Wednesday, March 13, 2019

آوارہ گرد کی ڈائری۔۔ تلخ حقیقتوں کے تعاقب میں


میں اسوقت ٹکسالی گیٹ کے قریب طبلہ بازار میں کھڑا ہوں.اس سے کچھ آگے جوتوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ میرے ارد گرد بے شمار دکانیں موجود ہیں جن میں موسیقی کے آلات بنانے والے ہنر بند موجود ہیں جو موسیقی کے ناصرف مختلف قسم کے آلات بناتے ہیں بلکہ یہیں سے دوسرے شہروں کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔

اس گیٹ کے ساتھ وہ مشہور بازار ہے جس کو شاہی بازار کہتے ہیں جس کو راجہ رنجیت سنگھ کے ایک وزیر اعظم کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی کی وجہ سے ہیرا منڈی بھی کہتے ہیں ۔یہ بازار کب سے قائم ہے؟ اس کے بارے میں اگرچہ تاریخ خاموش ہے لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں نے جب  لاہور کو اہمیت دینا شروع کی تو تفریح طبع کیلئے یہ بازار قائم کیا گیا۔ اس بازار کا تعلق گانا بجانے اور موسیقی سننے سے تھا۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین نہائیت نفیس طبیعت کی مالک گنی جاتی تھیں جن کی زبان دانی ، لہجہ اور رہن سہن بہت سلیقہ مندتھا۔۔اور لوگ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ لیکن جب انگریزوں نے اپنے فوجیوں کی تفریح کیلئے انار کلی کے قریب کوٹھے تعمیر کروائے  گئے اور پھر ان کی شاہی محلے منتقلی سے  بات گانا سننے سے آگے نکل کر جسم فروشی کی طرف نکل گئی۔

شاہی محلے میں سید قاسم شاہ کا مزار بھی ہے جس کے پہلو میں ایک مسجد بھی ہے۔ چوری چھپے بازارآنے والے لوگ مزار کا سہار لیکر مسجد کے عقب سے نکل جاتے تھے کیونکہ مسجد عموما بند رہتی تھی۔ضیا الحق کے دور میں جب لوگوں کی آمدو رفت کا ریکارڈ رکھا جانے لگا اور تفریح کے اوقات کار صرف دو گھنٹے کر دیئے گئے تو یہاں آنے والے گاہکوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی کے بعد محلے کے مکینوں نے لاہور کی نئی کالونیوں کا رخ کیا اور یہ عیاشی کا اڈہ پورے لاہور میں بکھر گیا۔حالات اب اس قدر بدل چکے ہیں کہ میں ایک بازار سےگزر رھا ہوں اگرچہ دن کا وقت ہے لیکن کسی نے   مجھے حیرت سے نہیں دیکھا نہ کسی نے مشکوک نظروں سے میرا تعاقب کیا ہے۔
اس محلے کے مشہور پھجے کے پائےکی دکان کے سامنے سے گزر کر آس پان والے کے سامنے کھڑا ہوا تو چشم زدن میں خود کو بغداد کے عباسی دور کے مشہور بازار سوق الرقیق میں کھڑا پاتا ہوں۔ ترکی، ایران، وسطی ایشیا ، انڈیا اور افریقہ سے نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے  اس بازار  میں سجایا جاتاہے۔ گاہکوں کی کمی نہیں ہے۔ حسن اور خوبیوں دونوں کے دلدادہ موجود ہیں۔ تاجروں کو ایک اچھی آمدن ہوجاتی ہے۔ریٹ اچھا لینے کیلئے تاجر ان لونڈیوں کی حفاظت اور تربیت میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے اور یہ اس تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے موسیقار، عالمہ، فاضلہ ان لونڈیوں میں سے  تھے اور ان کے بطن سے بہت سے خلیفہ اور امرا نے جنم لیا۔
مسلمانوں نے جب حکومت سنبھالی تو فتوھات کا جو سلسلہ چلا تو پھر رکنے کا نام نہ لیا اور ان فتوحات کے نتیجے میں لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کو ملتی رہیں جن سے وہ نا صرف کام کاج میں مدد لیتے تھے بلکہ دل بہلانے کیلئے بھی ان کا سہارا لیا جاتا تھا۔محمود غزنوی کے حملوں کے بعد غلاموں  اور لونڈیوں کی اس قدر تعداد بڑھ گئی تھی کہ  دو دو روپے میں   بکنا شروع ہوگئے  تھے۔ لیکن عباسیوں کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ کچھ رک گیا اور لونڈیوں کی دستیابی  کمیاب ہوگئی۔ تو بردہ فروشی کی صنعت نے جنم لیا۔ اور بغداد کے بازاروں میں منڈیاں لگنے لگیں ۔اور بغداد کی جس مارکیٹ میں کھڑا ہوں اس کی شہرت دور تک پھیل چکی ہے ۔اورتاریخ کی کتابوں میں اس بازار کی جو منظر نگاری کی گئی ہے وہ پڑھ کر نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔اور ان منڈیوں کے نتیجے میں تفریح کی محفلیں    محلوں سے نکل کر گلی کوچوں تک پہنچنا شروع ہوگئیں۔ کوئی گانے والی ٹھہری تو کوئی رقاصہ ، اور کسی نے جسم فروشی کا رستہ اختیار کیا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے پاس کوئی دو ہزار کنیزیں تھیں ایک کنیز کی خریداری کیلئے اس نے ایک لاکھ دینار خرچ کیئے ۔ امین اپنے باپ پر بازی لے گیا ۔اور ایک کنیز کو سونے میں تول کر خریدا۔نام تو اور بھی بہت سے تاریخ میں موجود ہیں لیکن ہارون الرشید کو سب جانتے ہیں تو بتاتا چلوں اس کی ماں بھی ایک کنیز تھی۔
ہارون الرشید نے ایک کنیز کو چھیڑا تو اس نے بات کو صبح تک ٹالنے کو کہا صبح جب بلایا گیا تو کنیز نے شعر پڑھا
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
ہارون  نے اس مصرٖ پر گرہ لگانے کو کہا۔لگانے والے نے گرہ کے ساتھ سارا قصہ بھی آشکار کردیا۔
چھوڑیئے رات گئی بات گئی
مصر کے بادشاہ محمد علی کی بیٹی کا قصہ بھی ہوجائے ۔ جس کے شوہر کے ہاتھ، ایک کنیز نے دھلوئے تو شوہر نے ایک ادا سے کہا روکا۔۔
بس بس پیاری! 
اور یہ الفاظ بیوی تک پہنچ گئے اور اس نے کنیز کو قتل کروا کے اس کی کھوپڑی میں چاول پکوائے اور دستر خوان پر رکھ کر خاوند سے مخاطب ہوئی اپنی پیاری کا بھی ایک لقمہ کھا لو
ہمایوں بادشاہ شکست کھا کر ایران میں پناہ گزیں تھا تو بادشاہ کی حالت زار پر ایک مغنیہ نے فی البدیہ کچھ اشعار چھیڑے کہ بادشاہ کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن مغنیہ بادشاہ کے دل کو کچھ ایسا بھائی کہ دہلی کا تخت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کو طلب کیا لیکن وائے حسرت وہ انتقال کر چکی تھی 
اورنگ زیب بھی زین آباد کی مغنیہ پر کچھ ایسا مر مٹا تھا کہ دو سال تک امور سلطنت سے بیگانہ ہوکر رہ گیا تھا
 باشاہوں کے  محل کے معاملات چلانے میں مدد کیلئے کیلئے لونڈیاں  موجود تھیں ۔لیکن دل کو بہلانے کیلئے  کنیزیں بھی  ضروری تھیں تو  کنیزوں کی مانگ کو پورا کرنے کیلئے  بستیاں بسائی گئیں ۔ان محلوں میں کنیزوں اور لونڈیوں کی تربیت کاخاص اہتمام کیا جاتا تھا کوئی گانے کی ماہر ٹھہری تو کسی کو رقص پر عبور حاصل تھی۔کوئی اشعار کہنے میں ملکہ ہوتی تھی تو کسی کی حاضر دماغی شاہ کے قریب کردیتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں سلطان تغلق کے زمانے میں اپنی نوعیت کی پہلی بستی  اپنے دارلحکومت دولت آباد کے قریب آباد کی تھی۔ اکبر بادشاہ نے سکری میں شیطان پورہ کے نام سے ایک شہر آباد کیا۔واجد علی شاہ کا شاہی محلہ  بھی اس کے محل کے قریب تھا۔ لاہور کی ہیرا منڈی کو دیکھیں تو وہ بھی شاہی سائے میں آباد ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں سرکاری سرپرستی کا نتیجہ تھی جو یوں چکلے آباد ہوتے رہے اور پھر ترقی کرتے گئے۔
ہندستان میں جسم فروشی کی ابتدا  پرتگیزیوں نے شروع کی ۔ گوا میں ان کی ایک ریاست تو قائم تھی ہی لیکن جب جاپانی فتوحات ہوئیں تو وہاں سے لڑکیوں کو اغوا کرکے اپنے لوگوں کو تفریح پہنچانے کی غرض سے گوا میں کوٹھیاں قائم  کر کے دیں  ۔ اور ہندوستان میں جب مرکزی حکومتیں کمزور پڑنا شروع ہوئیں اور ریاستوں کا شیرازہ بکھڑتا گیا۔ تو ٹوٹتی پھوٹتی ریاستوں سے بے سہارا ہونے والی کنیزیں محلوں سے گلیوں میں منتقل ہونے لگیں اورمارکیٹ ویلیو بڑھانے کیلئے جسم فروشی کا سارا لیا جانے لگا۔
تحریر لمبی ہوتی جارہی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلےاسلام کی آمد سے پہلے بھی چلتے تھےلیکن پھر کیا ایسا ہوا کہ اسلام ان سلسلوں کو روکنے میں ناکام ہوگیا؟۔  دین اسلام نے ایک دانشمندانہ رویہ اختیار کرکےجنسی تقاضوں کو فطری حیثیت میں تسلیم کیا تھا۔کثرت ازاوج کی گنجائش پیدا کرکے دی۔لونڈی پر بھی اختیار دے دیا۔نبھانے میں کوئی مشکل ہورہی ہے تو  طلاق کا رستہ سکھا دیا۔ اور دوسری طرف زنا کو مشکل بنانے کیلئے سخت سزائیں رکھیں۔لیکن ہوا کچھ یوں کہ ہمارے دینی تقاضے ایک طرف رہے  اور سماجی رویے غالب آئے۔ہوس پرستوں کا کوئی مذہب دین یا عقیدہ نہیں ہوتا  لیکن سماج کی پابندیوں کے بعد عیاشی کے بنے راستوں میں سماج زدہ عام آدمی کو بھی کشش نظرآنے لگتی ہے ہے۔ فطری راستوں کو بند کریں گے تو دریا جن نئے رستوں کو اختیار کرے گا اس کی تباہ کاریوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رھا کرتا




  

No comments:

Post a Comment