Sunday, February 10, 2013

میٹرو بس سروس لاہور

اور بالآخر ستائیس کلومیٹر فاصلہ طے کرنے والی میٹرو بس سروس نے آغاز کر دیا۔شاہدرہ سے لیکر گجومتہ تک ہر کلومیٹر کے بعد ایک سٹاپ پر رکتی ڈیڑھ سو میٹر لمبی ڈیڑھ ارب مالیت کی بسیں یہ فاصلہ پہلے پنتالیس اور اب پچپن منٹ میں مکمل کیا کریں گی اور ایک گھنٹے میں آٹھ ہزار افراد کو اور دن میں صبح چھے بجے سے لیکر رات ساڑھے گیارہ بجے تک ڈیڑھ لاکھ افراد کو سفر کی سہولتیں دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والے پنجاب گورنمنٹ کے اس انقلابی اقدام کو پوری ملک میں سراہا جا رہا ہے۔تعمیرات کی اس شاندا ر اور لازوال مثال کو نہ سراہا جا نا یقیناًز یاد تی ہو گی اور اگر اس کی افادیت اور مستقبل کی ضرورتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کردار کو دیکھنے کے بعد اس کو حدف تنقید بنا یا جائے تو یہ بھی انصا ف پر مبنی نہیں ہوگا۔ تاج محل کی عظمت ، روح پرور مناظر ، اس کی وجاہت اور خواب ناک حسن سے شائد ہی کوئی انکار کرسکتا ہو لیکن اگر تاج محل پر آنے والے خرچے اور اس سے حاصل ہونے فائدے کو زیر بحث لایا جائے تو اس میں بہت سی قابل اعتراض باتیں اور بحث طلب معاملے نظر آئیں گے او رہندستان کی مفلوک اور غریب عوام کو سامنے رکھتے ہوئے بجا طور پر مغلیہ بادشاہ کی عیاشی اور فضول خرچی گردانی جائے گی۔اگر ایک شخص کی تنخواہ بیس ہزار ہے تو اس سے مہران گاڑی تو وہ رکھ بھی سکتا ہے اور اس کا خرچہ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن اگر وہ کرولا خریدے تو تنقید اس گاڑی پر نہیں بلکہ اس کی مالی حیثیت سے تجاوز کرنے پر ہو گی۔اگر میں کسی دفتر میں سرکاری ملازم ہوں لیکن کھانا کھانے کیلئے کسی فائیو سٹار ہوٹل کا رخ کروں گا تو لوگ یقیناً اعتراض اس ہوٹل پر نہیں بلکہ میری عقل اورفیصلے پر انگلیاں اٹھائیں گے۔اسلم موچی اگر اپنی بارات مرسیڈیز پر لے جانے کی ضد کرے تو اعتراض گاڑی کی کو ا لٹی یا اس کی قیمت پر نہیں بلکہ اسلم موچی کی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے پر ہوگا۔اسلئے اعتراض منصوبے کی افادیت پر نہیں بلکہ اس کی لاگت اور اور اس کی افا دیت کے توازن پر ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کے اس دعوی پر کہ یہ منصوبہ تیس ارب روپے سے مکمل ہوا ہے، ذہن بے اختیار ڈرامہ بلبلے کے جملوں اور لفظوں کے ہیر پھیڑکی طرف اٹھ جاتا ہے ۔ پنجاب حکومت کے اعداد و شمار سوائے گمراہی ، غلط بیانی اور لفظوں کے ہیر پھیڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا گھر مکمل ہونے کے بعد اس کی مجموئی مالیت کا تعین صرف کھڑے ڈھانچے سے کیا جاتا ہے ؟اصل قیمت جاننے کیلئے اس میں زمین کی قیمت شامل نہیں کریں گے؟ یا دروازوں اور کھڑکیوں کی قیمت کو یہ کہ کر ، یہ بھائی بشیر کی دکان سے آئے تھے شامل نہیں کریں گے؟ یا المونیم کے کام کو ،ٹائلوں اور فرش کے خرچ کو مجموئی لاگت سے الگ رکھیں گے ؟ کیا برقی آلات اور اس کی آرائیش پر اٹھنے والے اخراجات اس کی مجموئی قیمت کی مد سے باہر رکھیں گے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبے پر مجموعی خرچ ہونے وا لی رقم ایک سو ارب کے لگ بھگ ہے جو مجموعی پنجاب بجٹ کا نصف ہے۔ گیارہ  ماہ کی قلیل مدت میں مکمل ہونے کی حقیقت تو چند ماہ پہلے ایک سڑک بنانے والا ٹھیکیدار ، ایک نیوز چینل پر دے چکا ہے جس سے جب سڑک پر سست روی سے ہونے والے کام کے بارے میں پوچھا گیا تو اس جواب دیا تھا کہ اگر ہمارے بھی واجبات لاہور میں انڈر پاس کے منصوبوں کی طرح بروقت ادا کر دئے جائیں تو ہم بھی یہ سڑک ریکارڈ مدت میں بنا دیتے ہیں۔ اپنے پاس سے رقم خرچ کر کے ہم کتنے دن کام جاری رکھ سکتے ہیں؟ پنجاب میں چھتیس اضلاع ہیں اور اگر ان کے ترقیاتی بجٹ بھی ایک ہی ضلع پر لگا دیے جائیں تو کیا اس احساس محرومی کو دوسرے اضلاع محسوس کئے بغیر رہ سکیں گے؟ ایک بادشاہ شاہی حجام سے ناراض ہو گیا تو اس نے تحفے میں اسے ہاتھی دے دیا تھا ۔ اب مرتا کیا نہ کرتا ، قبول کرنا پڑا اور گھر کی روٹی جو پہلے ہی مشکل سے پوری ہوتی تھی اب اور بھی کٹھن ہوگئی۔ اس ہاتھی کا پیٹ کہاں سے پالتا؟ ابھی سستی روٹی اور سستا بازار جیسے ناکام منصوبوں سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی کہ یہ میٹرو کا ہاتھی خرید لیا گیا ہے۔ روزانہ تیس ہزار لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے بعد اربوں روپے لاگت کا یہ منصوبہ کیسے ایک کروڑ سے زائد آبادی والے لاہور کے ٹریفک کے مسائل حل کر پائے گا؟کیا لاہور صرف فیروز پور روڈ اور لوئر مال کے ارد گرد آباد ہے کہ میٹروو بس سروس شروع کر کے پورے لاہور کی ٹریفک کے مسائل کے حل کی نوید سنائی جا رہی ہے؟ کیا گو رنمنٹ سیکٹر ۵۴ جنریٹروں کو قابل عمل حالت میں رکھنے کی اہل ہے ا ور ان کے ڈیزل کی چوری کے خدشوں کا بھی کوئی سدباب ہے؟ لاہور کے بڑے بڑے تجارتی مرا کز میں نصب کئے گئے برقی زینے اب صرف سیڑھیوں کا کام دیتے ہیں۔ کیا حکومت پنجاب ان قیمتی زینوں کی فعال حالت کو یقینی بنا پائے گی؟ ۔ لاہور میں ڈیزل ویگنوں کا جوکرایہ متعین کیا گیا تھا وہ ایک روپیہ فی کلومیٹر تھا۔اور اس لحاظ ستائیس کلومیٹر کا ویگن کا کریہ بھی ستائیس روپے بنتا ہے اور میٹرو بس جیسی لگزری سروس پر دس روپے مسافروں سے لینے کے بعد باقی رقم کتنے عرصے تک گورنمنٹ اپنی جیب سے ادا کرتی رہی گی؟ کیا پنجاب بجٹ ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی کا متحمل ہو سکے گا؟ْ ۔کیا پنجاب کے ترقیاتی بجٹ پر ضلع بہاولنگر، ضلع بھکر، ضلع راجن پور، ضلع خوشاب، ضلع مظفر گڑھ، ضلع رحیم یار خان جیسے بیسیوں دوسرے اضلاع کا کوئی حق نہیں ہے؟ کیا ان پسیماندہ ضلعوں کو خصوصی توجہ دے کر لوگوں کے بڑے شہروں کو نقل مقانی کے رجحان کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟ کیا جتنی توجہ لاہور کی ترقی اور اس کے مسائل کے حل پر دی گئی ہے اتنی توجہ ضلع ڈیرہ غازی خان، لودھراں یا خوشاب کو بھی دی گئی۔؟ اگر حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں لو کل گورمنٹ سسٹم پر سنجیدگی سے کام کیا ہوتا تو آج لاکھوں افراد کی لاھور نقل مقانی اور سفر کو یقیناً روکا جا سکتا تھا ،جو لاھور کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے بے ہنگم مسائل کے ذمہ دار ہیں۔پنجاب میں صنعتی زون قائم کر کے ان پر بھی میٹرو بس جیسی توجہ دی جاتی تو لاہور سے لوگ نکل کر جنوبی پنجاب اور دوسرت اضلاع کا رخ کرتے تو لاہور کے ٹریفک کے مسائل خودبخود کم ہوجاتے۔اور میں ان افراد سے بھی عرض کروں گا جو اس منصوبے کو شک کی نظر سے دیکھنے کے باوجود اس بات پر راضی ہیں کہ چلو دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں ترقیاتی کام تو ہو رہا ہے۔ صرف اتنا عرض کرو نگا   کہ اپنا تقابل کرنا ہے تو بھارت کے صوبہ پنجاب، ہریانہ، چندی گڑہ ، گجرات اور مہارشٹرا جیسے صوبوں کے وزرائے اعلی سے کیجئے جنہوں نے نا مسائد حالات کے باوجود وہاں اداروں کو استحکام دیتے ہوئے اتنے ہی عرصے میں وہ منصوبے شروع کئے ہیں جن سے ناصرف عام آدمی مستفید ہو رہا ہے بلکہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود وہ ختم نہیں ہو سکتے۔ اور پنجاب میں شروع ہونے والے ہر منصوبے کا آغاز شہباز شر یف سے ہوتا ہے اور ان کی مدتِ عمر بھی ان کے ہی دور حکومت تک ہے۔آج اگر وہ وزیر اعلی نہیں رہتے تو ان کا مستقبل بھی وہی ہے جو ییلو کیپ سکیم کا بنا تھا

No comments:

Post a Comment