Thursday, December 27, 2012

.....سفر

مجھے گھڑی دو گھڑی سو لینے دو
میں نے لمبی رات کی نیند کو سنبھالا ہے
درد کے سارے ترکش میرے ہاتھوں میں تھے
میرا زخم میرے اپنے تیر نے لگایا تھا
میں نے چاہا بھول جاؤں
اپنی وفا کی انا کو
گزرے دنوں کی بے اماں راتوں کو
مرتے ہوئے جنوں کو
درد میں بھیگی ،ناسور زدہ باتوں کو
میرا سانسوں کی حرارت کو میرے کرب کا معیار بنایا جاتا
تو میں رستوں کی خاک نا پاتا
بند گلی کے کنارے پر
میری آہیں تھک کر نڈھال نہ ہوتیں
میری صدا کو پہچانتے تو
میں دربدر اپنی وفاؤں کی بھیک نا مانگتا
ایک لمبے سفر پر جانے سے پہلے
مجھے گھڑی دو گھڑی سو لینے دو
میری نیند کو میری آنکھوں میں سمو لینے دو
میم سین

No comments:

Post a Comment