Thursday, December 27, 2012

ناکامی


میں اور میرا شخص
شکست و ریخت کے نشانوں کے سپوت
تاریک رات میں ،ڈوبتے ستاروں کے جلو میں
کسی نئے سورج کی کرن کا ساماں
کوئی پوچھے یا نا پوچھے
میرے زرد پتوں کے دیس کی نئی کونپلوں کی ساخت کو
عہد رفتہ کی ہر نئی بات ،ہر نئی ساعت کو
ایک سازِ مدہم گونجے میرے کانوں میں
اک روشنی لپکے میری جانب۔۔۔
سحر کی ہر سانس میں کوئی صدا گونجے تو
میں تہہ بہ تہہ اس کو اپنی سانس میں لپیٹ لوں
اور رفتارِ زندگی یونہی مائلِ سفر رہے
میں قریہ قریہ بکھرے اپنے شخص کو
پل بھر ، اپنے سامنے بٹھا کر پوچھوں کہ
پسِ آئینہ میری میری صورت گم تھی تو کیوں
صدیوں کے سفر کو کھو دیا
اب میں اپنی سانسوں کی تھکن میں 
اس کے بدن کی خوشبو میں کھو گیا ہوں
میرا وجود اپنی ہی تلاش میں 
زمانے کی خاک میں یوں گم ہوا کہ
کوئی سراغِ زندگی رہا نا جستجوِ سفر
ادراک کا کوئی پہلو، نہ جنوں سے نجات
میرا لہو اپنی ہی گردش میں ،سلسلوں میں یوں الجھا
مجھے سفر کی ابتدا یاد رہی نا انتہا
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment