Friday, May 31, 2013

سوچنے کی بات

بات تو بہت سادہ ہے اور مختصر بھی۔لیکن بات محسوس کرنے کی ہے۔ جو شائد ہم سب کرتے بھی ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل بھی کرتے ہیں ، اس کا علم نہیں ہے۔ ۔۔میاں بشیر صاحب میرے رشتے دار بھی ہیں اور ایک حد تک دوست بھی ۔ اس دن ان کا ساتھ نہ ہوتا تو شائد میں شادی کی اس تقریب میں شرکت کیلئے جاتا ہی نہیں۔ جس دن بارات آنا تھی اس سے ایک رات پہلے قریبی عزیز کھانے پر مدعو تھے ۔ کھانے میں ابھی دیر تھی اور الیکشن اور موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے بات چل رہی تھی جب چھوٹی چھوٹی کچھ بچیاں کمرے میں داخل ہوئیں۔ بچیوں نے  شادی کے لئے دیدہ زیب لباس پہن رکھے تھی اور ان رنگ برنگے کپڑوں میں پھولوں کے گرد منڈلاتی تتلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ ان میں سے ایک لڑکی جس کی عمر یہی کوئی بارہ تیرہ برس کی ہوگی ، میرے پاس آئی اور سلام لینے کے بعد کہنے لگی انکل ہمیں ڈھولکی بجانے کی اجازت دے دیں ۔ ہم دروازہ کو کنڈی لگا کر بجا لیں گی اور آواز باہر بھی نہیں آئی گی۔ مجھے اس کے معصومانہ انداز پر بے اختیار پیار آگیا اور مسکراتے ہوئے پوچھا، پہلے یہ بتاؤ میرا نام استعمال کرکے کس نے آپ لوگوں پر پابندی لگائی ہے؟ میرے رویے میں شوخی کا عنصر دیکھ کر اس کے چہرے کا تناؤ ایک دم کم ہوگیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کہنے کیلئے منہ کھولتی پیلے رنگ کا لباس پہنے ایک بچی بول اٹھی ، ابو نے تو کہا تھا کہ کسی کی آواز بلند نہ ہو، آپ نے منع کیا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے میاں بشیرسے کہا کہ یہ ہوتا ہے ، بد سے بدنام برا۔ اور بچیوں سے کہا کہ تمہارے ابا سے تو میں بعد میں نمٹ لیتا ہوں لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ تم لوگوں نے شادی کیلئے اتنی تیاری کیوں کی ہے؟ ایک بچی جو شکل سے کافی سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی ایک دم بولی اسلئے کہ سب سے منفرد نظر آئیں۔ مجھے اس کے منہ سے اتنے میچور الفاط کی توقع نہیں تھی ۔ اس لئے ان سے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا تو آپ لوگوں نے اپنے آپ کو منفرد بنانے کیلئے کیا تیاریاں کی ہیں؟ اور پھر سب کو باری باری اپنا تعارف کرانے کو کہا ۔ کالے لباس میں ملبوس سب سے نمایاں نظر آنے والی لڑکی نے بتایا کہ ہم سب نے شادی کے لباس چھپا رکھے ہیں۔ میں نے تو ساری خریداری پنڈی سے کی تھی تاکہ کسی کے ساتھ میرے کپڑے میچ نہ کر پائیں۔ ابھی وہ کچھ اور کہتی سنہرے لباس والی بچی جس کے اگلے دانت گر گئے تھے اور وہ مسکراتے ہوئے مسلسل اپنے ہونٹوں سے دانتوں کے خلا کو چھپانے  کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی اور میں نے تو اپنے کپڑے کراچی سے منگوئے تھے۔ نیلی آنکھوں والی بچی نے کہا اور میں نے تو ایک بوتیک سے کپڑے سلوائے ہیں۔۔جب میں نے پوچھا کل جب بارات آئی گی تو کون کیا پہنے گا تو سب ایک آواز ہو کربولیں یہ  تو کل ہی پتا چلے گی، اگر ابھی پتا چل گیا تو ہماری ساری تیاری کا مقصد ختم ہو جائے گا۔ بچیاں چلی گئیں تو تو میاں صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر جو با ت کہی اس نے مجھے چونکادیا۔ اگر یہ لڑکیاں اتنی انفرادیت پسند ہیں تو اس کائنات کے ر ب کا تو حق بنتا ہے ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ا گر انسانی فطرت میں ستائش کا جذبہ اس قدر پایا جاتا ہے تو اللہ تعالی نہیں چاہتے ہونگے کہ اس کی بے تحاشہ تعریف کی جائے۔۔۔۔
میم سین

Wednesday, May 29, 2013

پٹھان کی نفسیات

ملا عمر کی حکومت کے آخری دن تھے۔ جب امریکی بمباری سے متاثرین اور شہروں کو چھوڑ کر پناہ گزیں کیمپوں کا رخ کرنے والے لوگوں کی امداد کیلئے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کا کوئی پچیس افراد پر مشتمل قافلہ پشاور سے روانہ ہونا تھا۔لاکھوں کی ادویات ہمراہ تھیں۔ کابل جانے کیلئے پہلے مہمند ایجنسی جانے کی ضروت تھی۔ اور وہاں سے بسیں کابل کیلئے روانہ ہوتی تھیں۔ بسوں کے اڈے پر جا کر کرایہ طے کرنے کی کوشش کی۔تو سب کی زبان تین ہزار پر رکی ہوئی تھی۔ بہت سمجھایا کہ یہ لوگ آپ کے بھائیوں کی مدد کیلئے جارہے ہیں۔کرائے میں کچھ کمی کرو۔ لیکن پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے، اس دن اس زبان کے ایک ہونے پر یقین آگیا کیونکہ جس سے بھی کرایہ کی بات کی سب نے ایک ہی لہجے اور ایک ہی ریٹ کی بات کی۔ اور یوں ہم ان کے بتائے ہوئے کرائے کو ادا کرنے پر مجبور ہو گئے جو پشاور کے باسیوں کے نزدیک کچھ زیادہ تھا اور صرف افغانستان کی خراب صورتحال سے فائدہ اٹھا یا جا رہا تھا۔دوپہر کے وقت پشاور سے روانہ ہوئے ۔عصر کے قریب ڈرائیور سے کہا راستے میں کوئی مناسب ہوٹل آئے تو گاڑی روک لینا ، عصر کی نماز بھی پڑھ لیں گے اور کھانا بھی کھا لیں گے۔لیکن اس نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔جب وقت عصر سے مغرب کی طرف نکلتا محسوس ہوا تو دوبارہ یاد کروایا کہ بھائی بیسیوں ہوٹل آپ نے نظر انداز کر دیئے ہیں ۔ اسلئے کسی بھی ہوٹل پر کچھ دیر کیلئے توقف فرما لیں۔ ڈرئیور نے سر اثبات میں ہلایا ۔ لیکن چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا۔پھر اچانک ڈرائیور نے مین روڈ سے گاڑی کو اتار ا اور ایک کچے راستے پر گاڑی ڈال دی ۔ ہماری نظریں بس سے باہر جھانک کر ہوٹل کے آثار ڈھونڈ رہیں تھیں لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ کوئی دو فرلانگ طے کرنے کے بعد ایک بڑا سا ٹرکوں کا اڈا آیا اور وہاں بس روک کر ڈرائیور ہمیں مخاطب ہو کر بولا ، یہاں کا کھانا بڑا اچھا  ہے  ۔۔لیکن قابلی پلاؤ ضرور ٹرائی کیجئے گا۔ میں نے قابلی پلاؤ کا نام صرف سن رکھا تھا لیکن اس دن معلوم ہوا یہ کون سی سوغات ہے۔ ایک تو بھوک کی شدت تھی اور دوسرا قابلی پلاؤ کا مزہ ۔۔ شائد کھانا کھانے کا ایسا لطف زندگی میں کبھی نہیں آیا ہوگا جو اس ہوٹل میں کھانا کھانے کا آیا۔ اور پھر مخصوص قہوہ ،  یوں لگا ڈرائیور نے یہاں لاکر اپنے زائد کرائے کا حق ادا کر دیا ہے۔ خیر سفر طے پایا اور ایجنسی پہنچے تو مغرب ہو چکی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ کابل جانے والی بسیں کل صبح سے پہلے نہیں مل سکیں گی۔ گاڑی والے نے اڈے سے گاڑی گھمائی اور ہمیں ایک ڈیڑے پر لے گیا اور رات ٹھہرنے کیلئے کہا۔ مغرب سے فارغ ہوئے تو قہوہ پیش کیا گیا۔ عشاء کے بعد بڑے بڑے تھالوں میں گوشت اور پلیٹوں میں شوربہ اور ساتھ روٹیاں رکھی گئیں۔ کھانے کے بعد ابلے ہوئے چاولوں پر چینی ڈال کر مدارت کی گئی۔سونے تک قہوے کے تو دو سے تین دور چل چکے تھے۔بستر ہمارے پاس تھے اس لئے رات گزارنے میں کوئی مشکل پیش  نہیں آئی۔۔ صبح ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ چائے کے ساتھ پراٹھے پیش کرکے ناشتہ کروا دیا گیا۔۔۔۔ اور یوں وہ لوگ جو کرایہ میں ایک روپیہ کم کرنے پر راضی نہیں ہورہے تھے ، ہماری خدمت پر ہزاروں خرچ کر دیئے۔۔۔۔۔ پٹھان کی نفسیات کو سمجھنا ہمارے جیسے شہریوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر اسلام آباد میں بیٹھنے والوں کیلئے
میم۔سین

Tuesday, May 7, 2013

میں اور عمران

آج دل پر بھاری پتھر رکھ کر ان حقیقتوں سے پردہ اٹھا رہا ہوں جن کی رازداری کی ہمیشہ قسم کھائی تھی۔ریلوے کے خاتمے کے بعدپٹریاں تو پتھروں سے خالی ہوگئیں، اسلئے بھاری پتھر ڈھونڈنا ایک الگ داستان ہے لیکن پھر بھی جیسے تیسے یہ پتھر ڈھونڈ ہی لیا ہے اور اس بات کا اقرار کرنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہورہا کہ عمران کی ساری سیاسی غلطیوں اور بچگانہ حرکتوں کا ذمہ دار میں ہوں۔ میں اپنے اور عمران کے درمیان اس تعلق کو کبھی ظاہر نہ کرتا اگر ملک کے اس انتہائی اہم دوراہے پر اس طرح عمران کی کردار کشی نہ ہورہی ہوتی اور جس طرح اسے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کے بعد میرا خاموش رہنا تاریخ کا سب سے بڑا جرم اور اور میری ساری زندگی کا ناسور بن جاتا۔عمران ایک بھلا مانس انسان ہے۔ عرصے سے میرے حلقہ ارادت میں شامل ہے۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے فون ضرور کر لیتا ہے۔ کبھی اداس ہو تو آدھی رات کو جگا لیتا ہے اور اپنے بچوں کا ذکر کر تے ہوئے اس کی آواز اکثر روندھ جاتی ہے۔ جمیما اور اس کے درمیان کیا اختلاف تھے اس سے تو پردہ پھر کبھی اٹھا ؤں گا ۔لیکن ایک بات ہے جمیما ایک بھلی خاتون تھی۔عمران زبان کا اس قدر پکا ہے کہ صرف ایک بار کہہ دیا تھا کہ میرے اور تمہارے تعلق کا کسی کو علم نہیں ہونا چاہیئے اور آج تک وعدہ نبھا رہا ہے۔پچھلے دنوں میانوالی کی ریوڑیاں بھجوائیں تو میں نے عرض کیا ، اب اس عمر میں زیادہ میٹھا کچھ صحت کے لئے مناسب نہیں ہے تو جواباً عیسی خیل کی جلیبیاں بجھوا دیں۔ چونکہ میرے آبائی شہر کا کھدر بہت مشہور ہے ۔ ایک دفعہ کھدر کا تحفہ بھیجا تو کھدر اسے اتنا بھا گیا کہ ، اس نے تو ہر میٹنگ اور جلسے میں کھدر کا استعمال شروع کردیا، میرے سمجھانے پر کہ میڈیا کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں کیوں مجھے اور خود کو مصیبت میں ڈالتے ہو،کچھ احتیاط برتنی شروع کر دی۔لیکن اب نائٹ ڈریس میں کھدر کو ہی ترجیع دیتا ہے، ابھی کل ہی راوی کے تربوز کھانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ میں نے کہا گیارہ مئی گزر جانے دو پھر تربوز تو کیا میاں بشیر کے فارم کے خربوزے بھی کھلاؤں گا۔ ۔ ایک بار کہا کہ اپنے بھیجے گئے تحفوں کے ساتھ اپنا نام نہ لکھا کرو ، کلینک کا معاملہ ہے ۔ مریضوں کیلئے مسائل بنیں گے۔ چونکہ شوکت خانم ہسپتال کا کافی تجربہ ہے، اسلئے فوراً بات سمجھ گیا ۔ اور دوبارہ کسی پارسل پر اپنا نام نہیں لکھا۔ اب آتے ہیں اس مضمون کو لکھنے کے پیچھے اصل مقصد کی طرف۔ الیکشن کی مہم کو تیز تر کرتے ہوئے جب عمران کو کھانے پینے کا  بھی ہوش نہیں تھا تو ایک رات اس کا فون آ یا کہ میں اتنی تقریریں کر رہا ہوں ، ہر روز وعدے کر رہا ہوں ، لیکن اگلے جلسے تک کسی کو کوئی بات  یاد نہیں رہتی۔ تو میں اسے شیر پر مہر لگا نے والا بیان دینے کو کہا کہ پھر دیکھنا، کیسے تمہاری تقریر ساری جماعتوں کی پیجز اور سائٹس پر پہنچ جاتی ۔اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ عمران کی تقریر کو سننے والوں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوگیا ، انہوں نے بھی تقریر سنی جو عمران کا نام سننا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔ اظہار تشکر کے طور عمران نے ملتان کے جلسے سے پہلے احمد والوں کا سوہن حلوہ بھیجا تھا۔ بڑا ہی شرارتی ہے ، شوگر والی بات ابھی تک نہیں بھولا۔ لوگوں کو اعتراض ہے کہ عمران ہمیشہ نواز شریف کو ٹارگٹ کرتا ہے اور شائد زرداری کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے تو اس کی بھی حقیقت سن لیں۔ اس دن رحمان ملک کا فون آیا کہ زرداری صاحب بات کرنا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا، شہر میں لوگ عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں معتبر حلقوں میں ایک وقار ہے ۔ کیوں اس عزت سادات کے پیچھے پڑ گئے ہو۔لیکن رحمان ملک بھی بڑا ضدی ہے اور مجھے اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی اور کہا بات کراؤ۔ زرداری صاحب نے چھوٹتے ہی چکڑی چوپڑی باتیں شروع کردیں ۔ میں نے عرض کی اپنے مطلب کی بات کریں ۔کسی کو بھنک پر گئی کہ میں نے آپ کے ساتھ بات کی ہے تو لائٹ بند ہونے پر آپ کی ماں بہن کی شان میں بیان ہونے والے قصیدوں میں میرا حصہ بھی طے پا جائے گا ۔ لیکن قربان جاؤں زرداری کی برداشت پر ، مسکرا کر بولے ۔ الیکشن ملتوی کروانے کا ارادہ ہے ۔ میاں صاحب تو مٹھی میں ہیں لیکن یہ اپنا کپتان قابو نہیں آرہا ۔ ایجنسیوں کے ذریئے آپ تک پہنچے ہیں کچھ کیجیئے۔میں نے عرض کی ۔ وہ تو نہیں مانے گا۔آپ کی طرح ضدی ہے ۔مشکل سے ہی مانے گا۔ میرا جواب سن کر زرداری صاحب بولے ، چلو ہاتھ تو ہلکا رکھ سکتا ہے نا، بس اب انکار مت کیجئے گا۔۔۔۔۔اور یوں ہاتھ ہلکا رکھنے کے وعدے پر ان الیکشنوں کے انعقاد کا تعین ہوسکا۔ ویسے زرداری صاحب نے کون سا الیکشن لڑنا تھا ؟ اس دن مولانا ڈیزل کا بھی فون آیا۔ تھا کہنے لگے میں تو پیسے لیکر اپنے ابا کی بھی مخبری کر دیتا تھا، عمران کومیرے پاس بھیجنا تھا۔اس کا بھی بھلا ہوجاتا اور میرا بھی الیکشن کا کچھ خرچہ نکل آتا۔ میں کہا مولانا صاحب کیا بات کرتے ہیں ۔ آپ کے فتوی سننے کے بعد ہنس ہنس کر اس کا ہاضمہ خراب ہوگیا ہے۔حکیم شادے سے پھکی لے کر بھیجی تھی تب کہیں جاکر سیالکوٹ والا جلسہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔
اب کچھ ایم کیو ایم کے باے میں عمران کے نر م گوشے کی بھی سن لیں۔ میں نے عمران کو کہا تھا کہ سب کے خلاف محاذ مت کھولو ۔ میری بات سن کر جذباتی ہوگیا ۔کہنے لگا، ایم کیو ایم کے خلاف تو میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں نے سمجھایا کہ الیکشن کی وجہ سے بینروں کا استعمال بڑھ گیا ہے ۔ کفن کیلئے اتنا کپڑا کہاں سے لاؤ گے۔ انڈیا سے منگوا بھی لیا تو پہنچتے پہنچتے سرد خانے بھر چکے ہونگے۔ میری بات سن کر عمران کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا نہیں میں اپنے ورکرز کو درختوں کے پتوں میں لپیٹ کر دفنا دوں گا لیکن انڈیا سے کوئی چیز قبول نہیں کروں گا۔ واہ مولا خوش رکھے ،کیا حب الوطنی کا جذبہ پایا ہے۔۔۔ لوگوں کو اعتراض ہے کہ عمران بہت خود سر ہے اور جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی الحاق کی ساری کوششوں کو بلڈوز کر دیتاہے ، تو اس کی بھی حقیقت آج سن لیں۔ میں نے منور حسن صاحب سے رابطہ کیا کہ عمران نوجونوں کی قیادت کر رہا ہے، نیا خون جوش میں ہے ، اس کا ساتھ دیں۔ منور حسن صاحب اپنے مخصوص لہجے میں کچھ مزید سختی اختیار کرتے ہوئے بولے، عمران تو آئین کی باسٹھ تریسٹھ شق پر پورا نہیں اترتا، ساٹھ سال کی عمر میں نوجوانوں کی قیادت کا جھوٹا دعوی کرکے صادق نہیں رہا۔اس لئے جماعت اسلامی ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرے گی۔اب چلتے چلتے ایک اور بھی خبر سن لیں ۔ حکیم اللہ محسودسے بات ہوئی کہنے لگا یار یہ الطاف بھائی اور اسفندیار ولی کیا چیز ہیں۔ ؟ میں پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا ،ہونا کیا ہے ، پچھلے ایک ماہ سے دونوں کراچی اور پشاور آنے کی دعوت دے رہیں ۔ کوئی رشتہ دار یا دوست نہیں چھوڑا جس کی سفارش نا آئی ہو۔ سمجھ نہیں آتا طاق بن زیاد کو کراچی بھیجوں یا پشاور؟ میں نے عرض کیا میری مانیں تو  طارق کو لندن روانہ کردیں۔ تو اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عمران کی ساری سیاسی غلطیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار یہ ناچیز ہے ۔ اس لئے میں ا لیکشن میں ہونے والی ساری کوتاہیوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں
میم ۔ سین