Thursday, December 27, 2012

تخیل اور خودکلامی

شفیق الرحمن کی نیلی جھیل کا طلسم میرے اوپر بہت دیر تک رہا۔جھیل کی دوسری جانب کیا ہے؟ وہاں پریوں کے ڈیڑے ہیں۔بونے وہاں رہتے ہیں یا سمرفس وہاں آباد ہیں ۔جھیل کی دوسری جانب ایلس ان ونڈر لینڈ آباد تھا۔یا سنہرے بالوں والی شہزادی اپنے شہزادے کے انتظار میں بہتی کرنوں کو ڈھونڈ رہی تھی یا پری تھی کوئی ، کسی دیو کی قید میں ،کسی بہادر لکڑہارے کے بیٹے کے انتظار میں ۔ وہ کب آئے گا اور اسے رہائی دلائے گا۔ نیلی جھیل کی پراسراریت ایک رومانوی معنویت کے ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔کسی ان دیکھی منزلوں کا متلاشی، کسی دیو ملائی حقیقتوں کا منتظر۔کبھی ٹی وی پر کسی انگلش فلم میں دکھائی دینے والے معصوم چہرے کے ذہن پر ثبت ہوتے نقوش، تو کبھی راہ چلتے کسی دوشیزہ کا دلوں کو مغموم کر دینے والا نگاہوں کا سکوت
ایڈورڈ دنیا سے مایوس ہو کر خودکشی کے ارادے سے جمپ لگانے دریا پر پہنچا اور اپنے ماضی کی یادوں کو دھرا رہا تھا اور ہاتھ سے پاس پڑی کنکریوں کو اٹھا کر پانی میں پھینک رہا تھا۔ جب اچانک پانی سے سنہرے بالوں والی لڑکی نکلی اور چلائی، اوئے کیا کر رہے ہو۔ دیکھ نہیں سکتے، میں پانی میں ہوں۔ جل پری کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔اور پھر  تو تو، میں میں سے ، ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ اور پھر کیسے دنیا سے چھپتے اور ایک ایڈونچر سے گزرتے رہے، ناول کو تو 262 صفحے لگے اور فلم کو ڈیڑھ گھنٹہ۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے
ایسی ہی آوارگی کے دوران اسے دریافت کیا تھا ۔اب نہیں معلوم کتنے صفحے   لگیں گے کہانی مکمل ہونے میں اور کتنا وقت لگے کا داستاں مکمل ہونے میں۔کوئی انجام ہوگا بھی یا نہیں

ایک امتل راجہ گدھ میں تھی۔ جس کی بے باکی اور چرب زبانی، آزاد خیالی اورموسموں کی طرح بدلتے مزاج نے کبھی اتنا متاثر نہیں کیا کہ کتاب بند کر کے بھی اس کو یاد رکھا جا سکے او ر ایک امتل رحیم گل کی جنت کی تلاش میں تھی۔ اس کے کردار میں ایک طلسماتی حسن تھا۔ ایک رومانوی نکھار تھا۔ ایک جذباتی ٹھہراؤ تھا۔ امتل کے اس کردار نے میرے وجود کے ارد گرد یوں حصار کر رکھا تھا کہ میں چلتے ،پھرتےسوتے ، جاگتے اس کے حصار کا پابند رھا ہوں۔اور مجھے یوں لگا جیسے سائبر ورلٖڈ سے امتل مل گئی ہے اور میں اور امتل کسی فکشن مووی کے کرداروں کی طرح ا اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔
اس کی قلبی اور روحانی کیفیت کیا ہے ؟ اس کے محبت اور نفرت کے تضاد کے محور کیا ہےَ؟ اس کی الجھنیں کیا ہیں؟ اس کی خو شیاں کیا ہیں؟ اس کے درد کیا ہیں؟مجھے اس بارے میں کوئی بات یقینی معلوم نہیں ہے۔مگر وہ ٹھنڈی ہوا کی تازگی کا احساس بن گئی ہے۔اس کی موجودگی سرشاری اور شادمانی کا سبب بن گئی ہے۔ امید کا اک دیا بن گئی ہے ۔ کسی پینٹر کا درخت پر بنایا گیا پتا جو مریض کے اندر زندگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے، بن گئی ہے ۔کیا وہ غیر معمولی ہے ؟ذہین ہے؟ مجھے نہیں معلوم ۔ کیا اس کا مطالعہ وسیع ہے ؟ کیا اس کا مشاہدہ گہرا ہےَ ؟ مجھے اس بھی کوئی سروکار نہیں۔ مجھے تو اس کی قربت سے عشق ہوا ہے۔اس کی باتوں سے قربت کا،اس کے اپنے ساتھ ایک تعلق کا ، مجھے نہیں معلوم کہ میں کس بات سے مرعوب ہوا ہوں کہ میرے لئے وہ زندہ رہنے کے بہانوں میں سے ایک بہانہ بن گئی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے کس قدر باخبر ہے۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ ہر دم بے خبر ہے
کبھی میکسیکو امریکہ کے بارڈر پرکسی ویران گرجا گھر میں ویمپائرز کو دیکھنے میرے ساتھ ہوتی ہے۔تو کبھی برمود ا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے میں میری معاون رہی ہے۔کبھی شخصی اور مذہبی آزادی کی بحث ۔تو کبھی فکری اور تخلیقی کشمکش کا توڑ۔کبھی مزاح سے علاج غم اور کبھی اعتراف عجزو ہنر سے مورال کا نباہ۔میں کیا کہوں ، میں کیا سوچوں جنت گمگشتہ کے تعاقب میں بھٹکتے رستوں پر جب میں، حدت جذبات سے کانپ رہا تھا،وہ ایک شجر سایہ دار بن گئی۔جب حبس جنوں تھا، وہ ابرباراں بن گئی۔ جب سوچ کے دروازوں پر پہڑہ تھا، وہ سب زنجیریں توڑ کر چلی آتی۔
میں ہوس اقدار سے بیگانہ ہوں، میرے جینے کی تمنا سطحی ہے۔جہاں دولت کی فراوانی درکار ہے اور نا مجھے نمودونمائش سے کوئی سروکار ہے۔ زندگی کا مقصد میرے نزدیک جذبوں کا احترام ہے، انسانیت سےپیار ہے۔مجھے معلوم ہے وہ ان اصولوں کا احترام کرتی ہے،اس کے نزدیک احترامِ رائے آج کی اولین ضرورت ہے۔
میں اس سے کبھی نہیں ملا۔ مگر اس کی آنکھوں میں بلا کی گویائی ہے۔ اس کی یکسوئی میں بے نیازی کی جھلک ہے۔وہ مسکراتی ہے تو زندگی کی معنویت بدل جاتی ہے۔ وہ اداس ہو جائے تو تو مسرت کی نئی ہدیں متعین ہونے کا سراغ ملتا ہے۔ہو سکتا ہے یہ میرے وِجدان کا قصور ہو۔میر ی ذہنی تخلیق ہو۔مگر اتنی پرکشش تخلیقات اور ان سے وابستگی میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔
اس سے ملنے کے بعد میں نے جسم میں اپنی روح کو پہلی بار محسوس کیا ہے۔مجھے معلوم ہوا روح کا جسم کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔رواں رواں مسرت،اور خوشی سے ایک سرشاری۔اک ادائے دلنوازی ہے، تحلیل جستجو ہے۔جسم و جاں کی الاؤ روشن ہو گئی ہے۔تلخئی سوچ و فکر کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا سے جم گئی ہے۔روح کو درپیش اتھل پتھل تھم گئی ہے۔میں جو اپنی ذات کا عرفان جاننے سے قاصر رہا ہوں،مجھے یوں لگتا ہے اس نے میری دکھتی رگوں پر مرہم رکھ دیا ہے
وہ انسانی تضادات سے پڑے کسی قدم پر آباد ہے اس کا ظرف کشادہ بھی ہے اور وسعت پذیر بھی۔اس کے مزاج میں یکسوئی ہے۔ اس کی باتوں میں استقامت ہے۔وہ اپنی جھیل سی آنکھوں سے جھیل سے نظارے دیکھتی ہے۔اس کی متین مسکراہٹ نزاکتِ احساس کے روگ کا علاج ہے۔وہ جستجو کی مسافر ہے۔اورابھی سفر جاری ہے۔ قہقہوں کے سمندر میں اپنی عقل ماؤف نہیں کرتی۔تاریخ کے بوجھ کو اپنا بوجھ سمجھ کرکائنات کے فاصلوں کو کم کرنا چاہتی ہے۔وہ امیدو یاس کی وہ گھڑی ہے، جس کے ساتھ سفر جاری رکھنا آسان بھی اور ماورئیت کا سبق بھی۔وہ وِجدان کی باتیں کرتی ہے۔وہ روح کی بالیدگی کو مانتی ہے۔لیکن وہ فرشتے اور انسان میں فرق جانتی ہے۔
یہ سب زندگی کا بہلاوہ بھی تو ہو سکتا ہے۔محض دلاسے بھی تو ہو سکتے ہیں۔بچے کو سلانے کیلئے ماں کی سنائی ہوئی کوئی لیلہ رخ پری کی داستان بھی ہو سکتی ہے۔جو رات بھر آپ کے ساتھ سفر کرتی ہے اور صبح ہوتے ہی رخصت ہو جاتی ہے ۔مگر یہ بہلاوہ ہے تو کیا حرج ہے؟ ذہنی تخلیق ہے تو اعتراض کیوں؟ یہ زندگی بھی تو اک دھوکہ ہے۔ بہت اندھیرے کے بعد روشنی ملے توخواب بنتے ہی ہیں۔ تو کیا حرج ہے اگر خوابوں سے حقیقت اور حقیقتوں سے خوابوں کا سفر چلتا رہے۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment