Sunday, March 31, 2019

ناسٹیجیا

شفیق الرحمن کی نیلی جھیل کا طلسم میرے اوپر بہت دیر تک رہا۔جھیل کی دوسری جانب کیا ہے؟ وہاں پریوں کے ڈیڑے ہیں۔بونے وہاں رہتے ہیں یا سمرفس وہاں آباد ہیں ۔جھیل کی دوسری جانب ایلس ان ونڈر لینڈ آباد تھا۔یا سنہرے بالوں والی شہزادی اپنے شہزادے کے انتظار میں بہتی کرنوں کو ڈھونڈ رہی تھی یا پری تھی کوئی ، کسی دیو کی قید میں ،کسی بہادر لکڑہارے کے بیٹے کے انتظار میں ۔ وہ کب آئے گا اور اسے رہائی دلائے گا۔ نیلی جھیل کی پراسراریت ایک رومانوی معنویت کے ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔کسی ان دیکھی منزلوں کا متلاشی، کسی دیو ملائی حقیقتوں کا منتظر۔کبھی ٹی وی پر کسی انگلش فلم میں دکھائی دینے والے معصوم چہرے کے ذہن پر ثبت ہوتے نقوش، تو کبھی راہ چلتے کسی دوشیزہ کا دلوں کو مغموم کر دینے والا نگاہوں کا سکوت
ایڈورڈ دنیا سے مایوس ہو کر خودکشی کے ارادے سے جمپ لگانے دریا پر پہنچا اور اپنے ماضی کی یادوں کو دھرا رہا تھا اور ہاتھ سے پاس پڑی کنکریوں کو اٹھا کر پانی میں پھینک رہا تھا۔  اچانک پانی سے سنہرے بالوں والی لڑکی نکلی اور چلائی۔ کیا کر رہے ہو۔ دیکھ نہیں سکتے۔ میں پانی میں ہوں۔ جل پری کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔اور پھر دونوں کے درمیان تکرار سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ اور پھر کیسے دنیا سے چھپتے اور ایک ایڈونچر سے گزرتے رہے، ناول کو تو 262 صفحے لگے اور فلم کو ڈیڑھ گھنٹہ۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے ۔قلم سے کیمرے تک کے پیج کی بنیاد رکھے چند دن گزرے تھے۔  جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلا تو مسجد کے باغیچے میں کھلے گلابوں کو دیکھ کر میری رگ فوٹو گرافی پھڑکی ۔اور پھولوں کی ڈھیڑوں تصویریں کھینچیں ۔وہ پھول  ایک عام سا پھول تھا۔سیدھا سادہ سا گلاب کا پھول۔ بہار کی آمد کی نوید  سناتا ہوا۔ لیکن مجھے  معلوم  نہ تھا یہ پھول ایک کردار میں ڈھل جائے گا اور آنے والے دنوں میں میری زندگی کے معیار بدل کے رکھ دے گا۔  اس کردار  میں ایک طلسماتی حسن تھا۔ ایک رومانوی نکھار تھا۔ ایک جذباتی ٹھہراؤ تھا۔ کردار نے میرے وجود کے ارد گرد یوں حصار  باندھا کہ میں چلتے پھرتے،سوتے ، جاگتے اس حصار کا پابند ہوگیا تھا۔۔
وہ  ٹھنڈی ہوا کی تازگی کے احساس کا ایک جھونکا تھا۔اس کی موجودگی سرشاری اور شادمانی کا سبب۔ امید کا اک دیا  ۔ کسی پینٹر کا درخت پر بنایا گیا پتا جو جاں بلب مریض کے اندر زندگی کا جذبہ پیدا  کرتا ہے۔ شعور کی ایسی علامت جہاں سے ذہانت کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔جہاں سے زندگی اپنا مفہوم اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ایسی علامت، ایسی بلاغت جن کی تکمیل سے مسرتوں کے جام پھوٹتے ہیں۔میرے لئے وہ زندہ رہنے کے بہانوں میں سے ایک بہانہ بن گیا۔مجھے نیلی جھیل کی دوسری جانب جانے پر اکسایا۔میں ایلس ان ونڈر لینڈ کے سفر پر نکلا تو پھر واپس نہ لوٹ سکا۔ 
میری زندگی کے شب و روز بدل گئے۔کبھی میکسیکو امریکہ کے بارڈر پرکسی ویران گرجا گھر میں ویمپائرز دیکھنے نکل پڑتا۔تو کبھی برمود ا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگ جاتا۔کبھی شخصی اور مذہبی آزادی کی بحث ۔تو کبھی فکری اور تخلیقی کشمکش کا توڑ۔کبھی مزاح سے علاج غم اور کبھی اعتراف عجزو ہنر سے مورال کا نباہ۔میں کیا کہوں ، میں کیا سوچوں جنت گمگشتہ کے تعاقب میں بھٹکتے رستوں پر جب میں، حدت جذبات سے کانپ رہا تھا، وہ پھول شجرسایہ دار بن گیا۔جب حبس جنوں تھا، وہ ابرباراں بن گیا۔ جب سوچ کے دروازوں پر پہرے لگے نظر آتے تو سارے قفل ٹوٹ جاتے۔۔
میں ہوس اقدار سے بیگانہ ہوں، میرے جینے کی تمنا سطحی ہے۔جہاں دولت کی فراوانی درکار ہے اور نا مجھے نمودونمائش سے کوئی سروکار ہے۔ زندگی کا مقصد میرے نزدیک جذبوں کا احترام ہے۔انسانیت سےپیار ہے۔اور مجھے لگا میرے ان جذبوں کو ایک زبان مل گئی ہے۔
  آنکھوں میں بلا کی گویائی آگئی۔  یکسوئی میں بے نیازی  جھلکنے لگی۔ زندگی کی معنویت بدلنے لگی۔ مسرت کی نئی حدیں متعین ہونے لگیں ۔ ہوسکتا ہے ،یہ میرے وِجدان کا قصور ہو۔میر ی ذہنی تخلیق ہو۔مگر اتنی پرکشش تخلیق اور ان سے وابستگی میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔
اس دن کے بعد میں نے جسم میں اپنی روح کو پہلی بار محسوس کیا ۔مجھے معلوم ہوا روح کا جسم کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔رواں رواں مسرت،اور  ایک سرشاری۔اک ادائے دلنوازی  ۔جسم و جاں کی الاؤ روشن ہو گئی ۔تلخئی سوچ و فکر کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا میں جم گئی ۔روح کو درپیش اتھل پتھل تھم گئی ۔میں جو اپنی ذات کا عرفان جاننے سے قاصر رہا تھا ۔مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میری دکھتی رگوں پر مرہم رکھ دیا ہے
میں انسانی تضادات سے پڑے کسی قدم پر آباد ہوگیا۔ میرا ظرف کشادہ  ہوگیا اور وسعت پذیر بھی۔ مزاج میں ایک یکسوئی نظر آنے لگی۔ باتوں میں استقامت ۔آنکھیں جھیل سے نظارے دیکھنے لگیں۔ میں جستجو کا مسافر تھا لیکن کسی جمود کا شکار ہوچکا تھا لیکن ایک نئے سفر کا آغاز کردیا۔ تاریخ کے بوجھ کو اپنا بوجھ سمجھ کر فاصلوں کو کم کرنا شروع کر دیا۔ وِجدان کی باتیں  کرنے لگا۔روح کی بالیدگی کو پھر سے ماننے لگ گیا ۔فرشتے اور انسان میں فرق سیکھ لیا ہے۔
یہ سب زندگی کا بہلاوہ بھی  ہو سکتا تھا۔محض دلاسے بھی ۔بچے کو سلانے کیلئے ماں کی سنائی ہوئی کوئی لیلہ رخ پری کی داستان بھی۔جو رات بھر آپ کے ساتھ سفر کرتی ہے اور صبح ہوتے ہی رخصت ہو جاتی ہے ۔مگر یہ بہلاوہ تھا تو کیا حرج تھا؟ ذہنی تخلیق تھی تو اعتراض کیوں؟ یہ زندگی بھی تو اک دھوکہ ہے۔ بہت اندھیرے کے بعد روشنی ملے توخواب بنتے ہی ہیں۔ تو کیا حرج تھا اگر خوابوں سے حقیقت اور حقیقتوں سے خوابوں کا سفر چلتا رہتا۔۔۔۔
لیکن   ایڈونچر کتنا ہی دلچسپ کیوں نہ ہو ۔ ایک انجام دیکھنا ہوتا ہے ۔کتاب  کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔ ایک اختتام لکھا ہوتا ہے۔فلم کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو ۔اس کا ایک دورانیہ ہوتا ہے ہے  ۔اور آج شام اس پھول کو بھی کسی نے چرا لیا۔

No comments:

Post a Comment