ایک دن گردوارہ سری دربار صاحب کرتارپور میں ...
جالندرھر سے آئے ایک سردار جی سے جب پوچھا کہ کرتاپور آکر آپکو کیسا لگا؟
تو ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اوراپنے مخصوص انداز اور پنجابی میں الٹا سوال کرڈالا...
اگر آپ کو بیت المقدس جانے کی اجازت مل جائے اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا موقع ملے تو کیسا لگے گا؟
دیکھیں! جیسے مکہ شہر آپ کیلئے اہمیت رکھتا ہے ویسے ہی ننکانہ صاحب ہمارے لیئے اہم ہے اور جتنا مقدس آپکا شہر مدینہ ہے اتنا ہی ہمارے لیئے کرتارپور...ہم.نے اہنے بزرگوں کو سرحد کے اس پار ڈیڑہ گورونانک صاحب میں قائم مچان سے دوربین سے کرتاپور پر نظریں دوڑا کر آنسوئوں سے اپنی داڑھیوں کو بھگوتے دیکھا ہے..ہم تو وہ خوش قسمت نسل ہیں جو آج یہاں خود موجود ہے...
کرتار پور کا مطلب ہوتا ہے خدا کی بستی..سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے اہنے آخری ایام ادھر ہی گزارے تھے اور کرتاپور کی بنیاد رکھی تھی...
بابا جی کے عقیدت مندوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے . جب ان کا انتقال ہوا تو مسلمانوں اور ہندوئوں میں ان کو دفنانے یا جلانے کے معاملے میں جھگڑا ہوگیا..جس پر طے یہ پایا کہ رات کو پھول ان کی چادر پر ڈال دیئے جائیں اور جن کے پھول صبح تک تازہ رہے اس کے مطابق رسم ادا کردی جائے..صبح جب چادر کو اٹھایا گیا تو نعش غائب تھی .جس پر مسلمانوں نے اہنے حصے کے پھول اور چادر دفنا کر قبر بنادی اور ہندوئوں نے جلا کر اسکی سمادھی ...
انیس سو اکیس میں پٹیالہ کے مہاراجہ نے یہاں گردوارے کی موجودہ عمارت تعمیر کروائی تھی اور موجودہ حکومت نے اس کے ارد گرد اب پورا کمپلکس بنادیا ہے.یقینا اس سے پہلے بھی یہاں کوئی عمارت ہوگی لیکن اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے..
بھارت سے روزانہ صبح نو.بجے سے لیکر شام چار بجے تک سکھ یاتری بغیر ویزہ آسکتے ہیں..اس کیلئے یاتری پہلے بھارتی بارڈر پر پہنچتے ہیں وہاں سے لگ بھگ دو سو میٹر کا بفر زون پیدل یا پھر رکشوں میں طے کرکے پاکستانی بارڈر تک پہنچتے ہیں...جہاں سے شٹل سروس کے ذریئے ان کو کرتار پور پہنچایا جاتا ہے...یاتریوں کہ تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے...ہزار بارہ سو سے چار سے پانچ ہزار روزانہ کی بنیاد پر آرہے ہیں...اگر کرتاپور میں قیام کرنا ہوتو اس کیلئے ویزہ ہونا ضروری ہے..مہمان خانے موجود ہیں. زیادہ تر کینیڈا اور دوسرے ممالک سے آنے والے یاتری قیام کرتے ہیں..لیکن بھارت سے روزانہ کی بنیاد پر آجارہے ہیں....
کرتاپور پاکستانیوں کیلئے بھی ایک بہترین سیاحتی دلچسپی کی جگہ میں بدل چکا ہے..ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ وہاں کی سیر کیلئے جارہے ہیں..
گردوارہ کرتاپور میں سیکورٹی کا نظام بہت سخت ہے. تین مقامات پر انفرادی اور گاڑی کی چیکنگ کے بعد آپ پارکنگ میں پہنچتے ہیں.وہاں سے دو سو روپے کا ٹکٹ خریدنا ہوتا ہے..جس میں طالب علموں یا بچوں کی کوئی رعائیت حاصل نہیں..
ٹکٹ خرید کر ایک بار پھر سیکورٹی سکینر سے گزرنا پڑتا ہے..جہاں پر سگریٹ لائیٹر ماچس نسوار وغیرہ آگے لیجانے کی اجازت نہیں...سکینر سے نکل کر ایک کھلی جگہ پہنچ کر شٹل سروس کی مدد سے آپ کمپلکس کے قریب پہنچ جاتے ہیں..جہان پر ایک بار پھر انتظار کی گھڑیاں طے کرکے شناختی کارڈ اور فنگرپرنٹ ویریفیکشن کے بعد آپکو ایک کارڈ گلے میں پہننے کیلئے دے دیا جاتا ہے..جس میں اپکی شناختی معلومات فیڈ ہوتی ہے جسے واپسی پر کنفرم کرکے اپکو وہاں سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے...
کارڈ پہن کر ایک بار پھر لائن میں لگ جاتے ہیں اور اپنے جوتے جمع کروا کر ان سے رسید حاصل کرکے کمپلکس کے اندرداخل ہوجاتے ہیں..جہاں ہر پاکستان اور بھارت سے آئے یاتریوں کے درمیاں تفرہق ختم ہوجاتی ہے اور اپ ان سے گپ شپ لگا سکتے ہیں ان کے ساتھ تصویریں بنوا سکتے ہیں..
کمپلکس کے درمیان گردوارہ کی عمارت ہے جس میں بابا گرونانک کی سمادھی ہے. جس کے ساتھ ان سے منسوب کنواں اور رہٹ موجود ہے..گردوارے کے داخلی دروازے کے ساتھ وہ قبر موجود ہے جس میں مسلمانوں نے پھول اور اپنے حصے کی چادر دفنائی تھی....ایک بم بھی رکھا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انڈین فضائیہ کی جانب سے انیس سو اکہتر میں مزار پر پھینکا گیا تھا لیکن پھٹ نہیں سکا تھا..
کمپلکس کے بائیں جانب لنگڑ خانہ اور کرتاپور کے حوالے سے آرٹ میوزیم موجود ہے..
کمپلکس کے سامنے والے حصے میں عبادت گاہ موجود ہے اور اسی جانب مہمان خانے بنے ہوئے ہیں..
دائیں جانب ایک جہازی سائز کی کرپان جس پر کرتاپور رایداری کے افتتاح کے حوالے سے پاکستانی وزیراعظم کا نام درج ہے...اس جگہ بنچ لگے ہوئے ہیں اس لیئے زیادہ تر جمگھٹا اسی طرف لگتا ہے جہاں بیٹھ کر سکھ یاتری اور پاکستانی تبادلہ خیال کرتے ہیں..
اس سے آگے والی عمارت میں عورتوں اور مردوں کے الگ الگ تالاب موجود ہیں جن مین بابا گورونانک سے منسوب کنوائیں کا پانی پہنچایا گیا ہے اور سکھ یارتری اس میں اشنان کرکے خود کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں...
چند گھنٹے گروارہ کرتاپور صاحب میں گزارنے کے بعد جو چیز. مین نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ کرتارپور کوریڈور ڈپلومیسی کی بہترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے...جس طرح بھارت کے اندر پاکستان کے بارے ایک معتدل سوچ پیدا کی جارہی ہے اس سے بہتر طریقہ استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے..زائرین کی عقیدت اور پاکستانیوں کا والہانہ پن انتہا پر نظر آتا ہے..سکھوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانے والوں اور ان کے ساتھ تصویرین بناتے فون نمبر ایکسینج کرتے لوگوں کے جگہ جگہ گروہ دیکھ کراور پاکستانیوں کے بارے جتنی محبت خلوص اور والہانہ پن سکھوں کی بات چیت میں ملتا ہے. اس سے اندازہ ہورھا ہے کہ بھارت کے اندر ایک چھوٹے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے..
میم.سین
No comments:
Post a Comment