محبت لا محدود ہوتی ہے ۔ وہ بے کنارہ ہوتی ہے۔وہ کہیں نہیں ڈوبتی ہے۔ وہ کہیں ختم نہیں ہوتی۔محبت محبوب مانگتی ہے محبوب کا قرب اور اطاعت مانگتی ہے۔محبت تو خود غرضی کی موت ہے، محبت تو انمول بناتی ہے۔تڑپ پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے؟ جو ہماری راحت کی تسکین کا سبب نہیں بن رہی؟ یہ کیسی محبت ہے جس میں ہجر کا درد ہے؟ یہ کیسی محبت ہے کہ جس کے ساتھ نفرتیں ٹکرا کر چور چور نہیں ہوتی ہیں ؟ یہ محبت کا جبر ہے یا پھر اس کی معنویت سے بے خبری ؟ کہ ہم محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں اس کا ورد بھی کرتے ہیں ۔ہم نےمحبت کے دعوی سےکبھی دستبرداری بھی اختیار نہیں کی لیکن مرجھائی ہوئیں ، مضمہل صبحیں ہمارا استقبال کیوں کرتی ہیں ؟ ہمارے چاروں طرف محرومیت اور ، بےچارگی اور اداسی کا غبار کیوں ہے؟
میں دیر تک خود کو عریاں محسوس کرتا رہا۔ ایک شرمندگی اور احساس ندامت تھا جس نے مجھے اپنے حصار میں لئے رکھا ۔ چند دن پہلے ایک فورم پر لگنے والے اس لطیفے کو جس پر بہت سوں کی دینی حمیت بھڑک اٹھی تھی، دین کے بارے میں ہمارے عمومی رویے پر ایک گہرا طنز چھپا تھا۔ وہ طنز جو اس معاشرے کی اصل بیماری پر ہے,جو ایک غیر محسوس طریقے سے ہمارے اندر سرائیت کر گئی ہے۔دلوں کے اس کھوٹ پرہے جس کی جڑیں ہمارے عقیدوں میں بہت گہرائی میں جاچکی ہیں ۔ایک صاحب کو کو ان کی بیوی نے فجر کی نماز کیلئے جگایا تو تو وہ بولے کہ قضا پڑھ لوں گا۔ بیوی نے کہا شریعت میں جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہوتی،جس پر خاوند نے طنزاً کہا شریعت میں تو چار شادیوں کی بھی بات موجود ہے وہ کیوں بھول رہی ہو۔ اس پر بیوی بولی۔کوئی بات نہیں سوئے رہو اللہ بڑا غفور اور رحیم بھی ہے۔بات انتہا پسندی کی نہیں ہے۔زندگی کی اقدار کے مجروح ہونے کی بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوجاتی۔مصنوعی لہجوں میں حقیقت اور تصنع کے بیچ کسی مقام کو موردالزام ٹھہرا کر بری الزمہ نہیں ہوا جاسکتا بلکہ یہ معمولی سا لطیفہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بے شمار پہلوئوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جن کو احساس برتری کے غیر محسوس رویوں سے انسانی خواہشوں کے جال میں الجھا کر یکسر بھلا دیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بے شمار کردار بکھرے ہوئے نظرآئیں گے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اور شائد بہت سے معاملات میں ہم خود بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔یہ حاجی بشیر صاحب کھاد کی ایجنسی کے مالک ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے لیکن کھاد کے پچھلے بحران نے مالی حیثیت اتنی اچھی کر دی ہے کہ اگلا کاروبار شروع کرنے سے پہلے حج کی فرضیت کو نہیں بھولے۔ یہ ہیں اسلم صاحب ، انڈے کے آڑھتی ہیں۔ اس بار سردیوں کا سیزن اتنا شاندار رھا ہےکہ سامنے والی مسجد کا مینار وہی تعمیر کروا رہے ہیں ۔فقیر اللہ صاحب ہمیشہ رمضان کا مہینہ مکہ اور مدینہ میں گزارتے ہیں لیکن اس بار ان کی ہمشیرہ کی طرف سے اپنی خاندانی جائیداد میں سے حصہ کا دعوی کرنے کی وجہ سے، نہیں جا سکے، جس کا انہیں بہت صدمہ ہے۔ مہرذکااللہ صاحب کو اللہ نے گمراہی سے نکال دیا ہے۔اپنے والد کی وفات پر قل کا ختم کروانے سے صاف انکار کردیا اورمقامی مسجد میں اجتماعی دعا کروا دی اور شہر کے ایک مشہور عالم سے گمراہی سے بچانے کیلئے درس کا اہتمام کیا ۔فضل صاحب نے بارہ ربیع الاول کے روز پوری گلی کو سجایا اور سارا دن اس کوعام ٹریفک کیلئے بند رکھا ۔ اکبر صاحب نے بینک کا قرضہ واپس نہ کرنا ہوتا تودرس کی تعمیر میں اپنا خطیر حصہ ڈالتے۔ ایسے ہی بے شمار کردار جو ہماری منافقت اور متضاد رویوں کو عیاںکرتے ہیں ۔اور یہ متضاد رویے ہی اصل میں ہمارے زوال اور پستی کا سبب ہیں ۔ دین نام ہے احکامات کو بلاتامل قبول کرلینے کا ۔اپنی پسنداور ناپسند کو پس پشت ڈال دینے کا۔ اپنی عقل اور رائے کو چھوڑ دینے کا۔ جب حکم سامنے ہو پھر عذر کیسا؟ پھر حیلے بہانے کیسے؟ ایک صحابی کے انگلی میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کیلئے سونا پہننے کو حرام قرار دیا تھا تو اس نے نا صرف اس کو ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا بلکہ ساتھیوں کے یہ کہنے پر کہ اسے اپنی بیوی یا بہن کو دے دو تو بھی اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کہ جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار پھینکا ہو اسے میں اٹھا نہیں سکتا۔ شراب کی حرمت نازل ہوتی ہے تو گھڑوں کے گھڑے انڈیل دیے جاتے ہیں ۔ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کی حرمت نازل ہوتی ہے تو پکا ہوا گوشت بھی پھینک دیا جاتا ہے۔قتال کا وقت آتا ہے تو پکی ہوئی کجھوریں چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں ۔
پستی اور گمراہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ہمارے رویے اور ہمارے فیصلے ہیں ۔ ہماری پسند ناپسندہے ، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ہم سماج کے قیدی ہیں ۔ہمیں دنیا کے اصول وضوابط اور ذاتی خواہشات عزیز ہیں ۔زندگی کی اقدار، حالات کی مجبوریاں ، معاشرتی تقاضے مقدم ہیں ۔حصول تسکین کی خواہشات اور جذباتی بہائو ہیں ۔۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے، حکم ربی سامنے ہو اور خواہشیں روند دی جائیں ، بات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو رہی ہو تو ذاتی پسند ایک طرف ہوجائے،اعجاز قرآن کی بازگشت ہو ہو توجذبوں کی تسکین کی تلاش نہ ہو۔سیرت کے سنہری موتی ہوں اور ضد میں حقیقتوں کو جھٹلایا نہ جا رھا ہو۔بات محبت کی ناکامی کی نہیں ہے ان رویوں کی واپسی کی ہے۔وہ رویے، جو ہماری تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے گئے تھے
میم سین
No comments:
Post a Comment