Tuesday, May 30, 2017

یادش بخیر


 امام صاحب نے نماز کے بعد مقتدیوں کے ہاتھ دعا کیلئے بلند کروائے تو میرے سامنے بیٹھے صاحب نے جیب سے فون نکال کر ایک ہاتھ کان کو لگا لیا اور دوسرا ہاتھ دعا کیلئے  بلند کر دیا۔مسجد و بازار کے درمیان تفریق کے فلسفے میں الجھے بغیر ایک طرف وہ کسی شخص کو مسلسل ٹالنے کیلئے بہانے بنا رھا تھا تو دوسری طرف مقتدیوں کی آمین کا ساتھ نبھا رھا تھا۔

یادش بخیر! وہ اگلا وقت جب ہمار ابھی بچپنا تھا لیکن ہمارے دادا جی اپنے بڑھاپے کا دور گزار رہے تھے۔جب دادا جی کی باتیں یاد کرنے کی کوشش کی تو ذہن پر تالا سا پر گیا جسے یاداشت کی کنجیوں سے کھولنے کی کوشش شروع کی تو ایک مختصر سا کیلنڈر بن گیا
دادا جی کا کرکٹ سے لگاؤ جنون کی حد تک تھا ۔پاکستانیت کے ساتھ کرکٹ  کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ جس دن پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا تھا اس دن گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ پاکستان کی ٹیم ویسٹ اینڈیز کے دورے پر گئی ہوئی تھی تو ساری رات کمنٹری سن کرفجرکی نماز پڑھ کر سو جاتے۔کمنٹری سننا بھی ایک نشے سے کم فعل نہیں لیکن یہ فعل اعلان صحت ہے جو شب بیداری اور سحر خیزی میں مدد دیتا ہے ۔۔ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہوتی تو تہجد سے بھی پہلے ان کے کمرے سے کمنٹری کی آواز سنائی دے رہی ہوتی تھی۔اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ تہجد کے وقت کمنٹری سننے میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں تو اس کا جواب آسان سا ہے کہ تہجد چھوڑنے میں اگر کوئی قباحت نہیں تو اعتراض کمنٹری پر کیسا۔آسٹریلیا یا ویسٹ انڈیز میں کرکٹ سیریز کا دکھ ان چوروں سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہوسکتا جو ساری رات کمنٹری نشر کرنے والوں کو کوستے رہتے ہیں۔۔ اچھے وقت تھے گرمیوں میں رات کو چھتوں پر سویا کرتے تھے۔ مٹی کی چھت ہو اور زرا سی ہوا چلےتو گرمی کا سارا احساس جاتا رہتا ہے۔کچھ ایسے ہی گرمی کے دن تھے جب ایک رات ہمسائی نے شور مچا دیا کہ فوجی کے گھر چور دیکھا ہے۔ گھر سے گھر جڑا تھا ۔اس کا شور مچانا تھا کہ چند ہی منٹوں بعد گھر کا دروازہ بجنا شروع ہوگیا۔ کنڈی کھولی گئی ۔ سارا محلہ ڈنڈے ، ہاکیاں اور کرکٹ کے بیٹ تھامے ہمارے گھر داخل ہونا شروع ہوگیا۔ دو نوجوان پندرہ فٹ کا بانس لیکر گھر میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے ۔شائد ان کا ارادہ چور کو باندھ کر لے جانے کا تھا۔مشیت ایزدی تھی کہ چور کو ملنا تھا اور نہ ملا اور سب لوگ اس عورت کی تلاش میں لگ گئے جس نے آدھی رات کو محلے کی غیرت اور دلیری کو للکاڑا تھا 
ہاں تو بات ہو رہی تھی دادا جی کی کرکٹ سے محبت کی۔ جس طرح پرانے زمانے کے شہزادوں کی جان اور آن طوطوں میں بند ہوتی تھی ،کبھی کبھی گمان ہوتا تھا داداجی کی جان پاکستان کی کرکٹ میں بند ہے ۔جس کی حفاظت پر کھلاڑی مامور تھے ۔ریڈیو کی کمنٹری سے ایمپائرز کی جانب داری ڈھونڈ نکالتے تھے۔ ۔ اس قدر متعصب پاکستانی تھے کہ کسی کھلاڑی کی کارکردگی پر تنقید  غداری سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستانی بیٹسمین کے آؤٹ ہونے میں ایمپائرز کی ساز باز پر یقین رکھتے تھے۔اگرچہ ہمیں بچپن میں  سانپ سیڑھی اور لڈو جیسے ذہنی استعداد بڑھانے والی کھیلوں میں دلچسپی زیادہ تھی۔لیکن پھر بھی  کرکٹ  میں ان کا خوب ساتھ نبھایا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان آسٹریلیا کے دورے پر تھا ۔ ایک ون ڈے میچ کا اختتام دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ۔ لیکن ادھر مغرب کی اذان ہوگئی۔ آخری اوور کا کھیل تھا اور بے یقینی کی کیفیت ۔ایک طرف اللہ کا بلاوہ اور دوسری طرف طوطے کی جان ۔مغرب کی نماز تھی، زیادہ التوا میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا ۔ ریڈیو کی آوا ز کو تھوڑا سا ہلکا کیا اور اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت کر لی۔ 
دادا جی جہاں دیدہ شخص تھے، مزاج شناس لیکن مردم شناس نہیں ہر خاص وعام پر بھروسہ کر لیتے تھے۔رہن سہن میں ایک سادگی تھی اپنے کان اور قول کے پکے لیکن دھن کے نہیں اس لیئے زندگی میں اپنے لیئے کوئی جائیداد نہ بنا سکے تھے۔لیکن  اپنی متانت اور اپنی شرافت کے سہارے زندگی کا بھرم قائم رکھا 



کسی زمانے میں حقے کے بلا کے شوقین تھے لیکن پھر کسی دن احساس ہوا  کہ تمباکو ایسا کڑوہ اور بدذائقہ ملغوبہ  ہے جس سے بہت زیادہ دوری یا نزدیکی اہمیت نہیں رکھتی اس لیئے سگریٹ پر شفٹ ہوگئے ۔لیکن حقے سے دوری نے ان کو بہت سے دوستوں سے بھی دور کر دیا۔لیکن دوستیاں نبھانے کیلئے اپنے فیصلے سے ر جوع کرنے سے ساری عمر انکاری رہے۔لوگ سگریٹ نوشی سے اپنے غم غلط کرتے ہیں لیکن اباجی کے غم اتنے ضدی ہیں کہ روازانہ پندرہ بیس سگریٹ پینے کے باوجود ختم نہیں ہورہے ۔ اب پتا نہیں کون سے ابدی غم تھے جو ابا جی کو بچپن سے لاحق ہوگئے تھے اوربڑھاپے میں بھی کش پر کش لگاتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ سننے میں آیا ہے کہ سگریٹ پی کر کچھ لوگ بہت سنجیدہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم نے ابا جی کو کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا۔ ۔ ایک دفعہ دادا جی سے کہاکہ جب ابا جی کی سگریٹ نوشی کا علم ہوا تھا تو  ان کو سمجھانا چاہیئے تھا۔ بڑے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے۔ سمجھایا تو بہت تھا کہ بیٹا  سگریٹ حقے کی چلم والی جگہ پر لگا کر پیا کرو لیکن یہ کہاں مانتا تھا ۔
ہم نے اپنی آنکھ نوائے وقت کے ساتھ کھولی۔بلکہ نوائے وقت نے ہی ہمیں گھٹی دی تھی اس لیئے  غیر مشروط پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی ہونا ہمارے خون میں شامل ہوگیا تھا ۔ جونہی ہاکر اخبار پھینک کر جاتا تو ہماری کوشش ہوتی کہ اخبار دادا جی کے ہاتھ نہ لگ جائے کیوں کہ ان کا اخبار کا مطالعہ صرف ہیڈ لائینز تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ بقیہ نمبر نکال کر خبر کی تہہ تک پہنچتے تھے۔ نو بجے ناشتہ کرنے کے بعد مزید خبروں کی تلاش میں نکل جاتے۔ رات کو عظیم سرور کا سپورٹس راؤنڈز اپ سن کر ہم ان کے پاس سے اٹھ آتے اور وہ ریڈیو کی سوئی گھما کر بی بی سی پر منتقل ہوجاتے۔
اگر متعصب پاکستانی تھے تو بنیاد پرست پیپیلئے بھی۔ یعنی پیپلز پارٹی کے بھرپور جیالے ۔  ضیا دور میں نوائے وقت کا مسلسل مطالعہ بھی انہیں بھٹو کے خلاف نہیں کر سکا۔ انیس سو اٹھاسی کے الیکشن  کے بعد ہمارا گھر واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ایک جو نوائے وقت کے زیر اثر پیپلزپارٹی کے خلاف تھا اور دوسرے ہمارے دادا جی۔اب ہم ٹھہرے سرسری نظر سے اخبار کو نظروں سے گزارنے والے اور وہ جنگ پاکستان نوائے وقت مشرق کا ست بنا نے والے ۔اب یہ کہنا آسان نہیں کہ بحث کن دل آزار مرحلوں سے گزرتی تھی لیکن اخباروں کے دقیق مطالعے اور اپنے بزرگی کے سہارے اپنے سیاسی نظریے کا جواز ڈھونڈ نکالتے تھے اور ہم اپنی کم فہمی اور ان کے کی بزرگی کی تاب نہ لاتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرلینے پر مجبور ہوجاتے ۔الیکشن کا رزلٹ جو بھی نکلے لیکن اپنے  مطالعے اور عالمی سیاست پر بھرپور نظر رکھنے کی وجہ سے ہمارے گھر کے جمہوری نظام میں پلڑا  انہی کا بھاری ہوتا تھا
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب کہیں جسے 
جب لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ان کے اچھے پہلوئوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دادا جی کی زندگی میں بھی ان کا کوئی منفی پہلو نہیں ملتا تھا۔اپنی زندگی ہنستے مسکراتے گزار گئے کوئی بھی ایسا نہ ملا جو انہیں اچھا نہ کہے
آسمان اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Thursday, May 18, 2017

یاداشتیں


بات کچھ یوں ہے کہ جب ہم نے اپنا کلینک کھول کر مریضوں پر تجربات شروع کیئے تو ٹھیک ہونے والے مریضوں میں بچوں کی شرح کچھ زیادہ ہوگئی جس بنا پر بچوں والے کلینک کے نام سے شہرت پائی۔۔ باوجود ہمارے اس دعوی کے، ہم بلڈ پریشر اور شوگر کے بارے میں بھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ، لیکن بوجوہ جو ہمارے علم میں نہیں, اس دعوے کو عوام نے زیادہ پزیرائی نہیں بخشی اور تاحال بچوں کے ڈاکٹر سے ہی جانے جاتےہیں ۔ لیکن میرا ذاتی ماننا ہے کہ ہمارے ہاں عوام بیمار ہونے کے فنی آداب سے ناواقف ہیں ۔ اور ان کی ڈاکٹرز کے بارے میں خوش اعتقادی بھی کوئی بہت زیادہ پرستائش نہیں ہے۔ ہمارا بیمار مختلف گروہوں میں بٹ چکا ہے ایک وہ ہے جو علاج بالغزا پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا پرہیز پر اور تیسرا گروہ بھی ہےجو صرف ڈاکٹر سے مشورے کو ہی علاج سمجھتا ہے۔ اور نسخہ کا مقصد دلجوئی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اور میڈیکل سٹور تک جانا کیپیٹلزم کے فروغ سے زیادہ کچھ نہیں ۔علاوہ ازیں دماغی صحت بھی کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔ جو طب یونانی اور طب جدید کے درمیان منتشر رہتی ہے ۔۔ اور بچے ان لوازمات سے ابھی مبرا ہوتے ہیں۔ وہ ابھی کڑوی دوا اور مصفی خون کے فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں اور دوسرا دوا کے پمفلٹ نکال کر سائیڈ ایفیکٹس پڑھے بغیر نوش جاتے ہیں ۔ شائد اس لیئے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں 
کل شام ایک خاتون نے ایک دوائی کے بارے میں مشورے کیلئے انباکس رابطہ کیا میرے جواب کے بعد ان کا میسج آیا کہ آپ کے کلینک کے تجربات دلچسپ ہوتے ہیں ۔ شیئر کرتے رہا کریں۔ ذہن فورا بچوں کی طرف نکل گیا جن سے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ڈائیریا اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے واسطہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے
چند دن پہلے ایک خاتون گول مٹول سے چھ ماہ کے بچے کو چیک اپ کروانے کیلئے لائیں ۔ جونہی میں نے اس کے پیٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اس نے قہقہہ لگایا۔ جس سن کے میں مسکرائے بنا نہیں رہ سکا۔ دوبارہ ہاتھ لگایا تو اس نے بے ساختہ ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر تو اس نے تماشہ ہی سمجھ لیا جونہی ہاتھ لگاتا ایک قہقہہ لگا دیتا۔ بس بچے کی اس بے ساختہ ہنسی نے دل میں پیار امڈ دیا اور اس کی ماں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا۔ لیکن اس وقت تک مسلسل قہقہوں کی وجہ سے اس کا مثانہ کمزور ہوچکا تھا۔
اس دن ڈیڑھ سال کے بچے کو چیک اپ کیلئے جب ہاتھ لگایا تو اسے میری دست درازی کچھ پسند نہ آئی اور اپنے ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو دھکیلنا شروع کر دیا ۔جس پر اس کی ماں نے اسکے بازووں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بچہ بھی اکسویں صدی کی پیداوار تھا۔ جس کی آنکھ ٹی وی اور موبائل سکرین کے سامنے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کشتیاں دیکھتے ہوئے کھلی تھی۔ ماں کے یوں جکڑنے نے اس مشتعل کر دیا ۔اور اپنا سارا اشتعال میرے ہاتھ کی انگلی کو دانتوں میں دپوچ کر نکالا اور اس تکلیف کو سہنے کی اپنی ساری کوشش کے باوجود کرسی سے اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوگیا
ابھی تو مجھے دوسال کا وہ بچہ بھی نہیں بھولا تھا کہ جس کو ایک دن پہلے انجیکشن لگایا گیا تھا ۔ اگلے دن میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی میرے اوپر گھونسوں اور پاؤں کی ککس کے ساتھ حملہ آوور ہوگیا تھا۔ اورمیں سپورٹس مین سپرٹ کے تحت اس وقت تک اس کے سارے حملوں کو برداشت کرتا رھا جب تک اس کی ماں نے بڑھ کر مداخلت نہیں کر دی 
اورابھی کل کی ہی تو بات ہے جب ڈاکٹر فوبیا کا شکار ایک ڈیڑھ سال کے بچے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی گلا پھاڑ کر وہ دھائی مچائی کہ اس کا چیک اپ مشکل ہوگیا۔ لیکن چند لمحوں بعد اس چیختے چلاتے بچے نے یکدم ناصرف خاموشی اختیار کر لی بلکہ اس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ امڈ آئی ۔ میں ابھی بے یقینی میں اس کی اس اچانک تبدیلی پر غور ہی کر رھا تھا کہ اس نے جھپٹ کر میری جیب سے موبائل نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کی ماں نے اس سے چھیننے کی کوشش کی تو موبائل اس دھینگا مشتی میں فرش پر جا پڑا ۔اور میں نے چشم زدن میں اس کو اٹھا کر شکر ادا کیا کہ اس ساری ناگہانی صورتحال میں محفوظ رھا تھا۔ شام کو اپنے ایک دوست ابوزر کاٹھیہ صاحب سے اس واقعے کے حوالے سے بچوں کی موبائل میں بڑھتی دلچسپی اور اس کے اثرات پر بات شروع کی تو کاٹھیہ صاحب کہنے لگے لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے بڑی داڑھی کے پیچھے چھپی جیب کو، اس نے ڈھونڈا کیسے؟
میم سین