Monday, August 10, 2020

 


مجھے اپنی نظموں کی نوک پلک درست کرنےکیلئے کسی استاد کی ضرورت ہے.ابرار جان.نہائیت سخت گیر پائے گئے ہیں..رعایتی نمبر نہیں دیتے..فرحانہ کاپڑھ کر ہاسا نکل جانا .ایویں رمضان خراب کرنے کا الزام لگا دیں گی.کوئی ایسا استاد جو میری نظموں کو پڑھے بغیر ہی پاس کردے کہ ان کو ضرورت ہی نہیں کسی اصلاح کی..ایسا استاد ،جس کو نظموں کے آفاقی ہونے کا وجدان پہلے سے ہو.....
ستاروں پر بیٹھ کر
شہابیئے ہاتھوں میں تھام کر
میں نشانے ٹھیک تھیک لگائوں
کوئی سورج پاس آکر بولے
ٹھنٍڈ ہے کچھ حرارت درکار ہے
میں اس کو پاس دیکھ کر
ایک پل کو نہ سوچوں
اور پلوٹو کو ستاروں میں شمار کر دوں
کہکشاہیں بے وجہ اداس ہوں تو
میں ان کی آہوں پر کان تک نہ دھروں
کسی دم دار ستارے پر سوار ہوکر
خلائوں کے سفر پر نکل پڑوں
خلائی سٹیشن سے نکلنے والی لہروں کے
پیچ و خم تھام کر
میں کسی بلیک ہول کو اپنے قدموں سے روند دوں
وہ مسکرائے تو میں جواب تک نہ دوں
وہ ہولے سے بولے تو
میں اس کی سسکیوں کو کسی شور میں گم کردوں..
لیکن
لیکن ایسا ہو نہین سکتا.
لیکن.ایسا کیون نہیں ہوسکتا..

No comments:

Post a Comment