ستاروں پر بیٹھ کر
شہابیئے ہاتھوں میں تھام کر
میں نشانے ٹھیک تھیک لگائوں
کوئی سورج پاس آکر بولے
ٹھنٍڈ ہے کچھ حرارت درکار ہے
میں اس کو پاس دیکھ کر
ایک پل کو نہ سوچوں
اور پلوٹو کو ستاروں میں شمار کر دوں
کہکشاہیں بے وجہ اداس ہوں تو
میں ان کی آہوں پر کان تک نہ دھروں
کسی دم دار ستارے پر سوار ہوکر
خلائوں کے سفر پر نکل پڑوں
خلائی سٹیشن سے نکلنے والی لہروں کے
پیچ و خم تھام کر
میں کسی بلیک ہول کو اپنے قدموں سے روند دوں
وہ مسکرائے تو میں جواب تک نہ دوں
وہ ہولے سے بولے تو
میں اس کی سسکیوں کو کسی شور میں گم کردوں..
لیکن
لیکن ایسا ہو نہین سکتا.
لیکن.ایسا کیون نہیں ہوسکتا..
No comments:
Post a Comment