Saturday, February 2, 2013

یا جوج ماجوج

سائیں کو سب لوگ پاگل کہتے ہیں ۔ کوئی تیس پینتیس سال عمر ہو گی، نشہ کرتا ہے، سارا دن شہر میں آوارہ گردی اور شام کو کبھی قبرستان میں،اور کبھی اپنے گھر کے باہر سو جاتا ہے۔ اس کہ ماں اسے جھلا اور کبھی سودائی کہ کر پکارتی ہے۔ میرے خیال میں نہ تو وہ پاگل ہے نہ ہی دیوانہ بلکہ نشہ کی لعنت میں خود کو گرفتار رکھ کر وہ حقیقتوں سے فرار چاہتا ہے۔۔ سائیں کے بارے میں مشہور ہے جب اس کی منگیتر مر گئی تھی تو جب لوگ اسے قبرستان میں دفنا کر آئے تو وہ رات کو اس کی لاش کو قبر سے نکال لایا تھا۔ ایک بار جب میں نے اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگا، وہ مری نہیں تھی، گاؤں والوں نے اسے زندہ دفنا دیا تھا۔ میں نے ہنس کر پوچھا، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ زندہ تھی؟۔ میرے سوال پر ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔ وہ دفن ہونے کے بعد مری تھی۔ پہلے اس کے سانس چل رہے تھے۔ ڈاکٹر کبھی عشق کیا ہے؟ تو نے کبھی عشق کیا ہوتا تو تجھے علم ہوتا ،کیسے سانسوں کا دور سے پتا چل جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کے نزدیک سائیں کے پاگل پن کی وجہ کوئی عشق وشق نہیں بلکہ گھر میں آنے والے صدمے تھے۔ پہلے بھائی کو کینسر ہو گیا ۔ ابھی جمع پونجی لٹاکر اسے دفنایا تھا کہ باپ بھی قبر میں اتر گیا۔اور پھر مسائل کا مقابلہ کرنے کی بجائے نشہ کی لعنت کا شکار ہو گیا۔وہ بیس روپے لینے کیلئے دوسرے تیسرے دن شام کو کلینک کے باہر انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جس دن زیادہ پیسوں کی ضرورت ہو اس دن کوئی خبر یا انکشاف سنبھال رکھا ہوتا ہے جو کبھی سچ ثابت ہوتاہے اور کبھی ایسی افواہ جس کی کبھی تصدیق نہ ہوسکی ہو ۔ لیکن سائیں کے انکشافات کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ جب میں کلینک سے نکلتا ہوں تو سائیں میرے ساتھ ساتھ چلناشروع کر دیتا ہے۔ آپ کو پتا ہے انورپٹواری کی بیٹی ٹائیفائیڈ سے نہیں مری تھی بلکہ اسے قتل کیا گیاتھا۔، قتل اس کے باپ نے کیا تھا کیونکہ اس نے قصائیوں کے لڑکے سے چھپ کر شادی کر لی تھی۔ اور جو علی پنساری والوں کا لڑکا اغوا ہوا تھا ۔ وہ سب ڈرامہ تھا۔پاکستان کے کرکٹ میچ پر جوا ہار گیا تھا۔ جب پیسے اکھٹے نہ ہوسکے تو یہ اغوا کا کھیل کھیلا تھا۔ اور سکینہ کی دھی چھت سے گر کر نئی مری تھی ۔ بچہ ضائع کرانے گئی تو دائی سے خون زیادہ ضائع ہوگیا تھا۔محمد حسین کی کھڑی فصل کو آگ ،اس کے بھتیجے نے رشتے سے انکار کی وجہ سے لگائی تھی۔ اگر میں ان واقعات کی تصدیق مانگوں تو سائیں کا ہمیشہ جواب ہوتا ہے، آ پ بھی بھولے انسان ہیں سارے شہر کو پتا ہے ۔ بس کوئی بولتا نہیں ہے۔سائیں کی اکثر باتیں صحیح ثابت ہوتی ہیں جیسے برکت مسیح کے گھر کے باہر سے بالن عیسائیوں کے لڑکے نے چرایا تھا، کلثوم بی بی کی بہو کو کھیت کے بنے پر نمبردار کے بیٹے نے چھیڑا تھا۔ منظور کی بھینس کو زہر کس نے ڈالا تھا۔ زبیدہ کی بیٹی کے گھر سے بھاگنے میں اس کی مدد کس سہیلی نے کی تھی۔ اسلم سائیکل ورکس والے کی دکان کے تالے کس نے توڑے تھے۔ ایسے ہی بیشمار واقعات جن کو لے کر جب بیٹھتا تو ان سے جان تبھی چھوٹتی تھی ، جب اسے سو کا نوٹ دیا جاتا ۔ لیکن کل جب میں کلینک سے باہر نکلا ہوں تو ایک دم سے میرے سامنے آگیا۔ اور بولا ڈاکٹر صاحب جو بات میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ اتنا بڑا انکشاف ہے کہ آپ مجھے دو سو سے سے کم نہیں دیں گے ۔ میں کچھ جلدی میں تھا ۔ یہ سوچ کر ابھی تازہ تازہ سوٹا لگا کر آیا ہو گا اس لئے ابھی ترنگ میں ہے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔۔ لیکن اس نے یہ کہ کر میرے قدم روک لئے میں نے یا جوج ماجوج قوم کو ڈھونڈ نکالا ہے۔’’ کہاں دیکھ لیا تم نے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا تو بولا ڈاکٹر صاحب وہ مخلوق ہم ہی ہیں ۔ میں نے ایک قہقہ لگایا یہ آج تمہیں کہاں سے وہم ہوگیا ہے کہ ہم ہی یاجوج ماجوج ہیں ۔ کہنے لگا ۔ آپ کو یا د ہے رمضان میں پیرزادہ صاحب نے تحریک انصاف میں شمولیت کی خوشی میں سارے شہر کو افطاری کی دعوت دی تھی اور لوگوں نے افطاری سے آدھا گھنٹہ پہلے ساری دیگیں ختم کر ڈالی تھیں۔ لیکن یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی، میں نے کہا عوامی جگہوں پر ایسا ہو ہی جاتا ہے۔’’اور جو سستا آتا سکیم کی بوریاں چھین کر لے گئے تھے‘‘ ۔ سائیں جھنجلاکر بولا۔ میں نے کہا یہ بھی کوئی انہونی نہیں ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ہر ملک میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں ۔ سائیں کو میری بات پر غصہ آگیا اور بولا یہ بھی معمول کی بات ہے کہ ملک پیک والے جان بوجھ کر سرف، گھی، سنگ مر مر کا پاؤڈر ملا دودھ خرید رہے ہیں ، ۔ یہ بھی کوئی اہم بات نہیں جو ہم اپنے بچوں کو پانی ملا گوشت کھلا رہے ہیں، کیمیکل والی ٹافیاں دے رہے ہیں۔ گھروں میں گھٹیا کوالٹی پیک کر کے جوس پلا رہے ہیں۔بُھس والی مرچیں ، پانی والے سپرے، اور جعلی کھادیں ، یہ سب کام انسان نہیں کر سکتا،اپنے جسم کو اپنے ہاتھوں سے انسان نہیں کاٹ سکتا۔ ابھی وہ کچھ اور بولنا چاہتا تھا لیکن میں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ یہ سب لالچ میں اندھی قوم کا شاخسانہ ہے۔مہنگائی اور افراط زر نے لوگوں کو شارٹ کٹ مار نے کا عادی بنا دیا ہے۔ جب کوئی بات نہ بنی تو سائیں گویا ہوا۔ آپ کو علم ہے آج صبح منیر دودھ والا اپنے موٹر سائکل پر جا رہا تھا تو ایک ٹریکٹر کے ساتھ ٹکڑا کر مر گیا ہے؟۔ ہاں مجھے معلوم ہوا ہے۔ ٹریکٹر کے ساتھ سہاگہ باندھا ہوا تھاتیز رفتاری کی وجہ سے جھولتا سہاگہ موٹر سائکل سے ٹکرا گیا تھا۔ میں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ’’ پولیس کے جائے وقوع پر دیر سے پہنچنے کی وجہ سے اس کی لاش دو گھنٹے سڑک پڑی رہی تھی‘‘۔ سائیں کو غصہ آنے لگا تھا۔ میں نے کہا محکمانہ مجبوریوں میں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے آخر وہ بھی انسان ہیں۔ اس پر سائیں پھٹ پڑا ۔ اچھا یہ سب انسان ہیں ؟ کیا وہ بھی انسان تھے جنہوں نے منیرے کی ہاتھ سے گھڑی اور اور جیب سے موبائل نکال لیا تھا جب ابھی اس کی سانسیں ختم نہیں ہوئیں تھیں؟ اور اب سائیں کی منطق کے آگے میرے پاس جواب ختم ہو چکے تھ
 میم ۔ سین

1 comment: