بچے کی پیدائش کے بعد اس کا پہلا حق ماں کا دودھ ہے۔ اور اسے اس حق سے محروم نہ کریں۔ اور بچے کو چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلائیں۔۔
قدرت نے دودھ بنانے کے عمل کیلئے ماں کے اندر ایک بہت ایڈوانس اور بہت سوفیسٹیکیٹڈ یونٹ لگا رکھا ہوتا ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر کنٹرول کیا جارھا ہوتا ہے...
دودھ کے اجزا بچے کی عمر اور اس کی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں...ابتدائی دنوں کا دودھ اور ایک مہینے کے بعد کے دودھ کے اجزا کے تناسب میں فرق دیکھا جاسکتا ہے..اسی طرح پہلے چند ماہ اور بعد کے مہینوں کے دودھ کی کیمسٹری مختلف ہوتی ہے....
ماں کی غذا اور بچے کے پیٹ کے مسائل کے درمیان تعلق جوڑنے سے پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ اپنی اصل شکل میں خون میں داخل نہیں ہوسکتی..
ہم.جو بھی غذا کھاتے ہیں وہ کچھ بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے.جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹس ، چکنائی، وٹامنز اور نمکیات...
ہم گوشت کھائیں سبزی نوڈلز فاسٹ فوڈ، دودھ پیئیں یا کولڈ ڈرنک۔ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں. ان.سب کے بنیادی اجزا یہی ہوتے ہیں..کہیں نمکیات زیادہ کہیں پروٹین کہیں کاربوہائیڈریٹس۔کسی میں چکنائی زیادہ...
جب ہم کوئ غذا کھاتے ہیں تو وہ خون میں اس وقت تک جذب نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے بنیادی اجزا میں تقسیم.نہ ہوجائیں...
جیسے پروٹین امائینو.ایسڈز میں.... کاربوہائیڈریٹس مخلتف قسم.کی شوگر میں ...چکنائی، فیٹی ایسڈز میں ۔۔ایسے ہی خوراک میں پائے جانے والے نمکیات اور وٹامنز الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ ...
انتڑیوں سے خون میں جذب ہونے کے بعد غذا کے درمیان یہ تفریق ختم ہوجاتی ہے کہ کیا کھایا گیا تھا...
جسم کے اندر اب ہم جو بھی غذا کھاتے ہیں۔ وہ امائینو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، گلوکوز، نمکیات اور وٹامنز کی شکل میں جسم کے مختلف حصوں میں سٹور کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد دودھ کے بننے کا عمل ان ہی بنیادی اجزا سے بچے کی ضروت کے حساب سے تکمیل پاتا ہے...
اس لیئے یہ کہنا کہ ماں کے کچھ مخصوص کھانے سے بچے کے پیٹ پر کچھ اثر ڈل سکتا ہے تکنیکی لحاظ سے ممکن نہیں ہے..
میرے مشاہدے کے مطابق بچے کی ہیدائش کے پعد مائوں کو بچوں کے حوالے سے جتنے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق صرف اس حقیقت سے ہے کہ مائوں سے بچہ روتا ہوا دیکھا نہیں جاتا۔ اس وجہ سے ان کی ساری توجہ بچے کو چپ کروانے پر صرف ہوجاتی ہیں۔ اور اس ایک مسئلے کو حل کرتے کرتے وہ بے شمار مسائل خود پیدا کرلیتی ہیں۔۔
جیسے بچے کو چپ کرانے کیلئے گود میں اٹھائے رکھنا اور اس کو ہاتھوں کا جھولا دیتے رہنا۔ جس کی وجہ سے ایک تو بچے کی ہوا خارج نہیں ہوپاتی اور دوسرا اس کی وجہ سے اس کے پیٹ میں درد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اس پر نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ بچہ بھوکا ہے اس کو بلا ضرورت دودھ پلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور بار بار دودھ پلانے سے بچے کے پیٹ کا درد پہلے سے بڑھ جاتا ہے اور ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ بچے نے اب منہ کے راستے دودھ نکالنا بھی شروع کر دیا ہے۔
جس کے بعد یا تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماں کے دودھ میں کچھ مسئلہ ہے یا پھر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ کم ہے اس لیئے فیڈر والا دودھ شروع کر دیا جاتا ہے۔
اور ایک بار فیڈر کا استعمال شروع کر دیا جائے تو اس کے بعد فیڈر کے مسائل ،فیڈر کی صفائی کے مسائل ، مزید مسائل پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔۔
ایک بات یاد رکھیں بچے کو جتنا فطرت کے قریب رکھیں گے اتنے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسلئےچھ ماہ تک بچے کو دودھ پلانے کے علاوہ ہاتھوں میں نہ اٹھانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔۔
دودھ پلا کر کندھے سے لگا کر ڈکار دلوائیں اور سلانے کیلئے بستر کا استعمال کریں۔ بچوں کے پنگوڑے مل جاتے یا پھر چارپائی کے ساتھ کپڑا باندھ کر جھولا بنا کر اسے بستر کی شکل دے لیں۔ لیکن گود میں یا پیٹ پرمت سلائیں
ایک صحت مند نارمل بچے کا مناسب رونا اس کیلئے اچھی صحت اور تندرستی کا سبب بنتا ہے۔یہ ایک اچھی ورزش فراہم کرتا ہے۔ اس لیئے بچے کو ہمیشہ کچھ دیر رونے کا موقع دیں۔ اسے چپ کرانے کی کوشش نہ کریں ۔ بچہ رونے سے اپنی پیٹ کی ہوا خارج کرتا ہے، اپنا دودھ ہضم کرتا ہے، اپنا ناک کھولتا ہے۔ جب بچہ روتے ہوئے اپنا جسم کو بستر پرحرکت دیتا ہے تو وہ سر جس کیلئے مائیں بہت جتن کرتی ہیں وہ خودبخود گول بنتا ہے۔ اس لئے مناسب رونا بچے کی اچھی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے
اکثر گھروں میں بچے کی پیدائش کے بعد مائوں کو گھر کا کوئی کام کرنے نہیں دیا جاتا ہے یا پھر مائیں ہی بچے کی نگہداشت کو مسئلہ فیثا غورث بنا کر خود کو بچے سے دور کرنے پر راضی نہیں ہوتی ہیں۔
اور ماں کی بچے کے ساتھ ہر وقت موجودگی سوائے ماں کے اندر وہم ڈالنے کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔۔ایک آنکھ چھوٹی ہے۔ معدے والی جگہ پر کوئی رسولی ہے، سر بڑا ہورھا ہے۔ ٹانگیں ٹیڑھی ہیں۔
یا پھر بچے کو وقت سے پہلے ٹریننگ دینے میں لگی رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کے اندر وہ دلچسپیاں جو ساتویں آتھویں مہینے میں پیدا ہونی چاہیئے تھیں وہ تیسرے مہینے پیدا ہوجاتی ہیں۔ جیسے بچے کا آپ سے باتیں کرنے کی کوشش کرنا، اسکا جواب دینا، چیزوں پر نظر کا ٹکانا۔بیٹھنا سیکھ جانا۔ ٹانگوں پر وزن ڈالنا اور اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی نیند کے خلاف لڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی نیند کے وہ اوقات جو اس کی اچھی صحت کیلئے بہت ضروری ہوتے ہیں، پورے نہیں کرتا ہے۔۔
اب ایک طرف تو بچے کے ساتھ ظلم کررہے اور دوسری طرف مائیں دوسری مائوں کو یہ بتا کر کمپلکس میں ڈال رہی ہوتی ہیں کہ ان کا بچہ بہت ذہین ہے حالانکہ اس بچے کے ساتھ زیادتی ہورہی ہوتی ہے۔ جس کو میں اس مثال سے واضح کرتا ہوں کہ پانچویں جماعت کے بچے کو آٹھویں کا امتحان دلوانا بچے کے ساتھ ہمدردی نہیں زیادتی ہے۔۔
اگر آپ اپنے بچے کی نشونما کے حوالے سے کچھ تحفظات کا شکار ہیں تو ان باتوں کو اپنے پلو سے باندھ لیں
چھ ماہ تک کیلئےبچے کو گود سے نکال دیں۔صرف دودھ ہلانے کیلئے گود میں اٹھائیں۔
بچہ جب دودھ مانگے تو اس کو مناسب رونے کا موقع دیں۔ بار بار دودھ مت پلائیں۔ تاکہ جب وہ دودھ پیئے تو ایک بار پیٹ بھر کر پی لے۔۔ اور ایک بار پیٹ بھر کر دودھ پی لیا تو بچے کا جاگنے کا دورانیہ بھی مناسب بن جائے گا اور بچہ تنگ بھی نہیں کرے گا۔۔
جب بچے کا دو سے اڑھائی گھنٹے کا فیڈ کا دورانیہ بن گیا تو ماں کی بچے کے سرہانے بیٹھنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔ اور اسے اپنے گھر کے کام کاج پر توجہ دینی چاییے۔۔ اور جس دن بچہ چلنا شروع کر دے اس وقت گھر کے کام بے شک چھوڑ دے۔ کیونکہ اب بچے کے سیکھنے کی عمر شروع ہوچکی۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
بچے کو گود میں پکڑ کر پیار کرنے کیلئے اس کی ساری عمر باقی ہے ،اور نہ ہی اپنے لاڈ پیار کیلئے بچے کی نیند خراب کریں۔۔۔
پیدائش کے پہلے مہینے بچے دن کو سویا کرتے ہیں اور رات کو جاگتے ہیں۔ ان کے اس معمول کو قبول کرتے ہوئے اپنے معمول اس کے مطابق بنائیں۔ اور اس میں تبدیلی اس وقت لانا شروع کریں جب آپکو بچہ اچھی طرح سنبھالنا آجائے۔۔۔۔
ایسے ہی اکثر بچے شور میں سونا پسند کرتے ہیں لیکن بالکل خاموشی میں بیدار ہوکر تنگ کرتے ہیں۔ اس عادت کو ضرور نوٹ کرکے رکھیں ۔۔۔
بچے کی نشو نما کے حوالے سے حد سے زیادہ کوتاہی اور حد سے زیادہ فکرمندی دونوں بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
ایک ضروری بات:
دن بدن بچوں کو ڈبے کے دودھ پر منتقل کرنے کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اور وجویات مائوں کی لاعلمی سے زیادہ سوشل اشوز ہیں۔
مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا ہی نہیں چاہتی ہیں...
ماں بچے کو روتا نہیں دیکھ سکتی..اس لیئے ہر رونے کا مطلب بھوک لگی ہے..نتیجہ یہ نکالا جاتا کہ دودھ چونکہ کم ہے اس لیئے فیڈر شروع کر دیا جائے..۔
ماں کا دودھ خراب ہے..وجہ موشن لگ جاتے ہیں یا دودھ نکالتا ہے۔۔
فیڈر ضروری ہے..کیونکہ بڑے بچے نے بڑے ہوکر فیڈر نہیں پیا تھا..
ماں جاب پر جاتی ہے..
ماں کے پاس فون، فیس بک، وٹس اپ سے فرصت نہیں..سو فیڈر دینا آسان کام..۔
فیڈر شروع کرکے گھر کے دوسرے افراد کو بھی مصروف رکھنا..۔
باپ کی جیب ہلکی کرنا...
سسرال والوں کو تنگ کرنا..اپنی ویلیو بنانا.....
چونکہ جٹھانی درانی کے بچے فیڈر پر اس لیئے ہمیں بھی پلانا ضروری..
چونکہ پہلا بچہ فیڈر پر پلا..اس لیئے فیڈر ضروری...
فیڈر والے بچے صحت مند ہوتے...گورے چٹے.....
آجکل بچوں کو فیڈر پر منتقل کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فیڈر کے ساتھ مائوں کی ذمہداری کم ہوجاتی ہے..گھر کا کوئی بھی فرد بچے کو دودھ پلا سکتا ہے ۔۔
اس سلسلے میں میرا دو ٹوک موقف ہے کہ جس ماں کا دودھ کم ہے یا دوھ خراب ہے تو اللہ اس ماں کو بچہ ہی نہیں دیتا۔ اس لیئے بچے کو ماں کا دودھ نہ پلا سکنے کی نناوے فیصد ذمہداری ماں اور اس کی فیملی کے اوپر ہے۔ صرف ایک فیصد مائوں کو حقیقی مسئلہ ہوتا ہے۔
اس لیئےاپنے سوشل مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے بچے سے اسکا پہلا حق نہ چھینیں۔ جس بچے کو آپ نے چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلا دیا تو سمجھ لیں آپ نے ساری عمر کیلئے اسے ڈاکٹروں سے محفوظ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر مبشر سلیم
No comments:
Post a Comment