Tuesday, February 26, 2013

ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر ہے؟؟؟

جمعہ کے بعد امام صاحب نے کچھ بیماروں کا حوالہ دیکر جب ان کی صحت یابی کیلئے دعا شروع کی تو وہ لمبی ہوتی چلی گئی ۔ بات بیماروں سے نکل کر مسلمانوں کی ضروریات، ان کی پریشانیوں ، اور انکی ہدائت کی طرف نکل گئی۔میرے ساتھ سعد بیٹھا تھا جو قائد اعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ڈاکٹرپرویز ہود بھائی کا ’مرید‘ بھی ہے۔ جب دعا کچھ لمبی ہوگئی تو اس سے نہ رہا گیا اور بولا ایک تو ان مولویوں نے اللہ کو بھی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جیسے وہ ان کیلئے فارغ بیٹھا ہے۔ اب بتاؤ، بھلا جو دعائیں نہیں کرتے ان کو شفا نہیں ملتی ۔ کیا وہ بھوکے ننگے ہیں۔یہ اللہ بھی مولویوں کا بنا یا ہوا ایک کردار ہے۔اگر یہ اتنے سچے ہوتے تو پھر وہ ان کی سنتا کیوں نہیں ہے؟۔نماز سے فارغ ہوکر جب میں نے اس سے پوچھا کہ جب تمہارا اللہ پر یقین اتنا متزلزل ہے تو پھر نماز پڑھنے کیوں آتے ہو تو ؟ اس کے جواب سے میں دیر تک محظوظ ہوتا رہا۔’’اگر مرنے کے بعد سچ میں اللہ نکل آیا توکیا کروں گا ؟۔ ہاتھ میں کچھ تو ہونا چاہئے‘‘ بات مزاح کی نظر ہو گئی ۔لیکن دیر تک اس کے الفاظ میرے  ذہن میں گونجتے رہے کہ اگر یہ اتنے سچے ہوتے تو پھر وہ ان کی سنتا کیوں نہیں ہے؟۔کیا اسلام اللہ کا پسندیدہ دین نہیں ہے۔؟ کیا اسلام دنیا کا کا بہترین دین نہیں ہے؟ اگر یہ باتیں جھوٹ نہیں ہیں تو پھر ہم پوری دنیا کے سامنے وضاحتیں کیوں کرتے پھر رہے ہیں؟، ملامت اور ذلت ہمارا مقدر کیوں بنا ہوا ہے؟ ہمارا رب ابابیلیں بھیج کر ہمارے دشمنوں کو نیست ونابود کیوں نہیں کرتا؟ آندھیاں اور تیز ہوائیں بھیج کر ان کے پیر وں کو اکھیڑتا کیوں نہیں ہے؟۔ جب اسلام سلامتی کا دین ہے اور پوری نسل انسانی کی رہنمائی کیلئے آیا ہے  تو ہم کیوں دنیا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں؟ یا تو ہم غلط ہیں یا پھر ہمارے سمجھنے میں کہیں غلطی ہے۔ لیکن شائد مسئلہ ہمارے رویوں میں ہے ، مسئلہ اس چشم پوشی میں ہے جو ہم نے ہمیشہ سے روا رکھا ہے، مسئلہ اس غیر ذمہ داری میں ہے جو ہماری گھٹی میں بیٹھ چکی ہے، مسئلہ لاتعلقی کا وہ رویہ ہے جو ہمیشہ سے ہم نے اس دین کے ساتھ رکھا ہے۔ کبھی سوچاہے؟ الیوم اکملت لکم دینکم کی آیات جب اتری تھیں تو صحابہ کرام کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے تھے؟ دلوں پر غم و الم کے بادل کیوں چھا گئے تھے؟   کیونکہ رب نے اس بات کا اعلا ن کرکے اس دنیا سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی کہ اب تمہارا دین مکمل کر دیا گیا ہے اور اس میں زندگی گزارنے اور رہن سہن کے اصول وضع کر دیے گئے ہیں ۔ اب کامیابی کا دارومدار معجزوں پر نہیں ہوگا۔دعاؤں پر نہیں ہوگا۔اللہ سے قربت کے د عوؤں پر نہیں ہوگا۔اب فیصلے اللہ کی رسی یعنی قرآن کرے گا اور قرآن کی سمجھ نبی اکرم ﷺ کی زندگی سے ملے گی۔ اب نہ تو کوئی عذاب اتریں گے، نہ کوئی ابابیلیں آئیں گی ۔جہاں ر ہنے سہنے کیلئے قوانین متعین کر دیے گئے و ہاں دعاؤں کی قبولیت اور معجزوں کے حصول کیلئے بھی اصول بنا دیے گئے ہیں۔ قرآن اگر منشور ہے تو نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ، اس کی عملی صورت۔ جس میں اگرزندگی گزارنے اور عبادت کے طریقوں کے بارے میں ہدائتیں دی گئیں ہیں تو وہاں ماں کی ممتا بھری نصیحتیں بھی۔ سونے سے پہلے بستر جھاڑ لو، جوتے دونوں پاؤں پہن کر پھرو، پردے کے بغیر والی چھت پر مت سویا کرو، سونے لگو تو آگ بجھا لو، راستوں پر خیمہ مت لگاؤ۔ وہ نبی جوبچہ رو رہا ہو تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہو، رستہ بتانے والے کو صدقہ کا ثواب بتاتا ہو ۔اس نبی سے ہماری محبت کے دعوے محض دعوے ہیں اگر ان میں حقیقت ہوتی تو ہم اپنی شادیوں اور مرگ کے موقع پر راستے بند کر کے لوگوں کا چلنا پھرنا دشوار نہ کرتے ۔ شادیوں کا جشن منا تے وقت یہ بات نہ بھولتے کہ محلے میں کوئی اور بھی رہتا ہے۔ گھر کے سامنے کھڑے ہو گھر والوں کو مطلع کرنے کیلئے کار کا ہارن دے کر سارے محلے کو نہ جگا تے۔دعوی نبی ﷺ سے محبت کا  ہے جو رشوت کو جہنم میں لے جانے والا رستہ بتاتا ہو، جو سفارش کی حوصلہ شکنی کرتا ہو، جو حرام کا لقمہ پیٹ میں جانے پر چالیس دن دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وعیدسناتا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں کھاد کی بلیک سے ہونے والی آمدن کو پاک کرنے کیلئے یا تو دیگیں پکائی جاتی ہیں یا عمرہ کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔سرکاری ملازم کے نزدیک پانچ وقت کی نماز تو فرض ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی اور وقت کا ضیاع ، اس کی کمائی کو حرا م نہیں کر سکتا ہے۔ مزدور جب مالک سے کئے گئے معاہدے میں قدغن لگاتا ہے تو اس کے نزد یک آمدن حلال ہی ہے۔ جب فصل کا ریٹ توقعات کے مطابق نہ ملے تو اسے کولڈ سٹوریج یا گھروں میں سنبھال کر رکھا جائے تو اسے ذخیر ہ اندوزی میں شامل نہیں کیا جاتا۔اور شائد بجٹ سے پہلے گوداموں کو بھر لینا بھی ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں نہیں آتا۔ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صرف خبر سن کر ان کی قیمتوں کے ٹیگ بدلے جائیں تو یہ بات بھی جائز سمجھی جاتی ہے۔ ہم اپنی دکانوں کے آگے سامان بڑھا کر پیدل چلنے والوں کا رستہ روکیں اور خود کو پھر بھی عاشقِ رسول کا نام دیں، راستوں میں گاڑی کھڑی کر کے اپنے کام نبٹانے لگ جائیں تو کسی کی مجال جو اخلاقیات کا درس دے سکے ، دودھ پیک کرنے والی کمپنیوں کو، غیر معیاری اشیاء ڈال کر گاڑھا کیا ہوا د ودھ بیچ کر اس بات پر خوشیا ں مناتے پھریں کہ غیر ملکی کمپنی بھی ان کی دھوکہ دہینہیں پکڑ سکتی، جب ہم گاہک کی مجبوری یا لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر مہنگی چیزیں بیچیں اور پھر شکوہ بھی کریں کاروبار میں پہلے جیسی برکت نہیں ہے۔ کیا جعلی ادویات، جعلی مصنوعات ، ملاوٹ ، ذخیرہ خوری کے غلط ہونے میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔لیکن کس کو فکر ہے؟۔ کون پرواکرتا ہے؟ ۔جب رستے بتانے والے غلط راستوں پر ڈالنے لگیں۔ جب ہر شخص شیطان کو گالیاں دے اور خود اس کے قدموں پر چلے، تو بھلا رحمتیں کہاں سے آئیں ، دعاؤں کی قبولیت کہاں سے ہو ؟ کہاں گئیں وہ محمد عربی ﷺ کی باتیں ۔؟ کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام کر دئے گئے ہیں۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے، بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے، اپنے غلاموں کا خیال رکھو ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو ، مردے کا بھی استحقاق ہے اسے گالی مت دو، کسی کی آبرو کو زبان کی قینچی سے مت کاٹو، مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو، مظلوم کی بد دعا سے بچو، لیکن جہاں منافقت ہمارا دستور بنے وہاں انسانیت پرسوز ہی ہوگی۔ جب آدمیت کا آدمیت سے اعتماد کا رشتہ ختم ہو جائے تو پھر رب کا بھرم کیسا؟ ، جب سڑک پر کسی غریب کا سائیکل گاڑی سے ٹکرا جائے تو ہمیں ہوش کھو جاتا ہے، جب ہمارا ملازم کوئی نقصان کر ڈالے تو ہماری زبان اور ہاتھ ہمارے اختیار میں نہیں رہتی۔ ، جب رشوت والے محکموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جب انسانی عزت اور وقار کا معیار اس کا پیسہ اور اس کا عہدہ بن جائے، جب منافقت اور جھوٹ ترقی کے اصول بن جائیں۔جب زندگی میں کامیابی کیلئے سفارش کا اکلوتا زینہ ہو۔ تو پھر اپنے رب سے کیا شکوہ ؟، اپنی بے بسی کا رونا کیوں؟۔کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ؟کہ آج بھی لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی بجائے ان کو جہیز کی صورت میں فارغ کر دیا جاتا ہے اور آج بھی بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ ، انصاف کا ترازو آج بھی پیسے اور عہدے کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟کہ آج بھی سڑک پر محنت مزدوری کرنے والا اور دفتر میں بیٹھ کر حکم چلانے والا برابری کا دعوی نہیں کر سکتے۔کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے ؟کہ قانون معاشرے میں ہر شخص کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے ؟کہ ہم آج بھی برادری، صوبائیت اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ جب انصاف کا قتل گھر سے لیکر ریاست کی سطح تک ہورہا ہو۔ جب مساوات کا درس صرف تقریروں اور کتابوں میں ہو۔ تو پھر کہاں کی دعائیں؟ اور کہاں کا معاشرہ ؟۔ذلت اور رسوائی نہ ملے تو ہماے مقدر میں کیا لکھا جا ئے؟ دین مکمل ہوچکا ہے اب نہ کوئی نبی سمجھانے آئے گا نہ ہی کوئی فرشتے رستہ دکھانے اتریں گے۔ اب صرف حساب ہوگا قیامت کے دن اِس قرآن کی باتوں کی بنیاد پر ، سرور کائنات سے محبت کے دعووں کی بنیاد پر

1 comment:

  1. خوب لکھا ہے۔ اللہ ہمیں باعمل مسلمان بنائے۔ امین

    ReplyDelete