Saturday, September 5, 2015

جادو

اگر یہ واقعہ ایک آدھ بار رونما ہوا ہوتا تو شائد اسے نظر انداز کر دیا جاتا لیکن یہ تو ہر روز کا معمول بنتا جا رھا تھا ۔ پہلے تو ان واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن جب ہر روز ایک نئے واقعے نے جنم لینا شروع کردیا تو سارے گھر میں تشویش باقائدہ ایک لہرکی صورت اختیار کر گئی ۔ ایک عجیب سا خوف اور ڈر تھا جس نے سارے گھر کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بات شروع ہوئی تھی بڑے کمرے میں پلنگ پر بچھی چادر سے ۔جس پر ایک صبح دو سکوں کے برابر سوارخ پائے گئے تھے۔ جس گھر میں چھوٹے بچے ہوں وہاں پر ایسے واقعات کا رونما ہونا کوئی اچھنبے والی بات نہیں ہے۔ بچے کھیل کود میں اودھم مچاتے ایسے نقصان کر دیتے ہیں۔ پنسلوں کی نوک سے کپڑوں میں سوراخ کر دینے کو بھی کوئی واقعہ نہیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کبھی کبھی بچے اپنے تجسس سے مجبور ہوکر قینچی اور چھری کا استعمال سیکھنے کی کوشش کریں تو ایسے نقصان ہوجاتے ہیں۔ اس لئے چادر میں ہونے والے سوراخ کےاس پہلے واقعےکوبچوںسےمعمولی تفتیش کے بعدنظراندازکردیاگیا۔لیکن تیسرے دن جب ڈرائینگ روم کے صوفے میں اور چوتھے دن ابا جی کے گاؤ تکیے پر بھی ایسے ہی کچھ چھوٹے چھوٹے سوراخ نمودار ہوئے تو گھر میں ایک خوف کی فضا جھانکنے لگی۔ 
اگرچہ مصنوعی تسلیوں سے اس کے خوف کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پراسرار سوراخوں کی وجوہات کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جس دن کپڑے استری کرنے والے میز پر رکھے آدھے سے زائد کپڑے ان سوراخوں کی لپیٹ میں آگئے تو پورا گھر ایک بار سناٹے میں آگیا۔ بچوں کے قہقہے دب گئے۔ ابا جی کے چہرے پر چمکنے والی ہر وقت کی مسکراہٹ سنجیدگی کے پیچھے دب گئی۔دادی اماں کی تسبیح کے دانے جو زیادہ تر نماز کے اوقات میں گردش کرتے تھے اب سارا دن گرنے لگے۔ اماں نے بھی ہر نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنے کومعمول بنا لیا۔ 
ہمارے خاندان کا ماحول روایتی خاندانوں سے یکسر مختلف ہے۔جہاں توہم پرستی کی چڑیا پر مارنے کی جرات نہیں کر سکتی۔پیروں اوران کی کرامتوں پر باقائدہ طنز کیا جاتا ہے۔مزاروں اور ان کے مجاوروں کو انتہائی شکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جادو ٹونے کو محض انسانی خوف کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے۔دسترخوان پر کائینات کی تسخیر اور نت نئی دریافتوں پر بحث روزانہ کا معمول ہے ۔ابا جی محلے میں کھلنے والے نئے جنرل سٹور سے زیادہ مریخ سے آنے والی ناسا کی نئی معلومات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔علاقے میں الیکشن کی سرگرمیوں سے زیادہ الاسکا میں ہونے والی نئی مہمات سے باخبر رہتے ہیں۔ محلے کے گٹر بند ہونے سے زیادہ ایمیزون کے تیزی سے ختم ہوتے جنگلات کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی کے منہ سے جن، بھوت یا جادو کے لفظ کا استعمال کرنا ابا جی کے رعب دبدبے کے سامنے ممکن ہی نہیں تھا۔
لیکن عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ جلد ہتھیار گرا دیتی ہیں۔ گھر میں تو شائدکسی نے جادو وغیرہ کا ذکر نہیں کیا لیکن اماں نے جب گھر میں کام کرنے والی ماسی کے ساتھ اس معاملے پر بات کی تو ماسی نے یہ بتاکر اور بھی پریشان کر دیا کہ اسے تو پہلے ہی شک تھا۔کئی دنوں سے کپڑوں کو اچھی طرح دھونے کے باوجود داغ آسانی سے ختم نہیں ہورہے تھے ۔ماسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ برتن دھو رہی ہوتی ہے تو وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہوتے ۔ایسے لگتا ہے کوئی گندے برتنوں میں اضافہ کئے جارھا ہے۔ماسی کے علم میں سارا معاملہ آنے کے بعد جہاں یہ بات گھر سے نکل کر سارے محلے تک پہنچ گئی۔ وہیں پر گھر میں جادو پر بحث نے بھی جنم لینا شروع کر دیا۔ اور محلے کی عورتوں نے جہاں اپنی نت نئی کہانیوں اور پراسرار انکشافات سے اماں اور دادی کو پریشان کرنا شروع کر دیا وہیں پر محلے کے اکثر گھرانوں نے ہمارے ہاں آنے سے کترانا شروع کرد یا۔خالہ صغراں کا کہنا تھا کہ اس کی درانی پر بھی کسی نے جادو کروا دیا تھا۔کئی ماہ بعد سخی سرور جا کر چادر چڑھائی اور پچاس چڑیاں آزاد کیں تو کہیں جا کر جان چھوٹی تھی۔ہماری ہمسائی کنیزاں تو قسمیں کھا کر سائیں اللہ دتہ کی کرامتوں کی گواہی دے رہی تھی کہ ایک بار اس سے مل لیں تو ہمارے مسئلے کا ضرورکوئی فوری حل نکل آئے گا۔بابا نورا تو ابا جی سے آنکھ بچا کر ایک تعویذ بھی اماں کو دے گیا جسے پانی کی ٹینکی میں ڈال دینا تھا۔
بات اس دن اور بھی بڑھ گئی جب کوڑا اٹھانے والے نے انکشاف کیا کہ چند دن پہلے اس نے ہمارے گھر کے کوڑے میں سوئیاں اور کالے بکرے کی ہڈیاں دیکھی تھیں۔اگرچہ وہ اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا کہ ہڈیاں دیکھ کر اسے کیسے اندازہ ہوگیا کہ بکرا کالا تھا۔لیکن اس کے بیان نے گھر میں جنات کی موجودگی کے شک کو یقین میں ڈھال دیا۔
اگرچہ چند دنوں کے بعد ظاہر ہونے والے نشان پہلے جیسے نہیں تھے۔ سائز بھی کم ہوگیا تھا اور اکثر سوراخ ہونے کی بجائے محض کالے رنگ کے نشان نمودار ہوتے رہتے تھے لیکن جادو کے خوف نے سارے گھر کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اماں کی تو ساری رات گھر کی دیواروں پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکیں مارنے میں گزر جاتی اور دادی سارا دن نفافل پڑھ کر دعائیں کرتی نظر آتیں اور پانی دم کرکے دیواروں پر پھینک رہی ہوتی۔جہاں تک ابا کی بات ہے تو بظاہر اس سارے معاملے میں لاتعلقی کا اظہار کر رہے تھے لیکن جب اپنے دوستو ں سے اس معاملے پر بات کر رہے ہوتے تو اندازہ ہوتا تھا کہ وہ جادو کے اس معاملے کو اگر قبول نہیں کر رہے تو تو واضح طور پر اس کا انکار بھی نہیں کر رہے ہیں۔
آخر اماں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ابا پر برس پڑیں کہ جب اس گھرسے ہماری لاشیں برآمد ہونگی تب آپ یقین کریں گے کہ ہمارے گھر پر کسی نے جادو کروا دیا ہے۔اور ناچار ابا نے اپنے کسی دوست سے مشورہ کیا تو وہ ایک پیر صاحب کو اپنے ساتھ لیکر آگئے اور آتے ہی پیر صاحب نے انکشاف کر دیا کہ آپ پر کسی حاسد نے جادو کروا رکھا ہے۔جادو بہت زور دار ہے اسلئے میں زیادہ دیر یہاں ٹھہر نہیں سکتا۔ اپنے آستانے پر جا کر چلا کاٹنا شروع کرتا ہوں۔ انشااللہ ایک آدھ دن میں اس جادو کا کوئی توڑ مل جائے گا اور دوست کے ذریئے صدقے کیلئے پانچ ہزار روپے لیکر ہمارے گھر سے رخصت ہوگیا۔
پیر صاحب کے جاتے ہی اماں نے واویلا شروع کر دیا ۔ہو نا ہو یہ سارا ماسٹر حمیداللہ کی بیوی کا کا کیا دھرا ہے کیونکہ اماں نے بڑے بھائی ذیشان کیلئے ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔اماں کے خیال میں تواس کی بیوی پکی جادوگرنی ہے۔ اس کی تو آنکھیں دیکھ کر ہی انسان ڈر جاتا ہے۔اور ساتھ ہی اس کے ماضی سے کئی داستانیں سنا ڈالیں۔لیکن دادی کا خیال کچھ مختلف تھا ۔ان کے خیال میں یہ جادو کسی کاروباری رقابت کا نتیجہ ہے۔ مجھ سے چھوٹے بھائی نے کچھ عرصہ پہلے زرعی ادویات کا کاروبار شروع کیا تھا۔اور مختصر سے عرصے میں اس نے جہاں مارکیٹ میں اپنی ایک اچھی کاروباری ساکھ بنالی تھی وہیں پر بہت سے کاروباری رقیب بھی پیدا کرلئے تھے۔ اور دادی کے خیال میں یہ ان حاسدوں میں سے کسی کی کاروائی ہے۔
پیر صاحب تو پیسے لیکر چلے گئے لیکن چِلے پر کچھ ایسے بیٹھے کہ دوبارہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ابا جی کے دوست کی زبانی یہ معلوم ہوجاتا تھاکہ سخت محنت جاری ہے لیکن جادو کچھ زیادہ ہی طاقتور ہے اس لئے اس کا زور توڑنے میں سخت مشکل کا سامناکرناپررھا ہے۔ اور ہر روز ہزار، دو ہزار صدقے کے نام پر پیر صاحب تک پہنچا دیئے جاتے۔
اس دن شام کو آندھی کے بعد تیز بارش ہوئی تو شائد بجلی کی تاریں گرنے کی وجہ سے بجلی طویل دورانیئے کیلئے چلی گئی۔ کچھ گھنٹے تو یو پی ایس نے ساتھ دیا لیکن جب اس کا ساتھ ختم ہوا تو گھر کو اندھیرے سے بچانے کیلئے جنریٹر کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ چھوٹے بھائی کو فوراً مستری اسلم کی تلاش میں دوڑایاگیا لیکن جب تک مستری آیا ،یو پی ایس جواب دے چکا تھا۔مستری اسلم نے آتے ہی ٹارچ کا بندوبست کرنے کیلئے کہا۔ میں بھاگ کر ٹیوب لائٹ اٹھا لایا جس کو چند دن پہلے بیٹری خراب ہونے کے بعد موٹر سائیکل کی بیٹری جوڑ کر دوبارہ کارآمد بنایاتھا۔ میرے ہاتھ میں ٹیوب لائٹ  اوراس کے ساتھ جوڑی گئی بیٹری دیکھ مستری اسلم بولا اس کو احتیاط سے استعمال کیا کرو۔ بیٹری میں تیزاب ہوتا ہے ۔جہاں اس کا قطرہ گر جائے وہ جگہ جل جاتی ہے۔
 مستری اسلم کی دو گھنٹے کی محنت کے باوجود ،جنریٹر نے سٹارٹ ہوکر ہمارے گھر میں تو روشنی پیدا کرنے سے انکار کر دیا لیکن مستری کی  بیٹری کے تیزاب سے محتاط رہنے کی  بات نے سارے گھر کے  دماغ کی بتی ضرور روشن کر دی۔
 اور جب اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو جِن اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ہمارے گھر سے رخصت ہوچکے تھے۔
میم سین