Thursday, February 27, 2014

کچھ فون روٹنگ کے بارے میں


کچھ فون rooting کے بارے میں

ایک دوست نے اینڈرائیڈ فون کی روٹنگ کے بارے مین سوال کیا ہے،کہ اس کے بارے میں بتایا جائے۔
ٹیکنیکی دیکھا جائے تو یہ ایک مشکل ٹرم دکھائی دیتی ہے،لیکن اگرسادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب اینڈرائیڈ فون کا کنٹرول اپنے ہاتھ مین لینا ہوتا ہے۔ یعنی اینڈرائیڈ سسٹم میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں لانا ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک سادہ مثال دوں گا کہ جب آپ کوئی بھی اینڈرائیڈ فون خریدتے ہیں تو اس میں انسٹال اپلیکیشن کو آپ ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح فونٹ سائز، فونٹ سٹائل، لاک سٹائل، وغیرہ تبدیل نہیں کرسکتے۔لیکن روٹنگ کے ذریئے اپنے موبائل کا کنٹرول آپ اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔آئی فون کیلئے جیل بریک کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے 
روٹنگ کی اہمیت؟
اس کی اہمیت اس وقت بہت زیادہ تھی جب اینڈرائیڈ فون بہت کم فون میموری کے ساتھ آتے تھے۔ چند دن کے استعمال کے بعد فون میموری ختم ہونے کا الارم بجنے لگتا تھا۔اس کے علاوہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ اینڈرائیڈ فون کے سپیکر کی آواز بہت کم ہوتی تھی اس لئے کسی بھی اینڈرائیڈ فون کو روٹ کرنا ناگزیر ہوتا تھا۔ لیکن اب چونکہ موبائل فون وافر فون میموری کے ساتھ دستیاب ہیں، اسلئے روٹ کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسے اہم ضروری کام ہیں جن کیلئے فون کو روٹ کیا جاسکتا ہے
1۔روٹ کرنے کے بعد آپ فون کی غیر ضروری اپلیکیشن کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں
2۔فون کے استعمال کے دوران بار بار تنگ کرنے والے اشتہارات کی یلغار کو روک سکتے ہیں
4۔فون کی آواز کو بڑھا سکتے ہیں
5۔اپنی مرضی کا سسٹم انسٹال کر سکتے ہیں۔ پاکستانی برینڈز کیلئے بہت آپشن موجود نہیں لیکن انٹرنیشنل برینڈز کیلئے ان گنت سہولتیں موجود ہیں۔
نوٹ۔۔۔ فون سیٹ کو روٹ کرنے کے بعد وارنٹی ختم ہوجاتی ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

کچھ سمارٹ فون کے بارے میں


آج کے دور میں موبائل فون کا استعمال صرف بات چیت کی حد تک ہی نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس نے کمپیوٹر کے متبادل کے طور پر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اور سمارٹ فون کی صورت میں ہمارے روزانہ کے معمولات میں حصہ دار بن گیا ہے۔سمارٹ فون کی اصطلاح اس فون کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے بنیادی کام یعنی فون سننے اور کرنے کے علاوہ دیگر کام بھی سرانجام دے، جیسے کیمرہ، جی پی ایس ،وائی فائی وغیرہ۔سمارٹ فون میں عموماً کوئی اوس چل رہی ہوتی ہے۔جیسے ہم کمپیوٹرز میں ونڈوز کے نام سے واقف ہیں۔۔سمارٹ فون کونسا بہتر ہے۔؟ کتنی پرائس میں لینا چاہیے؟ کس کمپنی کا ہونا چاہیئے؟ کچھ ایسے سوال ہیں جو سمارٹ فون کے بارے میں ہمیشہ اٹھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اس مضمون کی صورت میں ایک کوشش کی گئی ہے کہ بنیادی معلومات ایک عام آدمی تک پہنچائی جائے تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو
سمارٹ فون لینے سے پہلے اپنی ضرورت کو ضرور سامنے رکھیں۔
کیمرہ آپ کیلئے زیادہ اہم ہے؟
سٹائل ضروری ہے؟
براؤزنگ کیلئے استعمال کرنا ہے؟
ویڈیوز یا آڈیو کا استعمال زیادہ کرنا ہے؟
جی پی ایس کتنا اہم ہے؟
وائی فائی رینج کتنی ہونی چاہیئے؟
1:کونسا سمارٹ فون؟
اس وقت دستیاب سمارٹ فون میں استعمال ہونے والے اوس سسٹم میں اینڈرائیڈ، آئی اوس، ونڈوز، بلیک بیری قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ ونڈوز اور بلیک بیری نے کافی نام کمایا ہے لیکن ایسے سیٹ جن پر یہ سسٹم دستیاب ہیں ان کی تعداد محدود ہے اور دستیاب سافٹ ویئرز بھی بہت کم ہیں۔بلیک بیری تو فی الحال صرف بلیک بیری سیٹ کیلئے دستیاب ہے۔لیکن ونڈوز نے بھی زیادہ مقبولیت حاصل نہین کی ہے۔ سیٹ خریدنے سے پہلے چونکہ پرائس رینج کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اور آئی فون سسٹم چونکہ صرف آئی فون کیلئے دستیاب ہے اس لئے آئی فون کو اپنی قیمت کی وجہ سے سمارٹ فون کی اس بحث سے نکال دیتے ہیں۔ اسلئے اینڈرائیڈ ایک آپشن رہ جاتی ہے جس پر معلومات حاصل کر کے اسے اپنی جیب کیلئے قابل قبول بنایا جاسکے۔
اینڈرائیڈ کیوں؟؟
1۔قیمت اور خصوصیات کے لحاظ سے فون سیٹوں کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔۔
ْْ2۔دستیاب سافٹ ویئرز کی تعداد کروڑوں میں ہے
3استعمال میں بہت آسان ہے
4۔سافٹرز کو انسٹال کرنا ڈیلیٹ کرنا، ڈیٹاٹرانسفر کرنا، کمپیوٹر یا کسی دوسرے فو ن کے ساتھ لنک کرنا انتہائی آسان ہے
5۔لیکن میرے لئے اس سسٹم کا استعمال اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ کسی بھی دوسری کمپنی کے پیڈ(پیسوں والے) سافٹرز کے کریک اتنے آسانی سے دستیاب نہیں ہیں جتنے اینڈرائیڈ میں ہیں۔اور ان کا انسٹال کرنا بھی بہت آسان ہے
چائینیز یا برینڈڈ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ برینڈڈ سیٹ کا معیار چائینہ کے سیٹ سے بہت بہتر ہوتا ہے، خاص طور پر سکرین ٹچ، ڈسپلے اور بیٹری لائف میں۔لیکن جب سے کچھ پاکستانی برینڈ مارکیٹ میں آئے ہیں چائینیز سیٹ کا معیار بہت بہتر ہوا ہے۔ان کا مقابلہ انٹرنیشنل برینڈز کے ساتھ تو شائد نہ کیا جاسکے لیکن قیمت کو دیکھتے ہوئے ان کے معیار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
انٹرنیشنل برینڈز کونسا؟؟
اس وقت سیم سنگ کل موبائل کے تیس فیصد شیئر پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ ایچ ٹی سی، سونی، موٹرولا، ایل جی، ہوائی ، الکا ٹیل جیسے برینڈ بھی دستیاب ہیں۔اور اب تو نوکیا نے بھی ضد چھوڑ کر اینڈرائیڈ میں قدم رکھ دیا ہے۔سب کا معیار ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔کوئی کیمرہ شاندار دے رہا ہے، کسی کی کمپنی سپورٹ بہت اچھی ہے۔کسی کا جی پی ایس بہت اچھا کام کرتا ہے تو کسی کے وائی فائی کی رینج بہت زیادہ ہے۔ چونکہ سب کے اندر اینڈرائیڈ سسٹم چل رہا ہیں، اسلئے کوئی بھی ایسابرانڈ لے سکتے ہیں جو آپ کے ذوق کو مطمئین کر سکے۔۔ڈسپلے ، کیمرہ کوالٹی اور استعمال میں میرےنزدیک سام سنگ اورایچ ٹی سی کا معیار بہت بہتر ہے۔اگرچہ ایچ ٹی کے سیٹ وزن میں عموماً کچھ بھاری ہوتے ہیں
سستا میں کونسا؟؟؟
پاکستان میں اس وقت کیو موبائل، وائس موبائل، ہوائی موبائل، جی فائیو،کے سستے اور معیاری سیٹ دستیاب ہیں۔ لیکن جب آپ کوئی بھی خریدنے جائیں تو آپ کو ایک فون سیٹ کے بارے میں چند چیزوں کے بارے میں علم ہونا چاہیئے۔ اس وقت دستیاب زیادہ تر سیٹ میں استعمال ہونے والی اینڈائیڈ سسٹم جیلی بین ہے، جس کو چلانے کیلئے پانچ سو ایم بی کی ریم دستیاب ہوگی۔ اس لئے کوئی بھی سیٹ جس میں جیلی بین انسٹال ہو اس کی ریم ایک جی بی سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔جیلی بین کے بھی دو ورژن دستیاب ہیں دوسرے والا زیادہ بہتر اورسموتھ ہے۔آئس کریم سینڈوچ یا جنجر بریڈپر چلنے والے موبائل کیلئے پانچ سو بارہ کی میموری بھی کافی ہوتی ہے چونکہ ہر روز نیا سافٹ ویئر مارکیٹ میں آرھا ہے تو جس قدر پروسسیسر اچھا ہوگا، اتنا زیادہ فون کا اور آپ کا ساتھ لمبا ہوگا۔اس وقت کواڈ کور پروسسر کے ساتھ لوکل موبائل فون کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔ اس وقت سکرین سائز میں موبائل تین انچ سے پانچ اشاریہ سات انچ تک دستیاب ہیں۔پانچ ایم بی سے تیرہ ایم بی کے کیمرہ کی رینج دستیاب ہے اورمختلف کمپنیوں کے کیمرہ کولٹی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔سکرین میں آٹھ سو سے بارہ سو میگا پکسل کا ڈسپلے دستیاب ہے۔اس وقت سبھی موبائلز میں لیتھیم بیٹریز استعمال ہورہی ہیں۔جن کی عمر اور کوالٹی سب کمپنیوں کی ایک جیسی ہے۔دو ہزار ملی ایمئیر کی بیٹری ایک سیٹ کو مناسب استعمال پر ایک دن سے زائد چلانے کیلئے کافی ہے۔ تقریباً سبھی موبائل چار جی بی کی انٹرنل میموری دے رہی ہیں۔ جو سسٹم کو چلانے والی فائلز کے انسٹال ہونے کے بعد یوزر کو ایک سے ڈیڑھ جی بی ملتی ہے۔اور سب کے ساتھ ایس ڈی کارڈ ڈالنے کی سہولت ہوتی ہے۔جو عام طور پر بتیس جی بی تک کے کارڈ کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ لیکن عام دستیاب چائینہ کے میموری کارڈ کا آٹھ جی بی سے زیادہ کا ساتھ نہیں چلتا۔
نوٹ
موبائل ہمیشہ کسی قابل اعتبار دکاندار سے لیں۔ دوبارہ پیک اور ری فرب سیٹ کو نیا کہہ کر بیچنے کی شکایات عام ہیں
پاکستان میں کوئی بھی کمپنی سیٹ کی وارنٹی کے سلسلے مین سنجیدہ نہیں۔اس لئے دعووں پر نہ جائیں ۔ اگر کبھی ضرورت پیش اآجائے تو اپنے زور بازو پر حاصل کریں
کسی بھی کمپنی کا سیٹ ڈیفیکٹو نکل سکتا ہے۔ اس کیلئے کسی کمپنی کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔ سیم سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کے سیٹ کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پر جاتا ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

Tuesday, February 4, 2014

متضاد رویے


 محبت لا محدود ہوتی ہے ۔ وہ بے کنارہ ہوتی ہے۔وہ کہیں نہیں ڈوبتی ہے۔ وہ کہیں ختم نہیں ہوتی۔محبت محبوب مانگتی ہے محبوب کا قرب اور اطاعت مانگتی ہے۔محبت تو خود غرضی کی موت ہے، محبت تو انمول بناتی ہے۔تڑپ پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے؟ جو ہماری راحت کی تسکین کا سبب نہیں بن رہی؟ یہ کیسی محبت ہے جس میں ہجر کا درد ہے؟ یہ کیسی محبت ہے کہ جس کے ساتھ نفرتیں ٹکرا کر چور چور نہیں ہوتی ہیں ؟ یہ محبت کا جبر ہے یا پھر اس کی معنویت سے بے خبری ؟ کہ ہم محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں اس کا ورد بھی کرتے ہیں ۔ہم نےمحبت کے دعوی سےکبھی دستبرداری بھی اختیار نہیں کی لیکن مرجھائی ہوئیں ، مضمہل صبحیں ہمارا استقبال کیوں کرتی ہیں ؟ ہمارے چاروں طرف محرومیت اور ، بےچارگی اور اداسی کا غبار کیوں ہے؟
 میں دیر تک خود کو عریاں محسوس کرتا رہا۔ ایک شرمندگی اور احساس ندامت تھا جس نے مجھے اپنے حصار میں لئے رکھا ۔ چند دن پہلے ایک فورم پر لگنے والے اس لطیفے کو جس پر بہت سوں کی دینی حمیت بھڑک اٹھی تھی، دین کے بارے میں ہمارے عمومی رویے پر ایک گہرا طنز چھپا تھا۔ وہ طنز جو اس معاشرے کی اصل بیماری پر ہے,جو ایک غیر محسوس طریقے سے ہمارے اندر سرائیت کر گئی ہے۔دلوں کے اس کھوٹ پرہے جس کی جڑیں ہمارے عقیدوں میں بہت گہرائی میں جاچکی ہیں ۔ایک صاحب کو کو ان کی بیوی نے فجر کی نماز کیلئے جگایا تو تو وہ بولے کہ قضا پڑھ لوں گا۔ بیوی نے کہا شریعت میں جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہوتی،جس پر خاوند نے طنزاً کہا شریعت میں تو چار شادیوں کی بھی بات موجود ہے وہ کیوں بھول رہی ہو۔ اس پر بیوی بولی۔کوئی بات نہیں سوئے رہو اللہ بڑا غفور اور رحیم بھی ہے۔بات انتہا پسندی کی نہیں ہے۔زندگی کی اقدار کے مجروح ہونے کی بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوجاتی۔مصنوعی لہجوں میں حقیقت اور تصنع کے بیچ کسی مقام کو موردالزام ٹھہرا کر بری الزمہ نہیں ہوا جاسکتا بلکہ یہ معمولی سا لطیفہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بے شمار پہلوئوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جن کو احساس برتری کے غیر محسوس رویوں سے انسانی خواہشوں کے جال میں الجھا کر یکسر بھلا دیا گیا  ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بے شمار کردار بکھرے ہوئے نظرآئیں گے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اور شائد بہت سے معاملات میں ہم خود بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔یہ حاجی بشیر صاحب کھاد کی ایجنسی کے مالک ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے لیکن کھاد کے پچھلے بحران نے مالی حیثیت اتنی اچھی کر دی ہے کہ اگلا کاروبار شروع کرنے سے پہلے حج کی فرضیت کو نہیں بھولے۔ یہ ہیں اسلم صاحب ، انڈے کے آڑھتی ہیں۔ اس بار سردیوں کا سیزن اتنا شاندار رھا ہےکہ سامنے والی مسجد کا مینار وہی تعمیر کروا رہے ہیں ۔فقیر اللہ صاحب ہمیشہ رمضان کا مہینہ مکہ اور مدینہ میں گزارتے ہیں لیکن اس بار ان کی ہمشیرہ کی طرف سے اپنی خاندانی جائیداد میں سے حصہ کا دعوی کرنے کی وجہ سے، نہیں جا سکے، جس کا انہیں بہت صدمہ ہے۔ مہرذکااللہ صاحب کو اللہ نے گمراہی سے نکال دیا ہے۔اپنے والد کی وفات پر قل کا ختم کروانے سے صاف انکار کردیا اورمقامی مسجد میں اجتماعی دعا کروا دی اور شہر کے ایک مشہور عالم سے گمراہی سے بچانے کیلئے درس کا اہتمام کیا ۔فضل صاحب نے بارہ ربیع الاول کے روز پوری گلی کو سجایا اور سارا دن اس کوعام ٹریفک کیلئے بند رکھا ۔ اکبر صاحب نے بینک کا قرضہ واپس نہ کرنا ہوتا تودرس کی تعمیر میں اپنا خطیر حصہ ڈالتے۔ ایسے ہی بے شمار کردار جو ہماری منافقت اور متضاد رویوں کو عیاںکرتے ہیں ۔اور یہ متضاد رویے ہی اصل میں ہمارے زوال اور پستی کا سبب ہیں ۔ دین نام ہے احکامات کو بلاتامل قبول کرلینے کا ۔اپنی پسنداور ناپسند کو پس پشت ڈال دینے کا۔ اپنی عقل اور رائے کو چھوڑ دینے کا۔ جب حکم سامنے ہو پھر عذر کیسا؟ پھر حیلے بہانے کیسے؟ ایک صحابی کے انگلی میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کیلئے سونا پہننے کو حرام قرار دیا تھا تو اس نے نا صرف اس کو ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا بلکہ ساتھیوں کے یہ کہنے پر کہ اسے اپنی بیوی یا بہن کو دے دو تو بھی اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کہ جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار پھینکا ہو اسے میں اٹھا نہیں سکتا۔ شراب کی حرمت نازل ہوتی ہے تو گھڑوں کے گھڑے انڈیل دیے جاتے ہیں ۔ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کی حرمت نازل ہوتی ہے تو پکا ہوا گوشت بھی پھینک دیا جاتا ہے۔قتال کا وقت آتا ہے تو پکی ہوئی کجھوریں چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں ۔
 پستی اور گمراہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ہمارے رویے اور ہمارے فیصلے ہیں ۔ ہماری پسند ناپسندہے ، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ہم سماج کے قیدی ہیں ۔ہمیں دنیا کے اصول وضوابط اور ذاتی خواہشات عزیز ہیں ۔زندگی کی اقدار، حالات کی مجبوریاں ، معاشرتی تقاضے مقدم ہیں ۔حصول تسکین کی خواہشات اور جذباتی بہائو ہیں ۔۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے، حکم ربی سامنے ہو اور خواہشیں روند دی جائیں ، بات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو رہی ہو تو ذاتی پسند ایک طرف ہوجائے،اعجاز قرآن کی بازگشت ہو ہو توجذبوں کی تسکین کی تلاش نہ ہو۔سیرت کے سنہری موتی ہوں اور ضد میں حقیقتوں کو جھٹلایا نہ جا رھا ہو۔بات محبت کی ناکامی کی نہیں ہے ان رویوں کی واپسی کی ہے۔وہ رویے، جو ہماری تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے گئے تھے
میم سین