Monday, December 31, 2012

نئے سال کے لئے

آج نئے سال کا پہلا دن ہے۔نئی روشنیوں، نئی تمناؤں، اورخواہشوں کے ساتھ نئے سال کا سورج دھند کی اوٹ میں چھپا رہا۔او ر اس کی کرنین زمین کے باسیوں تک پہنچنے کی سعی کرتی رہیں اوراسی آنکھ مچولی میں دن بیت گیا۔
کل جب تک دو ہزار دس کا سورج ڈوب گیا،میں اپنے پس منظر میں وسیع کینوس سنبھالے، نئے سال سے کچھ امیدیں باندھنے کی کا ارادہ رکھتا تھا مگر منٹو کے نئے آئین کی مانند کوئی روشنی نظر نہ آئی۔لیکن رات میں جب سرد دھندلکوں میں میں دیر تک سوچوں کے پر پیچ رستوں پر سرگرداں رہا تو صبح کو میری رائے رات سے مختلف تھی۔نئے سال میں کیا ہو گا؟شائد وہی ہوگا جو ہر سال ہوتا چلا آیا ہے؟ نیا کیلنڈر اور نئے سال کی نئی تاریخ ؟ کیا پھر گھنٹے دنوں میں اور دن مہینوں میں اور مہینے پھر سے نئے سال مں ڈھل جائیں گے؟
دریا جب اپنے بہاؤ میں اپنے حصار توڑتے ہیں توجہاں بے شمار بستیاں برباد ہوتیں ہیں وہاں پر بے شمار زرخیزی بھی لاتے ہیں۔ میناروں کی بنیادوں میں مزدور کا پسینہ بہتا ہے تو وہ بلندیاں دیکھتا ہے۔قطرہ اپنی انا کو ختم کر کے گوھر میں ڈھلتا ہے۔کندن آگ کی تپش پا کر سونے سے ڈھلتا ہے۔ہاں میں بہت پر امید ہوں۔آنے والے سال کے نئے دنوں کی سواگت کیلئے بہت بے چین ہوں۔بہت سی بستیوں نے محلات کیلئے اپنے وجود کو زمین سے صاف کیا ہے ۔بہت سا خون ہے جو جو مٹی میں مل کر نئی عمارتیں کھڑی کر نے کیلئے بے چین ہے ۔میں نئے سال کی نئی امیدوں کے تعاقب میں ہوں۔جنگلوں کو آگ نے راکھ بنایا، اب یہی راکھ زندگی میں ڈھلے گی۔نیا گلستان آباد کرنے کیلئے۔وہ گھر جو جل گئے تھے، اب وہ پھر سے آباد ہونگے۔میری نظر لہو کے ان قطروں پر ہے جونئی روحوں کو جنم دیں گے۔مجھے یقیں ہے، آنے والا سال کائنا ت کی ہر نعمت لئے چشم راہ ہوگا۔لذتِ آفرینی ہوگی،جو روحوں کی کثافت دھو ڈالے گی۔مجھے یقین ہے نئے سال کا شعور پچھلے سال کے شعور سے بہتر ہوگا۔میرے گمان حقیقت پائیں گے، میرے خواب زندگی میں ڈھلیں گے۔میری ساری خواہشات میرے ہاتھ میں ہونگی۔
لیکن میں اتنا پرامید کیوں ہوں؟میرا تصور اتنا اثر انگیز کیوں ہے؟میرے خواب اتنے قابلِ رشک کیوں ہیں؟ہاں یہ حسرتیں ہیں میری، جو برس ہا برس محنتوں سے پائیں ہیں۔میری مضطربانہ کیفیت جو شائد میرا مقدر ہے، نے مجھے زندگی کی شعریت سے روشناس کرایا ہے۔مجھے رموزِ حیات سے آگاہ کیا ہے۔میری روح کی تشنگی نے مجھے امید سے سرشار کیا ہے۔میں خواب اور حقیقت کی معنویت سے باخبر ہو گیا ہوں۔ ہاں مجھے گاڑی کا ایک پرزہ رہنا ہے جس نے گاڑی کو چلانا ہے۔ مجھے سٹیرنگ پر نہیں بیٹھنا ۔ مجھے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ہاں مجھے یقین ہے میں نے قطرہِ حیات کو پا لیا ہے۔نیا سال میری نئی جہد کا آغاز ہے۔ میرے نئے خوابوں کا سلسلہ ہے۔
میم ۔ سین

قسمت


ہم اور تم
ایک ہی چھت تلے
پلنے بڑھنے والے
بادشاہ اور وزیر کے
دو جوان بچے
ایک ہی استاد
ایک ہی ماحول
لیکن
دونوں کی قسمت۔۔
ایک ہی راہِ سفر
دو مختلف منزلیں
میم ۔ سین

Sunday, December 30, 2012

وہ آنکھیں


باباجی باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو میری قوتِ مدافعت جواب دے جاتی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں ساری باتیں اپنے اندر جذب کرلوں۔،ایک انجانی سی سرشاری محسوس کرتا ہوں اس تعلق اور اس لگاؤ کا سرور محسوس کرتا ہوں،جو میرے اور بابا کے درمیان ہے۔جب وہ باتیں کرتے ہیں تو میری روح وجد میں آجاتی ہے۔میرا مطالعہ اور میرا مشاہدہ ان کے سامنے ہیچ نظر آتا ہے ۔میں اپنے جسم سے نکل کر کسی پرواز کیلئے بے تاب ہو جاتا ہوں۔مجھے ایسے لگتا ہے کسی نے میرے اندر سے اختلافِ رائے کی حس چھین لی ہوخوشی اور مسرت کے جام انڈیلے جا رہے ہوں۔وہ چپ بھی ہو جائیں تومیرا وِجدان ا ن کی روح و قلب کے تعاقب میں سرگرداں رہتا ہے۔یہ ان کی باتوں کا حسن ہوتا ہے یا لبوں کی گویائی کی تاثیرکہ میرے سارے اصول، قانون اورضابطے دھرے کے دھرے رہ رہ جاتے ہیں۔کسی طلسماتی کشمکش کے تعاقب میں اپنی روح کو مضطرب پاتا ہوں۔بابا کی محفلیں نوازشیں ہیں جس نے بے نیازی کے عرفان سے آشنا کر دیا ہے۔ بابا کی آنکھوں میں ایک حجاب ہے، ایک پراسراریت ہے ۔کون جانے ان پردوں کے پیچھے کیا ہے۔کون سے بھید ہیں مگر بابا کی متجسس آنکھیں بتاتی ہیں کہ و ہ اس حجاب کو بے نقاب کرنے کوتیار ہیں۔ مگر اس کیلئے جو ان بھیدوں کے اسرار جاننے کیلئے بے قرار ہیں،تیار ہیں 
مگر میں جو ہمیشہ تلاش میں بٹھکتا رہتا ہوں،پا لینے کے معنی کیسے جان سکتا ہوں۔میرے لئے تو جو لمحہ گزر رہا ہے وہی زندگی ہے۔،وہ فریب ہے یا حقیقت۔لمحوں کے معنی جاننے کے چکر میں ،زندگی کے یہ حسین پل بیکار گزارنا نہیں چاہتا۔ میں ان لمحوں کو ،بنا ان کے معنی جانے، اپنے اندر سمو لینا چاہتا ہوں۔
میں نے چائے کپ میں انڈیل کر بابا جی کی طرف بڑھا دی۔وہ چائے سے بے خبر دریا سے آتی ٹھنڈی ہوا کے تازگی کواپنی سانسوں میں سمونے میں مصروف تھے۔
میرے چائے کہنے پر چونکے اور میری طرف دیکھا۔ ہماری نگاہیں ٹکرائیں تو میری روح وجد میں آگئی۔جھیل سی پراسرار آنکھیں، چہرے پر ایک بے ساختہ پن ،بچوں کی سی معصومیت۔میرے اندر ایک زبرست خواہش پید ا ہوئی کہ جسکی شدت سے میری روح کانپ گئی۔ مجھے دنیا میں کوئی چیز نہ ملے، میں ساری دنیا سے بیگانہ ہو جاؤں۔مجھے میسر ہو توصرف بابا جی کی قربت، ان کی باتوں کی قربت ،ان کے نام کی قربت۔
’’ نفسیاتی الجھنوں کے سائے میں پلنے والے کردار مکمل کیوں نہیں ہو تے ان کے افکار او ر ان کے کردار میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟‘‘ میں نے نظروں کو جھکا لیا اور ان کے جواب کا منتظر رہا۔
 کپ ہاتھ میں پکڑے ،چند گھونٹ پینے کے بعدانہوں نے بہتے پانی پر ایک نظر ڈا لی ا ور کچھ بڑبڑائے، پھر گویا ہوئے
’’ جس تخلیق میں قلبی اور روحانی شعور نہ ہو وہ نامکمل رہتی ہے، وہ ہمیشہ تلاش میں رہتی ہے ۔ان محرومیوں کے متبادل کیلئے جو اس کے اندر کسی کنجینٹل فزیکل ڈیفکٹ 
 کی طرح ہمیشہ کیلئے اس کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔‘‘
 ’’ اس کا کوئی حل بھی ہوگا؟‘‘ میں نے اپنا کپ ختم کرتے ہوئے پوچھا’’
 یہ اس وقت تک چلتا ہے، جب تک زندگی کی معنویت، منفی رہے گی۔جب تک انتشار زندگی کی پہلی قدر رہے گا۔جب تک معیار کا پیمانہ تم معاشرتی ضرورتوں اور خواہشوں کو دیکھ کر منتخب کرتے رہو گے۔ جب تک ذہانت کا فلسفہ قلب سے نہیں ذہن سے سمجھتے رہوگے۔جب ان دنیاوی معیاروں سے کنارہ کش ہو جاؤ گے تو وہ سب خلا پر ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔
وہ کیا کہے جا رہے تھے میں ان آنکھوں کے پیچھے گہرے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھاکچھ دیر پہلے بچوں کی طرح گول گول آنکھیں اب مجھے کسی بیقرار روح کی بے عقیدہ آنکھیں نظر آئیں۔ مجھے لگا یہ آنکھیں نہیں ہیں تشنہ کاموں کی پیاس ہے کسی عفریت کے خوف میں روح کی بالیدگی کی تلاش میں ہیں۔کسی فاتح کی زہنی مسرت کا خمار ہیں۔یہ آنکھیں نہیں مہیب غار ہیں، یہ آنکھیں نہیں کائینات کا اسرار ہیں۔ناقابلِ فہم ہیں بے پایاں وسعتیں ہیں،نہ ختم ہونے والے فاصلے ہیں۔امنگوں او ر ولولوں کے سفر میں پہلا سنگِ میل ہیں۔یہ آنکھیں نہیں ہیں انکشافات کا پہلا قدم ہیں۔زہنی بالیدگی کا انتہا اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔یہ آنکھیں نہیں ہیں لعزشِ ماہ وآفتاب ہیں جو زندگی کی معنویت ڈھونڈ ھ رہی ہیں۔انسانی مقام کو ارفع و اعلی دیکھنا چاہتی ہیںیہ آنکھیں نہیں ہیں جمالیات اور تخلیقات کی علامت ہیں۔ گوشہ عافیت کا شعور ہیں جنوں کی تسخیر ہیں مسرتوں کا جزو ہیں۔۔۔
اگر بابا جی نے مجھے اٹھنے کا نہ کہا ہوتا تو میں شائد ان آنکھوں کی پراسرایت کے بھید جاننے کیلئے ایلس ان ونڈرلینڈ کے ایڈونچر کا آغاز کر چکا ہوتایا ہیپناٹائز ہو کر جنگلوں میں نکل جاتا یا کسی گیان میں لگ جاتا یا کسی ان دیکھے سفر پر نکل جاتا
 ’’ چلو پانی کے بہاؤ میں اس کا ساتھ دیں‘‘ اور بابا جی اٹھ کر چل پڑ ے اورمیں ان کے پیچھے ہولیا ، ان نشانوں پر اپنے قدم جماتا، جو وہ اپنے پیچھے چھوڑے جارہے تھے 
میم۔سین 

Saturday, December 29, 2012

وہم


سلمی نے بھی کیا خوب کہی تھی
میرے مرنے کے بعد 
میری حسرتوں پر فسانہ لکھنا 
میرے شب و روز کی حقیقتوں پر
میری غم زدہ محبتوں پر
میری سانسوں کی نفرتوں پر
صرف ایک فسانہ لکھنا
لکھنے سے پہلے، مگر یاد رکھنا
ایک بار مجھے دیکھنا
یہ وہی آنکھیں ہیں 
جنہوں نے خواب دیکھے تھے
پھرنہ کہنا خبر نہ ہوسکی
وہموں کے عذاب دیکھے تھے
غم بے حساب دیکھے تھے
دیکھ لینا صرف ایک بار
ڈوبتی آنکھوں میں تیرتے آنسو
مدہم سی روشنیاں
شفق کا مانند ہوتا رنگ
سلمی بھی عجیب لڑکی تھی
مرنے سے پہلے، وہ رو نہ پائی
اس کے آنسو پتھر نکلے
پتھروں پر میرا نام تھا
میم ۔ سین

Friday, December 28, 2012

خودی


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم میڈیکل کالج میں پڑھا کرتے تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی والی نہر کی جانب جامن کے درختوں کے نیچے ایک چائے والے نے اپنا بسیرا لگا لیا۔ وہ چائے بڑی مزے کی بناتا تھا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی چائے اس قدرمشہورہوگئی کہ لوگ اس کی چائے پینے دور دور سے آنا شروع ہوگئے۔ کچھ لوگوں کو اس کی چائے کے شوقین افراد کو دیکھ یہ شک بلکہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ چائے میں کوئی نشہ آور چیز ملاتا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس کی چائے پی لیتا ہے تو پھر وہ اس کا دیوانہ ہو جاتا ہے ۔کچھ کا خیال تھاکہ لوگ خالص دودھ کے عادی نہیں ہیں اسلئے جب خالص دودھ کی چائے ملی ہے تو کوئی اور چائے ان کی زبان پر اپنا ذائقہ نہیں چھوڑتی ۔ خیرجتنے منہ اتنی باتیں۔مگر اس کے اس چھوٹے سے کھوکھے سے لوگوں کا رش تبھی ختم ہوتاتھا، جب وہ دودھ ختم ہوجانے کی اطلاع دیتا تھا۔
لوگوں کی کیا بات کرنی،ہم تو خود اس چائے کے نشے کے عادی تھے۔ ہم کیا، پورا ہوسٹل ہی۔۔ دوپہر کا کھانا کھا کر شائد ہی کوئی لڑکا ایسا ہو گا جو چائے پینے اس کے کھوکھےپر نہ پہنچتا ہوگا۔
ایک دن ہم اپنے چائے کے کپ کے انتظار میں نہر پر بنے پل کی منڈیر پر بیٹھے تھے کہ ایک بابا جی، یہی کوئی ستر سال کے پیٹے میں ہونگے، سڑک سے گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے ہمارے پاس رکے اور پوچھنے لگے بیٹا ٹھوکر نیاز بیگ یہاں سے کتنا دور ہے؟
ہم میں سے ایک لڑکے نے لاپرواہی سے جواب دیا ۔ یہی کوئی چھ کلومیٹر!!
بابا جی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا اور کچھ لمحے کے لئے سوچا اور شکریہ ادا کر کے چل دیے۔ بابا جی کے جانے کے بعد ایک دوست کہنے لگا، لگتا ہے بابا جی کو شائد پتا نہیں ہے کہ یہاں سے ویگنیں بھی ٹھوکر تک جاتی ہیں۔
ابھی بابا جی کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ہم دوست دوڑ لگا کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ اور بتایا کہ بابا جی آپ یہیں پر انتظار کرلیں ۔ٹھوکر جانے والی ویگن یہیں سے گزرتی ہے۔ آپ اس پربیٹھ کر چلے جائیں۔
بابا جی نے ہماری بات پر کوئی غور نہیں کیا اور چلتا رہا۔ ہم نے پھر اصرار کیا کہ اتنی گرمی میں آپ کہاں پیدل اتنا سفر کرتے پھریں گے۔ ابھی ویگن آجائے گی اور آپ اس پر بیٹھ کر چلے جائیں۔
بابا جی چلتے چلتے رک گئے اور نگاہیں نیچی رکھے بولے بیٹا مجھے اوکاڑہ جانا ہے اور میرے پاس صرف اتنے پیسے ہیں کہ میں ٹھوکر سے اوکاڑہ کا کرایہ ادا کرسکوں۔اس لئے مجھے ٹھوکر تک کا فاصلہ پیدل ہی طے کرنا پڑے گا۔۔
بابا جی کی بات سن کر ہم سناٹے میں میں آگئے اور ہر روز جگہ جگہ، بھیک مانگتے اپنی مجبوریاں سنا کرمظلومیت کا لبادہ اوڑھے لوگ نگاہوں کے سامنے آگئے۔ 
ایک دوست نے بڑی مشکل سے کچھ پیسے دے کراس شرط پر ان کو راضی کیا، جب کبھی آپ یہاں سے گذریں تو ہمیں واپس کر دیجئے گا۔
بابا جی تو چلے گئے لیکن ان سے مل کر خودی کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ بڑی بڑی کتابیں اورلیکچر سن کر بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا۔
میم سین

Thursday, December 27, 2012

خوش فہمیاں

مجھے ابن انشاء کی طرح اس بات کا دعوی تو نہیں ہے کہ فیض کی تخلیقات دراصل ان کے خیالات ہیں جو فیض نے ان سے ادھار لئے تھے ۔لیکن مجھے کافی عرصے سے وہم تھا بڑے بڑے جتنے بھی ادیب اور شاعر ہیں وہ میری سوچ سے متاثر ہیں میرے خیالات ان کی ادبی تخلیقات کا سبب ہیں وہ میری سوچ سے متاثر نظر آتے ہیں۔لیکن چند دن پہلے میر تقی میر کو پڑھا تومیرا وہم، یقین میں ڈھل گیا اگرچہ یار لوگوں کو میری اس بات سے اتفاق نہیں ہے لیکن ان کی رائے کو میں زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا کیونکہ ان کے ساتھ اور بھی بہت سے معاملات میں اختلاف چل رہا ہے ۔اگرچہ میں میں اپنے یقین کی کوئی خاص وجہ تو بیان نہیں کر سکتا لیکن میرے یقین کی کے لئی یہی کافی ہے کہ میں صاحب کتاب نہیں ہوں۔قلم کا نشتر بہت تیز ہوتا ہے، بڑے بڑے مربی اور بزرگ پیدا کرتا ہے کسی بھی صاحبِ کتاب کو دیکھ لیں اس سے بڑا فقیہء شہراور مجدد کسی نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہ نہ ہوتے تو شائد تاریخ کا دھارہ کہیں اور بہہ رھا ہوتا۔ ساری زندگی مجرا کراؤ اور آخری عمر میں سوانح عمری لکھ ڈالو معلوم ہو گا یہ صاحب نہ ہوتے تو دنیا گناہ کی دلدل ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری فلمی صنعت کی پریاں بھی صاحبِ قلم ہو جائیں تو ہم ان کو بی بی پاک دامن کا درجہ دے ڈالیں اس لئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں اگر میرے پاس قلم کی تیز دھار ہوتی تو زمانے کو بتاتا کہ دنیائے ادب میں میرا کیا مقام ہے۔ غالب سے میرتک کتنے ادیب اور شاعر میرے محتاج ہیں۔اقبال سے فیض اور فرحت سے سعد تک ، زمانے نے کتنا قرض لے رکھا ہے مجھ سے ۔پہلے پہل میں سمجھتا رہا کہ شائد یہ میرا وہم کہ میں جس بھی مصنف کو پڑھتا ہوں اس کے خیالات میرے خیالات سے اتنے ملتے جلتے کیوں ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ وہ میرے ہی خیالات لے کر شہرت حاصل کر رہے ہیں طبیعت میں عاجزی اور انکساری کا یہ عالم ہے کہ کبھی یہ بات حسد بن کر میرے ذہن میں نہیں آئی۔دوسروں کی غیرت اور عزتِ نفس کا اتنا پاس ہے کہ ذاتی شہرت پر دوسروں کی عزت کو ترجیع دی۔ سو آج سے ہم ہر مصنف کے نام کی جگہ اپنا نام دیکھتے ہیں اور ہرپیش لفظ کو اپنے نام سمجھتے ہیں
میم۔ سین

میّت

’’ جب میرے ابا یہ کام کرتے تھے تو حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔آبادی کم تھی اور لوگ بھی کم مرتے تھے۔ کئی کئی دن ہمارے گھر فاقہ رہتا تھا۔جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو سارا دن قبرستان میں بیٹھے کھیلتے رہتے اور قبر ستان کی طرف آنیوالے ہر شخص کو کسی نئے مرنے والے کا عزیزسمجھ کر، کام آیا، کام آیا کا نعرہ لگاتے ،اس کی طرف دوڑ لگا دیتے۔کام آیا تھا یا نہیں ہماری یہ دوڑ دھوپ ہمارا کھیل بن جاتی تھی۔اب تو اللہ کا بڑا فضل ہے۔ آبادیاں بڑھ گئی ہیں اورلوگ اتنے مرنے لگے ہیں کہ ہم میّت کے آنے کا انتظار ہی نہیں کرتے۔ صبح آکر دو چار قبریں کھود ڈالتے ہیں۔ اور جب گاہک آتا ہے تو اس کو پسند کروا دیتے ہیں ہیں اور جگہ کے لحاظ سے پیسے وصول کر لیتے ہیں۔‘‘اللہ بخش بولتا چلا گیا۔اللہ بخش مقامی قبرستان میں گورکن ہے، ابھی تھوری دیر پہلے کسی موٹر سائیکل والے سے ٹکرا کر چوٹیں لگوا کر میرے کلینک پہنچا تھا۔بستیوں سے ہٹ کر رہنے والے لوگوں کی زندگی کی پراسریت جاننے کا تجسس ہمیشہ ہمارے دلوں میں ہوتا ہے۔مرہم پٹی کروا کر دوائی لکھوانے میرے پاس پہنچا تو میرا تجسس بھی امڈ آیا تھا
’’ قبر کھودنے میں کبھی دشواری بھی آتی ہے؟ جیسے کہانیاں مشہور ہوتی ہیں کہ میں جہاں سے بھی قبر کھودنا شروع کرتا، سانپ نکل آتا تھا یا قبر ڈھے جاتی تھی وغیرہ وغیرہ‘‘ میں نے پوچھا
’’ ہا ہا،ہر وہ جگہ جو انسانی دسترس سے دور ہو۔جہاں آنا جانا لوگوں کا کم ہو۔ وہاں کے بارے میں ایسی آسیبی اور ماورائی کہانیاں بن ہی جاتی ہیں۔ ہم تو جوان ہی اس قبرستان میں ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو کبھی ایسے وقعات نہیں ہوئے۔ ویرانہ ہے، جھاڑیاں ہیں گند ہے۔ ایسی جگہوں پر سانپ تو نکل ہی آتے ہیں۔ باقی رہا قبروں کا منہدم ہونا تو برسات کے موسم میں اکثر ہو جاتا ہے۔ ادھرہم قبر مکمل کر کے ہٹتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہ ڈھے جاتی ہے۔اور کبھی ہم قبر کے اندر ہی ہوتے ہیں تو مٹی اپنی جگہ چھوڑنے لگتی ہے اور ہمیں بار بار مٹی کو سہارا دینا پڑتا ہے۔‘‘ اللہ بخش نے وضاحت کی
’’ جب کوئی بڑا شخص مرتا ہے اس کی قبر کیلئے تو بہت اہتمام کرتے ہو گے‘‘ میں نے پوچھا
اللہ بخش نے ایک قہقہ لگایا اور بولا ’’ڈاکٹر صاحب ، یہ عہدے تم دنیا والوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ قبرستان میں سب میّت ہوتے ہیں۔قبرستان سے باہرتم چاہے سیٹھ ہو یا فقیر، قبرستان کے اندر میّت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ جو کوئی بھی ہے ، ہماری تو روزی ہے وہ چوھدری محمد فاضل مرے یا شیدا نائی‘‘
اللہ بخش تو چلا گیا مگر ایک ان پڑھ شخص کے منہ سے کسی بزرگ لکھاری کے قلم سے نکلے جملے سن کر میں دیر تک سناٹے میں رہا اوریک سوال دیر تک میرے زہن میں گونجتا رہا۔کیا دنیا میں اس سے بڑی حقیقت بھی کوئی ہے ؟کہ،کفن میں لپٹا، قبرستان میں آنے والا ہر شخص صرف میت ہوتا ہے۔
میم ۔ سین

...پورا چاند


image
It was not me, not else, who it could be? i am not sure as always. It was my imagination or what else? i am spell bound. Why ? yes it is full moon. When I  look up into the sky, standing on the roof of my house,  i instantly mesmerized with the beauty of the full moon shining brightly in the sky.
میں اور میرا پورا چاند۔چاند ہمیشہ پورا ہوتا ہے۔ وہ کبھی ادھورا نہیں ہوتا۔ ادھورے ہم ہوتے ہیں۔جو اپنی خواہشات کے بند دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔پورا چاند بہت خوبصورت ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ سے ہی خوبصورت ہے مگر جب میں اسے دیکھتا ہوں تو میرے لئے صرف خوشی اور مسرت کا ہی نہیں بلکہ امید و یاس کا ایک ایک درجہ بھی رکھتا ہے۔پورا چاند، میرے خوابوں کا رکھوالا ہے، میری امیدوں کا مرکز ہے میری خوابیدہ صلاحیتوں کا مسکن ہے۔میری راتوں کا ساتھی، میری اداس شاموں کا ہمراہی۔پورا چا ند میرے لئے پریستان کا ایک ڈیرہ ہے۔جہاں ہر ماہ میں اپنی تخلیات کی دنیا بساتا ہوں۔جہاں ایلس اور سمرفس آتے ہیں جہاں سنووہائیٹ اپنے بونوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہے۔ناٹر ڈیم کا کبڑا امید کی روشنی پھیلاتا ہے توپنوکیو ا پنی کہانیوں سے سب کو محظوظ کرتا ہے۔ کہیں سنڈریلا اپنے رقص سے سب کو لبھاتی ہے تو ریڈ رائڈنگ ہڈ سب کو اپنی آواز سے مسہور کرتی ہے۔ یہ سب پورے چاند کا کمال ہے کہ میں ا س سارے پراگندہ ماحول سے چند لمحوں کے لئے دور ہو جاتا ہوں جو کسی آفریب کی طرح منہ کھولے ، میری بے بسی کا مذاق اڑاتا ہے
I know that truly living is something that can be very difficult to do. There are many  reasons, many  incidence , that are making us unhappy and I don’t say, I am perfect and I am beyond relentless desires , human are facing but one night on every month this full moon make me believe, to live to the best I am capable of. It is very easy to get caught up in all the things that are wrong with this world, unmatchable with our personalities but this full moon reminds me, my responsibility to represent hope.

تو مجھ سے میرا حال نہ پوچھا کر۔۔۔۔۔


مجھ سے نہ پوچھا کر
میرے دل کا حال
گذر رہی ہے زندگی کچھ ایسے
کسی بوڑھے کاناتواں جسم

ٹوٹی ہوئی کھیڑی
اور
مدہم سی چال
اداس موسم ہو جیسے
زرد گرتے پتوں کی قطار
تسکین کا کوئی پہلو
تنہائی سے رہائی ،نہ قرار
کوئی لطف ہواؤں میں رہا
نہ کوئی اثر دعاؤں میں رہا
بیت گئیں سب باتیں بے کیف
بے مزہ
وفائیں رہیں نہ جفائیں
نہ کوئی شور صداؤں میں رہا
مجھ سے پوچھ کر
میرے دل کا حال
وہ تال سناتا کیوں ہے
صدیوں میں جو بیٹھی ہے
وہ دھول اڑاتا کیوں ہے
تو مجھ سے میرا حال نہ پوچھا کر۔۔۔۔۔
میم۔ سین
Inspired

.....سفر

مجھے گھڑی دو گھڑی سو لینے دو
میں نے لمبی رات کی نیند کو سنبھالا ہے
درد کے سارے ترکش میرے ہاتھوں میں تھے
میرا زخم میرے اپنے تیر نے لگایا تھا
میں نے چاہا بھول جاؤں
اپنی وفا کی انا کو
گزرے دنوں کی بے اماں راتوں کو
مرتے ہوئے جنوں کو
درد میں بھیگی ،ناسور زدہ باتوں کو
میرا سانسوں کی حرارت کو میرے کرب کا معیار بنایا جاتا
تو میں رستوں کی خاک نا پاتا
بند گلی کے کنارے پر
میری آہیں تھک کر نڈھال نہ ہوتیں
میری صدا کو پہچانتے تو
میں دربدر اپنی وفاؤں کی بھیک نا مانگتا
ایک لمبے سفر پر جانے سے پہلے
مجھے گھڑی دو گھڑی سو لینے دو
میری نیند کو میری آنکھوں میں سمو لینے دو
میم سین

.... میری تنہائی


image         
     

میں اور میرے بند دریچے
اور رفاقتوں کا لمبا سفر
تو نے کہا کچھ آغاز میں 
نہ میرے جی میں کچھ آیا
اک سناٹا ہے،ایک وحشت ہے
 میں ہوں اور اب میری تنہائی ہے
کسی خوف سے سمٹی
کسی درد سے جاگی
شبِ غم تو آشوب ہے
ناسور ہے جسم کا
روح پگھلتی جاتی ہے
جسم گھلتا جاتا ہے
سمے لوٹ بھی آئیں تو
تو نقش کیسے مٹاؤں
 خود کو کیسے سمیٹوں 
 ماضی کو کیسے بھلاؤں
جیؤں تو کس لئے
ارادے کس کے لئے باندھوں
سفر کو نکلوں تو ،کیوں
شہرزادوں سے کس لئے ملوں
ایک ہارہ ہوا سپاہی
اپنے زخموں کے ساتھ
اب کیا حکم چلائے گا۔۔ 

گر لفظوں میں احساس ڈھل سکتے

گر لفظوں میں احساس ڈھل سکتے۔۔۔۔۔
میرا قلم میرا ساتھ نہ دیتا
میری زباں میرا ساتھ نہ دیتی
گر میرااحساس بیدار ہو سکے تو
ایک تند موج کی طرح سب کو بہا لے جائے
میں چیخوں اور اتنے زور سے
کہ زمیں پھٹ جائے اور
میرا احساس اس میں دفن ہو جائے
طوفاں گزریں تو اتنے زور سے
تناور درخت گر جائیں
گر آنسوؤ ں میں احساس ڈھل سکیں
میں اتنا روؤں کہ
میرے آنسو پہاڑوں کو بہا لے جائیں
مگر یہ ہو نہیں سکتا
میں وہیں کھڑا ہوں 
کسی لاوے کی طرح ابل رہا ہوں
کسی آگ کی طرح دھک رہا ہوں۔۔۔۔
میم۔ سین

کرب۔۔۔۔۔۔

ساحر سے کیا پوچھتے ہو 
وہ تو لذتِ رعونتِ شاہی کا مارا ہے
کسی شاہ کے جنبشِ ابرو کے اشارے کا منتظر
کسی نشہِ فرعونیت میں گم
حسرتِ گلزار میں انا کا پابند
کیا سوچتے ہو؟
دخترِ زر سے دل بہلانا ہے؟
ہوسِ اقدار کو اپنانا ہے؟
گفتارِ عشق سے ، اعترافِ عجز منوانا ہے؟
ادائے زیست تو پایہِ زنجیر ہے
حیات کا سوز ہے اور آہ و فغاں ہے
دلیل محبت خود محتاجِ سخن ہے
ابتدائے ؑ عشق ہے یہ، تو انتہا کیا ہو گی
تحلیلِ محبت میں مشتاقِ جنوں کی رضا کیا ہوگی؟
شعورِ اوجِ آدم سے گریزاں ہے حیات
آتشِ عشق میں آبِ سراب ہے، سزا کیا ہوگی؟
تو ہی بتا میرے فریب کی انتہا
متاعِ زیست سمیٹوں یا عذابِ جاں کریدوں
دلیلِ محبت پڑکھوں یا نزاکتِ احساس کو کو سمجھوں
لفظوں کا سحر ہے، اور روح میں ہیجان ہے
شدتِ جذبات سے روح کاننپتی جاتی ہے
اک خوف ہے، وحشت ہے،ِ سراسیمگی ہے
حسرتوں کا تعاقب ہے ،کہیں قافلے لٹ نہ جائیں
زیست کے سفر میں ،زیست مٹ نہ جائے
میم۔ سین

میرے قلم سے۔۔۔۔۔۔

میں بہت مشکل سوچتا ہوں۔ کیا میں واقعی بہت مشکل سوچتا ہوں؟میرا انداز بیاں بھی کچھ مشکل ہے۔اگر یہ اعتراض لگا ہے تو کوئی حقیقت بھی ہو گی۔جب معاملے کی تہ تک پہنچے تو احساس ہوا، کچھ حقیقت ہے۔جب تیسری جماعت میں شفیق الرحمن کو پڑھ ڈالیں۔پانچویں میں کرنل محمد خان اور پطرس کی کتابوں کا مطالعہ کر ڈالیں۔چھٹی ساتویں تک مارک ٹوین کے مزاح کو سمجھنے کی کوشش شروع کر دیں۔فیض احمد فیض اور مجید امجد کی شاعری سے اپنے ادب کا آغاز کریں تو پھر سعد، فرحت جیسے لوگ شاعر کہاں محسوس ہوتے ہیں۔عمران سیریز اور انسپکٹر جمشید میں لکھا جانے والا مزاح ناک تلے کیسے آ سکتا ہے۔چلو آج قلم کو آسان رکھتے ہیں ۔اپنے خیالات کو نہیں بلکہ اپنے کچھ مشاہدات کو تختہ مشق بناتے ہیں
اس دن ایک آدمی تین عورتوں اور بچوں کے ہمراہ میرے کمرے میں داخل ہونے کے بعد فوراً میری تعریف میں زمین و آسمان ایک کرنے لگا۔اور میری قابلیت اور طبی جواہر کو کئی رنگ دینے لگا۔ پہلے تو کچھ خوشی ہوئی پھر مسرت کے نشے میں دماغ کچھ خمار کا شکار ہوا۔جب وجہ تسمیہ تعریف و رجان پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ جو بچہ دیکھ رہے ہیں اس کی خارش کے علاج کیلئے ہم نے کوئی ڈاکٹر نہیں چھوڑا تھاکوئی حکیم اور ایسا نسخہ نہیں جو ہم نے آزمایا نہ ہولیکن آپ کے پاس صرف ایک بار آئے تھے اور یہ آپ کی دوائی سے ٹھیک ہو گیا تھاابھی وہ تعریفی کلمات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ٹوکا اب کس سلسلے میں آئے ہیں؟ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ سارے گاؤں کے خارش کے مریض میرے پاس لانے والا ہے۔اس نے ایک عورت کو آگے بڑھ کر معائنے والے سٹول پر بیٹھنے کو کہا اور بولا ڈاکٹر صاحب اس کی شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے۔ہم آپ کے پاس بڑے یقین اور امید کیساتھ آئے ہیں۔۔۔
اس دن مجھے معلوم ہوا میری حس مزاح کس قدر کمزور ہے ۔یہ دو ماہ کا بچہ میرے پاس آیا تو میں نے اچھی طرح سمجھایا کہ اس کی کو سوائے ماں کے دودھ کے کوئی چیز نہیں دینی ہے۔جب یہ بچہ دوبارہ دستوں کے ساتھ آیا تو اس کے باپ نے شکائیت لگائی کہ آپ نے تو صرف ماں کے دودھ سوا ہر چیزدینے سے منع کیا تھا مگر اس کی ماں اس کو چائے بھی پلاتی ہے۔ میں نے طنزاً ماں سے کہا اس کو برفی بھی کھلانا تھی۔ وہ بڑی خوشی سے بولی  کھلائی تھی ڈاکٹر صاحب مگر اینے ہضم نہیں کیتی سی ور میری حس مزاح پر زبردست ضرب پڑی
لاجواب تو مجھے اس بابا جی نے بھی کر دیا تھا جو سوجی ہوئی ٹانگ کے ساتھ آئے اور اصرا ر کرنے لگے کہ نبض دیکھ کر میری مرض بوجھو۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں کوئی حکیم نہیں ہوں مگر چارو ناچار نبض پکڑ کر پوچھا بابا جی چوٹ کیسے لگی تھی؟
باباجی تراخ سے بولے رہ گئی نا ساری ڈاکٹری۔
بڑی تعریف سنی سی تیری۔ تینوں اے وی نئی پتا لگا ، مینوں مج نے ٹڈ ماری سی ۔
میں نے تھوڑا احتجاج کیا کہ میں قریب قریب پہنچ گیا تھا مگر بابا جی ناراض ہو کر دوائی لئے بغیر چلے گئے

اس واقعے کے بعد جب حاجی مقبول صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور نبض دیکھ کر مرض بوجھنے کو کہا تو میں نے کچھ دیر تک نبض دیکھی اور پھر ہاتھ نبض پر رکھے اپنے کمپیوٹر پر فیس بک دیکھنے میں مصروف ہو گیاحاجی صاحب کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر گویا ہوئے
 پتڑ کی کرن ڈیاں ہویاں۔تیرے کولوں ھالے نئیں میری بیماری بجھی نئی گئی۔ او میں خربوزے کھا کے اتوں پانی پی لتا سی جیدی وجہ توں مینوں ہیضہ ہو گیا سی؟
میں نے فورا جواب دیا
بماری تے میْں لب لئی سی پر ۔میں خربوزے دی قسم لبھن ڈیا ہویا سی۔۔تاکہ سہی دوا دے سکاں۔
 حاجی مقبول صاحب میری قابلیت کی داد دیتے ہوئے پرچی لئے کمرے سے رخصت ہوئے تو دیر تک مسکراہٹ میرے لبوں اور آنکھوں سے نمودار ہوتی رہی

حس مزاح کے ساتھ تو جو سلوک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار لوگ آپ کی برداشت کا پیمانہ بھی چیک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر کے چہرے پر مسکراہٹ ضروری ہے ایسے ہی مزاج میں برداشت اس کے پیشے کے بنیادی اصولولوں میں سے ہے
جب اماں جی کو بتایا کہ آپ اپنے پوتے کو اب ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ دلیا شروع کر دیں تواماں نے فوراً بولیں کو نسا ؟ بازاری یا گھر والا؟
میں نے جواب دیا اگر گھر میں کوئی موجود ہے تو وہی استعمال کر لیں ۔مگر اماں نے فوراً اگلا سوال داغ ڈالا 
 دلیا دودھ میں بنانا ہے یا پانی میں ؟
میں نے کہا دودھ میں 
دودھ گائے کا ہو یا بھینس کا؟
میں نے کہا جو آ پ کو مل جائے
 نہیں ۔آپ بتائیں؟ کون سا بہتر ہوتا ہے؟ پچھیا چنگا ہندا ا5
 جی گائے کا مل جائے تو اچھا ہے
 دودھ ابال کر استعمال کرنا ہے یا کچا؟
 بی بی ظاہری بات ہے دودھ ہمیشہ ابال کر استعمال کرتے ہیں
 اچھا اچھا پتڑ پچھیا چنگا ہندا اے
پتڑ اے دس، د لیا گرم کر کے کھلانا ہے یا ٹھنڈا کر کے؟
اس سے پہلے میں کچھ کہتا،
اماں میرے چہرے کے تاثردیکھ کر فوراً بولیں پچھیا چنگا ہندا اے۔۔۔۔۔

جب چار ماہ کا بچہ دوبارہ 103 بخار کے ساتھ آیا تو میں نے پوچھا  جو دوائی آپ کو دی تھی وہ ہے یا ختم ہو گئی ہے  تو دادی فوراً بولی  پتڑ ، ساری دوا پلا چھڈی آ
۔۔پر بخار نئی ٹٹیا
میں نے پھر پوچھا بچہ دوائی پی کر کہیں الٹی تو نہیں کر دیتا میرا مطلب ہے دوائی بچے کے پیٹ میں تو چلی جاتی ہے؟
ہاں جی بالکل۔۔بچے کو تو ہم نے دوا دی ہی نہیں۔ چونکہ یہ دودھ اپنی ماں کا پیتا ہے اسلئے دوا اس کی ماں کو پلا دی تھی۔اسلئے ساری دوا بچے تک پہنچتی رہی ہے۔

جی نہیں ابھی سر پیٹ لینے کا مقام نہیں آیا ایک اور سرگزشت ابھی اور سنئے
ایک چھے ماہ کے بچے کو کو لایا گیا جس میں پانی کی شدید کمی ہو چکی تھی۔اس کے ساتھ کمزور سی ماں جس کے دونو ہاتھوں پر برینولا دیکھ کر میرے ذہن میں کہانی یوں لکھی گئی کہ ماں زیادہ بیمار ہو گئی ہوگی اور بچے کو سنبھالنے والا گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ اور اس لاپرواہی سے بچہ بیمار ہو کر اس حالت میں چلا گیا ہے۔ مگر جب معائینہ کرنے کے بعد میں نے کہا کہ بچے میں پانی کی بہت کمی ہے اور ڈرپ لگانی پڑے گی تو بچے کا باپ بولا۔ دو ڈرپیں تو اس کی ماں کو لگ چکیں ہیں اس سے تو بچے کی پانی کی کمی پوری نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو گی؟ میں نے پوچھا ڈرپ اور ماں کو کو کیوں؟ تو جواب آیا گاؤں کے ڈاکٹر نے ڈرپ لگانے کی کوشش کی تھی مگر سوئی نا لگ سکی تو اس نے کہا چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اسلئے ڈرپیں ماں کو لگا دیتے ہیں ، دودھ کے رستے بچے کو چلیں جائیں گی
جی ہاں اب دل کھول کر سر پیٹیں اور اپنے حسن مزاح کو داد دیں عوام کے شعور اور حکومتی ذمہ داریوں پر انگلیاں مت اٹھائیں۔ یہ کسی مزاح نگار کے قلم سے پھوٹتے شگوفے نہیں ہیں نہ ہی یہ کسی قلم کار کے ذہن کی تخلیق ہیں۔یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن سے ہمارا رازانہ واسطہ پڑتا ہے
میم سین

میں اور میرا قربانی کا بکرا

اگرچہ عالمِ بالا سے ، میرا آپ سے تعلق رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔مگر کاغذات مکمل نہ ہونے پر مجھے پل صراط کے دروغے نے روک رکھا ہے۔جس کی وجہ سے میں یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ اگرچہ میرا گوشت ہضم کرنے کے بعد مجھے بھول چکے ہونگے مگر میرا خط ملنے کے بعدمیری خیریت مطلوب چاہتے ہونگے۔آپ نے ابھی تک قصائی کے واجبات ادا نہیں کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے این ۔او۔سی نہیں مل رہا۔اگرچہ میں نے بہت دھا ئی دی کہ میرا مالک ایسا ہرگز نہیں ہے وہ اپنے ٹیکس اور بجلی کے بل باقائدگی سے ادا کرتا ہے۔راجہ ریاض سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن یہاں کا عملہ ایک نمبر کا شکی اور بد مزاج ہے اور میری کسی بات کا یقین نہیں کیا اوراصرار کرتے رہے کہ جب تک تمہارا مالک قصائی کے واجبات ادا نہیں کرتا آپ کو این او سی جاری نہیں ہو سکتا۔این او سی کے بغیر میں پل صراط پار نہیں کر سکتا اور آپ کی طرف سے حاضری نہیں لگا سکتاپہلے تو میرا گمان تھا کہ ایک آدھ دن کا معاملہ ہے اور آپ اپنے قصائی سے معاملات طے کر لیں گے اور میری جان بخشی ہو جائی گی مگر جب حاجیوں کی قربانیاں بھی گزرنے لگیں تو میری فکر اور بے چینی میں اضافہ ہو گیاکہیں میں یہیں اٹکا نہ رہ جاؤں۔اسلئے آپ کے نام خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
پہلے پہل تو میں نے اپنے پاکستانی مزاج کے مطابق کچھ دے دلا کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہر شخص نے چوہدری افتخار جیسا رویہ اپنا لیا۔ مجال ہے کسی نے رعائیت برتنے کی بات کی ہو۔آپ کے کردار کے بارے میں بہت صفائیا ں پیش کیں کہ وہ ایک ذمہ دار شہری ہیں اور بہت حساس مسلمان بھی۔انہوں نے تو کسی بینک سے قرضہ بھی معاف نہیں کر وا یا ہوا۔کسی بار کا حصہ بن کر کوئی فوائد حاصل نہیں کئے۔رینٹل پاور پلانٹ کے منصوبے کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن میری ہر وضاحت پر مجھے وہ یوں گھور کر دیکھتے ، جیسے میں بابر اعوان ہوں اور مونس الہی یا زرداری کے کسی مقدمے کا دفاع کر رہا ہوں۔ میرے بار بار اصرار پر مجھے ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دینے کی دھمکی دے ڈالی۔۔یہاں آکت پاکیستان بہت یاد آیا، جہاں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔اسلئے آپ کو خط لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں ۔ ۔ برائے مہربانی اپنے قصائی سے معاملات جلد طے کریں تاکہ میں اپنی منزل کو روانہ ہو سکوں فقط آپکا قربان بکرا
میری تحقیق کے مطابق یہ حرکت میرے قصائی نے کی جو قربانی میرے اپنے ھاتھوں کرنے کی وجہ سے پیسوں سے محروم رہ گیا تھا اس نے میرے خلاف شکائیت لگائی اور دروغہ صاحب ہمارے خادم اعلی ثابت ہوئے جن کے سامنے آواز بدل کر مظلوم بیوہ کی کہانی سنائی جائے تو تو ڈی ایس پی کو فوراً معطل کر دیتے ہیں ۔اور اعتراض لگا کر میری فائل داخلِ دفتر کر دی۔میری ذاتی مداخلت پر معاملہ رفع دفع ہو گیا ہے
میم سین

نوحہ


سمے ٹھہر بھی جائیں تو کیا حاصل؟
دھول پے لگے نشاں، مٹ بھی جائیں تو کیا غم؟
ہم ساعتوں کے غلام نہ تھے
جو گھڑی دو گھڑی رو لینے سے
اپنی وفاؤں کا حساب دے بیٹھیں
میرے لفظوں کو کچھ تو وقار دو
سر بازار میری ناموس کا تماشا نہ بناؤ
میری بربادیوں پر فسانے نہ لکھو
میں نے زندگی کو محسوس کیا ہے
اتنے قریب سے کہ میری سانسیں
میرے گرد شعلوں کی طرح لپٹ جاتی ہیں
میں پھر بھی خاموش ہوں
دل تو چاہتا ہے کہ اتنے زور سے چیخوں کہ
میری چیخیں
بلند ہوتی موجوں کی طرح 
سب کچھ بہا لے جائیں
سمے ٹھہر بھی جائیں تو کیا حاصل؟
میں نے مڑ کے دیکھا تو کیا دیکھا؟
اپنی ہستی کو ، بربادیوں سے پہلے دیکھا
میم۔ سین

قید

چلو چھوڑوسب حقیقتوں کو
یہ قصے کہانیوں کا زمانہ نہیں
نہ کسی پچھلے عہد کی بات ہے
گھڑی دو گھڑی رو لینے سے
میرا کرب کچھ کم ہوسکتا تو
میں جی بھر کے رو لیتا
میرے گناہوں کا حساب مانگ کر
میری سزا ، مجھے مل جاتی تو
سارے درد میں سہ لیتا
تو میرا ہم نفس نہیں ہے
میرے ہاتھوں پر تیرا لہو نہیں ہے
تیرے درد کا الزام میرے نام نہیں ہے
تو کیوں؟؟
میں اپنی ذات کی قید میں ہوں
میرا جرم،میرے نام تو کر دو
میں کیوں الگ تھلگ ہوں
میرے لہو کی گردش تو تیرے نام تھی
میں کس لئے پس زندان ہوں
میں بستی سے دربدر 
کس جرم کی سزا پا رہا ہوں
چلو چھوڑو ، یہ سب حقیقتیں ہیں
یہ حقیقتوں کا زمانہ نہیں ہے
کسی نئے عہد کی بات کرو 
میم ۔ سین

خوف


image                     
رات کی تنہائی میں
اک پرندہ تنہا
کسی درخت کی شاخ پہ بیٹھا
زرد گرتے پتوں کی سرسراہٹ
سے خوفزدہ ہے
وہ سوچتا ہے
ایسے ہی کسی دن وہ بھی
موسموں کی نظر ہو جائے گا
میم ۔ سین


بے خبر

ہم اور تم

حالات سے خوفزدہ

لمحوں کی گرفت میں

کچھ نہ جانتے ہوئے

سایوں کے ساتھ ساتھ

اتنے دور نکل آئے ہیں

کہ خود ہمیں بھی

اپنی کوئی خبر نہی ہے
میم ۔ سین

تخیل اور خودکلامی

شفیق الرحمن کی نیلی جھیل کا طلسم میرے اوپر بہت دیر تک رہا۔جھیل کی دوسری جانب کیا ہے؟ وہاں پریوں کے ڈیڑے ہیں۔بونے وہاں رہتے ہیں یا سمرفس وہاں آباد ہیں ۔جھیل کی دوسری جانب ایلس ان ونڈر لینڈ آباد تھا۔یا سنہرے بالوں والی شہزادی اپنے شہزادے کے انتظار میں بہتی کرنوں کو ڈھونڈ رہی تھی یا پری تھی کوئی ، کسی دیو کی قید میں ،کسی بہادر لکڑہارے کے بیٹے کے انتظار میں ۔ وہ کب آئے گا اور اسے رہائی دلائے گا۔ نیلی جھیل کی پراسراریت ایک رومانوی معنویت کے ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔کسی ان دیکھی منزلوں کا متلاشی، کسی دیو ملائی حقیقتوں کا منتظر۔کبھی ٹی وی پر کسی انگلش فلم میں دکھائی دینے والے معصوم چہرے کے ذہن پر ثبت ہوتے نقوش، تو کبھی راہ چلتے کسی دوشیزہ کا دلوں کو مغموم کر دینے والا نگاہوں کا سکوت
ایڈورڈ دنیا سے مایوس ہو کر خودکشی کے ارادے سے جمپ لگانے دریا پر پہنچا اور اپنے ماضی کی یادوں کو دھرا رہا تھا اور ہاتھ سے پاس پڑی کنکریوں کو اٹھا کر پانی میں پھینک رہا تھا۔ جب اچانک پانی سے سنہرے بالوں والی لڑکی نکلی اور چلائی، اوئے کیا کر رہے ہو۔ دیکھ نہیں سکتے، میں پانی میں ہوں۔ جل پری کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔اور پھر  تو تو، میں میں سے ، ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ اور پھر کیسے دنیا سے چھپتے اور ایک ایڈونچر سے گزرتے رہے، ناول کو تو 262 صفحے لگے اور فلم کو ڈیڑھ گھنٹہ۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے
ایسی ہی آوارگی کے دوران اسے دریافت کیا تھا ۔اب نہیں معلوم کتنے صفحے   لگیں گے کہانی مکمل ہونے میں اور کتنا وقت لگے کا داستاں مکمل ہونے میں۔کوئی انجام ہوگا بھی یا نہیں

ایک امتل راجہ گدھ میں تھی۔ جس کی بے باکی اور چرب زبانی، آزاد خیالی اورموسموں کی طرح بدلتے مزاج نے کبھی اتنا متاثر نہیں کیا کہ کتاب بند کر کے بھی اس کو یاد رکھا جا سکے او ر ایک امتل رحیم گل کی جنت کی تلاش میں تھی۔ اس کے کردار میں ایک طلسماتی حسن تھا۔ ایک رومانوی نکھار تھا۔ ایک جذباتی ٹھہراؤ تھا۔ امتل کے اس کردار نے میرے وجود کے ارد گرد یوں حصار کر رکھا تھا کہ میں چلتے ،پھرتےسوتے ، جاگتے اس کے حصار کا پابند رھا ہوں۔اور مجھے یوں لگا جیسے سائبر ورلٖڈ سے امتل مل گئی ہے اور میں اور امتل کسی فکشن مووی کے کرداروں کی طرح ا اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔
اس کی قلبی اور روحانی کیفیت کیا ہے ؟ اس کے محبت اور نفرت کے تضاد کے محور کیا ہےَ؟ اس کی الجھنیں کیا ہیں؟ اس کی خو شیاں کیا ہیں؟ اس کے درد کیا ہیں؟مجھے اس بارے میں کوئی بات یقینی معلوم نہیں ہے۔مگر وہ ٹھنڈی ہوا کی تازگی کا احساس بن گئی ہے۔اس کی موجودگی سرشاری اور شادمانی کا سبب بن گئی ہے۔ امید کا اک دیا بن گئی ہے ۔ کسی پینٹر کا درخت پر بنایا گیا پتا جو مریض کے اندر زندگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے، بن گئی ہے ۔کیا وہ غیر معمولی ہے ؟ذہین ہے؟ مجھے نہیں معلوم ۔ کیا اس کا مطالعہ وسیع ہے ؟ کیا اس کا مشاہدہ گہرا ہےَ ؟ مجھے اس بھی کوئی سروکار نہیں۔ مجھے تو اس کی قربت سے عشق ہوا ہے۔اس کی باتوں سے قربت کا،اس کے اپنے ساتھ ایک تعلق کا ، مجھے نہیں معلوم کہ میں کس بات سے مرعوب ہوا ہوں کہ میرے لئے وہ زندہ رہنے کے بہانوں میں سے ایک بہانہ بن گئی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے کس قدر باخبر ہے۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ ہر دم بے خبر ہے
کبھی میکسیکو امریکہ کے بارڈر پرکسی ویران گرجا گھر میں ویمپائرز کو دیکھنے میرے ساتھ ہوتی ہے۔تو کبھی برمود ا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے میں میری معاون رہی ہے۔کبھی شخصی اور مذہبی آزادی کی بحث ۔تو کبھی فکری اور تخلیقی کشمکش کا توڑ۔کبھی مزاح سے علاج غم اور کبھی اعتراف عجزو ہنر سے مورال کا نباہ۔میں کیا کہوں ، میں کیا سوچوں جنت گمگشتہ کے تعاقب میں بھٹکتے رستوں پر جب میں، حدت جذبات سے کانپ رہا تھا،وہ ایک شجر سایہ دار بن گئی۔جب حبس جنوں تھا، وہ ابرباراں بن گئی۔ جب سوچ کے دروازوں پر پہڑہ تھا، وہ سب زنجیریں توڑ کر چلی آتی۔
میں ہوس اقدار سے بیگانہ ہوں، میرے جینے کی تمنا سطحی ہے۔جہاں دولت کی فراوانی درکار ہے اور نا مجھے نمودونمائش سے کوئی سروکار ہے۔ زندگی کا مقصد میرے نزدیک جذبوں کا احترام ہے، انسانیت سےپیار ہے۔مجھے معلوم ہے وہ ان اصولوں کا احترام کرتی ہے،اس کے نزدیک احترامِ رائے آج کی اولین ضرورت ہے۔
میں اس سے کبھی نہیں ملا۔ مگر اس کی آنکھوں میں بلا کی گویائی ہے۔ اس کی یکسوئی میں بے نیازی کی جھلک ہے۔وہ مسکراتی ہے تو زندگی کی معنویت بدل جاتی ہے۔ وہ اداس ہو جائے تو تو مسرت کی نئی ہدیں متعین ہونے کا سراغ ملتا ہے۔ہو سکتا ہے یہ میرے وِجدان کا قصور ہو۔میر ی ذہنی تخلیق ہو۔مگر اتنی پرکشش تخلیقات اور ان سے وابستگی میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔
اس سے ملنے کے بعد میں نے جسم میں اپنی روح کو پہلی بار محسوس کیا ہے۔مجھے معلوم ہوا روح کا جسم کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔رواں رواں مسرت،اور خوشی سے ایک سرشاری۔اک ادائے دلنوازی ہے، تحلیل جستجو ہے۔جسم و جاں کی الاؤ روشن ہو گئی ہے۔تلخئی سوچ و فکر کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا سے جم گئی ہے۔روح کو درپیش اتھل پتھل تھم گئی ہے۔میں جو اپنی ذات کا عرفان جاننے سے قاصر رہا ہوں،مجھے یوں لگتا ہے اس نے میری دکھتی رگوں پر مرہم رکھ دیا ہے
وہ انسانی تضادات سے پڑے کسی قدم پر آباد ہے اس کا ظرف کشادہ بھی ہے اور وسعت پذیر بھی۔اس کے مزاج میں یکسوئی ہے۔ اس کی باتوں میں استقامت ہے۔وہ اپنی جھیل سی آنکھوں سے جھیل سے نظارے دیکھتی ہے۔اس کی متین مسکراہٹ نزاکتِ احساس کے روگ کا علاج ہے۔وہ جستجو کی مسافر ہے۔اورابھی سفر جاری ہے۔ قہقہوں کے سمندر میں اپنی عقل ماؤف نہیں کرتی۔تاریخ کے بوجھ کو اپنا بوجھ سمجھ کرکائنات کے فاصلوں کو کم کرنا چاہتی ہے۔وہ امیدو یاس کی وہ گھڑی ہے، جس کے ساتھ سفر جاری رکھنا آسان بھی اور ماورئیت کا سبق بھی۔وہ وِجدان کی باتیں کرتی ہے۔وہ روح کی بالیدگی کو مانتی ہے۔لیکن وہ فرشتے اور انسان میں فرق جانتی ہے۔
یہ سب زندگی کا بہلاوہ بھی تو ہو سکتا ہے۔محض دلاسے بھی تو ہو سکتے ہیں۔بچے کو سلانے کیلئے ماں کی سنائی ہوئی کوئی لیلہ رخ پری کی داستان بھی ہو سکتی ہے۔جو رات بھر آپ کے ساتھ سفر کرتی ہے اور صبح ہوتے ہی رخصت ہو جاتی ہے ۔مگر یہ بہلاوہ ہے تو کیا حرج ہے؟ ذہنی تخلیق ہے تو اعتراض کیوں؟ یہ زندگی بھی تو اک دھوکہ ہے۔ بہت اندھیرے کے بعد روشنی ملے توخواب بنتے ہی ہیں۔ تو کیا حرج ہے اگر خوابوں سے حقیقت اور حقیقتوں سے خوابوں کا سفر چلتا رہے۔۔۔۔۔

احتساب

زرد پتوں کو چھونے سے پہلے

لفظوں کے تقدس کا حساب دینا

اپنی ناموس کی حفاظت میں 

پیڑ تم نے جتنے جلائے

ان کا جواب دینا
میم۔ سین

بلاعنوان


میرے بارے میں کوئی پوچھے تو

اسے صرف اتنا کہنا

وہ ایک شجر سایہ دار تھا

جس پر بہار میں خزاں آئی تھی
میم ۔ سین

خود کلامی


میں لکھنا کیوں چاہتا ہوں؟ جب لکھنے کو عنوان بہت ہیں تو لکھنے والوں کا ہجوم بھی بہت ہے۔میرے لکھنے سے کیا فرق پڑے گا؟ ہونے یا نا ہونے کا ۔ نا تو میں گوھر بننے کا سفر ڈھونڈ پاؤں گا نااپنی تشنا لب حقیقتوں سے جان چھڑا پاؤں گا۔میرے ارد گرد ہجوم سنگ انا ہے ۔ میں اپنے قلم کی دھار کو کاغذ پر مشق سخن بنا کرحقیقتوں کے بت کیسے توڑ پاؤں گا؟ میرے لبو ں پر لگی مہر قلم کے الفاظ توڑ نہیں سکتے۔تو آبلہ پا صحرا نوردی کس کام کی؟ میرے سفر کی جستجو کے سفر کے آغاز کا سرا تو مل جائے گا مگر کیا میراقلم اس کا انجام ڈھونڈ پائے گا؟َ میرے ذہن کی سراسیمگی، حیرت اور نا گہانی خوف کم ہو پائے گا؟ مگر جب میں ہجوم کائنات میں خود کو تنہا پاتا ہوں۔ جلوت میں خلوت پاتا ہوں تو خلوت میں جلوت پانے کیلئے قلم کا سہارا میرے وجود کی جڑوں کو زمین کی گہرئی میں دور تک پھیلا دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں کسی کشتی میں سوار، پانی کے بہاؤ کے ساتھ کہیں دور نکل جاؤں گا۔اور کنارے پر آباد لوگوں سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔مگر میرا قلم مجھے ان لوگوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ کنارے پر آباد بستیوں میں جنم لینے والی کہانیاں میری ذہنی بالیدگی کا ایک ذریعہ ہیں۔حقائق سے روشنائی ہے۔
مگر قلم کو رواں رکھنے کیلئے کسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر میرے قلم کا محرک باباکو ان سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کتنی تحریریں لکھی گئی ہیں اور کتنے جسموں نے روحوں کو گمگشتہ رستوں پر ڈھونڈھ نکالا ہے۔ کتنے نخلستان دریافت ہو گئے ہیں ۔ مگر بابوں کو موردالزام کیوں ٹھہرائیں؟وہ تو ہوتے ہی بے نیاز ہیں۔ وقت اور دنیا کی قید سے آزاد ۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ خیر خواہی کا زہر ارادوں کو کمزور کر دیتا ہے۔رستے ،سمجھ سے نہیں ،چلنے سے ملتے ہیں۔ زیادہ گفتگو حسساسیت پیدا کرتی ہے۔ حساسسیت کمزور کرتی ۔ہے ذہنی اور باطنی نقائص کواپنے اوپر ہاوی کرتی ہے۔ہو سکتا ہے بابا جی کے ذہن میں یہ باتیں نا ہوں۔ مگر میرے ذہن نارساں کو کون سمجھائے؟ جو سوچوں کے پر پیچ رستوں پر خود ہی چل پڑتا ہے۔
نئی منزلیں، نئی آگہی،نئی فطرت نئی سوچ کی تلاش میں۔میرا قلم وقتی طور پر ان پراگندہ خیالات اور ہوشربا حقائق سے دور کر دیتا ہے جن کا مجھے سامنا ہے۔یا مجھے ان کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔لیکن جونہی میرا قلم جمود کا شکار ہوا ،سب حقیقتیں ،سب فسانے، کسی آفریب کی طرح منہ کھولے میرے جسم و جاں کو مغلوب کر دیتے ہیں۔ سقوط کابل ہو یا بغداد کی حکومت کا زوال ہو۔مغربی سرحدوں کی بے یقینی ہو یامشرقی سرحدوں پر فوجوں کا اجتماع۔عصبی اور نسلی تعصب ہو یا صوبائیت کا ناسور۔فرقہ پرستی تو اب قصہ ء پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ اب تو دو قومی نظریہ کا انہدام اور ملکی یکجہتی کا انتشار جنم لے رہا ہے۔انا پرستی، خودپرستی،خود ستائشی سب کسی سونامی کی طرح اپنی بلند موجوں سے ملکی سرحدوں کی نظریاتی بنیادوں اور مذہبی ضرورتوں کو بہا لئے جا رہے ہیں۔میں خود فریبی کے جال میں خود کو کتنا بھی الجھا لوں مگر منٹو کے نئے آئین کی مانند کوئی امید نظر نہیں آتی۔گھپ ا ندھیروں میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے اور شتر مرغ کی طرح سر زمین میں چھپا لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بند گلی میں کھڑے ہو کر اونچی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کرخود کو زخمی کر لینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔بلند ہوتی موجوں اور آسمان سے گرتی ہلاکتوں کو دیکھ کر، لوگ رک جائیں تونئی صبحوں کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔مگر یہاں کوئی ہادی نہیں، کوئی مسیحا نہیں، کوئی امام نہیں، کوئیُ پیشوا نہیں۔ہر شخص ممبر رسالت پر فائز اپنے اصول گنوا رہا ہے۔ نئے دین ، نئی جماعتیں اختراء ہو رہی ہیں۔
میرا بابا میرے لئے ایک جام کا پیالہ بن گیا ہے وہ نہ ہو تو میں گھپ اندھیرے میں دم سادھ لوں۔ان کا ایک پیغام اور میرے دن بھر خمار کا آغاز۔میں زیادہ نہیں جانتا اورنا یقینی طور پر کچھ کہ سکتا ہوں مگر ایسے لوگ تبدیلی کے کارپرداز ہوا کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے نذدیک اوندھی کھوپڑی کے لوگ۔مگر فکری بلندی ان کو عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔ مگر ان کی فکری بلندی اور جمادیاتی حسن کو تبھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے اگر وہ صاحب اختیار ہیں۔ مجھے نہیں معلوم بابا جی کس حد تک صاحب اختیار ہیں ۔ اپنے فیصلوں میں نہ سہی مگراپنی سوچ میں وہ کسی کے پابند نہیں ہیں۔ ہم حیات دوام کی جستجو میں ہیں۔ نوازشات کے تعاقب میں ہیں۔اقتصادی طمع نے باطنی اور شعوری کٖثافتوں کو عیاں کر رکھا ہے۔لطف دولت وجنس کے عذاب میں الجھے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ شدت احساس جذبات جائز ہے؟ یہ خود اذیتی ، خود فتنہ روانی جائز ہے؟ با با جی سے پوچھوں گا کسی روز۔ کیا شعور وجدان کے تابع ہے؟ کیا ادراک شعوری منزلوں کا باسی نہی ہے؟

ناکامی


میں اور میرا شخص
شکست و ریخت کے نشانوں کے سپوت
تاریک رات میں ،ڈوبتے ستاروں کے جلو میں
کسی نئے سورج کی کرن کا ساماں
کوئی پوچھے یا نا پوچھے
میرے زرد پتوں کے دیس کی نئی کونپلوں کی ساخت کو
عہد رفتہ کی ہر نئی بات ،ہر نئی ساعت کو
ایک سازِ مدہم گونجے میرے کانوں میں
اک روشنی لپکے میری جانب۔۔۔
سحر کی ہر سانس میں کوئی صدا گونجے تو
میں تہہ بہ تہہ اس کو اپنی سانس میں لپیٹ لوں
اور رفتارِ زندگی یونہی مائلِ سفر رہے
میں قریہ قریہ بکھرے اپنے شخص کو
پل بھر ، اپنے سامنے بٹھا کر پوچھوں کہ
پسِ آئینہ میری میری صورت گم تھی تو کیوں
صدیوں کے سفر کو کھو دیا
اب میں اپنی سانسوں کی تھکن میں 
اس کے بدن کی خوشبو میں کھو گیا ہوں
میرا وجود اپنی ہی تلاش میں 
زمانے کی خاک میں یوں گم ہوا کہ
کوئی سراغِ زندگی رہا نا جستجوِ سفر
ادراک کا کوئی پہلو، نہ جنوں سے نجات
میرا لہو اپنی ہی گردش میں ،سلسلوں میں یوں الجھا
مجھے سفر کی ابتدا یاد رہی نا انتہا
میم ۔ سین