ایک حساس بچے کا کل اثاثہ ایک ایسے اٹیچی کیس میں بند تھا جسے گھر والوں نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا، پیپل کے چند پتے جو اس نے جاڑے کے دنوں میں کسی ویران ریلوے اسٹیشن سے اٹھائے، اس آنجہانی نیل کنٹھ کے دو پر جسے وہ زخمی حالت میں کہیں سے اٹھا لایا تھا ، ایک ننھا سا پودا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیر کر نکل آیا تھا یا پھر اس پالتو بھنورے کا حنوط شدہ جسم جو جیم کی خالی بوتل میں رکھا گیا تھا۔ ان الم غلم چیزوں کی وقعت ہی کیا تھی ؟ لیکن ان سب اشیاء کے ساتھ کسی نہ کسی بیش قیمت یاد کی ڈور بندھی تھی۔
یہی حساس بچہ جب عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اپنے مشاہدات کو ماضی ، مطالعے اور سفر کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور ان حاصل شدہ اسباق کو پیش نظر بھی رکھتا ہے۔
ڈاکٹر مبشر سلیم کی کتاب “کلینک سے کتاب تک” ابھی کچھ دیر پہلے تک زیر مطالعہ تھی۔ مجھے اپنی کم علمی اور بدذوقی کا اقرار کرتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سکہ بند اساتذہ کی تحریریں اپنے زبان وبیان اور معانی کے گاڑھے پن کی وجہ سے اکثر میرے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ جیسے موسیقی ہم میں سے اکثر کے دلوں کے تار چھیڑتی ہے لیکن کسی استاد کا پکا راگ لطف تو کیا دے الٹا طبیعت پر بوجھل محسوس ہونے لگتا ہے۔ مبشر سلیم چونکہ طبیب بھی ہیں تو اس عمومی روئیے سے آگاہی ہی کتاب کا اسلوب اسقدر سادہ رکھنے کا محرک رہی ہے
کتاب مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جن کے موضوعات ہماری روزمرہ زندگی کے متعلق ہی ہیں کہ قاری خود کو ان میں مکمل طور پر ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ سادہ پیرائے میں گہری بات کہنے کو الفاظ اور قلم پر جو قدرت درکار ہے مبشر سلیم کے ہاں اس کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ جہاں کلینک میں پیش آنے والے روزمرہ کے واقعات ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں وہیں ایک کباڑی کی دکان پر شعور کا المیہ نامکمل خوابوں کی شکل میں راستہ روکے بھی کھڑا ملتا ہے۔
دین و مذہب سے لے کر معاشرتی رویوں تک ہمارے دوہرے معیار پر ایک ہلکے طنز کے ساتھ ساتھ صراط مستقیم اختیار کرنے کی تلقین بھی ہے۔ جہاں ان کی ڈائری کے اوراق میں ملک و ملت سے محبت دمکتی دکھائی دیتی ہے وہیں ڈارون کے پاکستان میں ایک مثبت تنقیدی پہلو بھی موجود ہے۔
خیالات کی روانی اور اسلوب کی سادگی کے پیچھے ایک حساس آنکھ کا مشاہدہ ہے۔ اس سے مبشر سلیم نے مناظر تخلیق کئے ہیں انہیں سبق آموز ہرگز نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ مناظر قاری کو اپنی سوچ کے زاوئے بدل کر پھر سے دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ شیریں کے دوسرے خط کے جواب میں، “مغرب کی ترقی کا راز” اور “ہم اور محبت کے فلسفے” میں اس کا واضح اظہار نظر آتا ہے۔
مبشر سلیم پرفیکشنسٹ نہیں ہیں لیکن زندگی کے رنگوں سے لطف کشید کرنا جانتے ہیں ۔ پروگریسیو ذہن رکھتے ہیں لیکن اپنے ماضی و حال سے محبت کا جو اظہار ان کے افسانوں میں ملتا ہے وہ واقعی چشم بینا کا بنایا ہوا ایک معصوم سا عکس ہے اور “کلینک سے کتاب تک” ایسے ہی معصوم دلوں کے تار چھیڑنے کی ایک شاندار کاوش ہے
شہباز ملک
No comments:
Post a Comment