اور میں آج تک پھر بھی نہیں جان سکا کہ استقامت کی روشنی کیونکر لغزش کی تاریکی میں کھو جاتی ہے
انسان میں نیکی اور محبت کی تلقین عام ہے لیکن عملی طور پر انسانی رویہ مختلف ہے۔اور نصیحت اور عمل کا یہی تضاد ہمہ گیر مذہبی سچائی کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔جب مذہب مشکوک ٹھہرا تو تو پھر ذاتی آدرشوں کو زندگی کا عرفان ٹھہرایا جانے لگتا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کے معیار بدلنے لگتے ہیں ۔وراثت میں ملی نیکیوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔ پھر فرقے جنم لیتے ہیں۔ ہر فرقہ زندگی کو اپنے وجدان، اپنے عرفان سے پڑکھنے لگتا ہے۔۔۔۔۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد علم سے انسان کے اندر کا درندہ مر جاتا ہے ۔ لیکن نہیں... وہ زیادہ مہلک ہورھا ہے۔لوگ کہتے ہیں ہمارا شعور بدل گیا ہے۔ ہمارا شعور ،ہمارا ادراک زمین کے سطح سے اٹھ کر آسمان پر کمانیں ڈال رھا ہے ۔ لیکن وہ جو طاقت کا طلسم تھا وہ تو اب بھی موجود ہے۔ وہ جو خدا بننے کی آرزو تھی وہ تو اب بھی موجود ہے۔تمکنت شاہی جن اصولوں کو وضع کر دیں ان پر کٹ مرنے کیلئے شاہ کے جنبش ابرو کے اشارے کے منتظر لوگ تو اب بھی موجود ہیں۔
لوگ کہتے ہیں ہم تہذیب کے سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔لیکن وہ اجڈ اور وحشی دور اچھے تھے کہ اجتماعی قتل کے قائل تھے تاکہ کوئی آنسو بہانے والا نہ رہے ۔۔۔جن المیوں کی تاریخ فرعون نے مرتب کی۔ جن جبر کے دنوں کو بخت نصر نے مرتب کیا، جن نوحوں کو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے لکھنے پر مجبور کیا جن سانحوں کو تیمور لنگ اور نادر شاہ نے جنم دیا ان میں اور آج کے المیوں میں کیا فرق ہے ؟
ہم شائد جبر کو قبول اس لئے کرتے ہیں کیونکہ جبر کرنے کی خود ہم میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ ۔۔۔
ہم جبر قبول کرلیتے ہیں کیونکہ ہمیں جبر کرنے کیلئے کسی ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
ہم جبر قبول کرلیتے ہیں کیونکہ ہمیں ہلاک ہونے والے یا شہید ہونے والے کسی ایک گروہ کا ساتھ نبھانا ہوتا ہے۔
اوریہی جبر کا ساتھ ہمارا اصل المیہ ہے اور جب تک یہ المیہ موجود ہے ۔انسانیت کا لہو بکھرتا رہے گا۔ اور ہم شہید اور ہلاک ہونے والوں کے درمیان حساب کتاب میں لگے رہیں گے۔ تاریخ اپنے اوراق سیاہ کرتی رہے گی۔
کیونکہ یہ مسئلہ نہ مذہبی ہے، نہ سیاسی۔ یہ مسئلہ ہماری اجتمائی بے حسی اور خاموشی کا ہے۔ آفاقی عرفان کی بجائے ذاتی آدرشوں کی پیروی کا ہے۔۔۔
میم سین
No comments:
Post a Comment