Saturday, March 2, 2019

مسجد وزیر خان


یہ بہت سال پہلے کی بات ہے ۔جولائی کا مہینہ تھا اور ایک سنہری شام مون سون نے لاہور میں جل تھل کر دی تھی۔میں اپنے ایک دوست کے ساتھ موٹر سائکل پر نکلا تو گھومتے گھماتے دو موریہ پل کے قریب سے گزر کر شاہ عالمی طرف جارہے تھے تو ایک جگہ  چائے پینے کیلئے رکے تو باتوں باتوں میں پتا چلا کہ قریب ہی دھلی گیٹ ہے اور اس کے اندر مسجد وزیر خان ہے۔اگرچہ شام ہوچکی تھی لیکن ابھی واپسی کا موڈ نہیں تھا اس لیئے چائے ختم کرکے دھلی دروازہ عبور کرکے مسجد تک پہنچے تو پتا چلاکہ ٹرانسفارمر جل چکا ہے اس لیئے مسجد کا اندھیرا چند مصنوعی لائٹوں کے ساتھ دور کیا جارھا ہے۔اوریوں مسجد کو دیکھنے کی حسرت لیئے واپس لوٹ گئے
اور اب کئی سالوں بعددھلی گیٹ سے داخل ہونے کے بعد  شاہی گزرگاہ سے گزر رھا ہوں۔ اتنے سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔رش بہت بڑھ چکا ہے۔دکانوں کی سجاوٹ کا انداز بدل چکا ہے۔کچی پکی، ٹوٹی پھوٹی سڑک اب ہموار ٹائلوں کے فرش میں بدل چکی ہے۔ ۔ اور میں چلتا ہوا  وزیر چوک پہنچتا ہوں ۔میرے  بائیں  جانب مسجد وزیر خان کھڑی ہے ۔وہی مسجد وزیر خان جسے سالوں پہلے  دیکھنے کی حسرت ٹرانسفارمر کی خرابی کی نظر ہوگئی تھی ۔۔۔

 کہتے ہیں کہ ملکہ نورجہاں ایک بار بیمار پر گئی توچنیوٹ کا ایک طبیب علم الدین جو ان دنوں آگرہ  میں مقیم تھا  کو بلایا گیا ۔علم الدین کے علاج سے ملکہ صحت یاب ہوگئی تووہ مغلوں کے قریب آگیا اور شاہجہاں نے اسے وزیر خاں کاخطاب یا ۔ اور یوں علم الدین نے آنے والے دنوں میں وزیر خان کے نام سے شہرت پائی ۔شاہجہاں لاہور آیا  تو اسے لاہور کاگورنر نامزد کردیا۔ لاہور کی گورنر کی حیثیت سے ایک اچھے ناظم کی حیثیت  جو شہرت پائی  وہ اپنی جگہ لیکن اس کی اصل شناخت مسجد وزیر خان ٹھہری۔جو  زیبائش میں اپنی نوعیت کی منفردعمارت تھی۔ 
شاہی گزرگاہ کے پاس اڑھائی سو سال سے اسحاق گازرونی کا مزار تھا ۔اس جگہ کو مسجد کے لیئے پسند کیا گیا اور مزار اب مسجد کے صحن میں موجود ہے۔ مسجد کے اخراجات کو اٹھانے کیلئے دھلی گیٹ کے ساتھ کچھ فاصلے پر شاہی حمام قائم کیئے گئے جن کے آثار اب بھی موجود ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وزیر خان کو جتنے بھی قیمتی انعامات ملے تھے وہ اس کی تعمیر پر خرچ کر دیئے تھے۔
مسجد وزیر خان اس لحاظ سے سے بھی اہم ہے کہ جب  بادشا ہی مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا گیا مسجد وزیر خان کو بنے تیس سال گزر چکے تھے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سکھوں نے جہاں مغلیہ عہد کی ہر عمارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہاں مسجد وزیر خان اس توڑ پھوڑ سے محفوظ رہی۔  کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سکھوں کے ایک ایک اہم گرو ارجن کے وزیر خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور ان اچھے تعلقات کو سکھوں نے قدر کی نظر سے دیکھا۔لیکن تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ رقم کیا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ ایک طوائف کو لیکر ایک مینار پر سارا دن عیاشی کرتا رھا جس کے بعد راجہ بیمار پر گیا۔ جس پر نجومیوں نے  بیماری کواسحاق  گارزونی کی بددعا کو قرار دیا۔ جس پر راجہ نے ناصرف معافی مانگی۔ صدقہ کیا اور آئیندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کی تو صحت یاب ہوگیا۔
بحرحال اس مسجد کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم ازکم تاریخی عمارت ابھی تک اپنی اصلی حالت   میں موجود ہے اور اپنی مخصوص پچی کاری اور آرائش کی وجہ سے دیکھنے کے لائق  ہے






























No comments:

Post a Comment