Saturday, December 29, 2012

وہم


سلمی نے بھی کیا خوب کہی تھی
میرے مرنے کے بعد 
میری حسرتوں پر فسانہ لکھنا 
میرے شب و روز کی حقیقتوں پر
میری غم زدہ محبتوں پر
میری سانسوں کی نفرتوں پر
صرف ایک فسانہ لکھنا
لکھنے سے پہلے، مگر یاد رکھنا
ایک بار مجھے دیکھنا
یہ وہی آنکھیں ہیں 
جنہوں نے خواب دیکھے تھے
پھرنہ کہنا خبر نہ ہوسکی
وہموں کے عذاب دیکھے تھے
غم بے حساب دیکھے تھے
دیکھ لینا صرف ایک بار
ڈوبتی آنکھوں میں تیرتے آنسو
مدہم سی روشنیاں
شفق کا مانند ہوتا رنگ
سلمی بھی عجیب لڑکی تھی
مرنے سے پہلے، وہ رو نہ پائی
اس کے آنسو پتھر نکلے
پتھروں پر میرا نام تھا
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment