Tuesday, February 19, 2013

اتفاق

ماضی کے کچھ نقوش خیالی پیکروں میں یوں اتر جاتے ہیں کہ تخلیقی مسرت میں ایک اضافہ ہو جاتا ہے۔تحریری اسلوب کو ایک تازگی مل جاتی ہے اور تخیل کے تارجب چھڑتے ہیں تو ان میں سے ایسی ایسی یادیں ساز بجاتی ابھرنے لگتی ہیں کہ دل بے اختیار ان تصویروں کو اپنی نگاہوں کے سامنے جھومتے گاتے دیکھنے میں محو ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی کچھ نقوش میرے زمانہ طالب علمی سے  ہیں۔گورنمنٹ نارمل سکول کا شمار علاقے کے ممتاز اور تاریخی اہمیت کے حامل اداروں میں ہوتا ہے۔ کئی دانشوروں، ادیبوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں، آرمی اور بیوروکریسی کے افسروں کو میں جانتا ہوں ،جنہوں نے اس ٹاٹ والے سکول میں پڑھنے کے بعد زندگی میں نمایاں شعبوں تک رسائی حاصل کی ۔ حافظے کو کھنگالنے سے زندگی کی جو تصویر ذہن میں بنتی ہے اس میں ایک طلسمی کشش پیدا ہو جاتی ہے اور میں اس کشش کے زیر اثر فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے بھی جہاں اپنی پرائمری تک تعلیم اسی سکول کے ماسٹر عطا محمد، ماسٹر رشید ، ماسٹر ولی محمد جیسے شفیق اساتذہ سے حاصل کرنے کا موقع ملا ، وہیں پر عثمانی صاحب کے صبح کی دعا میں دیے گئے درس قرآن سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملا۔ اور شائد یہ انہی دروس کا کمال تھا جس نے ذہن میں قرآن کی عظمت اور محبت کا ننھا سا بیج بو دیا تھا جس نے آنے والے دنوں میں نمی پا کر جڑیں نکالیں اور ایک سدابہار پودے کی شکل اختیار کر لی۔۔ اس سکول کی ایک خاص بات یہاں پر پانی کا ایک تالاب تھا جس میں ہم اپنی تختیاں دھوتے تھے۔ چند دن پہلے وہاں جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ اب وہ تالاب اپنی یادوں کے ساتھ ختم ہوچکا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کسی سانحے کے نتیجے میں اس کو ختم کیا گیا یا سکول میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس کو ہموار کردیا گیا لیکن آج بھی اس میں تختیوں کو دھو کر ان کو جلدی خشک کرنے کیلئے ہوا میں تختیاں لہراتے اور ساتھ ساتھ پنجابی یا اردو میں ماہیے کی طرز پر نظمیں پڑھتے بچے میری نظروں کے سامنے دوڑتے نظر آتے ہیں۔اور میں زندگی کے دائمی بہاؤ میں ٹھہر سا جاتا ہوں۔میری اندرونی کیفیتیں جیتی جاگتی تصویروں میں ڈھل جاتی ہیں۔میں اپنی بصیرت میں ان گزرے زمانوں کو اپنے اندر سمو کر ایک لطیف احساس میں تبدیل کر لیتا ہوں۔ اس سکول کی ایک اور خاص بات اس کے پھولوں کے باغیچے تھے۔ جہاں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ صبح سے لیکر شام تک ایک لمحے کو بند نہیں ہوتی تھی۔فضا ، سیاہ بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کی کی بھنبھناہٹ سے گونجتی رہتی تھی۔پھولوں کی رنگت اور ان کی خوشبو دونوں دلوں کو بہلاتے تھے۔ بیلا ، موتیا، چنبیلی، ڈھلیا، گلاب ، گل داؤدی ، گل لالہ ،نرگس ۔۔پھولوں کی وہ کونسی قسم تھی جو ان باغیچوں میں موجود نہ تھی ۔ خاص طور پر بہار کے موسم میں تو جو روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ان کو میرا قلم لفطوں میں ڈھالنے سے عاری ہے ۔اور صبح جب ہماری کلاسیں شروع ہوتی تھی تو ایک کوئل کی کوک سے گونجتے سارے سکول کو میں آج بھی اپنے کانوں میں محسوس کرتا ہوں ۔ کوئل کی کوک میں جو جذ بات کی شدت ہوتی ہے اسے محسوس کرنے کیلئے کوئی صاحب ذوق ہونا ضروری نہیں ہے ۔جب ہم پانچویں جماعت میں پہنچے تو وظیفہ کے امتحان کی اہمیت کو اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ مجھے وہم کی حد تک یقین ہو گیا تھا کہ بس اس امتحان سے گزر گئے تو باقی زندگی میں بس آرام ہی آرام ہے۔ماسٹر عطا محمد صاحب نے ناصرف سال کے شروع میں اس امتحان میں بیٹھنے والے بچوں کا سیکشن الگ بنا کر ان پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی تھی بلکہ ان بچوں کو سکول ٹائم ختم ہونے کے بعد بھی پڑھاتے تھے۔ اور ریاضی اور املا جیسے مضمون اتنی بار دھراتے تھے کہ ہمیں ہر حرف اور ہر سوال کا صفحہ تک زبانی یاد ہو گیا تھا۔ وظیفہ کا یہ امتحان جہاں تعلیمی استعداد اور قابلیت جانچنے کا ایک پیمانہ تھا۔ وہاں طلبا میں اردو کی بہتری کا بھی ایک ذریعہ تھا کیونکہ اس امتحان میں املاء پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کے لئے، پہلے اپنے زون اور اس کے بعد تحصیل کے سکولوں کے طلبا کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ تا تھا۔ اور ان میں سے کامیاب امیدوار وں کو وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع ملتا تھا۔ اس امتحان کی تیاری کیلئے سکولوں کے درمیان زبردست مقابلہ ہوتا تھا اور اس میں سبقت لے جانے والے سکولوں کے اساتذہ کی قدر وقیمت پورے شہر میں کی جاتی تھی۔ یہ اس دن کی بات ہے جس دن عطا محمد صاحب نے وظیفے کے امتحان سے ایک دن پہلے تحصیل لیول پر کامیاب ہونے والے طلبا کو جمعہ والے دن بھی سکول بلا رکھا تھا۔ ہم کوئی بیس کے قریب طلبا ایک گراؤنڈ میں جمع تھے ۔ ماسٹر صاحب نے ایک ٹسٹ حل کرنے کو دیا ، جو میں نے چند منٹ میں حل کر ڈالا اور حل کرنے کے بعدبہار کی آمد پر کھلنے والے پھولوں اور فضا میں بسی ان کی خوشبو کو محسوس کرنے لگا۔ کچھ دور میناؤں کا ایک گروہ کسی کھانے والی چیز پر لڑ رہا تھا ۔ مینا کو ہماری عام زبان میں شارق کہا جاتا ہے۔پندرہ بیس شارقیں کبھی زمین پر جھپٹتیں اور کبھی ایک دوسرے پر اور ان کی آپس میں لڑائی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور چیختی چلاتی ایک دوسرے کو اپنی چونچوں سے  ماربھگانے کا منظر دیکھنے کے لائق تھا۔۔ ایک زمانے میں ہمارے گھروں میں بکثرت دکھائی دینے والا یہ پرندہ فصلوں پر  جراثیم کش ادویات کے بے تحاشہ  استعمال سے اب ناپید ہوچکا ہے بلکہ اس کو دیکھے مدتیں بیت جاتی ہیں۔ شارقوں کی دو قسمیں ہوتی تھیں ایک جس کی چونچ کے اختتام پر چھوٹی سی سفید کلغی ہوتی ہے اور دوسری قسم میں اس کی کلغی کی رنگت پیلی ہوتی ہے۔ پیلی والی کے بارے میں لوگوں میں مشہورہے کہ یہ حرام ہے۔ شائد اس کوکو حرام قرار دینے کی وجہ وہ ہمدردی ہے جو اس کی چھوٹی جسامت اور اس کی کی شکل میں معصومیت کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ لیکن سفید والی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا شکار کیاجاسکتاہے اور کھایا بھی جا سکتا ہے۔حقیقت کیا ہے ؟ اس بارے میں کبھی نہیں جان سکا۔ ایک بار ایک دوست نے ایک گوند لا کر دی کہ اگر کسی گتے پر لگا کر اس کے اوپر روٹی کے ٹکڑے ڈال دئے جائیں ۔ تو جب پرندہ کھانے کیلئے اس پر بیٹھتا ہے تو اس کے پاؤں اس میں چپک جائیں گے۔ لیکن میں نے جس گتے پر وہ گوندرکھی اس پر شارق آکربیٹھی بھی اور اس کے پاؤں بھی چپک گئے تھے لیکن اس نے زور لگایا اور میری حد سے نکل گئی۔بعد میں اس کے ساتھ کیا بیتی، مجھے نہیں معلوم لیکن شارق پکڑنے کی میری حسرت کبھی دوبارہ پوری نہیں ہو سکی۔میں دیر تک ان شارقوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھتا رہا۔یکایک شاقوں کے اس گروہ کی حدود میں ایک کوا گھس آیا ۔ شارقوں نے آپس میں لڑنا ختم کر دیا اور مل کر اس کوے پر حملہ کر دیا اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔کچھ دیر بعد شائد وہی کوا اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ آگیا اور مال غنیمت میں حصہ کا دعوی کرنے لگا۔ لیکن شارقوں نے اس شدت سے ان پر حملہ کیا کہ سارے کے سارے کوے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔ اور میں آج بھی ان شارقوں سے حاصل کئے گئے اس سبق کو بھول نہیں پایا کہ آپس میں لاکھ رنجشیں سہی مگر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا ہے۔ کیا ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ان پرندوں سے بھی کمتر ہیں کہ ہمارا دشمن بھی ہمیں متحد نہیں کر پاتا۔
میم۔ سین

4 comments:

  1. I also spend my child hood in Govt, Normal school. Usmani sb what a great personallity? Safaid kurty pajamy main malboos kitni ujli shakseyat ky malik thy woh? Aor unky munh main paan bhe mojoud hota tha jo unky lehjy ko aor ziada dil awaiz bana daita tha. Woh injeer ka buland darakht jiss per kuch shararti bachy aik bandar ki tarah say seedhy charh jaty thy. Aor woh peelo ky choty choty dany aor kathy meethy patty khana yeh sab naimtain sirf waheen per he muyyasar then.

    ReplyDelete
  2. Rana Abdul Rauf, Kamalia یادوں میں اضافہ اور کچھ بھولی بسری باتوں کی یاد دہانی کا شکریہ۔ نارمل سکول کے ماحول میں جو رومانیت تھی وہ مجھے کسی اور ادارے میں کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ اور جو محبت اور الفت طلبا کے ساتھ اس سکول کے اساتذہ کو تھی وہ بھی مجھے کسی ادارے میں نظر نہیں آئی۔۔۔اس سکول سے تعلق کا خمار ہمیشہ میری ذات کا حصہ رہی ہے۔آج بھی پرئمری کے بعد ہائی سکول شفٹ ہوجانے کا قلق میرے دل میں ہے
    ۔ کاش میں چند سال مزید اس سکول میں گزارتا۔۔۔

    ReplyDelete
  3. آپ نے تو بچپن کو سامنے ایک احساس کے ساتھ لا کر سامنے کھڑا کر دیا ہے !!!!!!!

    ReplyDelete
  4. آپ نے تو بچپن کو سامنے ایک احساس کے ساتھ لا کر سامنے کھڑا کر دیا ہے !!!!!!!

    ReplyDelete