کچھ عرصہ پہلے میں نے رنگوں، لمحوں اور چاند پر لکھا تھا۔اب جی چاہتا ہے کہ احساسات پر لکھوں۔
اور انکا محرک بننے والے عوامل پر۔۔۔
ابھی بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔
بادلوں پر روشنی پر، شبنم پر، راستوں اور یادوں پر۔۔۔
میں مسافروں پر بھی لکھنا چاہتا ہوں۔
میں کچھ آفاقی لکھنا چاہتا ہوں۔ جو ابدی ہو۔۔۔ میرے بعد بھی اپنے معنوں میں زندہ رہے۔
جیسے آسمان پر نیلگوں ستارے کو دیکھ کر پیدا ہونے والی کیفیت ہمشہ زندہ رہتی ہے۔ جیسے بہتے پانی کی گنگناہت ابدی ہوتی ہے۔ جیسے بچے کے قہقہوں میں زندگی کی بازگشت ہمیشہ سے سنائی دیتی آرہی ہے۔
میں زندگی کے حقائق سے گریزاں نہیں ہوں۔ لیکن مجھے خواب اچھے لگتے ہیں۔ کہ انہی سے مجھے جینے کی تحریک ملتی ہے۔
میں کتابوں میں بسیرا کرتا ہوں۔
اور اپنا یوٹوپیا بھی تخلیق کرتا رہتا ہوں۔
میں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں جو کل تھا وہ آج نہیں ہوں اور جو کل آئے گا وہ میرا آج بھی نہیں ہوگا۔ یہ فرار نہیں ہے یہ خود فریبی بھی نہیں ہے۔
یہ تغیر ہے، خود آگہی ہے۔ اور خود آگہی فطری ہوا کرتی ہے۔ یہ زندگی کا حاصل ہوا کرتی ہے۔ زندگی کا حاصل کبھی تلخ نہیں ہوتا۔ یہ ہماری سوچ، ہمارے سماج کا قصور ہے جو ہمیں ارتقا کو قبول کرنے سے روکتا ہے۔
میں آج جن باتوں کو اٹل سمجھ رھا ہوں، ہوسکتا ہے کل وہ میرے لیے اپنے معنی کھو دیں۔ میں جس فلسفے کا آج داعی ہوں،کل اسی کو رد کر دوں۔۔۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میں خوشی اور غم کو محسوس کرنے کی صلاحیت کو سلا دوں ۔ یا پھر علم کیلئے اپنی پیاس کو بجھا دوں۔
میں اپنے ذہنی ارتقا اور خود آگہی کے سفر کی داستان لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
اور وہ سب کچھ جو میں سوچتا ہوں، لفظوں میں ڈھال دینا چاہتا ہوں۔ میری گزشتہ تحریریں میرا سرمایہ ہیں۔ لیکن میں بہتر سے بہترین لکھنا چاہتا ہوں۔
کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کتنا ہی قیمتی نظریہ کیوں نہ ہو اس کو تجدید کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئے شعور سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آسمان زمین کے ساتھ مل کر محدودیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میرا لکھا کسی محدودیت کا شکار ہو۔ میں چایتا ہوں کہ جو بھی لکھوں وہ محبت کی طرح لامحدود ہو۔ جس کا کوئی افق نہ ہو جو لامحدود ہو اور بے کنار۔
وہ روشنی کی طرح اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے۔ اور دوسروں کی راہ روشن کردے۔
میرے ذہن کے افق پر ہمیشہ خیالات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ انہی بادلوں سے میرے دل میں احساسات و جذبات کی گہری موجیں ایسے موجزن ہوتی ہیں کہ وہ میرے قلم کو مجبور کرتی ہیں کہ ان کو تحریر کی شکل دوں۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میرے خیالات کسی گھوڑے کی طرح سبک رفتار ہوتے ہیں ۔لیکن کسی ڈھلوان سے سنگلاخ اور تنگ راستوں کو عبور کرکے کسی ہموار میدان تک پہنچنے کی کوشش میں ہلکان ہورہے ہوتے ہیں۔۔۔
میرا ذہن ایک آسمان کی مانند ہے۔ جس پر بکھرے ستارے میرے لیئے چھوٹے چھوٹے استعارے ہیں۔
کوئی ستارہ میرے یوٹوپیا کا ترجمان ہے۔
ایک لمبا چوڑا سرسبز میدان جس کے چاروں طرف کھڑے پہاڑ، پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیاں، میدان میں بچھا دسترخوان جہاں سب مل کر بیٹھتے ہیں۔ سب ایک پلیٹ میں کھاتے ہیں سب ایک جیسا کھاتے ہیں ۔
کوئی ستارہ مجھے پہاڑی داستان سناتا ہے جو اختراعی قوت سے بھرپور ہوتی ہیں۔جس کی زبان میں روانی اور برجستگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ ایک عالمانہ وقار سے مالا مال ایک پاکیزہ زبان ۔۔
کسی ستارے میں مجھے وہ نظمین سنائی دیتی ہیں جن میں روانی ہے جن کے تخیل میں ندرت ہے۔ جن میں تخلیات اور تاثرات کا اظہار ہے۔ جن کے اندر دھڑکتا ہوا دل سنائی دیتا ہے۔
کسی ستارے میں میرا کینوس کھڑا ہے جس میں میرے جذبات اور کیفیات رنگوں کے قالب میں ڈھل رہے ہیں۔رنگوں سے تصویریں بناتا ہوں جن کی مدد سے میں اس دن کی تلاش کرتا ہوں جس دن میں اپنی ذات کا عرفان پاؤں گا۔۔
کچھ ستاروں میں جدائی کا احساس سایہ بن کر ساتھ رہتا ہے۔ میں آوارہ گردی میں پہاڑ کی کسی ڈھلوان پر کوئی گائوں آباد کرتا ہوں یا پھر کسی پہاڑی چشمے کے کنارے کھڑے ہوکر کسی ساز کی آواز سے خود کو بہلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن پس منظر میں کھڑے پہاڑ اداس اور بے جان نظر آتے ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹیاں کسی کہر میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔لیکن اداسی کا یہ ساتھ مجھ جی جان سے عزیز ہے۔ یہ مجھے آسمان پر کسی پرندے کی طرح اڑان بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
کبھی میں سوچتا ہوں اگر میں اپنا تخیل چھوڑ دوں۔ اپنے احساسات اور محسوسات کو خود سے الگ کردوں تو زندگی میرے لئے بے معنی ہوجائے گی۔
سمندر کا تصور پانی کے ایک ذخیرے میں بدل جائے گا۔ چاند محض اجسام فلکی کا نمائندہ بن جائے گا۔ میرا اجنبی دنیا کا سفر ایک جغرافیائی حقیقت میں بن کر رہ جاۓ گا۔ دل کی دھڑکن محض جسم کی ضرورت ٹھہرے گی۔۔
میں سوچتا ہوں میرے پاس میرا تخیل نہ ہوتو خلش اور کسک کی دلفریب کیفئت کو کیسے محسوس کرتا؟ آرزئوں اور تمنائوں کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ امنگوں کی کیفیت ، جستجو کی کیفیت، وہ انتظار کی کیفیت، تلاش کی کیفیت ، وہ جو پرچھایاں بن کر ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی کیفیتیں ہیں۔ وہ میری روح سے کیسے ہمکلام ہوپاتیں؟
میرے تصورات میری روح ہیں۔ جو میری سانسوں کی طرح مجھ میں رواں دواں ہیں۔ میرے دل، میری آنکھوں اور میرے ہاتھوں کی طرح میرے تصورات بھی میرے وجود کا حصہ ہیں۔ میرے افکار میری بصارت کا نور ہیں۔ میں جانتا ہوں فہم اور جذبات کی انتہا اپنی جگہ مضر ہے لیکن میرے تصورات مجھے اعتدال کی راہ پر ڈالتے ہیں۔ میرے خواب میرے بدن میں وہ زندگی پھونکتے ہے جس میں رعنائی خیال ہے۔ جو مجھے وہ خود اعتمادی دیتے ہیں جس سے مجھے ساری کائنات کو للکارنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں زندگی بہت محدود ہے۔ اور اسکا سرمایہ بس خواب ہیں اورخوبصورت تصورات ایک سہارا ہیں۔ جو ہمیں لامحدود بنا دیتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہم وقت کی قید میں ہیں۔ لیکن ہمارے تصورات ان سے آزاد ہیں ۔ وہ کسی روشنی کی طرح اندھیروں میں رستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وقت کی قید سے چھڑا کر ہمیں زمانوں سے نکال دیتے ہیں ۔۔
خواب دیکھتے رہیں۔ اور اپنے تصورات کی نازک آبگینوں کی طرح حفاظت کرتے رہیں۔ اور ان کو لوگوں میں بانٹتے رہیں
اگر یہ سب کرتے رہیں گے تو سمجھ لیں آپ تاقیامت زندہ رہیں گے۔
میم سین
No comments:
Post a Comment