Wednesday, March 13, 2019

آوارہ گرد کی ڈائری... شالیمار باغ کی کہانی....




جوڑوں کا درد محسوس کرنا ہوتو اس کیلئے سب سے بہترین جگہ ہمارے تاریخی مقامات اور پبلک پارکس ہیں ۔جہاں بھی نظر ڈالو ،اپنے درد کی تصویر سجائے کسی نہ کسی کونے، کسی راہداری کے پاس، آپ کو کوئی جوڑا بیٹھا ضرور نظر آئے گا۔اور میرے جیسا ٹورسٹ خواہ مخواہ احساس شرمندگی کاشکار ہوجاتا ہے کہ شائد ان کی خلوت میں مداخلت کرکے کسی جرم کامرتکب ہورھا ہوں۔ کٹاس میں بھی ایک مندر کے اندرشہد کی مکھیوں سے ڈرتے ڈرتے گھسا تو ایک جوڑے کی خلوت میں مداخت پر کئی دن تک 
شرمندگی کا احساس ہوتا رھا تھا۔
خیر جوڑوں کے درد پر پھر کبھی بات کریں گے پہلے آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف...
ایک شالیمار باغ وہ ہے جس کو ہم لاہور کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن اصل باغ وہ تھا جو جہانگیر بادشاہ نے کشمیر میں بنوایا تھا جس میں دن بھر فوارے بہتے تھے۔پھل دار درختوں کی بہتات تھی جس کی وجہ رنگ برنگ کے پرندوں نے باغ کو ایک منفرد سماع بخشا تھا۔
جب شاہجاں کی توجہ لاہور پر مرکوز ہوئی تو دہلی سے لاہور آنے والے مہمانوں کے استقبالئے کیلئے لاہور سے باہر ایک باغ بنانے کا ارادہ کیا اور اس کے ذہن میں نقشہ کشمیر کے شالیمار باغ کا تھا۔ لیکن ادھر مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر کا پہاڑی علاقہ فواروں کو مسلسل رواں رکھنے کیلئے کافی سازگار تھااور پانی کی بھی خوب فراوانی تھی۔لیکن لاہور میں حالات مختلف تھے۔لیکن انجینیرز نے یہ چیلنج قبول کرلیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔
جس جگہ آج شالیمار باغ کھڑا ہے یہ علاقہ لاہور شہر سے کوئی پانچ کلومیٹر دور باغبانپورہ کے علاقے میں آتا ہے۔باغ کیلئے جس جگہ کو پسند کیا گیا وہ ایک ارائیں فیملی کی ملکیت تھی۔ پہلے تو یہ خاندان اراضی دینے پر راضی نہ ہوا لیکن پھر دھمکا کر اورکچھ لالچ دے کر راضی کرلیا گیا۔اس وقت خاندان کے سربراہ محمد یوسف مانگا تھے جنہوں نے اراضی حکومت کے حوالے کردی۔جس پر حکومت نے ناصرف ہمیشہ کیلئے اس خاندان کو باغ کا نگران مقرر کردیا بلکہ میاں کے خطاب سے بھی نوازا ۔اور یوں اگلے ساڑھے تین سو سال تک یہ باغ میاں خاندان کی ملکیت رھا تاآنکہ ایوب خان نے 1962 میں اسے قومیا لیا۔پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدلرشید اور پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے مالک میاں افتخار الدین کا تعلق اسی خاندان سے تھا ۔۔
باغ کو تین ڈھلوانوں پر بنایا گیا اور ان کے الگ الگ نام رکھے گئے۔باغ کے گرد اونچی چار دیواری بنائی گئی جو مغلیہ عہد کی ہر عمارت کی پہچان رہی ہے۔410 فواروں کی تنصیب کی گئی اور سفید اور سرخ سنگ مرمر سے باغ کو سجایا گیا۔
تمام فواروں کو ہر وقت رواں رکھنے کیلے جو نظام نصب کیا گیا وہ آج بھی مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے۔خیر وہ نظام تو اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔آجکل ٹربائنوں کے ذریئے فواروں کو چلایا جاتا ہے۔۔
مرکزی دروازے سے آپ جب ٹکٹ لیکرباغ میں داخل ہوتے ہیں تو یہ باغ کا پہلا حصہ ہے جو امرا اور عام لوگوں کیلئے کھولا جاتا تھا۔مربع شکل کے اس حصے کو فواروں کی ترتیب سے چار میدانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جس جگہ فواروں کی قطاریں ایک دوسرے کوکراس کرتی ہیں وہاں سے آپ دائیں جانب مڑ جائیں تو ایک سفید پتھر سے بنی بارہ دری نظر آئے گی۔ جس پر کھڑے ہوکر آپ کو بادشاہ اور حرم کیلئے مختص حصہ نظر آتا ہے۔ یہ دونوں حصے کافی نشیب پر بنائے گئے ہیں۔جہاں تک پہنچنے کیلئے آپ کو سیڑھیاں اتر کر پہنچنا پڑتا ہے۔ 
سنا ہے کہ چودھویں رات کو بادشاہ کیلئے مختص حصے میں محفل سجا کرتی تھی۔ اپنے لیئے مخصوص چبوترے پر بادشاہ پراجمان ہوتا تھا ۔ اس کے حرم کی عورتیں جبوترے کے پچھلی جانب بنی سفید سنگ مرمر سے بنی خوبصورت بارہ دری میں کھڑی ہوتی تھیں. جس کے نیچے آگرہ سے منگوایا گیا سنگ مرمر کا ایک ٹکڑے پر مشتمل جھرنا تھا..۔جس پر سے گرتا ہوا پانی بارش کی گرتی بوندوں جیسی آواز پیدا کرتا تھا ۔ باشاہ کے سامنے دائیں اور بائیں جانب بنی سرخ پتھر سے بنی بارہ دریوں کے اندر سازندے اور گویے بیٹھا کرتے تھے۔ اور آج بھی ان کے اندر کھڑے ہوکر تالی بجائی جائے یا اونچی آواز میں بولا جائے تو آواز گونجتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سامنے سفید پتھر سے بنی بارہ دریوں میں امرا اور مہمانوں کو بیٹھنے کی دعوت دی جاتی تھی اور فواروں کے پانی کیلئے بنے حوض کے ارد گرد بنی مخصوص جگہوں پر رقاصاؤں کو کھڑا کیا جاتا تھا۔.....
مشہور صوفی شاعر شاہ حسین کا مزار شالیمار باغ کے ساتھ ہی ہے اور اس کے نام پر لگنے والا تین روزہ میلہ چراغاں 1958 تک اسی باغ کے اندر لگا کرتا تھا۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میلے کا اہتمام ناصرف سکھوں نے جاری رکھا بلکہ انگریزوں نے بھی اس کے انعقاد کو جاری رکھنے میں ناصرف توجہ دی بلکہ خصوصی اہتمام کیا جاتا رھا۔
لیکن اب باغ ویسا نہیں ہے.جیسا یہ اپنی تعمیر کے وقت تھا۔کچھ زمانے کے جبر نے اورکچھ تزئین وآرائش کے نام پر اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا رھا ہے ۔اس پر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ 
باغ میں صنوبر مالٹا سیب، بادام، آلوبخارہ، آڑو،آم، انار، چیری اور بے شمار قسم کے پھل دار درخت لگائے گئے تھے۔مغلوں کے نزدیک صنوبر کا درخٹ ہمیشگی کی علامت ہے اس لیئے صنوبر کے درخت نے مغلیہ عہد میں خوب ترقی پائی۔احمد شاہ ابدالی کے ساتھ لڑائی کے بعد لاہور کے باغوں کے درختوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔سکھوں کے دور میں باغ کا سنگ مرمر امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کو سجانے کے کام لایا گیا۔امرتسر میں بنایا گیا رام باغ بھی شالامار باغ کے پتھر سے سجایا گیا۔ علاوہ ازیں لہنا سنگھ نے باغ کے انتہائی قیمتی مرکزی دروازے کو بھی اتار کر بیچ ڈالا تھا۔ 1922 میں انگریزوں نے بھی باغ سے درختوں کی ایک بڑی تعداد کا صفایا کرکے وہاں گلابوں کا کا باغ متعارف کروایا۔لیکن 2006 میں باغ کے سٹرکچر کو بچانے کے نام پر ناصرف درختوں کا صفایا کردیا گیا بلکہ گلابوں کا باغ بھی ختم کردیا گیا۔ فواروں کے ارد گرد گھاس اور اور پھول دار پودے سب کچھ ختم کرکے انکو پتھروں کی روش میں تبدیل کردیا گیا
اور سچ بات ہے کہ عہد رفتہ کی اس یادگار کو رونق بخشنے کیلئے صدقے کے گوشت پر پلنے والی چیلیں اور لوگوں کے دانہ پھینکنے کی وجہ سے جنگلی کبوتروں کے غول باقی رہ گئے ہیں ورنہ وہاں سوائے ایک روایتی پارک کے کوئی دلکشی باقی نہیں رہ گئی ہے
میم.سین























No comments:

Post a Comment