Tuesday, June 21, 2022

 ایک انگلش مووی میں چند دوست شہر سے باہر ایک حویلی میں گزارتے ہیں اور روزانہ ان میں سے ایک فرد مر جاتا ہے۔۔اور اسکا کردار کہانی سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔ ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔ اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔ بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔ اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔ گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟ ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔ مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔ مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔ تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔ کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔ کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔ سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔ اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔ اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ انشاءاللہ میم سین۔ ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔

ایک انگلش مووی میں چند دوست شہر سے باہر ایک حویلی میں گزارتے ہیں اور روزانہ ان میں سے ایک فرد مر جاتا ہے۔۔اور اسکا کردار کہانی سے نکل جاتا ہے۔
کیونکہ اسکا سکرپٹ رائٹر انجام کے بارے جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہانی کے اتار چڑھائو کیسے بنانے ہیں ۔
ہم سب بھی ایسی ہی ایک فلم کے کردار ہیں۔
اور ایک سکرپٹ پر چل رہے ہیں۔ جس میں ہمیں اپنا کردار نبھانا ہے ۔ کہانی کیا ہے؟ یہ اہم نہیں۔ کردار کی ضرورتیں کیا ہیں۔۔ یہ اہم ہے

شہناز کو اللہ نے نو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بہت تگ و دو کے بعد دو کے گھر آباد کرنے میں کامیاب ہوئی۔ باقیوں کا کیا بنے گا اسی فکر میں دل نے جواب دے دیا۔ اور مرنے کے ایک سال بعد صرف سکول جانے والی دو بچیوں کی ذمہداری باقی ری گئی تھی۔

بیٹی کو طلاق ہوئی تو باپ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اور چل بسا اور آج وہ نئے شوہر کے ساتھ قطر میں اپنے تین بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔

لیکن پھر بھی
ہماری ناکامیاں، ہمارے افکار کی شکست ٹھہرتی ہیں۔۔ کامیابیاں ہماری محنت اور ذہانت کا کمال نکلتی ہیں۔
اور ہم سکرپٹ کو بھول کر زندگی اور اس کے معاملات کو اپنی ذمہداری سمجھ لیتے ہیں۔۔

گائنی کے پیپر میں سات سوال تیار کئے۔ پانچ پیپر میں آگئے۔ میڈم شاہینہ نے جب پجھتر میں سے اکہتر نمبر دیکھے تو ڈسٹنکشن دینے کے ارادے سے وائیوا لینے کا فیصلہ کرلیا۔

آپ پیپر دینے سے پہلے جو سوال پڑھ کر امتحانی مرکز جائیں اور وہی سامنے آجائیں تو کامیابی کو ہم اپنی قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔

یوں ہمارے ذہن کثافتوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت ، انفرادیت میں بدلنے لگتی ہے۔ ہم دنیا کے بکھیڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں
راہ حیات کیا ہے؟ راہ نجات کونسی ہے؟

ہم سائنس کے قائل ہوچکے ہیں۔ سائنس حساب کا نام ہے۔ دو جمع دو اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلتا ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں، منزل کوئی نہیں۔

مسئلہ لیکن انسانی زندگی میں حساب کا ہے نہ ہی نئی ایجادات اور زمین سے دور دنیائوں تک رسائی کا ہے۔
مسئلہ مقصد حیات کا ہے۔ اپنی روح سے ہمکلامی کا ہے۔ ہم کتنے ہی عالی ظرف بن جائیں ۔ عصبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم روح کی باتیں کتنی ہی کرلیں مادیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آسائشیں ، چمکتی روشنیاں ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔

اور یہ انتہا پسندی ہے۔ اور زندگی کا سفر کبھی روشن لگنے لگ جاتا ہے کبھی تاریک۔ ۔۔۔کولہو کے بیل کی طرح کبھی ایک کھونٹے کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔تو کبھی دوسرے۔۔۔۔ اندیشوں خواہشوں کے درمیان جینے لگتے ہیں۔
تعلیم کیئریئر، آسائشیں، اپنے مستقبل سے بچوں کا مستقبل کی فکر۔۔

کبھی جینا امنگ۔ کبھی جینا عذاب ۔۔

کہانی کے انجام پر توجہ دینے کی بجائے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے لیں تو زیست کی تلخیوں کو شیرینئ امروز میں بدل سکتے ہیں۔۔

سب معاملات سکرپٹ رائٹر پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کا کردار کتنا اہم ہے اور اسکی کہانی میں کہاں ضرورت ہے۔

اہک ارادہ ہم بنا رہے ہیں۔ایک ہمارا رب بنا رھا۔ بے شک ہمارا رب بہتر حکمت والا ہے۔
اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں۔ ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
انشاءاللہ

میم سین۔

ایک ضروری بات۔۔۔ میری کسی تحریر یا تصویر کا کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے۔

 قناعت کا راستہ


بہت بچپن میں جب جنت کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں آپ جس چیز کی خواہش کریں گے وہ آپکو مل جائے گی تو فورا ذہن میں ارادہ کرلیا کہ جنت میں جا کر برفی کھانی ہے کیونکہ کبھی اتنی برفی کھانے کا موقع نہیں ملا تھا کہ نیت بھر سکے۔۔
آئسکریم کے بارے میں صرف عید کے موقع پر سوچا جا سکتا تھا جو گنتی کی چند دکانوں پر دستیاب ہوا کرتی تھی۔ قلفی بھی روزانہ کھانے کی استطاعت نہیں تھی۔
ریسٹورنٹ صرف بڑے شہروں تک محدود تھے اور چھوٹے شہروں میں ہوٹل ہوا کرتے تھے جہاں پر مسافر یا پھر وہ لوگ کھانا کھایا کرتے تھے جن کے گھر پرکوئی موجود نہیں ہوتا تھا۔
گرمیوں میں چھتوں پر ایک پنکھے کے سامنے سارا گھر سو جایا کرتا تھا۔ اور کوئی بہت زیادہ حیثیت والا گھرانا ہوتا تو وہ کولر استعمال کرلیا کرتا تھا۔ کپڑے لکڑی کی تھاپی کی مدد سے دھوئے جاتے تھے جو فارغ اوقات میں کرکٹ کھیلنے کے کام آتی تھی۔ بیٹ تو خوش قسمت لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ بیٹ ہوتا تو بال کی دستیابی ایک بڑا
مسئلہ ہوتا تھا۔
کریم رول عیاشی کا سامان ہوتے تھے۔ کیک رس تو مہمانوں کیلئے ہوتے تھے ورنہ تو چائے کے ساتھ پاپے ہی کھائے جاتے تھے۔۔
خاص مہمان کو کوک کی بوتل پیش کی جاتی تھی ورنہ لیموں کی شکنجبین ہی مہمان نوازی کیلئے کافی سمجھی جاتی تھی۔ سوجی سے بنا حلوہ یا پھر پنیاں سردیوں کی سوغات ہوا کرتی تھی۔۔ گوشت تو ہفتے میں جس گھر میں دو بار پکا کرتا تھا ان کو کافی رشک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔۔اور آلو یا سبزی کے بغیر تو عیاشی کے ضمرے میں آتا تھا۔
گرمیوں میں خربوزے اور تربوز کے بعد سردیوں میں کینو ایسے پھل تھے جو ہر گھر میں بکثرت آسکتے تھے۔ ورنہ باقی پھل تو ناپ تول کر ہی کسی کسی گھر پہنچا کرتے تھے۔ بچے کی جرسی اور جوتا اس نیت سے خریدا جاتا تھا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کے کام آجائے گا۔ اور جوتا اس وقت پھینکا جاتا تھا جب موچی مزید گانٹھ لگانے سے انکار کر دیتا تھا۔۔۔

اور یہ صرف میرا ہی ناسٹیلجیا نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد ہر شخص کو کہیں نہ کہیں اپنا بچپن چلتا پھرتا نظر آجائے گا۔
لیکن اگر ہم اپنے آج پر نظر دوڑائیں تو یقینا ہم میں سے اکثریت کا رہن سہن کئی ہزار گنا اوپر جا چکا ہے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہے کہ ہماری پریشانیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر نئی گاڑی کا سوچنے لگتے ہیں کہ اس کا اے سی اچھی طرح کام نہیں کر رھا۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر اس کے نقشے میں بیسیوں نقص نظر میں رہتے ہیں ۔ فرج سے کبھی گوشت ختم نہیں ہوتا ۔ بہترین سے بہترین پھل ملک کے طول وعرض میں دستیاب ہے۔ جدید واشنگ مشین سے لیکر ویکیوم کلینر ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں۔ بچے الگ الگ اے سی والے کمروں میں سوتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری زبان سے شکوے ختم نہیں ہوتے۔۔۔
اور یہ جو شکوے ہیں یہ ناشکری پیدا کرتے ہیں۔ اور ناشکری برکت ختم کردیتی ہے۔

اور جب برکت ختم ہوجائے تو پھر چاہے قارون کے خزانے مل جائیں۔ہفت اقلیم میسر آجائے، کسی بادشاہ کی مسند مل جائے۔ آپکی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی ہیں۔ آپکو زندگی کا سکون نہیں مل سکتا۔

یہ درست ہے کہ مسلسل مسرتوں کے کیا معنی؟ انسانی خوشیوں کا وجود بھی دیر پا نہیں۔ حسرتوں کا تعاقب مسرتوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا جو حاصل ہے، جو میسر ہے،اس کو بھول کر ہم ان نوازشوں پر توجہ مرکوز کر دیں جو دوسروں پر برس رہی ہیں؟

فسانہ دل کی دنیا بسانے کی بجائے پاس موجود لذت آفرینی کو بھی تعفن کا شکار کر دیتے ہیں۔
وہ جو حسن سلوک میسر ہے، وہ جو کیف و سرور مل رھا ہے اسے بھول کر ہم دل گرفتہ باتوں کو یاد رکھنے پر توجہ دے کر رکھتے ہیں۔ وہ جو لمحہ موجود کی ناز آفرینیاں ہیں، وہ جو زندگی کی نیرنگیاں ہیں وہ جو گہماگہمی ہمیں دستیاب ہے۔ وہ بھول کر اس آب فیض پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو ابھی آپ کی پہنچ سے دور ہے۔

اور ہم نے فسوں در فسوں کے جال میں خود کو جکڑ رکھا ہے۔

حالات تو اورنگ زیب بادشاہ کے زمانے میں بھی ٹھیک نہیں تھے جب شیوا جی نے خط لکھ کر آمن عامہ کی بگڑتی صورتحال کی جانب توجہ دلوائی تھی۔ مہنگائی کا ذکر تو ڈپٹی نزیر احمد کے ناولوں میں جابجا ملتا ہے۔ سماج کی گراوٹ کے تذکرے تو تقسیم سے پہلے کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔

تو سکون کیلئے کونسی گیدڑ سنگی درکار ہے؟
خوشیوں کے حقیقی ذائقے سے ہم آشنا نہیں ہوسکتے، ہم مسرتوں کو محسوس نہیں کر سکتے جب تک اس گوشہ عافیت کو ڈھونڈ نہ لیں جس میں حقیقی سکون چھپا ہے۔جب تک اس عرفان کو نہ پا لیں جو دائمی خوشیوں کا ضامن ہے۔ وہی جو ہمہ گیر سچائی کا پہلا قدم ہے
اور وہ ہے

کلمہ شکر۔۔
اس کو پکڑ لیں تو بےکنار خوشیاں آپکو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔ سکون کے طلسم خانے آپکے حیرت کدوں میں پہنچ کر آپکو لذت آفرینیوں سے متعارف کروا دیں گے۔ اور آپکی زندگی کو قناعت سے بھر دیں گے۔

اور جس کے پاس قناعت کی دولت ہاتھ آگئی۔
اس سے امیر شخص بھی بھلا کوئی ہو سکتا ہے؟
میم سین

 بارھا ایسا ہوا ہے کہ مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ

آپ لکھتے کیوں ہیں؟
آپ پھول کیوں اگاتے ہیں؟
آپ سفر کس لیئے کرتے ہیں
تصویریں کھینچ کر آپکو کیا ملتا ہے؟
سبزیاں اگا کر کیا کرتے ہیں؟

میرا جواب ایک ہوتا ہے۔
کیونکہ یہ مجھے خوشی دیتے ہیں۔۔

وہ خوشی جس کیلئے ہم ہر قربانی کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ جس کی تلاش میں ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں۔
لیکن خوشی حاصل کرنا کتنا آسان کام ہے۔
مجھے اپنی خوشیاں بہت عزیز ہیں کیونکہ خوشی کا یہ احساس مجھے مثبت سوچ دیتا ہے۔۔ پر امید بناتا ہے ۔ میری شخصیت کو استحکام دیتا ہے۔۔
اور چاہتا ہوں یہ خوشیاں دوسروں تک پہنچاتا رھوں۔۔
پر امید بن کر۔۔۔ امید دلا کر۔۔
میم سین

 میم سین

اچھا ہوا
اس نے خط لکھنا چھوڑ دیا ہے
خط لکھتا بھی تو
سوائے
مایوس لہجوں
  لاحاصل جملوں کے
اس میں کیا ہونا تھا
کچھ ان کہی ادھوری باتیں
جن کا تمھیں انتظار ریتا ہے
وہ تو اس کے جانے کے ساتھ ہی مکمل ہوگئی تھیں

 بہار آئی توجیسے یک بار۔۔۔۔


کچھ قربتیں , کچھ تعلق زبان کے محتاج نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی ہم ان سے باتیں کرتے ہیں ۔ آبشار کے پتھروں سے ٹکرا کر نکلتی ترنم کی زبان ، ہوا سے ٹکراتے، سرسراتے پتوں کی زبان، ندی کے پانی کی، پتھروں سے ٹکرا کر پیدا ہوتی گونج کی زبان۔ خشک مٹی پر پڑنے والے بارش کے پہلے چھینٹوں سے اٹھتی خوشبو کی زبان۔ پسینے سے شرابور جسم سے ٹکرانے والی ہوا کے پہلے جھونکے کی زبان۔ ساحل پر سمندر کے پانی کے پاؤں پر پہلے لمس کی زبان ۔ پتوں میں سے چھن چھن کر آتی سورج کی شوخ کرنوں کی زبان ۔
جذبات اور احساسات خود ساختہ نہیں ہوتے۔ یہ فطری ہوتے ہیں۔ فطرت جب فطرت سے باتیں کرتی ہے تو روحیں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔ایک خودفراموشی کا عالم ہوتا ہے۔ مسرت، طمانیت، ایک جذباتی یگانگت، اپنائیت۔
پرندوں کی خوش الحانی میں صدا سنائی دیتی ہے۔ درختوں کے پتوں کے رنگوں میں سانسوں کا گماں ہوتا ہے۔پھول کی پنکھڑیوں میں خوشبو کسی سنگیت میں رنگ بھرتی نظر آتی ہیں۔ یہ کتنا دلکش احساس ہے۔ کس قدر دل نشیں۔
چلیں پھر پھولوں سے باتیں کریں ۔ایک نیا رنگ ایک نیا روپ ایک نیا کیف محسوس کریں۔ ایک الہام کو۔ ایک وجدان کو ۔محبت کے اس اھساس کو جو لہو کی طرح ہمارے جسموں میں رواں ہے۔کائنات کی ان بہاروں کو جو ہمارے ارد گرد سماں باندھے کھڑی ہیں۔ زندگی کی ان گنت رعنائیوں کو جو آرزوئوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔اس ابدی خوشی کیلئے جس کو زوال نہیں ۔
میم سین

 خوشیوں کے تعاقب میں۔۔


کبھی کبھی جب میں اپنے اضطراب اور وارفتگی کو اپنے مخصوص انداز میں کاغذ پر سمونے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کی دلفریب مہک مجھے دیر تک اپنے حصار میں رکھتی ہے۔ اپنے تخیل کی کھڑکی سے جن مناظر کو سامنے لاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے قابل تعریف ہی نہیں قابل ستائش بھی ہے۔ کیونک یہ امید کی دنیا کی جھلکیاں ہیں۔یہ زندگی سے بھرپور دنیا کے خواب ہیں۔ ایک ایسے تخیل پرست شخص کے جو اپنے تصورات کے سہارے ساری دنیا کو حزن وملال سے نکال کر اپنے ساتھ لیکر چلنا چایتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اداسی کے مارے لوگوں کو ایسی دنیا سے متعارف کروائوں کہ جس کو دیکھ کر وہ پاتال سے موتی چن کے امید اور آس کے استعاروں کی آب گیری کرنے کیلئے تیار نظر آئیں

ہمارے ارد گرد چھوٹی چھوٹی خوشیاں بکھری ہوئی ہیں ۔ چنبیلی کی بیل کے گرد گرے ہوئے پھولوں کی طرح۔ ان کو چن کر ان کی خوشبو کو اپنےاندر سمو لیں یا پھر ان کے پاس سے گزر جائیں، پھولوں کو فرق نہیں پڑتا لیکن آپ کے ان رویوں سے آپ کے سوچ اور انداز پر گہرے اثرات نظر آتے ہیں

کسی کی مسکراہٹ ہو یا پھر کسی کی محبت بھری کوئی ادا، کوئی آپ کو مسکرانے پر مجبور کر دے یا پھر کوئی آپ کا غم بٹا لے۔ رات کے پہر چلتے ہوئے چاند کا ساتھ میسر آجائے یا پھر کسی گہری اندھیری رات میں ستاروں کی اٹھکیلیاں۔۔بہتے پانی کی آواز کی جھنکار ہو یا پھر پرندوں کی چہچہاہٹ کی موسیقی ۔۔ ان کو محسوس کرنا شروع کر دیں۔

یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کیلئے یادوں کا گلدستہ ترتیب دیتی ہیں۔جن کی دلفریب مہک آپ کو افق تک پھیلے نیلگوں آسمان تک اڑان بھرنے کیلئے مجبور کر دیتی ہے۔ اور زندگی کے ہنگاموں سے تھکے ہوۓ اعصاب کو سکون دیتی ہیں۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی حسین منظر آپ کے ذہن پہ اتنا پختہ رنگ جماتا ہے کہ اسکی یاد آپکو پرامید اور خوش کردینے کیلیے کافی ہوتی ہے۔

اپنی نظم ڈیفوڈلز میں ولیم ورڈز ورتھ نے ایک ایسی ہی یاد کا تذکرہ کیا ہے ۔جب جھیل میں کنول کے پھول کھلے دیکھے اور تاروں بھری رات میں ستاروں کا عکس پانی میں نظر آرھا تھا۔ ان مناظر نے جو خوشی اور تسکین کا احساس دلایا اس نے اپنی کلاسک نظم میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا۔
کبھی کبھی ایک منظر فسانہ دل اور حکائیت شعور کی ایسی دنیا بسا دیتے ہیں جو نیرنگی خیال کا ایسا ذائقہ چکھا دیتی ہے کہ انسان حیات جاودانی کے معنی پا لیتا ہے۔۔

ہمارے ارد گرد ایسے مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ اور ہم ان سے بے خبر ہیں۔ان کو محسوس کرنا سیکھیں ان کو اپنے احساس میں شامل کریں۔۔

لمحہ موجود کو محسوس کریں ۔ خدشات کے بادلوں کے ڈر سے نوازشوں کے جو پھول کھل چکے اور حیات میں جو سعادتوں کے جام برس رہے ان کو نظر انداز مت کریں۔
ہمیشہ خوش رہیں
میم سین
تصاویر۔۔ بلوچستان یاترہ
ڈی جی خان لارالئی کوئٹہ چمن زیارت سبی کے آس پاس کے مناظر

 کیا آپ سوشل میڈیا پر مشہور ہونا چاہتے ہیں؟


تو ہم نے بنا دی ہے لائف ایزی
ہر طرح کی پوسٹ کمنٹس میسجز کے ٹیملیٹس دستیاب ہیں۔۔
عورت مارچ کے موقع پر 50 فیصد سیل

علمی پوسٹ پر کمنٹ۔۔

سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے۔ اور اس ہجوم میں سے موتی ڈھونڈنا سمندر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ لیکن میری خوس قسمتی ہے کہ مجھے پاتال سے موتی ڈھونڈنے کی نوبت نہیں آئی اور بن مانگے ایک جوہر میرے حصے میں آگیا۔ لکھتے کیا ہیں جناب بس ایسا لگتا ہے علم و فن کا ایک نور ہے جو آپکی وال سے امڈتا رہتا ہے اور ہم اس سے اپنے حصے کی روشنی سمیٹتے رہتے ہیں

انباکس گھسنے کیلئے۔۔

آپکا نام بہت پیارا ہے۔
مجھے یقین ہے آپ بھی بالکل اپنے نام کی طرح پیاری ہیں۔
آپ کے پروفائل پر موجود چند پوسٹوں پر سیکورٹی نہیں لگی ہوئی تو دیکھ کر مجھے لگا ہے کہ میں آپ سے پہلے بھی کہیں مل چکا ہوں۔ شائد پچھلے جنم میں۔ جیسے ہم ایک ساتھ رہے ہیں۔ کیونکہ ہماری سوچ اور پسند بالکل ملتی جلتی ہے۔ آپ کو غروب آفتاب کا منظر اچھا لگتا ہے اور مجھے تو لگتا ہے میں ہی وہ آفتاب ہوں جو افق کے پار آپکو دیکھتے دیکھتے اتر جاتا ہے۔ آپ نے بریانی کی جو تصویر شیئر کی ہے ۔اس سے آپ کے ہاتھ کا ذائقہ آرھا ہے۔ اگرچہ تصویر کے اینگل سے کسی ریسٹورنٹ کا گمان ہورھا لیکن میرا دل گواہی دے رھا ہے وہ بریانی آپ نے ہی اپنے نرم حسین ہاتھوں سے بنائی ہوگی۔
آپ بہت ذہین ہیں۔۔
لیکن آپ بہت مختلف ہیں
کچھ خاص ہے آپ کے اندر
جو آپکو منفرد بناتا ہے۔۔
آپ شائد سمجھی ہونگی
میں آپکو بنا رھا ہوں
بخدا ایسا کچھ نہیں
آپ کے اندر ایک بہت مہذب اور سلیقہ شعار انسان موجود ہے۔
اوہو
یہ تو بتانا ہی بھول گیا
کہ جیسے صحرا میں گمشدہ قافلے سے بچھڑ کر انسان جب دو گھونٹ پانی ہونٹوں کو لگاتا ہے تو آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے وہ احساس ملتا پے
آپ سکھ چین کے درخت کی ٹھنڈی چھائوں ہیں۔ مجھے لگتا پے کہ میں کڑی دھوپ میں رستہ بھٹک کر دھوپ کی شدت سے جلس رھا تھا کہ مجھے آپکا سایہ میسر آگیا
آپکا اچھا مشاہدہ اور انسانوں کی پہچان آپ سے بڑھ کر کسی کو کیا ہوگی۔۔
اور مجھے یقین ہے جتنی خوبصورت شخصیت آپکی مجھے دکھائی دے رہی ہے۔۔
اس سے کہی زیادہ آپ خوبصورت ہیں۔
اگر آپ میری فرینڈز ریکوئسٹ قبول کرلیں تو
کیا میں آپکو دیکھ سکتا ہوں؟

کتاب کھولے بغیر کتاب پر تبصرہ

جب کتاب پڑھنے کیلئے کھولی تو ابتدائی صفحات میں روایتی انداز دکھائی دیا تو کچھ بوریت کا احساس ہوا لیکن اس کے بعد جب آگے بڑھا تو تحریر کا طلسم کچھ ایسا طاری ہوا کہ میں جیسے کسی سحر میں مبتلا ہوگیا اور پھر جب بھوک اور تکھاوٹ نے اپنے ہونے کا احساس دلایا تو اس وقت تک آدھی سے زائد کتاب ختم کر چکا تھا۔
کیا اسلوب ہے اور خیالات کی کیا روانی ہے۔ ایسے لگتا ہے مصنف کا ناصرف مشاہدہ بہت جاندار ہے بلکہ اس کے تخیل کی پرواز بھی بہت بلند ہے۔۔ اگرچہ موضوع کافی بکھرا ہوا تھا اور اس پر قلم اٹھانا اور اسکو سمیٹنا اتنا آسان نہیں تھا لیکن ۔مصنف نے جس خوبصورتی سے اسکا احاطہ کیا اس پر جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔
اگرچہ ایک عرصے سے موضوعات کی قلت اور معیار کی گرانی پر میرے تفکرات سے اکثر دوست باخبر ہیں۔ لیکن "مصنف کانام" ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہین۔اور میرے لئے سیاہ اندھیری رات میں امید کی ایک کرن۔۔اور مجھے امید ہے اب وہ قلم سے اپنا رشتہ کمزور نہیں کریں گے اور مجھے یقین ہے آنے والا وقت میں اردو زبان کے محسنوں میں ان کا نام بھی شامل ہوگا۔۔

کسی کے کمنٹ کے جواب میں

ارے واہ۔۔
اگرچہ آپکو صاحب بصیرت سمجھتاہوں لیکن نظریاتی بنیادوں پر مجھے آپکی اکثر باتوں سے اختلاف رھا ہے لیکن یہ بات تو جیسے دل پر اتر گئی ہے۔ آپ کی رائے سے اختلاف کرنا ممکن نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں زرا ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کہ آپکا ناصرف مطالعہ غیر معمولی ہے بلکہ حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر طرح کے ٹیمپلیٹس ارزاں نرخوں میں دستیاب ہیں۔
ان ڈیمانڈ ٹیمپلیٹس بھی تیار کیئے جاتے ہیں

پیکجز ریٹ اور مزید معلومات کیلئے انباکس رابطہ کریں

میم سین اینڈ کمپنی
اعتماد کے پندرہ سال

نوٹ۔۔ ہماری کوئی شاخ نہیں

 ایک غیر سیاسی مضمون۔۔۔

مصنف کی رائے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔۔

ایسٹیبلشمنٹ سے عمومی مراد فوج عدلیہ اور بیوروکریسی کے ادارے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں فوج کا ادارہ ہی ایسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے۔۔

وہ تمام ممالک جو بڑی فوجی طاقت رکھتے ہیں۔ ایسٹیبلشمنٹ ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ سیاسی اداروں میں اپنی مداخلت اور اثرو رسوخ استعمال کرتی رہتی ہے۔۔

اور یہ کوئی ایسی ان انہونی بات نہیں ہے۔۔ پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی ایسٹیبلشمنٹ سیاسی اداروں میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتی ہے ۔
لیکن لالی وڈ اور ہالی وڈ کی سائنس فکشن پر بننے والی مووی کی پروڈکسشن کے فرق کو دیکھ کر دونوں ملکوں کی ایسٹیبلشمنٹ کے کام کرنے کے طریقے بارے بھی فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔۔

میں آپٹمسٹ انسان ہوں لیکن ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کے سیاست کے میدان سے مجھے کبھی کوئی مثبت بات نظر نہیں مل سکی ہے۔۔

ہمارے سیاسی ادارے دراصل انکل سرگم کا ایک پپٹ ہیں۔ جس کے پیچھے فوج عدلیہ اور بیوروکریسی کھڑی اسے اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہے۔۔
اور ہم سب اس تماشے کو اتنی سنجیدگی سے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان کیلئے رشتوں کا تقدس اور اخلاقیات کے سب درس بھول جاتے ہیں۔۔

قیام پاکستان کے بعد سندھ میں مرضی کی حکومت لانے کی کوشش ہو یا پھر کسی اخبار، میگزین کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کا معاملہ۔ تحریک احرار کی احتجاجی ریلیاں ہوں یا پھر بغاوت کے مقدمے۔۔

ڈگڈگی بجتی ہے اور
کیا آزاد میڈیا اور کیا ادارے سب ایک زبان بولنے لگ جاتے ہیں۔۔ اور سیاسی ایوانوں میں صبح کی اپوزیشن شام تک حکومت میں اور حکومت کا بوریا بستر کسی دوسری جگہ پہ۔۔

راوی نے تو وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ایک ہی اداریہ ملک کے طول وعرض میں سب اخبارات مل کر شائع کیا کرتے تھے

میں سیاست کا تو نہیں لیکن تاریخ کا ادنی سا طالب ضرور ہوں۔ اور پاکستان کی تاریخ میں کیا ادارے اور کیا اداروں کی کارکردگی۔۔ آج تک سب ادارے ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر چلتے آئے ہیں۔۔

فوج سمجھتی ہے کہ اس کے کسی بھی اقدام پر بات کرنے کا مطلب ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا ہے۔۔ عدلیہ ہمیشہ کورٹ کے تقدس کو سامنے رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتی چلی آئی ہے۔۔۔اور بیوروکریسی آج بھی انگریز کی طرح خود کو عوام سے الگ ایک مخلوق سمجھتی ہے۔۔

اور سیاسی جماعتیں بھان متی کا کنبہ۔۔۔ جدھر مفاد نظر آیا۔۔۔ ادھر گھوم گئے یا ان کو گھما دیا گیا۔۔

پیپلز پارٹی کو ہمیشہ انٹی ایسٹیبلشمنٹ جماعت سمجھا جاتا رھا ہے لیکن بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں، میمو گیٹ سکینڈل اور طاہر لقادری کے لانگ مارچ کے بعد زرداری کی سیاسی بصیرت نے احساس دلایا کہ کیا ہوا جو رشتہ اب کہیں اور طے پا گیا لیکن ایسٹیبلشمنٹ کزن تو ہماری بھی ہے۔۔

ہم عوام یہاں جمہوریت کیلئے سڑکوں پر قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں اور لندن میں بیٹھ کر باریاں طے پا رہی ہوتی ہیں۔۔ کہ پہلے پانچ سال کس کے اور اگلے پانچ سال کس کے ہونگے۔۔۔جیسے دیہاتوں میں فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میں میزبان ٹیم نے ہمیشہ فائنل کھیلنا ہوتا ہے۔۔

جس وقت پارلیمنٹ سرے محل کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس وقت لندن والے فلیٹس کو خریدے ہوئے چار سال گزر چکے تھے۔۔

سکرپٹ میں لکھا تھا عدالیہ بحالی تحریک کی طرح بس گوجرانوالا تک پہنچنا ہے اور نئے سکرپٹ کے ساتھ دھرنے والے پارٹ کے اضافہ کے بعد ڈرامے کو پشاور کا سانحہ ختم کرتا ہے۔۔

نون سے بگڑی تو بلے میں پوٹینشل اچھا تھا اس لئے جیتنے والے سارے گھوڑے ایک ایک کرکے بلے کے سائے تلے جمع کروا دیئے جاتے ہیں۔۔

ایسی حکومتیں بن تو جاتی ہیں لیکن بے لگام گھوڑوں کی وجہ سے مسلسل ڈگمگاتے رہنے کی وجہ سے کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رھا کرتی ہیں۔ اور ایسٹیبلشمنٹ کیلئے ایسی حکومتیں ہی وارے کھایا کرتی ہیں۔۔

کبھی تحریک احرار پر شفقت تو کبھی نظام مصطفے والے آنکھ کے تارے ۔۔ کبھی طاہر القادی کی باہوں میں باہیں ملا کر گھوما جارھا ہے تو کبھی تحریک لبیک والے پیاروں میں شامل۔۔۔۔
اور الیکشن کے دن قریب آئے ضمیر جاگ گئے اور مفاد بدل گئے

اور اس سارے عمل میں عوام کہاں ہے؟
وہ تو بچارے بس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ٹرک بدل بدل کر نئی سے نئی بتیوں کے پیچھے لگا کر نئے سے نیاجھانسہ ۔۔۔
اور ہم ان سیاسی پپٹس کے پیچھے لگ کر عبداللہ دیوانہ بن کر خواہ مخواہ کی بارات میں ناچتے کودتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
نوٹ۔۔
پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کیلئے عقیل عباس جعفری کی پاکستان کرونیکل کو ضرور پڑھیں۔۔

میم سین

 بیان حلفی۔۔

Rizwan Ali
صاحب سے پہلی بار تعارف اس وقت ہوا تھا جب ایک رشتہ دار نے اعلی کوالٹی کے چلغوزوں کی فرمائش کی تھی۔۔ اس کے بعد ان سے مختلف ڈرائی فروٹس کے حوالے سے رابطہ رھا ہے۔۔ کوالٹی ہمیشہ ایسی شاندار کہ اس بارے دو رائے نہیں ہو سکتی۔۔
شہد کی کوالٹی بھی کمال ان سے وصول پائی۔ بلکہ چند ایک دوستوں نے ان سے شہد منگوا کر شکریہ میرا ادا کیا کہ اتنا اعلی کوالٹی کا شہد مناسب نرخوں پر بیچنے والے شخص کا تعارف کروانے پر۔۔

فون پر بات ہوئی تو بہت نفیس، سلجھے ہوئے اور شائستہ انسان پایا۔۔۔بلکہ سیالکوٹ کا سفر جب بھی کیا ان سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل کرنا ہے۔۔ انشاءاللہ
ابھی حال ہی میں جوتوں کا بھی کاروبار شروع کیا ہے تو ان سے ایک جوتا منگوایا جو کوالٹی اور قیمت دونوں میں بہت مناسب لگا ہے۔۔

میری ایک تجویز ہے کہ رضوان بھائی اپنی سب پراڈکٹس کو ایک برینڈ نیم کے ساتھ متعارف کروائیں۔۔ منفرد پیکنگ اور پریزنٹیشن سے مجھے یقین ہے بہت جلد مارکیٹ میں ان کا برینڈ ایک نماہاں مقام حاصل کرلے گا انشاءاللہ

اس لئے میم سین کی گارنٹی پر اس عید پر گھر بیٹھے اعلی کولٹی کے جوتے منگوا سکتے ہیں۔ چونکہ جوتا اور کپڑے ایک ایسی پراڈکٹ ہے کہ اس کو نظر کے پیمانے پر پی صحیح طرح جانچا نہیں جا سکتا ہے۔ اس لئے تصاویر کو دیکھ کر جوتا منتخب کرنے کی بجائے اپنی پسند ، سائز اور ڈیمانڈ کے بارے ان باکس ڈسکس کرلیں۔۔

 ایک ایسی ماں کو جو دو ماہ کے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ڈبے کا دودھ بھی پلا رہی تھی۔

جب سمجھایا کہ اسے صرف ماں کا دودھ پلائیں۔ اور ڈبے کا دودھ بند کر دیں تو ساتھ آئی ساس نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔۔
بڑا سمجھایا۔۔
ساڈی تی اے نویں نسل اک نئی سندی۔۔

جس پر شہہ پا کر مزید ماں کو سمجھانا شروع کیا کہ اگر بچہ چھ ماہ تک صرف ماں کا دودھ پی لے تو سمجھ لیں آپ نے ساری عمر کیلئے بچے کو بیماریوں سے بچا لیا ہے۔۔
لیکن میرے اتنا کہنے پر ساس نے وہیں کلاس لینا شروع کر دی۔۔

ویکھو زرا چونڈی مارن واسطے ماس نہیں کاکے تے۔۔
میں بڑا سمجھایا جیڑا دودھ کاکے نوں پلاندی تو آپ پیا کر۔
میرا منڈا ہتھاں وچ نہیں آندا سی۔ اس عمرے۔۔
نہ
اینا نوں لگدیاں ساڈیاں گلاں بریاں ۔۔
سانوں تے جاہل سمجدیاں۔۔

ماواں دے دودھ ورگیاں وی بھلا کوئی ریساں ہندیاں۔۔
طاقت پیندی۔۔ طاقت۔۔۔

جس پر اپنی ساس سے عاجز ماں ہونہہ کہہ کر بڑبڑائی۔اسکا مطلب پتا نہیں کیا تھا لیکن سن کر میں دیر تک اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتا رھا۔

منڈے وچ تے طاقت نظر نہیں آندی

 میم سین نے جھینگر پالا۔۔۔


ایک تھا جھینگڑ جو سار دن گانے گاتا رہتا اور اپنا وقت گانے گا کر ضائع کرتا رہتا۔ اس کی ہمسائے میں ایک چیونٹی تھی جو سارا دن خوراک اکھٹا کرکے اپنے گھر میں جمع کرتی رہتی۔
چیونٹی اسے بہت سمجھاتی کہ سردیاں آنے والی ہیں۔ اور کچھ کھانے پینے کیلئے جمع کرلو۔ لیکن جھینگڑ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا رھا۔ گانے گاتا رھا رقص میں مدہوش ۔
ادھر سردیاں شروع ہوئیں۔ اور برف نے سب کچھ ڈھانپ لیا۔
جھینگر کو جب کچھ نہ کھانے کو ملا تو بھوک سے بے ہوش ہوگیا۔
ایک دن چیونٹی کو خبر ہوئی تو وہ اس کیلئے خوراک لیکر آئی ۔ اور وعدہ لیا کہ آئندہ سال کھیل کود کر وقت ضائع نہیں کرنا اور محنت کرنی ہے۔۔۔۔
اس وقت تو جھینگر نے محنت کرنے کا وعدہ کرلیا لیکن کل جب جھینگر سے ملاقات ہوئی تو اس کی عادتیں ویسی ہی۔۔ گانے گائے جا رہے ۔ رقص جاری۔۔
جس پر میں نے جھینگر کو اڈاپٹ کرلیا ہے۔ تاکہ اس کی اچھی تربیت کی جا سکے۔۔ اس سلسلے میں مفید مشوروں کی درخواست ہے۔۔

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔


سلطنت دھلی کے بانی سے ملاقات کی داستان۔

اگرچہ کچھ مضحکہ خیز بات دکھائی دیتی ہے لیکن جب بھی قطب الدین ایبک کا نام سنتا ہوں تو بے ساختہ مجھے یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔۔۔

زمانہ طالب علمی کی بات ہے جب انار کلی کسی کام سے جانا ہوا تو وہاں دو کے سگنل آنا شروع ہوگئے ۔ کچھ دیر تو نظرانداز کرتا رھا لیکن جب حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے تو ایک دکان والے سے رہنمائی لی تو اس نے انارکلی عبور کرکے بائیں جانب مسجد کے ساتھ بنے بیت الخلا تک کا رستہ سمجھا دیا۔۔اگرچہ فاصلہ کافی تھا لیکن تیز قدموں کے ساتھ سفر طے کرلیا۔ دروازوں پر جلی حروف میں بڑا دس روپے چھوٹا پانچ روپے لکھا ہوا تھا۔ بحرحال قسمت نے ساتھ دیا اور ایک خالی بیت الخلا فوری مل گیا۔ جب ریلیکس ہوکر باہر نکلا تو وہاں موجود ٹھیکیدار اورایک گاہک ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے تھے۔
گاہک بضد تھا کہ اس نے چھوٹا کیا ہے لیکن ٹھیکدار کے بقول اتنا لمبا چھوٹا نہیں ہو سکتا ۔اصرار تھا کہ بڑے کے پیسے بھرنے پڑیں گے۔۔ بحرحال میں ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر واپس پلٹا تو
واپسی پر بائیں جانب قدرے کھلی ایک سڑک پر مجھے وہ مقبرہ نظر آیا تھا جس کو دیکھنے کیلئے کئی سالوں بعد دوبارہ پہنچا تھا۔۔۔۔
جی ہاں قطب الدین ایبک کا مزار ۔ مزار کی وہاں موجودگی میرے لئے اچھنبے کی بات تھی۔
بحرحال تاریخ کے مطالعے سے پتا چلا کہ قطب الدین ایبک نے لاہور کو دارالحکومت بنایا تھا۔ اور جس جگہ آج انار کلی بازار موجود ہے وہاں کھلا میدان ہوا کرتا تھا اور بادشاہ وہاں پولو کی طرز کا ایک کھیل کھیلا کرتا تھا۔ اور اسی کھیل کے دوران ایک دن گر گیا اور پسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔ یہی حادثہ اس کی موت کا سبب بنا۔۔ انتقال کے بعد یہیں پر اس کا مقبرہ قائم کر دیا گیا۔۔ جس کے بارے بتایا جاتا ہے کہ چار دیواری میں موجود سنگ مرمر کی خوبصورت عمارت بنائی گئی تھی۔ لیکن رنجیت سنگھ کے زمانے میں اسے برباد کر دیا گیا۔ ۔ حفیظ جالندھری کی درخواست پر اس عمارت کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کرکے ارد گرد کے گھر خرید کر اس کو پرانی حالت میں بحال کر دیا گیا۔۔

کوئی پچیس سال بعد دوبارہ اسے دیکھنے پہنچا ہوں توپورے علاقے کا نقشہ مختلف پایا۔ مقبرہ کی حالت بھی جو انتظامیہ کی سرد مہری کا شکار تھی اب بحالی کے بعد بہترین شکل میں موجود ہے۔ مقبرے کے سامنے ایک مندر بھی موجود ہے۔ جس کی تاریخی حیثیت کے بارے مجھے زیادہ علم نہیں۔۔انارکلی اور ایبک روڈ کی سڑک بھی کشادہ اور اچھی حالت میں موجود ہے۔

اس مقبرے پر اگرچہ اپنے اڑن کٹھولے کی مدد سے پہلی بار فوٹوگرافی کی تھی لیکن بدقسمتی سے ناصرف وہ تصاویر بلکہ کیمرے کی تصاویر بھی کھو گئیں۔۔چند دن پہلے کیمرے کی تصاویر دریافت ہوئیں تو روداد لکھنے بیٹھ گیا۔ اڑن کٹھولے کی تصاویر ہنوز لاپتہ

قطب الدین ایبک شہاب الدین غوری کا غلام تھا لیکن اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اس کا منظور نظر کمانڈر بن گیا۔۔ دھلی کی فتح کے بعد قطب الدین ایبک کو یہاں کا گورنر نامزد کر دیا گیا۔ اور شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد قطب الدین ایبک نے سلطنت دھلی کی بنیاد ڈالی اور یوں مسلمان حکومتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اگلے آٹھ سو سال تک چلتا رھا۔۔
برصغیر کے پہلی بڑی تاریخی عمارت جو آج بھی موجود ہے وہ دھلی میں مسجد قوت الالسلام ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز قطب الدین ایبک کے حکم پر ہوا۔ اور تاریخی قطب مینار بھی اسی مسجد کے ساتھ ملحقہ جگہ پر موجود ہے۔ جو آج بھی اینٹوں سے بنا دنیا کا سب سے بڑا مینار سمجھا جاتا ہے۔۔
سلطنت دھلی کی بنیاد رکھنے کے بعد اگرچہ اس نے مزید توسیع پر توجہ نہیں دی۔اور اس کے دور حکومت کا زیادہ وقت ملک میں امن و امان قائم کرنے پر صرف ہوگیا۔ لیکن اس نے ایک ایسی مضبوط حکومت کی بنیاد رکھ دی جو اگلی ایک صدی تک دھلی پر قابض رہی۔۔

مقبرے کی عمارت سنٹرل ایشیا کی طرز تعمیر پر بنائی گئی ہے۔۔ مربع شکل کی عمارت جو تین سیڑھیوں کی اونچائی پر قائم ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ عمارت پر ایک گنبد قائم ہے۔ مقبرہ کی دیواروں پر کیلیگرافی کا بہترین کام موجود ہے۔۔

تاریخی مقامات پر جانے کا سب سے بڑا فائدہ ہہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس جگہ سے جڑے صفحے بہت واضح ہوجاتے ہیں ۔صدیوں پرانے شعور کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس وقت کا ادراک، اس زمانے کے فیصلے ہمیں اکسویں صدی کے شعور کو سمجھانے میں مدد دیتے ہیں۔۔

میم سین

 ویکسین لگوانے سے پہلے یہ مضمون ضرور پڑھ لیں۔۔


یہ کہانی شروع ہوتی ہے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے۔ جب عربوں نے امریکہ کو تیل کی فراہمی بند کر دی تھی۔ اور امریکہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔ اور اسوقت ان کے تھنک ٹینکس نے متبادل ذرائع توانائی پر زور دینا شروع کیا۔
لیکن باوجود اربوں ڈالر انوسٹ کرنے کے اور پوری دنیا سے سالانہ لاٹری سکیم کے ذریعے ذہین دماغ حاصل کرنے کے وہ تیل کی ضرورت سے چھٹکارہ نہ پا سکے۔۔

اور پنٹاگان اور وائٹ یائوس میں اس وقت خطرے کے الارم بج گئے جب جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اسلامی فوج کا قیام عمل میں آگیا۔ اور اسرائیل کا وزیر دفاع فورا واشنگٹن پہنچا اور وائٹ ہائوس پر چڑھائی کردی کہ اب تک سوائے وقت ضائع کرنے کہ آپ نے کچھ نہیں کیا اور حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

چودہ گھنٹے جاری رہنے والے بند کمرے کے ایک اجلاس کے بعد مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹ کو بلا کر اسے دو سال کا ٹارگٹ دیا گیا۔
بل گیٹ جس کی دادی جرمنی سے ہٹلر کے مظالم سے تنگ آکر امریکہ شفٹ ہوئی تھی۔ اور اپنے پوتے کی تربیت میں یہودیوں کی مظلومیت بارے ایسا بیج پویا ہواتھا کہ بل گیٹ نے مائیکروسافٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنے سارے انجیئینرز اور سائنسدانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ ایک تو مسلمانوں کی آبادی ختم کر دی جائے اور دوسرا انرجی کے متبادل ذرائع ڈھونڈے جائیں۔
آپ کو شائد معلوم ہوگا کہ مائکروسافٹ نے ونڈوز 10 کے بعد ابھی تک کوئی ونڈو تیار نہیں کی۔ کیونکہ ادارے کی ساری توانائیاں کہیں اور صرف ہورہی ہیں۔

اس سارے کام کے دوران بریک تھرو دو یزار سترہ میں آیا۔ جب برٹش سیکرٹ سروس کا ایک ایجنٹ چارٹرڈ فلائٹ پر امریکہ پہنچتا ہے اور ایک فائل بل گیٹ کے سیکرٹ مشن کے انچارج کو آدھی رات کو پہنچاتا ہے۔ اس فائل میں ایسے اہم راز تھے کہ بل گیٹ کو اسی وقت اپنی خواب گاہ سے جگا کر بلا لیا گیا۔۔چونکہ بل گیٹ کی بیوی اس سارے مشن سے بے خبر تھی۔ اور یوں آدھی رات کو بل گیٹ کا بغیر بتائے گھر سے نکلنا اور بعد میں پیدا ہونے والی پے در پے غلط فہمیاں دونوں کی علیہدگی پر ختم ہوتی ہیں۔۔

برٹش سیکرٹ ایجنٹ سے جب اس پراجیکٹ میں دلچسپی کے بارے پوچھا گیا تو اس نے انکشاف کیا کہ یوکے میں مسلمانوں کی آبادی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ان کے اداروں کے اندازے کے مطابق 2030 میں برطانیہ کا وزیراعطم مسلمان ہوسکتا ہے۔۔
اس فائل میں ایک پلان بالکل فائنل حالت میں تیار موجود تھا۔ اور پراجیکٹ کے سائنسدانوں نے اسی وقت اس پر کام شروع کر دیا۔۔
اس فائل میں ایسا کیا تھا؟
جی ہاں ۔یہاں سے چالیس پرانے متبادل انرجی پراجیکٹ نے ایک نیا ٹرن لیا اور انسانی
انسانی ذہن کنٹرول کرنے کی بجائے انسانی جسم سے انرجی حاصل کرکے اپنی فیکٹریاں گاڑیاں چلانے کا پراجیکٹ۔ ۔۔
اس کام کیلئے برٹش خفیہ اداروں کا بنایا گیا وائرس مصنوعی سیاروں کی مدد سے دنیا پر چھڑکا گیا۔ پھر ویکسین کے بہانے سسٹم انسٹال کیا جا رھا ہے۔ اور ساتھ اتنے انرجی جسم میں منتقل کی جاری جس کی مدد سے انسانی خلئے کو توڑا جا سکے گی۔۔

آپکو شائد علم نہیں امریکہ نے وائرلیس چارجنگ پر پوری دنیا پر پابندی لگا دی تھی۔ اور اب وہ لیبارٹریز میں ٹیکنالوجی اس قدر ایڈوانس ہو چکی ہے کہ پوری دنیا میں کسی بھی شخص کے خلئے توڑ کر انرجی امریکہ منتقل کی جا سکتی ہے۔۔ اور یوں امریکہ کا تیل پر انحصار ختم ہوجائے گا۔ اور مسلمانوں پر بھرپور وار کر سکے گا۔ تیل پانی کے بھائو بکے گا اور مسلمانوں کی نسل کو انرجی جسموں سے نکال کر ختم کیا جا سکے گا۔۔۔

جسموں سے انرجی چوری کو سمجھنے کیلئے مثال دوں گا کہ اگر انسان کے اندر اسی سال عمر کیلئے سو کلو واٹ انرجی موجود ہے۔ اور اب اگر اسی کلو واٹ انرجی نکل لی جائے تو اگلے چند سالوں میں وہ شخص طبعی موت مر جائے گا۔
مزید انکشافات کیلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں اور بیل آئیکون دبانا مت بھولئے۔

اس مضمون کی تیاری کیلئے میدا کبوتر باز، اشرف نائی اور فاروق تیلی کا مشکور ہوں جنہوں نے اپنی رائے اور انکشافات سے بھرپور مدد کی
میم سین

 کتاب پر تبصرہ۔

دھتکارے ہوئے لوگ
افسانے
مصنف۔ محمد نواز کمالیہ

اس کتاب کو اگرچہ میرے پاس آئے ایک سال ہوگیا تھا لیکن پہلے تو ایک دوست پڑھنے کیلئے مانگ کر لے گیا ۔ اسکے بعد کہیں رکھ کر خود بھول گیا۔ چند دن پہلے دوبارہ دریافت ہوئی تو کھڑے کھڑے چند ورق گردانے تو حیرت اور بے یقینی کی کیفیت میں آدھی کتاب ختم کر ڈالی۔

محمد نواز سے میری پہلی ملاقات مراد خاں کے گھر پر ہوئی۔ اس ملاقات میں انکی شخصیت کے بارے زیادہ اندازہ نہیں ہوسکا۔ چند ماہ پعد گھر پر تشریف لائے تو ان کے ساتھ لمبی نششت ہوئی۔ جس دوران ان کی لگن جستجو اور علمی ذوق کا میرے اوپر گہرا اثر ہوا۔آجکل کمالیہ کی تاریخ کے حوالے سے کام کررہے۔ اور جس محنت سے وہ اس کام پر لگے ہوئے مجھے یقین ہے ایک بڑی تاریخی دستاویز منظر عام پر آنے والی ہے۔
دھتکارے ہوئے لوگ محمد نواز کی جو پیشے کے لحاظ سے تدریس سے وابستہ ہیں، افسانوں کا مجموعہ ہے۔
اور انداز بیان، اسلوب منظرنگاری مقامی الفاظ کے بے ساختہ استعمال نے مجھے چونکا کے رکھ دیا ہے۔
مصنف کا ناصرف مشاہدہ بہت کمال کا ہے بلکہ منظر نگاری پر بھی بھرپور دسترس حاصل ہے۔۔
پہلے ہی افسانے کاتک کی دلہن میں کلاسک افسانہ نگاروں کی جھلک نظر آئی۔
دھتکارے ہوئے لوگ، برفیلی شام، دھندا، ادھل، ماں کی تنہائی، آخری سگریٹ، حرام زادہ، ملاپ، سوشل اینمل ایک طرف موضوعات کا اتنا تنوع دیکھنے کو مل رھا اور دوسری طرف ہر افسانہ تکنیکی لحاظ سے ایک مکمل افسانہ ہے۔۔۔ محمد نواز کے اندر ایک مکمل افسانہ نگار موجود ہے۔ اور امید ہے وہ سنجیدگی سے اس کام کو جاری رکھیں گے
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ان کا کسی بڑے شہر سے تعلق ہوتا تو آج ادبی حلقوں میں ایک بڑا نام شمار ہونا تھا
کتاب حاصل کرنے کیلئے
03008796114

 

ایئر بلیو انتظامیہ کی تنبیہ کیلئے۔۔ یوٹیوب سمیت فیس بک پر دھوم مچانے والے ایئر بلیو والے واقعے نے مجھے کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔۔ جب لاہور سٹیشن سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے والی بشیر سنز کی کوچ میں ایک بار سفرکرنے کا موقع ملا تھا۔۔ میری اگلی سیٹ پر ایک نوجوان جوڑا آکر بیٹھ گیا۔ ان کو رخصت کرنے والا شخص سنجیدہ عمر کا لباس خراش سے کسی کھاتے پیتے گھرانے کا فرد دکھائی دے رھا تھا۔۔۔ لیکن لڑکی کے سرخ رنگ کا دلہنوں والا جوڑا اور چہرے پر میک اپ کا انداز اس کے دیہاتی پس منظر کی نشاندہی کررھا تھا اور لڑکا مئی کے مہینے میں کالا کوٹ جو یقینا کسی سے ادھار مانگا گیا تھا یا پھر بنا ناپ دیکھے خرید لیا گیا تھا۔اور اب اتنی گرمی میں درخت کی ٹہنی جیسی جسامت کے ساتھ کوٹ پہنے خاصا مضحکہ خیز دکھائی دے رھا تھا۔۔ میری ساتھ کی سیٹ پر پراجمان شخص جو کسی کنسٹرکشن کمپنی میں ملازم تھا ۔ اوور ٹائم لگا لگا کر اس قدر تھکا ہوا تھا کہ تھوڑی سے گپ شپ لگانے کے بعد گہری نیند میں جا چکا تھا۔ اور کچھ ہی دیر بعد اس کے خراٹے روکنے کیلئے مجھے دھکا لگا کر اسکی پوزیشن تھوڑی تبدیل کرنا پڑی تھی۔۔ اس نوجوان جوڑے نے میری توجہ اس وقت حاصل کی جب جنگ اخبار کو اپنے سامنے پھیلا کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میرے لئے اخبار کا فونٹ اور اشتہار دونوں اجنبی تھے۔ ساتھ انگریزی میں سیکشن دیکھ کر مزید حیرت ہوئی۔ اور تھوڑی سے تگ و دو کے بعد معلوم ہوگیا کہ جنگ اخبار کا لندن ایڈیشن ہے۔۔ جو میرے لئے کافی دلچسپی کا باعث تھی۔ لڑکے کا ٹھیٹ پنجابی لہجے میں بات چیت کے دوران بار بار انگلش کا تڑکہ اور اخبار کے لندن ایڈیشن نے اس کے ولائیت پلٹ ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ ابھی سیٹوں کے درمیان سے میں اخبار کی خبروں کا نشہ پورا کررھا تھا کہ دونوں نے اپنے سر قریب لاتے لاتے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ اور میں مایوس ہوکر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کے قہقہوں نے میری توجہ دوبارہ حاصل کرلی۔ اخبار چھوڑ کر دونوں بسکٹ ایک دوسرے کو کھلانے کی کوشش کررہے تھے۔ اور اس کوشش میں دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا گئے۔۔ اور پچھلی سیٹ پر بائیس تئیس سال کے جوان کا پورا بدن منظر کی سنسنی سے کانپ گیا۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں میں ججھک کم ہوتی گئی اور ارد گرد کے ماحول سے بالکل لاتعلق ہوگئے۔۔۔ اور وقتا فوقتا اٹھتی، دبانے کی کوشش میں بلند ہوتی ہنسی اور لڑکی کی مسرت بھری سسکیاں اور ایک دوسرے کو کوئی دیکھ نہ لے کہہ کر ایک دم سے خاموش ہوجانا ۔۔جاری رھا۔ اور اگلے چند گھنٹے پچھلی سیٹ پر نوجوان بار بار ہونٹوں کے ٹکرانے سے اٹھتی آواز پر کلملاتا، بیچ تاب کھاتا رھا۔۔ کوچ مسافروں سے بھری ہوئی تھی اس لئے نہ تو ڈرائیور نے کہیں روکی اور نہ ہی مسافر لینے کیلئے فیصل آباد شہر کے اندر جانے کی نوبت آئی۔ پینسرہ شہر کے قریب پچھلی سیٹوں سے ایک شخص جس نے قریب کہیں اترنا تھا۔اپنا سامان ہاتھ میں پکڑ کر آگے آگیا۔۔ مجھ سے اگلی سیٹ کے پاس سے گزرا تو اہک دم ٹھٹک گیا اور پیچھے دیکھ کر آواز لگائی۔۔ ۔اوئے ایتھے تے ڈبل پروگرام چل ریا۔۔ اگے آجائو۔۔ ایک دم سے دونوں کو اپنے گرد و پیش کا احساس ہوگیا اور ایک دوسرے سے الگ ہوکر بیٹھ گئے۔ گوجرہ شہر سے چند کلومیٹر پہلے ایک سٹاپ پر دونوں اتر گئے۔ بغیر چھت کے ایک تانگہ ان کو لینے آیا ہوا تھا۔ سامان سے بھرے دو بڑے بیگ کوچ سے اتارے گئے۔ باوجود تیز دھوپ کے لڑکے نے اپنا کوٹ نہیں اتارا اور اپنے سامان سے بے نیاز لڑکی کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا۔اور کوچوان کو مجبورا خود ہی آگے بڑھ کر سامان تانگے میں رکھنا پڑا۔۔ آج کئی سالوں بعد جب ائیر بلیو کی فلائٹ میں ایسے ہی ایک واقعہ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں تو سوشل میڈیا میں مسافروں کے غصے کو طنزو مزاح کا نشانہ بنایا جارھا ہے لیکن ایئر بلیو کے مسافروں کے اس غم و غصے کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ کمپنی کو اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیئے۔ بحرحال ابھی میں صرف وارننگ دے رھا ہوں ۔لیکن اگر ایسا واقعہ دوبارہ پیش آیا تو خیبر میل والا واقعہ رقم کرنے پر مجبور ہوجائوں گا میم سین
ایئر بلیو انتظامیہ کی تنبیہ کیلئے۔

 چند دن پہلے پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے سوئمنگ پول میں ایک نوجوان کے ڈوبنے کی خبر سنی تو ذہن بے اختیار کئی سال پیچھے چلا گیا ۔جب میں نے پہلی بارسوئمنگ پول میں قدم رکھا تھا اور پہلا قدم ہی ڈگمگا گیا اور چار فٹ گہرے پانی سے سترہ فٹ گہرے پانی کی طرف بہہ گیا۔ میڈیکل کالج کے ابتدائی دنوں کی بات تھی، جب ایک شام کمرے میں دوستوں نے انکشاف کیا کہ کالج کا سوئمنگ پول کھل گیا ہے۔ اسی وقت پرانی پینٹ کو کاٹ کر نیکر بنایا اور ان کے ہمراہ ہولیا۔مغرب سے کچھ دیر پہلے جب پول کے بند ہونے کا وقت تھا۔ بہت کم لڑکے وہاں موجود تھے۔ جب اپنے جسم کو پانی میں سنبھالنے کی کوشش شروع کی تو جسم سطح پر آنے کی بجائے گہرائی میں ڈوبتا جارھا تھا۔ باوجود اس کے کہ میرے حواس قائم تھے لیکن میں بے بس تھا۔آواز دینے کی کوشش کرتا تو منہ میں پانی چلا جاتا۔ ہاتھ پائوں مارتا تو پانی کی مزید گہرائی میں اتر جاتا۔دماغ میں بس ایک ہی خیال گھومے جارھا تھا۔ کسی کی میرے اوپر نظر پر جائے اور گارڈ تک خبر پہنچ سکے۔جو وہیں کہیں موجود تھا۔ لگ بھگ تین چار منٹ کے بعد سوئمنگ کرتے ایک لڑکے نے مجھے پانی میں ہچکولے کھاتے دیکھ لیا اور چیخیں مارنا شروع کردیں۔اس وقت تک میرے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ گارڈ نے کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دی۔ پیٹ دبا کر پانی نکالا، ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلا کر ان کی ورزش کروائی۔ چند منٹ بعدہوش آیا تو لگا سب کچھ خواب تھا ۔۔۔۔۔ دو سال تک کیفیت، یہ رہی کہ نالی میں بھی بہتا پانی دیکھ لیتا تو چکر آنے لگتے اور دل ڈوبنے لگتا ۔لیکن پھر ہمت کرکے دوبارہ پول میں اترا اور تیرنا سیکھا اور پھر بہت سے لوگوں کو سکھایا بھی۔چند سال پہلے جناح ہسپتال کے باہر ایک سٹور پر ایک دوائی لینے رکا۔جب دوائی کی قیمت پوچھی تو اس نے لینے سے انکار کردیا کہ بہت سال پہلے میں اپنے کزن کے ہمراہ آپ کے کالج کے سوئمنگ پول آیا کرتا تھا تو آپ نے مجھے سوئمنگ سکھائی تھی۔ آپ کا نام مبشر ہیں نا؟۔۔۔ بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر شہباز ایاز کا یہ قرض میں زندگی بھر نہیں اتار سکتا جس کی بروقت چیخ وپکاڑ نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کی طرح ایک خبر بن چکا ہوتا Shahbazaiaz Muhammad Awais Khan Niazi

زندگی اور موت کے درمیان فرق ہی کتنا ہے

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔


سفرنامہ بھونگ براستہ جلالپور پیر والہ

رحیم یار خان انٹرچینج سے اتر کر گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے فل کروائی تو وہاں کے مقامی لوگوں سے جب بھونگ مسجد کے راستے کے بارے میں رہنمائی طلب کی تو اکثریت کا کہنا تھا کہ صادق آباد والے روٹ سے بس بیس پچیس منٹ کا سفر ہے۔
لیکن چونکہ ہم سلسلہ گوگلیا کے پیروکار ہیں تو ہم نے گوگل کے مشورے کو ترجیح دی۔ اور موٹر وے پر سفر جاری رکھا۔
کشمور انٹرچینج سے اتر کر کچھ دیر بعد جب گوگل نے اطلاع دی کہ چھبیس کلومیٹر کا سفر باقی رہ گیا ہے تو ولائیت کے اپنے سلسلے پر فخر کا احساس ہوا۔

لیکن کچھ ہی دیر کے بعد گنے سے لدی ٹرالیوں کے پیچھے کھڑے تلملا رہے تھے۔ کیونکہ مقامی لوگوں کے مطابق دو گھنٹے سے ٹریفک جام تھی

نگری نگری پھرا مسافر بھونگ کا رستہ بھول گیا

اس مسجد کو رئیس غازی محمد نے تعمیر کروایا تھا۔جو راجپوتوں کے اِندرڑھ قوم سے تھا جن کی راجھستان پر حمکرانی رہی تھی۔ محمد جیا مرحوم نے آکر سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع بھونگ میں رہائش اختیار کی۔ اور عملاً فقیری اختیار کرلی۔
قیام پاکستان کے وقت اس خاندان کے سربراہ رئیس غازی محمد تھے جو بے شمار اراضی کے مالک، فرسٹ کلاس آنریری مجسٹریٹ ہونے اور بہاولپور دربار میں کرسی نشین ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ ان کا امتیازی وصف یتیموں بیوائوں اور غریبوں کی سرپرستی سمجھا جاتا تھا۔۔

دن کا آغاز بہت شاندار رھا تھا۔۔ گھر سے اپنے وقت پر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اور اپنے میزبان آصف نواز کے گھر جلال پور پیر والہ کے قریب ایک گاؤں پہنچنے میں بھی زرا دقت نہ ہوئی۔۔ اور پرتکلف ناشتہ کم لنچ کرنے کے بعد جب آصف نواز ہمیں دریا کی سیر پر لیجانے کے بارے پروگرام بنا رھا تھا۔ میں نے گوگل سے بھونگ مسجد کا راستہ پوچھا تو اس نے حیرت انگیز طور پر صرف پونے دو گھنٹے کا وقت بتایا۔
یہ پہلی غلطی تھی کہ دوسرے موبائل سے وقت کا حساب نہ لگایا گیا۔۔
اور باہمی صلاح مشورے اور آصف نواز کے اپنی بیگم سے پوچھ کر آنے کے بعد بھونگ کیلئے نکلنے کا پروگرام فائنل کرلیا۔ گوگل کے مطابق ہم شام سات بجے تک واپس پہنچ سکتے تھے۔
اور دوسری غلطی رحیم یار خان انٹر چینج سے اترنے کے باوجود صادق آباد والا راستہ اختیار نہ کرنے پر کی ۔

بھونگ مسجد جس جگہ قائم ہے وہاں ایک مسجد پہلے سے موجود تھی۔ جس کے قریب رئیس غازی کا محل موجود تھا۔
یہ انیس سو بتیس کا ذکر ہے کہ ایک دن رئیس غازی مسجد میں نماز پڑھ رھا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ محل کی شان و شوکت مسجد سے بہت بڑھ گئی ہے۔ ۔اور اسی جگہ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ بنایا۔۔
مسجد کا نقشہ خود رئیس غازی کے ذہن کا خاکہ تھی۔ چونکہ وہ مختلف ملکوں کی سیر پر جاتے رہتے تھے اس لئے جو چیز پسند آجاتی اسے مسجد کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے۔۔ یوں مسجد کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلی ہوتی رہی۔۔ انیس سو پچاس میں سیم کے خطرے کی وجہ سے پوری مسجد کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔۔
انیس سو پچھتر میں رئیس غازی محمد کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رئیس شبیر محمد نے اس کی تعمیر کا ذمہ سنبھالا اور انیس سو بیاسی میں اس کی تعمیر مکمل ہوگئی۔۔

بحرحال ابوزر کاٹھیہ صاحب نے گاڑی ایک سائیڈ پر لگائی اور پھر گوگل میپ کو کھول کر کچھ اندازے لگائے۔ اور گاڑی سڑک سے ایک کچے راستے پر اتار دی۔۔ مٹی کے بہت بڑے غبار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم کچے انجان راستوں پر کوئی پونا گھنٹہ خواری کے بعد ٹرالیوں کی وجہ سڑک کے بند حصے کو بائی پاس کرتے ہوئے دوبارہ اسی روڈ پر واپس پہنچ چکے تھے۔۔ اور یوں بھونگ مسجد دیکھنے کا چکنا چور ہوتا ہوا خواب ایک بار پھر تعبیر دیکھنے لگا۔۔

پونے دو گھنٹے کا سفر کوئی ساڑھے تین گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد جب ہم مسجد تک پہنچے تو مغرب کا وقت قریب تھا۔ روشنی کم ہورہی تھی۔ اور جلدی سے اپنا کیمرہ آن کیا اور اپنی ڈائری کیلئے ریکارڈ اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔۔

مسجد کے احاطے میں داخل ہوں تو وسیع و عریض باغ موجود ہے۔ جسے عبور کرکے مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر صحن میں قدم رکھیں تو سنگ مرمر اور سنگ سیاہ سے آراستہ صحن استقبال کرتا ہے۔ ۔ مسجد کے گنبدوں پر نیلے رنگ کی ٹائل لگی ہوئی اور مینا کاری کا نفیس کام نظر آتا ہے۔۔ عمارت کے محرابی دروازوں میں قرآنی آیات کندہ ہیں۔ مرکزی دروازے کی محراب کے اندر آیت الکرسی لکھی ہوئی ہے۔۔ بتایا گیا کہ سب دروازوں میں ہاتھی دانت سے کام کیا گیا ہے۔۔

سفر کے مصائب سے نکلنے کے باوجود ابھی امتحان ختم نہیں ہوئے تھے ۔ کیونکہ جب اڑن کھٹولے سے شاٹ لینا شروع کئے تو وہ بے قابو ہو کر مسجد کی دیواروں سے ٹکرایا اور اور پر ٹوٹ کر بکھر گئے تو یوں لگا جیسے یہ ڈرون آج ابدی نیند سو چکا۔۔

انیس سو چھیاسی میں اس مسجد کو آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر سے نوازا گیا۔ جس کے ساتھ ملنے والی سند میں ناصرف رئیس محمد کی خدمات کا اعتراف کیا گیا بلکہ ان کاریگروں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے اس کی تعمیر کی۔۔مسجد میں نصب قرآنی آیات پر مبنی تختی کے ساتھ لگے ایک بورڈ پر ان تمام کاریگروں کی خدمات کے اعتراف میں نام لکھے ہیں جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔۔
مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ لائبریری اور حجرہ بھی قائم کیا گیا ہے۔۔

تمام سفر کے دوران آصف نواز کے گھر سے بار بار فون آرھا تھا جس پہ ہم اسکا خوب مذاق اڑا رہے تھے کہ گھر پہنچ کر آج خیر نہیں۔
اور اتنے میں میرا فون بجا ۔تو بدقسمتی سے فون کا والیم کچھ زیادہ تھا اور ساری گفتگو آصف نواز نے سن لی۔ جس پر گیند اب اس کے ہاتھ میں تھی اور ہمارے سابقہ باؤنسر اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنا شروع کر دیئے۔۔
اور بار بار گنگنا رھا تھا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔

مسجد کے صحن کے بڑے حصے کو مصنوعی چھت سے ڈھانپا گیا ہے جو اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ بظاہر فائبر سے بنی دکھائی دیتی ہے لیکن اس پر بنے گنبدوں کے اندر قرآنی آیات کا خوبصورت رنگوں کے ساتھ باریک کام موجود ہے۔
مسجد کا مرکزی ھال دلکش نقش و نگار اور منفرد ڈیزائن کی وجہ سے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ بتایا گیا کہ مسجد کی پوری آرائش میں سونا چاندی اور قیمتی پتھروں کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
مسجد کی تعمیر میں جس قدر محنت اور دلچسپی دکھائی گئی ہے۔ اگر تھوڑی سی دلچسپی اس کی صفائی پر دے دی جائے تو مسجد کا حسن اپنا اصل روپ دکھاتا رہے گا۔۔کیونکہ مسجد کے گنبد، مرکزی دروازے، قرآنی آیت والی تختی سب چیزوں پر باریک کام جس نفاست سے کیا گیا ہے ان کی حفاظت اور ان کا حسن برقرار رکھنے کیلئے اس سے بھی زیادہ محنت درکار ہے۔۔۔۔

اگرچہ اڑن کھٹولے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے دل کافی پریشان کر دیا تھا۔ لیکن واپسی پر تمام راستے وجوہات پر غور کرنے کے بعد مجھے شک ہوا کہ یہ سب کچھ اپ ڈیٹ کا کیا دھرا نہ ہو۔۔کیونکہ جب سے اسکا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا تھا تب سے چھوٹے چھوٹے مسئلے آرہے تھے۔ واپس آکر اسکے پر تبدیل کئے۔ سافٹ ویئر ڈائون گریڈ کیا تو اس کی ورکنگ دوبارہ بہترین ہوگئی ۔۔۔۔تب سے سوچ رھا ہوں کیا کمپنیاں جان بوجھ کر ایسا کرتی ہیں؟ یا پھر اتفاق سے ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔۔

دو ہزار تین میں حکومت پاکستان نے سردار رئیس غازی محمد کو ان کی خدمات پر بعد از مرگ ستارہ امتیاز سے نوازا اور اس سے اگلے سال بھونگ مسجد کی تصویر سے مزین ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔۔

میری زندگی کے عام دنوں میں سےایک دن جو سفر کی کلفتوں، سہولتوں اور دوستوں کے ساتھ نے یادگار بنا دیا

میم سین