتاب سے اپنا رشتہ کافی پرانا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل اتنا عام نہیں ہوا تھا ۔ اکا دکا لوگ ہی موبائل جیسی نایاب شے سے مستفید ہوتے تھے... تب کتابوں سے رسائل سے دنیا جہاں کے اخبار ہی اپنا آخری ٹھکانہ ہوتا تھا ۔ کسی نے فیس بک کی راہ دکھائی تو دنیا بدل گئی ۔ ہم جو پہلے بچوں کا اسلام خواتین کا اسلام اسلام اخبار امت اخبار مسلمان بچے اور ساتھی جیسی مصروفیات میں سرگرداں ہوتے تھے تب فیس بک کے آنے پر وہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.... آہستہ آہستہ کچھ لوگ ایسے آئے... جنہوں نے فیس بک پر بلاگز اور اردو ویب سائٹس پر لکھا اور کیا خوب لکھا ان کا لکھا ہمارے لیے راہنما بنا.... انہیں لکھنے والوں میں ہمارے ہر دل عزیز ڈاکٹر مبشر سلیم صاحب... کمال کی برجستگی لیے ادبی اصلاحی اور فوائد عامہ پر مشتمل مضامین لکھنا ان کا مشغلہ ہے... ساتھ ہی ساتھ قدرت کے شاہکاروں کو اپنی تصویر نگاری سے لوگوں کے ذوقِ نظر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں... شیخ ابو بکر قدوسی کی پوسٹ پر ان کی کتاب کا ذکر ہوا تو ان سے کتاب طلب کردی... کچھ ہی دنوں میں کتاب میرے گھر پہنچ گئی کتاب پڑھنا شروع کیا تو بس اسی کے ہو کر رہ گئے دو دن میں وقفے سے آدھی سے کتاب پڑھ لی... میں نہیں جانتا کہ لوگوں پر کتاب کیا اثر چھوڑتے ہیں... میں البتہ اس کتاب کو پڑھ کر عمل کی طرف آیا... یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں مشاہدات اور واقعات... ہم سبھی روزانے مشاہدات اور واقعات دیکھتے ہیں لیکن ہمیں نہ ان مشاہدات کو بیان کرنے کا سلیقہ... نہ ان واقعات سے سبق اخذ کرنے کی جستجو... یہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے کہ وہ مختصر جملوں میں وہ سب بیان کردیتے ہیں جو ہم پوری کتاب لکھ کر بھی نہ سمجھا سکیں... دوسرا باب صحت کے متعلق.... ایک بہترین ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے بہترین تدابیر اور مشورے... تیسرا باب مضامین اور انشائیوں پر مشتمل... ہر مضمون گلاب کی مثلا جس کی خوشبو نہ کم ہو... کوئی بھی انشائیہ ایسا نہیں جس پر آپ کو اپنا وقت ضائع اور برباد لگے.... چوتھا باب افسانوں پر مشتمل ہے... آج ہی کتاب کا آخری باب مکمل کیا... جس طرح افسانے انسان کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں مجھے بھی اس کتاب نے حیرانی سے دوچار کیا ہے... مجھے لگا یہ ایسی کہانی ہے جس کا خاتمہ نہیں چاہتا ایسا سفر جس میں منزل کی خواہش نہ ہو ایسا آسمان جس کا کوئی کنارہ نہ ہو ایک عمدہ اور لاجواب کتاب آپ کو ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہیے 2019/12/11 22:53 @[100028997313107:2048:عبدالباسط درویش]
No comments:
Post a Comment