Thursday, December 27, 2012

قید

چلو چھوڑوسب حقیقتوں کو
یہ قصے کہانیوں کا زمانہ نہیں
نہ کسی پچھلے عہد کی بات ہے
گھڑی دو گھڑی رو لینے سے
میرا کرب کچھ کم ہوسکتا تو
میں جی بھر کے رو لیتا
میرے گناہوں کا حساب مانگ کر
میری سزا ، مجھے مل جاتی تو
سارے درد میں سہ لیتا
تو میرا ہم نفس نہیں ہے
میرے ہاتھوں پر تیرا لہو نہیں ہے
تیرے درد کا الزام میرے نام نہیں ہے
تو کیوں؟؟
میں اپنی ذات کی قید میں ہوں
میرا جرم،میرے نام تو کر دو
میں کیوں الگ تھلگ ہوں
میرے لہو کی گردش تو تیرے نام تھی
میں کس لئے پس زندان ہوں
میں بستی سے دربدر 
کس جرم کی سزا پا رہا ہوں
چلو چھوڑو ، یہ سب حقیقتیں ہیں
یہ حقیقتوں کا زمانہ نہیں ہے
کسی نئے عہد کی بات کرو 
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment