Thursday, January 17, 2019

میرا بچہ کھاتا پیتا کیوں نہیں ہے



ایک ایسی شکائیت جس کے بارے میں ہر ماں بہت متفکر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا بچہ کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے۔۔۔۔۔
اب ایک طرف تو وہ بچے ہوتے ہیں جن کا وزن عمر کے لحاظ سے ٹھیک ہوتا ہے لیکن ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت کھاتا پیتا نظر آئے۔ جبکہ دوسری طرف وہ بچے ہوتے ہیں جن کو حقیقت میں خوارک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ کھانا پینا پسند نہیں کرتے۔
پہلی قسم کے بارے میں تو کہوں گا کہ ایک بچہ جو صرف ماں کے دودھ پر ہے اور چھ ماہ کا ہوگیا ہے۔اور صحت میں اچھا ہے تو ایسے بچے کی ٹھوس غذا کو ایک دو ماہ مزید لیٹ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح ایک بچہ اپنے عمر کے مطابق اپنا وزن پورا کررھا ہے اور اسکے مائل سٹونزٹھیک ہیں تو بچے کے نہ کھانے پینے کی فکر غیر ضروری ہے۔
اب آتے ہیں کہ وہ بچے جن کو واقعی خوارک کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کیلئے ناصرف ماں کی سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایک مناسب درجے کی سائیکٹرسٹ ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے ایک ضروری بات ۔۔اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے ساتھ کمپیئر کرنا چھوڑ دیں۔ہر بچے کی پسند ،ناپسند،مزاج ، سوچ،انداز مختلف ہوتا ہے۔ ایسے ہی بچے کی صحت اور قد کا تعلق جینیٹکس کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ضروری نہیں آپکے اور آپکی بہن یا کسی کزن کے بچے ایک جیسی جسامت یا صحت کے ہوں۔ 
چھ سے ایک سال کے بچے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو ٹھوس غذا اس وقت دی جائے جب وہ بھوکا ہو یعنی اس کےدودھ کا وقت ہو۔ اور ابتدا میں بچے کاپیٹ بھرنے کی بجائے صرف اتنا کھلایا جائے جس کو وہ باآسانی نگل سکے۔آدھا چمچ یا ایک چمچ کافی ہوتا ابتدا میں۔ اور دھیرے دھیرے اس کی مقدار بڑھاتے رہیں۔ اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ورائیٹی آف فوڈ ۔۔کبھی دھی کھلائیں ، کبھی دلیا، کبھی ساگو دانہ، کبھی کسٹرڈ، فیرنی کبھی کچھڑی کبھی انڈہ ، انڈے کی زردی۔ اب ضروری نہیں کہ جو چیز اس نے آج نہیں کھائی تو اس کو پسند نہیں اور دوبارہ نہیں بنانی ۔ ویسے شوہر کے اوپر بھی اس کلیئے کا اطلاق ہوتا ہے۔رنگ برنگے ذائقوں سے آشنائی مستقبل میں بہت کام آتی ہے۔جب بھی بچے کوکھلائیں تو ہمیشہ اس کے سامنے کچھ چمچ اپنے منہ میں بھی ڈالتے جائیں۔کچھ بچے میٹھے اور نمکین کے درمیان فرق بہت کم عمر میں کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس لیئے اندازہ لگائیں بچہ نمکین یا میٹھی چیزوں میں سے کس کو زیادہ رغبت سے کھاتا ہے۔تاکہ مستقبل میں اس کا اہتمام زیادہ کیا جائے........
اب آتے ہیں سمجھدار بچوں کی طرف
دو سال سے بڑے بچے کیلئے فیڈر ایک نشے سے کم نہیں ہے۔ اس لیئے جتنا جلدی ہوسکے بچے کی فیڈر سے جان چھڑوا دیں۔ بہت سی مائیں اس نقطہ نظر سے فیڈر نہیں چھڑوانا چاہتی ہیں کہ فیڈر کے بغیریہ دودھ نہیں پیتا یا پھر کچھ کھاتا پیتا نہیں۔ اس لیئے سات آٹھ سال تک بھی فیڈر چل رھا ہوتا ہے بلکہ میں نے تو ایک آٹھویں جماعت کی بچی کو بھی فیڈر پیتے دیکھا ہے۔اور کچھ بچوں کو مائیں نیند میں ہی فیڈر کو منہ سے لگا دیتی ہیں کہ جاگنے کے بعد اس نے کطھ کھانا پینا نہیں ہے۔ 
بچوں کی کھانے پینے میں دلچسپی پیدا کرنے سے پہلے ایک بات کا خیال رکھیں کہ ساری عمر کام آنے والا سنہری اصول ۔ڈسپلن۔کھانے کی عادت ڈالنے کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہنا، ان کو اپنے ساتھ انوالو کرنا، ان کی دلچسپیوں میں شرکت کرنا، برش کی عادت شروع کرنا، کھانے سے پہلےہاتھ دھونا، کھانے کے بعد کلی کی عادت ڈالنا، بڑوں کا احترام سکھانا۔۔
بچوں کو وائٹی آف فوڈز سے متعارف کروائیں ۔گھر میں روٹی سالن مطلب گھر میں جو معمول کے مطابق پکا ہوا ہے، اسکا عادی بنائیں لیکن ساتھ ساتھ کھانے میں دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے گھر کے بنے شوارمے ، برگر، آلو کی چپس، سموسے، پکوڑے، سینڈچ بروسٹ وغیرہ بنا کردیں۔ اس کو بسکٹ رس نمکو بازاری چپس یا ایسی دوسری چیزوں سے پیٹ بھرنے کی عادت نہ ڈالیں۔کولڈ ڈرنکس یا پیکنگ والے جوسز زہر قاتل ہیں۔کبھی کبھار استعمال میں تو ہرج نہیں لیکن ان کی عادت زہر قاتل ہے۔ناصرف صحت کیلئے نقصان دہ بلکہ بچوں کی بھوک کو مارنے کا سبب بھی۔ بچوں کی غذا میں سے چینی کا کم سے کم استعمال کریں ۔میٹھے کیلئے برائون شوگر یا شہد کا استعمال کیا جائے۔جب بچہ کسی ایکٹویٹی میں مشغول ہوتو اسے کھانے کیلئے مت روکیں ۔ جیسے کارٹون دیکھ رھا ہے، کرکٹ کھیل رھا ہے یا کمپیوٹر پر بیٹھا ہے تو ماں سینڈوچ لاکر سامنے رکھ دیتی ہے کہ ابھی کھاؤ ۔نہ کھائے تو لقمے منہ میں ڈالنا شروع کردیتی ہیں۔
بچوں کو سپیشل ٹریٹ کرنا بند کرنا ہوگا۔اور ان کے سامنے بار بار یہ ذکر کرنے سے پرہیز کریں کہ یہ کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے۔کھانے کو بچوں کیلئے کیلئے بورڈ کا امتحان نہ بنائیں ۔زندگی کا معمول سمجھیں۔ایسے بچے جو زیادہ بچوں کے درمیان ہوش سنبھالتے ہیں ان کے کھانے پینے کی روٹین بنانا آسان ہوتا ہے ان بچوں کی بنسبت جو گھروں میں اکیلے ہوتے ہیں یا پھر جس کا ایکسپوئیر محدود لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔بچہ آپ کا ہے یا پھر دنیا کے کسی بھی والدین کا ۔نہ تو وہ غیر معمولی ہے اور نہ ہی وہ کند ذہن۔ اس لیئے اسے ایک بچہ سمجھ کر ٹریٹ کریں۔کھانا کھانے پر بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور زیادہ کھانے پر ان کے کھیلنے کے اوقات میں اضافہ کر دیں، ان کی فیورٹ ایکٹویٹی کے ٹائم میں اضافہ کریں ا.اس طرح بچے میں کھانے کی موٹیویشن پیدا ہوگی.۔بچوں کو ڈائنگ ٹیبل کے استعمال کی عادت ڈالیں یعنی گھر کے سب افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں ۔بچہ کھانے کے اوقات کے علاوہ کھانے کیلئے کچھ مانگے تو اس کو ڈسکرج کریں ۔ 
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بچوں کے ساتھ اٹیچ ہونے کی ہے ان کے ساتھ تعلق بنا کر رکھنے کی۔ کچھ موقعوں پر آپ کو اپنی مصروفیات کی قربانی دینی ہوگی اور کچھ جگہ بچوں کو احساس دلانا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ کمنیونیکیشن گیپ کم کریں۔ ان سے باتیں کریں ان سے دوستی بڑھائیں۔بچے کی دوسروں کے سامنے ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں ۔ اس کی ناکامی کو نظر انداز کرکے حوصلہ بڑھائیں۔بچے کی پسند ناپسند کو محسوس کریں۔۔

بچے کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر غہر محسوس انداز میں گہری نظر رکھیں۔بچوں کی جسمانی ورزش بہت ضروری ہوتی ہے اس لیئے ان کو اپنی سہولت کی خاطر ہر وقت ٹی وی کے سامنے بٹھا کر یا اس کے ہاتھ میں موبائل پکڑا کر ان کا مستقبل اور عادات کو خراب نہ کریں۔اگر پارک موجود ہے تو ان کو وہاں بھیجا کریں۔ وقت نکال کر ان کو باہر پیدل سیر پر لیکر نکلیں۔ گھر میں جسمانی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کریں ۔ بچوں کو بھاگنے دوڑنے کا موقع دیں ۔
اور سو گلاں دی اک گل، مائوں کو اپنے بچوں کو وقت دینا ہوگا ان کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔
بچے اور شوہر کے درمیان فرق جان کر جیئو ۔
میم.سین

No comments:

Post a Comment