یہ خواب مجھے وراثت میں ملے ہیں :--
پہلا.منظر :
ایک مرد اپنی سات سال کی بیٹی کے ہمراہ ایک دکان سے شاپنگ کرکے نکلتا ہے. سامنے سے ایک خاتون آٹھ دس سال کے بیٹے کے ساتھ آرہی ہے. دونوں جب پاس سے گزرنے لگتے ہیں تو خاتون بے یقینی کے تاثرات کے ساتھ رک جاتی ہے. مرد بھی اسے دیکھ کر پہچان جاتا ہے...
خوشگوار حیرت کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے سلام لیتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں. خاتون اپنے بیٹے کا تعارف کرواتی ہے. جس پر مرد بھی اپنی بیٹی سے ملواتا ہے. اتفاق سے دونوں شاپنگ کرکے تھک چکے ہیں .اس لیئے مزید گفتگو کیلئے قریبی ریستوران کا رخ کرتے ہیں. جہاں زیادہ رش نہیں ہے.
دوسرا منظر:
دونوں ایک ٹیبل پر کھانے کا آرڈر کرکے باتیں کرنے لگ جاتے ہیں. بچے کچھ دیر ان کی باتیں سنتے ہیں لیکن پھر بور ہوکر ھال کے خالی حصے میں گھومنے پھرنے لگ جاتے ہیں.
احمد اور ماریہ کلاس فیلوز تھے. بہت اچھے دوست بھی. دوستی سے وہ ایک قدم آگے جانا چاہتے تھے. لیکن سماج کی بندھی زنجیروں نے ان کو اس رشتے تک پہنچنے سے روک دیا تھا. اور اج دس سال بعد وہ ایک دوسرے کو پہلی بار ملے تھے..
پہلے کچھ گلے شکوے، پھر ایک دوسرے کی ڈھلتی عمر پر جملے اور کچھ فیملیز کے تعارف کے بعد بے تکلفی کی اس سٹیج پر پہنچ چکے تھے جہاں سے دس سال پہلے انہوں نے ایک دوسرے کو چھوڑا تھا..
" تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے تو تم ملکہ بن جایا کرتی تھی اور میں رعایا..اور پھر تم ملکہ بن کر مجھ سے فرمائشیں کیا کرتی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ یہ فرمائشیں پوری کرنا میرے فرائض میں سے ہیں"
احمد نے گفتگو میں بےتکلفی پیدا کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا تو
ماریہ نے قہقہ لگایا
" ہاں اور جو تم.مجھ سے لمبے لمبے انٹرویو لیا کرتے تھے وہ بھول گئے؟
کھانے میں کیا پسند ہے؟ ..رنگ کیسے اچھے لگتے؟ زندگی کی سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟..خواب پرست ہو یا نہیں؟ زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ "
احمد کچھ جھیمپ کر مسکرایا.
"اور تم بھی ایسے جواب دیا کرتی تھی جیسے کوئی بہت بڑی سیلیبرٹی ہو..."
ماریہ نے ایک بار پھرقہقہ مارا اور بولی ..
"اب اتنے نخرے تو بنتے تھے.میری صورت میں تمہاری لاٹری جو نکل آئی تھی.."
"اور اس دن کینٹین پر جب تم اتفاقا مجھ سے ٹکرائے تھے تو بجائے تمہیں گھورنے کے، تمہاری کنفیوز حالت دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑی تھی"
ماریہ نے معنی خیز مسکراہٹ سے بات کی
"اور تم ڈر کر اپنے خول میں چھپ گئے تھے..تمہیں ڈر لگا تھا شائد میری ہنسی تمہیں تحلیل کردے گی؟"
ماریہ نے بات جاری رکھی..
"جی مجھے یاد ہے سب. اور پھر تم نے اپنی کیمسٹری کے مختلف مرکبات سے کیسے ایک غیرفعال مادے کو فعال بنا کر خول سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا.."
احمد نے اپنی مسکراہٹ کو امڈنے سے روکتے ہوئے ماریہ کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں حیا سے جھک گئیں اور پھر بات کو بدلتے ہوئے بولی.
"اور وہ دریائے کنہار کے کنارے ٹری ہائوس بنانے والی بات یاد ہے؟ "
احمد مسکرایااور بولا
" جب تم نے ٹری ہائوس بنانے کی بات کی تھی تو میں نے اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنانے کا اعلان کردیا تھا..."
"اور جو آدھی رات کو سردی سے بچنے کیلئے میرے ٹری ہائوس آنے کی اجازت.مانگی تھی؟ "
ماریہ نے انکھوں کو شرارت سے گھمایا
احمد مسکرایا اور نظریں نیچی کرکے بولا.."
تمہاری شرط مان تو لی تھی کہ مجھے رات گزار لینے دو. بالکل تنگ نہیں کروں گا"
پھر ایک دم.سنجیدہ ہوکر کچھ بڑبڑایا..میں تمہیں تنگ کر بھی نہیں کرسکتا تھا.تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا.اسی لیئے تمہاری زندگی سے ہی نکل گیا تھا...
حقیقتیں زندگی کی قدروں کی محتاج ہوتی ہیں. حالات کی مجبوری اور حقیقت پسندی، حصول تسکین کی خواہش کو زبردستی سلا دیتی ہیں. استقلال کے اونچے پہاڑ ہوں یا عزم کے بےکراں سمندرـ سماج اور.سماج کی اقدار، ان کے سامنے بند باندھ کر کھڑی ہوجایا کرتی ہیں..دنیا میں رہ کر دنیا کے اصولوں کو نظر انداز کردینا ایک بہت مشکل کام ہے..
ماریہ کا کھلا ہوا چہرہ بھی سنجیدگی میں بدل گیا.
بچوں کی طرف مڑکر آواز دی.
"بیٹا دھیان سے کھیلو..کوئی چیز نہ توڑ دینا..."
"دونوں بچے کتنی جلدی گھل مل.گئے ہیں"
.احمد نے اثبات میں سر ہلا کر 'ہوں' کہہ کر اس کی تائید کی.
چند لمحے ایسے ہی بنا کسی بات کے، میز پر رکھی چیزوں پر نظریں جمائے گزر گئے...
ماریہ نے سکوت تورتے ہوئے پوچھا
" کیا خنجراب تک کا.سفر کر ڈالا؟"
احمد نے سر اٹھایا اور پھر ماریہ کی آنکھوں میں کافی دیر تک جھانکنے کے بعد بولا
"خنجراب تک اپنی گاڑی پر جانا اور پھر وہاں سے گوادر تک کا سفر، یہ ہمارا مشترکہ خواب تھا...اور ہم نے اس خواب کے تانے بانے مل کر بنے تھے..یہ خواب ہماری مشترکہ ملکیت تھا.جب تم ہی نہ رہیں تو نامکمل خواب ادھوری خواہش بن گئی.کسی کنجینٹیل فزیکل ڈیفکٹ سے متاثر بچے کی طرح...ادھورے پن کے ساتھ..وہ موجود بھی ہوتے اور پورے بھی نہیں ہوسکتے"
ماحول مین ایک بار پھر سنجیدگی چھا گئی...ماریہ نے مڑ کے دیکھا تو بچے پردوں کے پیچھے چھپ کر ایک دوسرے کو ڈھونڈنے کا کھیل، کھیل رہے تھے..
احمد نے بیرے کو آواز.دی اور پوچھا کھانے میں کتنی دیر ہے..تو اس.نے پروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ 'صرف پانچ' منٹ کہہ کر رخصت لی..
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ماریہ بولی
" تمہیں وہ بات یاد ہے چاند پر بیٹھ کر دنیا کی جانب پائوں لٹکانے والی؟"
احمد کا اداس موڈ پھر سے تبدیل ہوگیا.اس کی انکھوں میں ایک دم.سے چمک آگئی.
" ارے ہاں..کیا یاد کروادیا..چاند پر بیٹھ کر ستاروں سے باتیں کرنا..اور دم دار ستاروں سے پیغام رسانی کا کام لینا..
اور زمین پر کنکریاں مار کر لوگون کر تنگ کرنے کا پلین..کہکشائوں کا سفر اور.ستاروں سے دوستی..وہاں سے نکل کر بلوچستان کے کسی پہاڑی گائوں میں کٹیا بناکر رہنے کا ارادہ..چولستان کے صحرا کی ریت پر لیٹ کر ستاروں سے باتیں کرنا..میکسکو امریکہ کے بارڈر پر کسی ویران گرجا گھر میں ویمپائر پکڑنے جانا..برمودا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے کیلئے سب سے نظر بچا کر ایک کشتی کی مدد سے سمندر میں کود جانا....."
باتیں کرتے کرتے اداسی نے ایک بار پھر احمد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا..اور دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ ایک گہری خاموشی اور اداسی کے ساتھ ٹوٹ گیا..
انسان کا ایک داخلی روپ ہوتا ہے جو ہماری امنگوں آرزوئوں اور امیدوں کے سانچے بناتا ہے.اور ایک غیر مرئی سا وجود تخلیق میں لاتا ہے. زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور. جہاں ہم قلبی طور پر ایک دوسرے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں.اور دوسرا خارجی. جو سماج کے تقاضوں کا شعور رکھتا ہے. جو یہ جانتا ہے کہ قربتوں کی بنیادیں کس طلب پر رکھی جاتی ہیں. تکمیل تمنا کا رستہ، کن ٹھوس حقائق سے ٹکراتا ہے...آس بھی، یاس بھی اور خوشی اور غم کی سچائی بھی
دونوں کے درمیان خاموشی کی ایک وسیع خلیج حائل ہوچکی تھی. ایک دوسرے سے دونوں نظریں ملانے سےگریز کررہے تھے.بچے اب بھی اپنے کھیل میں مگن تھے. بیرا پلیٹیں اور چمچ لاکر میز پر سجا کر.چلا گیا...
خاموشی کی اس گہری خلیج میں کھڑے ہوکر ماریہ نے بے بسی کی اس خود ساختہ قسم کومحسوس کرلیا جو انسان کسی کمزور لمحے اپنا لیتا ہے اور پھر اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پاتا..اور خود کو پرسکون کرتے ہوئے اپنائیت سے بولی.
"ہم کچھ خواب دیکھتے ہیں. یہ خواب ہمارا سہارا ہوتے ہیں.ہمارے جینے کی تمنائوں کو زندہ رکھتے ہیں.ہمیں زندگی سے ہمکلام رکھتے ہیں. خواب دیکھنے کی رسم بہت پرانی ہے.جب تک خواب زندہ ہیں زندگی چلتی رہے گی..تم ہی تو کہتے تھے دن سورج کا ہے تو رات بحرحال چاند کی ہے..اور پھر نئے دن کا سورج. خواب تراشنے کا ہنر بھی تو ایک فنکاری ہے اور ایک فنکار کے تراشیدہ خواب کسی دن حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں.جب تک خوابوں کا تخلیق کار زندہ ہے. انسان زندہ ہے"
" وہ دیکھو ادھر.."
ماریہ نے احمد کی توجہ بچوں کی طرف کروائی جو کھڑکی کے پاس بنی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چاند کو دیکھ رہے تھے.
" وہ بھی چاند پر جھولا ڈال کر اس پر جھولے لینے کا سوچ رہے ہونگے......انہوں نے بھی خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں..خواب دیکھنے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیئے. کہیں تو یہ خواب حقیقت میں ڈھلیں گے. کبھی تو ان کو تعبیر ملے گی."
میم.سین
پہلا.منظر :
ایک مرد اپنی سات سال کی بیٹی کے ہمراہ ایک دکان سے شاپنگ کرکے نکلتا ہے. سامنے سے ایک خاتون آٹھ دس سال کے بیٹے کے ساتھ آرہی ہے. دونوں جب پاس سے گزرنے لگتے ہیں تو خاتون بے یقینی کے تاثرات کے ساتھ رک جاتی ہے. مرد بھی اسے دیکھ کر پہچان جاتا ہے...
خوشگوار حیرت کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے سلام لیتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں. خاتون اپنے بیٹے کا تعارف کرواتی ہے. جس پر مرد بھی اپنی بیٹی سے ملواتا ہے. اتفاق سے دونوں شاپنگ کرکے تھک چکے ہیں .اس لیئے مزید گفتگو کیلئے قریبی ریستوران کا رخ کرتے ہیں. جہاں زیادہ رش نہیں ہے.
دوسرا منظر:
دونوں ایک ٹیبل پر کھانے کا آرڈر کرکے باتیں کرنے لگ جاتے ہیں. بچے کچھ دیر ان کی باتیں سنتے ہیں لیکن پھر بور ہوکر ھال کے خالی حصے میں گھومنے پھرنے لگ جاتے ہیں.
احمد اور ماریہ کلاس فیلوز تھے. بہت اچھے دوست بھی. دوستی سے وہ ایک قدم آگے جانا چاہتے تھے. لیکن سماج کی بندھی زنجیروں نے ان کو اس رشتے تک پہنچنے سے روک دیا تھا. اور اج دس سال بعد وہ ایک دوسرے کو پہلی بار ملے تھے..
پہلے کچھ گلے شکوے، پھر ایک دوسرے کی ڈھلتی عمر پر جملے اور کچھ فیملیز کے تعارف کے بعد بے تکلفی کی اس سٹیج پر پہنچ چکے تھے جہاں سے دس سال پہلے انہوں نے ایک دوسرے کو چھوڑا تھا..
" تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے تو تم ملکہ بن جایا کرتی تھی اور میں رعایا..اور پھر تم ملکہ بن کر مجھ سے فرمائشیں کیا کرتی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ یہ فرمائشیں پوری کرنا میرے فرائض میں سے ہیں"
احمد نے گفتگو میں بےتکلفی پیدا کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا تو
ماریہ نے قہقہ لگایا
" ہاں اور جو تم.مجھ سے لمبے لمبے انٹرویو لیا کرتے تھے وہ بھول گئے؟
کھانے میں کیا پسند ہے؟ ..رنگ کیسے اچھے لگتے؟ زندگی کی سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟..خواب پرست ہو یا نہیں؟ زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ "
احمد کچھ جھیمپ کر مسکرایا.
"اور تم بھی ایسے جواب دیا کرتی تھی جیسے کوئی بہت بڑی سیلیبرٹی ہو..."
ماریہ نے ایک بار پھرقہقہ مارا اور بولی ..
"اب اتنے نخرے تو بنتے تھے.میری صورت میں تمہاری لاٹری جو نکل آئی تھی.."
"اور اس دن کینٹین پر جب تم اتفاقا مجھ سے ٹکرائے تھے تو بجائے تمہیں گھورنے کے، تمہاری کنفیوز حالت دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑی تھی"
ماریہ نے معنی خیز مسکراہٹ سے بات کی
"اور تم ڈر کر اپنے خول میں چھپ گئے تھے..تمہیں ڈر لگا تھا شائد میری ہنسی تمہیں تحلیل کردے گی؟"
ماریہ نے بات جاری رکھی..
"جی مجھے یاد ہے سب. اور پھر تم نے اپنی کیمسٹری کے مختلف مرکبات سے کیسے ایک غیرفعال مادے کو فعال بنا کر خول سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا.."
احمد نے اپنی مسکراہٹ کو امڈنے سے روکتے ہوئے ماریہ کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں حیا سے جھک گئیں اور پھر بات کو بدلتے ہوئے بولی.
"اور وہ دریائے کنہار کے کنارے ٹری ہائوس بنانے والی بات یاد ہے؟ "
احمد مسکرایااور بولا
" جب تم نے ٹری ہائوس بنانے کی بات کی تھی تو میں نے اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنانے کا اعلان کردیا تھا..."
"اور جو آدھی رات کو سردی سے بچنے کیلئے میرے ٹری ہائوس آنے کی اجازت.مانگی تھی؟ "
ماریہ نے انکھوں کو شرارت سے گھمایا
احمد مسکرایا اور نظریں نیچی کرکے بولا.."
تمہاری شرط مان تو لی تھی کہ مجھے رات گزار لینے دو. بالکل تنگ نہیں کروں گا"
پھر ایک دم.سنجیدہ ہوکر کچھ بڑبڑایا..میں تمہیں تنگ کر بھی نہیں کرسکتا تھا.تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا.اسی لیئے تمہاری زندگی سے ہی نکل گیا تھا...
حقیقتیں زندگی کی قدروں کی محتاج ہوتی ہیں. حالات کی مجبوری اور حقیقت پسندی، حصول تسکین کی خواہش کو زبردستی سلا دیتی ہیں. استقلال کے اونچے پہاڑ ہوں یا عزم کے بےکراں سمندرـ سماج اور.سماج کی اقدار، ان کے سامنے بند باندھ کر کھڑی ہوجایا کرتی ہیں..دنیا میں رہ کر دنیا کے اصولوں کو نظر انداز کردینا ایک بہت مشکل کام ہے..
ماریہ کا کھلا ہوا چہرہ بھی سنجیدگی میں بدل گیا.
بچوں کی طرف مڑکر آواز دی.
"بیٹا دھیان سے کھیلو..کوئی چیز نہ توڑ دینا..."
"دونوں بچے کتنی جلدی گھل مل.گئے ہیں"
.احمد نے اثبات میں سر ہلا کر 'ہوں' کہہ کر اس کی تائید کی.
چند لمحے ایسے ہی بنا کسی بات کے، میز پر رکھی چیزوں پر نظریں جمائے گزر گئے...
ماریہ نے سکوت تورتے ہوئے پوچھا
" کیا خنجراب تک کا.سفر کر ڈالا؟"
احمد نے سر اٹھایا اور پھر ماریہ کی آنکھوں میں کافی دیر تک جھانکنے کے بعد بولا
"خنجراب تک اپنی گاڑی پر جانا اور پھر وہاں سے گوادر تک کا سفر، یہ ہمارا مشترکہ خواب تھا...اور ہم نے اس خواب کے تانے بانے مل کر بنے تھے..یہ خواب ہماری مشترکہ ملکیت تھا.جب تم ہی نہ رہیں تو نامکمل خواب ادھوری خواہش بن گئی.کسی کنجینٹیل فزیکل ڈیفکٹ سے متاثر بچے کی طرح...ادھورے پن کے ساتھ..وہ موجود بھی ہوتے اور پورے بھی نہیں ہوسکتے"
ماحول مین ایک بار پھر سنجیدگی چھا گئی...ماریہ نے مڑ کے دیکھا تو بچے پردوں کے پیچھے چھپ کر ایک دوسرے کو ڈھونڈنے کا کھیل، کھیل رہے تھے..
احمد نے بیرے کو آواز.دی اور پوچھا کھانے میں کتنی دیر ہے..تو اس.نے پروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ 'صرف پانچ' منٹ کہہ کر رخصت لی..
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ماریہ بولی
" تمہیں وہ بات یاد ہے چاند پر بیٹھ کر دنیا کی جانب پائوں لٹکانے والی؟"
احمد کا اداس موڈ پھر سے تبدیل ہوگیا.اس کی انکھوں میں ایک دم.سے چمک آگئی.
" ارے ہاں..کیا یاد کروادیا..چاند پر بیٹھ کر ستاروں سے باتیں کرنا..اور دم دار ستاروں سے پیغام رسانی کا کام لینا..
اور زمین پر کنکریاں مار کر لوگون کر تنگ کرنے کا پلین..کہکشائوں کا سفر اور.ستاروں سے دوستی..وہاں سے نکل کر بلوچستان کے کسی پہاڑی گائوں میں کٹیا بناکر رہنے کا ارادہ..چولستان کے صحرا کی ریت پر لیٹ کر ستاروں سے باتیں کرنا..میکسکو امریکہ کے بارڈر پر کسی ویران گرجا گھر میں ویمپائر پکڑنے جانا..برمودا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے کیلئے سب سے نظر بچا کر ایک کشتی کی مدد سے سمندر میں کود جانا....."
باتیں کرتے کرتے اداسی نے ایک بار پھر احمد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا..اور دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ ایک گہری خاموشی اور اداسی کے ساتھ ٹوٹ گیا..
انسان کا ایک داخلی روپ ہوتا ہے جو ہماری امنگوں آرزوئوں اور امیدوں کے سانچے بناتا ہے.اور ایک غیر مرئی سا وجود تخلیق میں لاتا ہے. زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور. جہاں ہم قلبی طور پر ایک دوسرے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں.اور دوسرا خارجی. جو سماج کے تقاضوں کا شعور رکھتا ہے. جو یہ جانتا ہے کہ قربتوں کی بنیادیں کس طلب پر رکھی جاتی ہیں. تکمیل تمنا کا رستہ، کن ٹھوس حقائق سے ٹکراتا ہے...آس بھی، یاس بھی اور خوشی اور غم کی سچائی بھی
دونوں کے درمیان خاموشی کی ایک وسیع خلیج حائل ہوچکی تھی. ایک دوسرے سے دونوں نظریں ملانے سےگریز کررہے تھے.بچے اب بھی اپنے کھیل میں مگن تھے. بیرا پلیٹیں اور چمچ لاکر میز پر سجا کر.چلا گیا...
خاموشی کی اس گہری خلیج میں کھڑے ہوکر ماریہ نے بے بسی کی اس خود ساختہ قسم کومحسوس کرلیا جو انسان کسی کمزور لمحے اپنا لیتا ہے اور پھر اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پاتا..اور خود کو پرسکون کرتے ہوئے اپنائیت سے بولی.
"ہم کچھ خواب دیکھتے ہیں. یہ خواب ہمارا سہارا ہوتے ہیں.ہمارے جینے کی تمنائوں کو زندہ رکھتے ہیں.ہمیں زندگی سے ہمکلام رکھتے ہیں. خواب دیکھنے کی رسم بہت پرانی ہے.جب تک خواب زندہ ہیں زندگی چلتی رہے گی..تم ہی تو کہتے تھے دن سورج کا ہے تو رات بحرحال چاند کی ہے..اور پھر نئے دن کا سورج. خواب تراشنے کا ہنر بھی تو ایک فنکاری ہے اور ایک فنکار کے تراشیدہ خواب کسی دن حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں.جب تک خوابوں کا تخلیق کار زندہ ہے. انسان زندہ ہے"
" وہ دیکھو ادھر.."
ماریہ نے احمد کی توجہ بچوں کی طرف کروائی جو کھڑکی کے پاس بنی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چاند کو دیکھ رہے تھے.
" وہ بھی چاند پر جھولا ڈال کر اس پر جھولے لینے کا سوچ رہے ہونگے......انہوں نے بھی خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں..خواب دیکھنے کا جو سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیئے. کہیں تو یہ خواب حقیقت میں ڈھلیں گے. کبھی تو ان کو تعبیر ملے گی."
میم.سین
No comments:
Post a Comment