Tuesday, June 23, 2015

سرگزشت


کل شام بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ہمارے درمیان تعلقات میں کسی بات پر سنجیدگی آگئی۔ آپ اسے کشیدگی بھی کہہ سکتے ہیں۔چونکہ مجھے وہم کی حد تک یقین تھا کہ میرا موقف درست ہے اس لئے میں نے معذرت کرنے سے انکار کردیا لیکن میری بیگم یقین کے اگلے قدم پر تھیں اس لئے وہ اپنی بات منوانے پر تلی ہوئی تھیں ۔ لیکن میرے ایک دوست کا کہنا ہے کبھی کبھی بیوی کے ساتھ سختی سے بھی پیش آنا چاہیئے اور اپنی بات منوا کر رہنا چاہیئے ۔اس سے تعلقات پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ سو ہم  دوست کی بات مانتے ہوئے رات کو بیگم کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی چادر تان کر سو گئے۔ لیکن دوسری طرف بیگم کی سہیلی نے بھی کچھ میرے دوست سے ملتا جلتا مشورہ دیا تھا اس لئے نہ تو انہوں نے میرے چادر تان لینے پر حیرت کا اظہار کیا اور نہ میرے قبل از وقت سونے پر کسی تشویش کا اظہار کیا اور چپ چاپ بستر پر آکر لیٹ گئیں۔ 
کچھ ہی دیر میں ،میں نندیا پور میں اس مرد درویش کی تلاش میں لگ گیا جس نے عورت کو سمجھنے کا دعوی کیا تھا۔لیکن جس ذی شعور سے بھی اس کا پتا پوچھا اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ ابھی اس ما فوق الفطرت درویش کی تلاش میں سرگرداں تھاکہ اچانک احساس ہوا کہ غنچہ صبح کھلکھلا رھا ہے۔ کسی خوش الحان کی صدا کانوں میں لطف پیدا کر رہی ہے۔ہر چند کہ میں خوابیدہ نظاروں سے بہک رھا تھا تھا لیکن کوئی اپنی حسیں آواز میں مژدہ جانفزا سنا رھا تھا۔
 خیریت ہے؟ آپ جلد سو گئے تھے؟ جو چائے کا کپ میں لے کر آئی تھی وہ بھی ویسے ہی پڑا ہے۔ ۔ میں نے کن اکھیوں سے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ میں عالم حقیقت میں آچکا ہوں ۔ اپنے بستر پر دراز اور میری بیگم اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں ۔ بیگم کے اس والہانہ قرب نے خرمن صبر و شکیب پر ایک خوشگوار اثر ڈالا لیکن میں نے اپنے دوست کے مشورے پر قائم رہتے ہوئے اپنی سنجیدگی کو برقرار رکھا۔اور نجیف آواز میں جواب دیا طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔
 بیگم نےاسی  انداز وارفتگی میں پوچھا اب طبیعت کیسی ہے؟ میں نے اپنی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا پہلے سے بہتر ہے۔ بیگم نے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا چلیں اٹھ جائیں سحری کا وقت قریب ہے۔ وضو کر کے نفل ادا کر لیں۔ 
میں حیران بلکہ پریشان کہ اے مرد سخن فہم یہ کیا ماجرہ ہے۔کہیں داعی اجل کو لبیک کہنے کا وقت قریب تو نہیں آرھا۔بے اختیار زبان سے یہ کلمات نکلے ۔ اے خالق زمین و زماں تو قادر برحق ہے۔ اپنے بندوں کو کیسی کیسی مصیبت میں ڈالتا ہے ۔اور کیسے تو دلوں کو موم کردیتاہے۔
ابھی سلیپر پہن کر میں واش روم کی طرف پہلا قدم ہی بڑ ھایا تھا کہ پیچھے سے بیگم کی  پہلے سے زیادہ مخمور آواز بلند ہوئی۔
 میری ایک بات سنیئے گا۔وضو کرنے سے پہلے کچن سے چھپکلی تو بھگا دیں۔ورنہ سحری کیسے بناؤں گی
میم سین

Monday, June 22, 2015

مینڈکی کا زکام


ایک دفعہ کا ذکر ہوتا تو شائد لکھنے کی نوبت ہی نا آتی، راوی تو لکھ لکھ کر تنگ آگیا ہے اور مزید لکھنے سے انکاری ہے۔ ایک جنگل میں دو شیروں کی لڑائی ہوگئی۔ ایک مینڈکی بھی پاس کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس کی دم پر کسی ایک شیر کا پائوں آگیا اس نے دوڑ لگا دی اور ساتھ والے جنگل مین واویلا شروع کر دیا۔ سنبھل کے، ذرا دھیان میں رکھنا مرد ہمارے پاس بھی بہت ہیں۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں راوی کا ایک دوست لکھتا ہے شیروں کو لڑتا دیکھ کر مینڈکی بھاگ گئی تھی ، دم پر پائوں تو کسی پچھلی بار میں آیا تھا۔اس بار تو بس ایسے ہی بھاگ کر شور ڈال دیا تھا کہ تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے ہم تمہیں رشتہ نہیں دیتے۔ ۔۔۔۔
ایسا کئی بار ہوتا ہے مینڈکیوں کو زکام ہوتا رہتا ہے ۔جب بھی شیروں کے گھر کوئی مسئلہ کھڑاہوتا ہے۔ کوئی خوشیاں پھیلنے لگتی ہے تویہ زکام کی وبا پھیل جاتی ہے۔ یہ جنگل کا دستور بھی بن گیا چکا ہے اور رواج بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاتا، وہ ہوتی ہین اور ہمیشہ سے ہوتی ہیں انہوں نے رہنا ہے اور یہ مینڈکیوں کو زکام بھی رہنا ہے۔۔۔۔یہ مینڈکیاں سامری کا تماشہ دیکھنے بھی آئی تھیں اور موسی کے ساتھیوں میں بٹھتی تھیں۔۔۔۔۔عیسی کے حورایوں میں بھی تھیں۔۔۔۔۔۔ یہ تو انبیا کو نہیں بخشتیں تھیں۔۔۔۔ اور شاہوں کے منصب پر بھی طعنہ ظن تھیں تو کلیسا پر بھی۔۔۔بس ان کی طبیعت کچھ نازک سی ہے ذرا سی  ہوا تبدیل ہوجائے تو ذکام ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔
لیکن نسلیں بدل جاتی ہین شعور بدل جاتا ہے ہر صدی، ایک نیا شعور لیکر آتی ہے جو پہلے شعور سے بہتر ہوتا ہے۔۔لیکن یہ شعور نہیں ہے مینڈکیوں کا زکام ہے، جو کبھی نہیں رکے گا۔کبھی نہیں بدلے گا۔۔۔ یہ چلتا رہنا ہے ہر صدی میں ، ہر دور میں۔۔ اور آنے والے دنوں میں تو وبا کی شکل اختیار کر لے گا۔۔۔ زمین سے بھی یہ مینڈکیاں اگیں گی اور آسمان سے بھی برسیں گی۔۔۔۔۔
میم ۔سین

کلام درد


دیوان میم سین سے کچھ کلام پیش خدمت ہے۔ یہ کلام پہلے دیوان سے ہے جو کئی سال پہلے ترتیب دیا گیا تھا لیکن چونکہ اس میں درد کی کمی تھی اس لئے اس کا نظر ثانی شدہ نسخہ میم سین درد کے نام سے منظر عام پر آرہا ہے۔ اگرچہ کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں اعتراض کیا ہے کہ دیوان صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس میں قصور ہمارا نہیں اس درد کا ہے جو ہمیں پہلے محسوس ہی نہیں ہوا تھا۔ میر درد تو صرف نام کی حد تک شاعر تھے لیکن ہماری شاعری کا ہر شعر درد سے ایسے لبریز ہے جیسے بازار میں شہد بیچنے والے کا مرتبان ۔ لیکن چونکہ ہم اس دیوان کے حقوق ایک چائے بنانے والی کمپنی کو بیچ چکے ہیں اس لئے اس دیوان کو ڈی کوڈ کرنے کیلئے آپ کو اس مشہور کمپنی کا ٹی بیگ کا ڈبہ خریدنا پڑے گا، جس کانام لینا  تمام فورمزکے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے جس کے مظابق فورم کا کسی بھی سیاسی یا تجارتی تشہیر کیلئے استعمال ممنوع ہےْ ۔اسلئے مارکیٹ میں موجود دو چار کمپنیوں کے ٹی بیگ استعمال کریں اور ان کو خشک کر کے اس پر لکھی گئی تحریر دیکھیں اگر اس پر ٹرائی اگین کا لفظ پڑھنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا مطلب ہے ہے آپ نے مطلوبہ کمپنی ڈھونڈلی ہے۔ اب چائے پیتے جائیں اور خفیہ کوڈ ڈھونڈ ھتے جائیں۔ جب مطلوبہ کوڈ مل جائے تو اس کو کمنٹس باکس میں لکھ دیں ۔ ساری غزل سامنے آجائے گی ۔ اپنے تاثرات سے ضرور آگاہ کریں۔ آپ کے خیالات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیوان میم سین درد سے اقتبا س

بحث و مباحثہ

جب بھی کسی پوسٹ پر کوئی مسلکی، مذہبی یا پھر فکری بحث کی جاتی ہے تو اس میں کوئی بھی فریق نہ سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔مقصد دوسرے کو مسخر کرنا اور اپنی بات کی تائید میں دلائل دینا۔اور یوں دھمے لہجوں میں شروع ہونے والی گفتگو غل غپاڑہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔بات موضوع سے ہٹ کر ذاتیات پر آجاتی ہے اور دلیلیں گالی گلوچ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بحث میں کوئی فریق متاثر نہیں ہوتا ۔ فرق پڑتا ہے تو اس قاری پر جو خاموش ہوتا ہے اور خاموشی سے اس بحث کے مندرجات اور اس پر ہونے والی بحث کے بعد دونوں فریقوں کے مجموعی طرز عمل پر غور کر رہا ہوتا ہے۔اس کیلئے دلائل سے زیادہ فریقین کا طرزعمل، الفاظ کا چنائو، تہذیب کا لباس اور آدابِ محفل زیادہ اہم ہوتا ہے۔اور وہ اس فریق کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے جس نے شائستگی، برداشت، اور تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔یقیناً ہمیں ایسی بحثوں میں ضرور حصہ لینا چاہیئےلیکن اپنے الفاظ کے چنائو اور جذبات کے اظہار میں محتاط ہونا چاہیئے۔اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت اور فہم وفراست سے کام لینا چاہیئے۔اگر آپ سیرت طیبہ پر روشنی ڈالیں تو بہت سے ایسے واقعات جن میں لوگ گواہ بن رہے تھے تو آپ نے ایسے ظالموں کو معاف کرکے لوگوں کے دلوں کو خرید لیا تھا۔ اور کعب بن اشرف والا واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی تشہیر ہر گز ہونے نہیں دی گئی تھی۔ اور سارا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اور شائد اس زمانے کے بہت سے لوگوں کو اس قتل کی وجوہات سے بھی آگاہی نہیں ہوئی ہوگی۔
ہمیشہ حضرت عمر والا رویہ کارگر نہیں ہوتا ۔حضرت ابوبکر اور عثمان غنی والی حلیم طبیعت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے ہمیں بہت سے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کے ہم آئیڈیل بھی ہیں۔اور ہماری دین کے معاملے میں ذرا سی بھی کوتاہی وہ زبان یا لہجے میں ہو، یا پھر ہمارے کردار کے، بہت نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
یقین جانئے اگر آپ کسی بھی پوسٹ پر ہونے والی لفظی جنگ کو ایک بار پڑھ کر دیکھ لیں تو ، دونوں فریقین کا طرزتخاطب ہی حق اور باطل ہونے کا فیصلہ سنا دیتا ہے
میم۔ سین

نقطہ نظر

زندگی میں بھلا تسلی کیلئے محبت سے بڑی کوئی چیز ہوتی ہے؟ لگن سچی ہوتو سمندر بھی رستہ دے دیتے ہیں۔پہاڑ بھی اپنی چوٹیوں کو سرنگوں کر دیتے ہیں۔اب بھلا کوئ ذہن کی بجائے محض الفاظ کے سہارے جذبات سے کھیلنا چاہے تو پھر جو دل چاہے تصویر بنائے؟؟؟ اس فہم اور شعور کو کیا نام دوں جو چاہے تو مرد کو وحشی درندہ ثابت کرے۔چاہے تو کبھی آوارہ بھنورہ۔ ۔ دل کرے توکبھی دیوتا کی نظر سے دیکھے، من چاہے تو تکمیل کی جستجو میں اس کا تعاقب کرے۔۔۔۔۔۔
پانا اور کھونا محبت کی تسکین بنتے ہیں۔من کی یہ اڑان مرد بھی چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن یہ جو عورت اور مرد میں جنسی تعصب کا پہلو ہے اسے پروان چڑھنے دینا کہاں کا انصاف ہے؟۔ جہاں انسان کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جارھا، وہاں پر خلش، کسک جیسے الفاظ جنم نہیں لیا کرتے۔ اگر ان کو پنپنے کا موقع دیا ہی گیا ہے تو پھر مورد الزام ایک فریق کو کیوں؟ اگر مرد کے پاس خوشنما اور سحر انگیز لفظؤں کا ذخیرہ ہے تو عورت بھی دلفریب ادائوں کے فطری حسن سے مالا مال ہے۔اس کی آواز بھی تو بہت شیریں ہے۔اس کی ہنسی میں کسی آبشار کی دلکشی دکھائی دیتی ہے۔ اور مرد ان ادائوں کو محبت سمجھ کر بندھن کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ اگر محض الفاظ کے طلسم کے زیراثر عورت کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟؟؟
عورت کا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے۔ وہ محبت کے لئے فطری طور پر مجبور ہے۔اپنے تحفظ کیلئے۔۔۔ اپنی بقا کیلئے۔۔اس محبت کیلئے وہ مجبور بھی ہے اور خوشی کی کیفیت لئے ہوئے بھی۔۔۔لیکن محبت کی اس تلاش میں وہ فریب کھائے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟ 
مرد بھی چاہتا ہے وہ ریشمی بندھن میں بندھا رہے۔ وہ بھی ازل سے ابد تک اس بندھن کو نبھانے کیلئے تگ ودو کرتا ہے۔وہ تو اس قدر معصوم ہوتا ہے کہ عورت سے اسی وارفتگی کی ہمیشہ توقع رکھتا ہے جو اس نے پہلے دن محسوس کی تھی۔ وہ ازل ابد کے معنی اسی بندھن کے ساتھ جوڑ دیتا ہے جو اس نے پہلے دن سیکھے ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن عورت اپنی محبت مرد سے چھین کر اسے رشتوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ محبت کی تلاش میں ڈگمگائے ہوئے قدموں کو مرد کے نام کر دیتی ہے۔ تو مرد کس کو الزام دے؟؟؟؟
چلو یہ مان لیا کہ مرد جو ہمیشہ تسخیر کے جذبے سے مسلح رہتا ہے اور وہ عورت کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کمزوری کا احساس ایک عورت دلائے تو الزام کس کے سر؟؟؟؟

مسائل

 پہلا المیہ شروع ہوتا ہے۔ وہاں سے جہاں سےہم تعلیم کا نام تو لیتے ہیں اور اس کی افادیت اور اہمیت سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس کے فروغ کیلئے راضی بھی ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو  بھی لیتے ہیں ۔ لیکن کیا ہمارا نظام تعلیم، تعلیم کے ساتھ تربیت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟۔ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس نے ہمارے نظام تعلیم پر ہمیشہ بیسیوں انگلیاں کھڑی کر رکھی ہیں ۔۔ ہمارے تعلیمی ادارے تو اس شعور کو بھی چھین رہے ہیں جو وہ گھر سے لیکر آتے ہیں

تعلیمی شعور کے ساتھ وہی المیہ درپیش ہے جو حقوق کےمعاملے میں ہر امپورٹد تحریک کے ساتھ ہوا ہے۔ جب تک ہاتھ پکڑ کر جوڑے بنائے جانے کا رواج تھا تب تک تو ہمیں ڈپٹی نذیر احمد کی باتوں پر یقین کرلینے سے مسائل کا حل مل جاتا تھا۔ لیکن مسئلہ شروع ہی اکسویں صدی کے شعور سے ہوتا ہے۔ وہ شعور جو دراصل  بنا  کسی تبدیلی کے  مغرب سے لا کر ہمیں سکھا دیا گیا۔ اور ہم نے اندھی تقلید میں اس ادھورے شعور کو معاشرے پر نافذ بھی کر دیا۔ ہم بیسویں صدی کے شعور کو لیکر اکسویں صدی کی عورت کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ لیکن اس عورت کو بھی اپنے حقوق کے ساتھ اپنے فرائض کے بارے میں سوچنا ہوگا
کچھ یہی حال ہم نے اپنی تعلیم کے ساتھ کیا ہے۔ ایک ایسا شعور جو ہماری ثقافت، سماج اور ماحول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، اسے ہم اپنی نسلوں پر مسلط کر دیا ہے۔ اب ہم اس نسل سے ڈگریاں تو پیدا کروا سکتے ہیں لیکن یہ توقع رکھیں کہ وہ کوئی وژنری پیدا کرے گا محض اپنے آپ کو ایک دھوکے میں ڈالنے والی بات ہے

بابے

میری مذہبی وابستگیاں دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ میری تحریروں میں بابے کا لفظ پڑھ کر کچھ حیران ضرور ہوتے ہیں ۔لیکن میرے بابا ایک تمثیل ہے ایک اشتعارہ ہے اس شخص کیلئے جس نے زندگی میں کہیں نہ کہیں اپنا رنگ میری زندگی مین چھوڑا ہے۔جب انسان جذباتیت اور محبت میں سرشار ہوتا ہے تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کس اصول اور اور کس عقیدت پر کسی کا احترام کرتا ہے وہ ایک جذبہ ہے۔ اور اس جذبے کا نام خوشی ہے اور خوشی محبت کا ہی دوسرا نام ہے۔ جب محبت کی سرشاری حد سے بھر جائے تو پھر بابے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہستیاں مل ہی جاتی ہیں جن کی خاطر آپ بستیاں چھوڑ دینے کیلئے تیار ہو ہی جاتے ہیں۔جب آپ جھوٹ کے پہناووں کو سمجھنے لگیں۔ ۔ جب آپ کو کوئی اس بات کا ادراک دے کہ زندگی کی معراج حاصل کرنے کیلئے ہوا کے مخالف سمت اڑنا ہوگا۔ انسانی
معراج کیلئے نہ سہی ۔اپنے سکون قلب کیلئے ۔ یا جب کوئی آپ کو زندگی دیکھنے کے نئے زاویے متعارف کروانا شروع کر دے ۔ تو سمجھ لیں بابا مل چکا ہے
میم سین

مکمل کا فلسفہ


زندگی مختصر نہ سہی لیکن اتنی طویل بھی نہیں کہ ہمسفر کیلئے صرف شریک حیات پر ہی انحصار کیا جائے۔سفر کی کلفتوں کے احساس کو رد کرنے کیلئے کیا ہاتھ تھامنا ضروری ہے؟ کیا احساس محبت کافی نہیں ؟ کیا صرف شریک حیات کے انتخاب کی لاٹری پر ساری زندگی کا انحصار ایک درست فیصلہ ہوگا۔؟ بات شعور کی ہے۔ انتخاب کی ہے۔ پسند نا پسند کی نہیں قسمت کے فیصلوں کی ہے۔

یہ باتیں محض لفظوں کی موسیقی ہے۔ جو شائد کسی کی فریاد بن کر نکلے تو کسی کی آہ کی بنیاد بنیں۔ ہم اپنی کیفیات اور احساسات کو دھیرے دھیرے لاشعوری طور پر اپنے ذہن میں ڈال دیتے ہیں۔۔ اور پھر ان احساسات کو لفظوں میں پرو کر ان کو ضروریات کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ ضرورتیں مصنوعی نہیں ہیں ، جبلی ہیں لیکن ان کے استدال نرالے ہیں، انوکھے ہیں 
یہ سب فرسودہ بندشیں ہیں۔  زندگی گزارنے کیلئے ہمسفر کی ضرورت کا یہ فلسفہ محدودیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ زندگی مختصر سہی لیکن بہت وسیع ہے۔ وہ بے کنارہ آسمانوں کے نیچے تاحد نظر پھیلی ہوئی ہے۔ اسے محض ایک شریک حیات کے ساتھ نتھی کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ؟؟؟
ہم ایک مصنوعی معاشرے میں جی رہے ہیں۔ جہاں کی اقدار بھی مصنوعی ، معاشرت بھی۔۔۔۔ کسی کے دلی احساسات کی جھلک کو پہچاننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ہر ذہن کا شعور وہ نہیں ہوتا جو آپ کا اپنا ہو۔ ترجیحات وہ نہیں ہوتیں ہیں جو آپ کی اپنی ہوں۔سب مشاہدے اور مطالعے کے بھی قائل نہیں ہوتے۔ سب زندگی کے تجربوں سے مسلح بھی نہیں ہوتے۔کہیں سسکتے ارمان ہوتے ہیں تو کہیں عزتوں کے نگہان درکار ہوتے ہیں۔کہیں مرعوبیت درکار ہوتی ہے تو کہیں عظمت کا سکہ بٹھانے کا داعی۔۔کہیں انوکھے جذبے تو کہیں الگ طرح کے احساسات۔ کہیں کوئی فرشتہ بننے کی کوشش میں نظر آئے گا تو کہیں کوئی گریز لہجوں میں پیش ہوگا۔ یہ سب فطری تقاضے ہیں۔ محض جواز ۔۔۔محض جواز۔۔۔ 
ایک جوا ہے لگ گیا تو کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا دھوکہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اعلی و ارفع جذبے یاد رہیں گے۔ اور جو ہار گئے تو کہاں کی تمازت کہاں کا انتخاب۔۔۔۔ بس پھر فیس بک کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کیا جائے گا 
یہ سب نصیب کی باتیں ہیں۔ اور ہماری کوششیں اٹکل پچو۔
جب تمنائیں جوان ہوتی ہیں تو وہ خوہشوں کو اکساتی ہیں۔ انقلاب کا رستہ دکھاتی ہیں لیکن جب وقت کی گرمی کچھ اثر دکھاتی ہے تو یہ خواہشیں اوجھل ہوجاتی ہیں ۔انقلاب اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔ جو آجکل کی ضرورتیں دکھائی دیتی ہیں کل وہ محض دل کو بہلانے کے کھلونے قرار پائیں گے۔ میری باتوں سے اختلاف ہوگا۔ بہت سے ان کو بے پر کی چھوڑی ہوئی باتیں قرار دیں گے۔ لیکن میں فطری تقاضوں کا انکاری نہیں لیکن محدودیت کا قائل بھی نہیں ہوں۔ 
۔جہاں سب کچھ نصیب نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہو وہاں کے طلسم کدے کی کنجی ڈھونڈنے کی جستجو کیسی؟؟؟ْْ

Friday, June 19, 2015

کیا کہوں

میرے بار بار سمجھانے اور میری وضاحت کے باوجود کہ ابا جی کو ریٹائر ہوئے چودہ سال ہو چلے ہیں ،صاحب فراش بھی ہیں اور میرے شہر کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ ان کو استعمال کرکے آپ کا کام کر وا سکوں ،لیکن میاں صاحب بضد تھے کہ ان کے بیٹے کا کمالیہ ٹیکنیکل کالج میں داخلہ صرف میری سفارش سے ہوسکتا ہے۔جب میاں صاحب کسی طرح مطمئن ہوتے نظر نہیں آئے تو میں نے بادل ناخواستہ جمع کروائے گئے کاغذات کی رسید ان سے لیکر اپنے پرس میں سنبھال لی اور کوئی حیلہ ڈھونڈنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن ایک تو مجھے اس معاملے پر کسی سے  بات کر نے کا موقع ہی نہیں ملا  اور دوسرے مصروفیات کچھ ایسے آڑے آئیں کہ معاملہ  ذہن سے ہی نکل گیا

لیکن کل صبح جب گھر کا دروازہ بجنے پر باہر نکلا تومیاں  صاحب مٹھائی کا ڈبہ میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولے ۔ 

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کن الفاظ کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کروں
میم سین

Thursday, June 18, 2015

مساوات

میں  سوشلزم کی غیر منصفانہ مساوات کی بات نہیں کرتا۔ جس میں کام کرنے والا اور کام نہ کرنے والا ایک ہی صف میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ میں نے اس منصفانہ مساوات کی بات کی ہے جس میں کارخانہ دار اور مزدور ایک میز پر یا کم از کم ایک چھت تلے بیٹھ کر کھانا کھانے کا دعوی کر سکتے ہیں۔میں نے اس نظام کی بات کی ہے جس میں مزدوراور مالک کا بیٹا ایک ہی بس میں سفر کر سکیں ۔ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ جس میں مقابلے میں سبقت لیجانے کیلئے ا وچھے ہتھکنڈوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو۔میں تو اس طبقاتی تفریق کے خلاف ہوں جس کے ذریئے مقابلے کی دوڑ سے نئے کھلاڑیوں کو روکا جاتا ہے، میں تو اس تفرق کے خلاف ہوں جس میں ایک مزدور اور مالک ایک میز پر کھانا نہیں کھا سکتے۔میں تو اس دوڑ کے خلاف ہوں جس میں سبقت لیجانے کیلئے اخلاقی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کو روندا جاتا ہے۔ میں تو اس طبقاتی تفریق کے خلاف ہوں جو معاشرے کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ میرا خواب تو یہ ہے اگر شوکت خانم میں یہ احساس دلائے بغیر کہ کس کا علاج زکوۃ اور کسی کا ذاتی پیسے سے ہو رہا ہے تو ہم ایک ہی سکول میں مالک اور مزدور کا بچہ کیوں نہیں پڑھا سکتے۔
میم سین

ایک سوچ


خواہشوں کا ختم ہونا ایک نیئر ڈیتھ تجربہ ہے۔

خواہشات انسانی بقا کیلئے ضروری ہیں۔ان کا ختم ہوجانے کا تجربہ ہر کسی نے محسوس کیا ہوگا۔ لیکن یہ ہمیشہ ایک وقتی کیفیت ہوتی ہے جو چند لمحوں سے لیکر کئی دفعہ سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی بھی عارضی کیفیت سے کوئی حتمی نتیجہ نکال لینا انصاف نہ ہوگا ہے۔انسان فطرت کو زیر نہیں کر سکتا۔ان عارضی کیفیتوں سے بچ نہیں سکتا۔ لیکن جیسے اللہ نے انسانی جبلت میں صدموں کو سہہ لینا لکھا ہے، زخم خواہ کتنا ہی گہرا ہو وہ مندمل ہو جاتا ہے یا کوئی ایسا بہانہ مل جاتا ہے جس سےدل بہل جاتا ہے۔ زندہ انسان خواہشوں ، طلب اور جستجو کے سہارے ہی زندہ رہ سکتا ہے۔جب خواہشات ختم ہوجائیں تو سمجھیں انسان کی موت واقع ہوچکی ہے۔

وطنیت اوراقبال

 آج کے اس ویزہ کی پابندیوں والے دور میں تصور وطن کے اس بت کا انکار کر کے بندہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا ۔سارا فساد ہی اقبال کا پیدا کیا ہوا ہے۔اچھے خاصے دل کو لوری سنا کر سلاتے ہیں۔ قرآن کو رٹے لگا لگا کر ثواب حاصل کرتے رہتے ہیں۔وظیفے اور نفل بھی کوئی نہیں چھوڑتے۔اور یہ اقبال صاحب ہیں کہ اتنے سالوں بعد پیچھا نہیں چھوڑا۔ بابا کیوں ایسی باتیں کرکے ہمیں تنگ کرتے ہو۔جب وطنیت کا افیون استعمال کر رکھا ہے تو کیوں ہماری نیند خراب کرتے ہو۔اقبال نے تو اچھا دور دیکھا ہوا ہے۔ جب بندرگاہ پر پہنچ کر ملک میں داخلے کا پرمٹ مل جاتا تھا۔اب تو طالبان بھی نہیں رہے جو اس بت کو پاش پاش کر کے ساری دنیا کیلئے اپنے میکدے کھول دیتے تھے۔اگر اقبال کا کہا مان لیا تو کونسا ملک ہمیں ویزہ دے گا؟؟سوچ تو میری سطحی سی ہے لیکن کیا کروں حقیقت یہی نظر آتی ہے۔قومیت کا پرچار نہ کریں ، تو کہاں جائیں

سائنس اور مذہب

سائنس اور مذہب کی کبھی جنگ نہیں رہی بلکہ سائنس مذہب کی تائید کرتی ہے مذہب کا اصل مخالف رہا ہے فلسفہ۔۔۔۔سائنس ایک منظم طریقۂ کار کے تحت کسی بات کو جاننے یا اسکا علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہےاور مذہب ،ایک ترتیب وار طرز زندگی ہے ۔ دو مختلف راستے دو مختلف سوچیں اور دونوں کا تقابلی جائزہ سراسر، جاہلیت ہے،اب بھلا ایک دکان سے مکئی کا ریٹ پوچھ کر دوسری دکان پر گندم کی قیمت پر لڑائی ڈال کر بیٹھ جائو کہ فلاں دکان دار تو مکئی اس بھائو دے رہا ہے اور آپ گندم کا ریٹ زیادہ لگا رہے ہیں۔کونسا مذہب سائنس کو روکتا ہے اور کونسی سائنس مذہب کے اڑے آتی ہے۔ ایک غیر منطقی بحث۔۔صرف ترقی پسند ذہنوں کی بقا کا ذریعہ ہے۔جو خود کو سائنس کی کشتی میں سوار ہو کر مذہب کو گالیاں دے کر اپنا ایک الگ فرقہ بنا کر بیٹھے ہیں۔اور اگر وہ مذہب اور سائنس کی تقسیم نہ کریں تو ان کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے
میم سین

Wednesday, June 17, 2015

میری ڈائری

ایک بزرگ نے دائمی زندگی حاصل کیلئے پوچھے گئے سوال پرمشورہ دیا کہ اگر ایک سو سال تک آگ جلائی جائے، جس کو بجھنے نہ دیا جائے تو اس میں سے ایک پرندہ نکلتا ہے جس سے جو سوال پوچھا جائے وہ اس کا جوادب دیتا ہے۔ایک آدمی نے آگ جلائی جو اس کی آئندہ نسلوں تک جاری رہی۔ جب سو سال مکمل ہونے تھے اس دن جو آدمی آگ کی حفاظت پر مامور تھا۔اس کی دانت میں درد تھا۔ جب سو سال مکمل ہونے پر پرندہ نکلا تو اس شخص کے منہ سے بے اختیار نکلا دانت کا درد اور پرندے نے جواب دیا لونگ کا تیل اور غائب ہوگیا۔ آپ جس رستے پر چلنے کو کہہ رہے ہیں وہ تو آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔آپ تو ہمیں صحرا میں گاڑی کا گمشدہ پیچ ڈھونڈنے کیلئے بھیج رہےہیں۔یا وہ سوئی جو ہندوکش کے سلسلوں کو جانے والے رستے میں کھو گئی تھی۔ میرے ایک دوست ہیں ان کی بیوی زچگی کے دوران فوت ہوگئیں۔ بچے ابھی چھوٹے تھے، دوستوں نے مشورہ دیا کسی جوان لڑکی سے شادی کی بجائے کسی درمیانی عمر کی میچور خاتون ڈھونڈو، جو سمجھدار ہوگی اور تمہارے بچوں کو اپنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی، مشورہ تو بہت اچھا تھا اور ڈھونڈ بھی لیا۔اور اس نے گھر کو سنبھال بھی لیا لیکن کچھ عرصے بعد معلوم ہوا، موصوفہ ہائی بلڈ پریشر اور ڈیپریشن کے دائمی مرض میں مبتلا ہیں اور آجکل میرے ان دوست کا وقت کلینک اور ہسپتالوں میں زیادہ گزرتا ہے۔جہاں تک خدا کو ڈھونڈنے والی بات ہے تو وہ جو ایک شخص جو اس دشت کی سیاحی میں کامیاب ہوتا ہے ، اسے تو سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو نو سو ننانوے کہیں کھو جاتے ہیں ، وہ کسی کو نظر نہیں آتے ۔ اور اتنی کوشش کے بعد اگر کوئی ماہ جبیں مل بھی گئیں تو وہ صاحب ولائیت کی اتنی منزلیں طے کر چکے ہونگے کہ وہ حسن پارہ صرف ان کی لائبریری کو سنبھالیں گی۔انگلش کے اس مشہور ناول کی طرح جس میں دس ملین کی خاطر ایک آدمی پچیس سال کتابوں کے سہارے ایک قید خانے میں گزارتا ہے لیکن پچیس سال بعد شرط جیتنے کے بعد وہ ان ظاہری نمود نمائش سے بیگانہ ہو چکا ہوتا ہے اور پیسے لینے سے انکار کر دیتا ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیوی کے ساتھ کی ضرورت ایک خاص عمر کے بعد بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن دوسری شادی کیلئے ذہنی بلوغیت سب سے زیادہ حائل ہوتی ہے۔ آپ خود تو دوسرے کیلئے ڈھال لیں گے لیکن آپ کا ذہن ہمشہ اچھے تعلقات میں حائل رہے گا۔اگرچہ یہ اصول ہر شخص پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب کے بارے میں مجھے دعوی نہیں کہ میں انہیں بہت جانتا ہوں لیکن جس طرح سوچ دھارے میں بہے بغیر وہ اپنی ایک رائے رکھتے ہیں ،اس سے ان کی شخصیت کی مضبوطی کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے۔ ان کی خوشیوں اور غموں کا محور کا مر کز کسی ایسی طاقت کے اثر ہوتا ہے، جس کو سمجھنے کیلئے تھرڈ ڈائیمنشن کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں سے دیکھنا ایک سطحی سوچ کے حامل شخص کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں ان کا کسی کے ساتھ رہنا ایک سمجھوتے سے زیادہ نہیں ہوگا۔جو ان کیلئے زندگی کے خوشگوار لمحوں کی بجائے عمر بھر کے روگ میں ڈھل سکتا ہے۔۔

انقلانی مہرے

اس ملک میں انقلاب وہی لوگ لائیں گے جو جو ہمیشہ سے  اس ملک کے اصل حکمران  رہے ہیں ۔ جو مشرف اور نواز کو ایک صوفے پر بٹھاتے ہیں۔جو کبھی این آر او کرواتے ہیں تو کبھی سابقہ وزیر اعظم کو جیل سے جدہ پہنچاتے ہیں۔ جو ہرپارٹی کے سربراہوں سے جا کر ملتے ہیں۔جو جنگ کو جہاد کہیں تو سب جہاد مان لیتے ہیں ۔ جو کسی کو دہشت گرد کہیں تو سب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی والے مسائل  کا بھی سامنا نہیں ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تو میر جعفر اور صادق ڈھونڈنے پڑتے تھے لیکن یہاں تو چل کر یہ خدمات ادا کرنے کیلئے لوگ مل جاتے ہیں۔ اور کچھ کو خمار ہے کہ وہ شاویز، یا ایشیا کے چے گویرا ہیں۔ اور وہ ان فناسرز کو استعمال کر کے پاکستان میں انقلاب برپا کر دیں گے اور ہم سارے تماشائی بنے ٹی وی کی سکرینوں کے آگے بیٹھے سارے کھیل سے لطدف اندوز ہو رہے ہیں۔
"مان لو مجھ سے میرا وجدان جو کہتا ہے

احساس محرومی

ملا، بلا شبہ ایک سوچ کا نام ہے لیکن یہ احساس محرومی کی پیدوار ہیں جو معاشرے کی غیر یکساں تقسیم اور انسانیت کے استحصال کا نتیجہ ہے۔ جہاں مساوات کا قتل اور طبقاتی تفریق اپنی عروج پر ہو گی وہاں پر ملا پیدا ہوگا ۔ جو اس احساس محرومی کو لیکر پسے ہوئے لوگوں کی ہمدردی لیکر اپنا ایک گروہ تشکیل دے گا ۔ اور یوں معاشرہ دو مختلف سوچوں میں بٹ جائے گا۔ روٹ ویلیو کو جانے بغیر دونوں گروہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ انسانی پیدائش سے شروع ہوا تھا اور قیامت تک جاری رہے گا۔ کیونکہ دنیاکی سب سے بڑی طاقت ایمان ہےاور ایمان کی حدود کا تعین کرنا انسانی سوچ سے باہر ہے

پاکستانی فاشزم

یہ فازشزم میڈ ان پاکستان ہے۔ جہاں کی اقدار دولت پر رکھی جاتی ہیں ، جہاں میرٹ کا استحصال اور شارٹ کٹس کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ مشرف کیلئے اور میرے جیسے عام آدمی کیلئے الگ الگ قانون موجود ہیں۔ جہاں قلم بھی بکتا ہو اور انصاف بھی۔ وہاں فازشزم نہیں آئے گی تو اور کون سا نظام قائم ہوگا؟؟؟ نام ہم عمر کا لیتے ہیں، واقعات ہم محمد بن قاسم کے سناتے ہیں اور جب طالبعلم ان تخلیاتی قلعوں سے باہر نکلتا ہے تو اس کا سامنا ٹھرڈ ڈو یژن میں پاس پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور رشیا سے پڑھے ڈاکٹروں سے ہوتا ہے، جمیعت کی غنڈوں سے بچ نکلے تو کسی ایم پی اے یا ایم این اے کا غذ لیکر کھڑ ا ہوگا۔۔۔۔ جس معاشرے میں ایم پی اے اور ایم این کا سار غصہ سکول ٹیچروں اور ہیڈ ماسٹروں اور کالج کے پرنسیپلوں پر نکلتا ہو، وہاں فاشزم پرورش نہیں پائے گی تو اور کیا ہوگا۔۔۔۔ مونس الہی کیس ، رینٹل پاور کیس، این ایل سی کیس ، کے کرداروں کو الیکشن لڑتے دیکھ کر، اربوں کے قرضے معاف ہوتے دیکھ کر ہمارے نوجونوں میں فرسٹیشن نہیں آئے گا۔ بینکوں کے قرضے معاف کرانے والوں کی اولاد جب سڑکوں پر آئے گی تو آپ ان سے کونسی اقدا کی توقع رکھ سکیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میری ڈائری


جب پہلی بار الرحیق المختوم پڑھنی شروع کی تھی تو میری مثال اس شخص کی سی تھی جسے اپنے محبوب کی قربت تو مل گئی تھی لیکن ان لمحوں کی لذت محسوس کرنے کی بجائے ان کے ختم ہوجانے کےخوف کے تصور کی خو د اذیتی میں مبتلا کر رکھا ہو۔ میں بھی کئی دنوں تک اس کتاب کو لئے چند اوراق پڑھ کر اس کے ختم ہونے کے ڈر سے کتاب بند کر دیتا۔ اور شائد کتاب کے آخری صفحات پر پہنچا ہوں تو دل کچھ ایسا پسیج چکا تھا تھا کہ بے اختیار زندگی میں پہلی بار آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ رحیق المختوم کے ہیرو کے تعاقب میں بخاری اور مسلم کسی سے مستعار لیں۔ جو اپنے علم میں اضافے کی غرض سے ایک سال پہلے بھی حاصل کی تھیں لیکن مجال ہے جو ایک لفظ بھی سمجھ آیا ہو۔لیکن اس با ر روزانہ صرف ایک حدیث اپنے آپ سے اس وعدے پر پڑھنی شروع کی جو بھی پڑھوں گا تو پہلے اس پر عمل شروع کروں گا اور پھر اگلے موضوع پر جائوں گا ۔اور پہلے ہی باب میں داڑھی کے حکم نے تذبذب میں ڈال دیا۔کئی دن تک دل اور دماغ میں جنگ میں بالاآخر دل نے فتح پائی اور میڈیکل کے آخری سال کے آغاز میں داڑھی رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔اس کے بعد سیرت ا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار کتابیں پڑھیں لیکن جو مزہ اور سرور اس کتاب نے دیا پھر کسی اور کتاب نے نہیں دیا۔ میرے لئے یہ کتاب زندگی کا معیار اورمعاشرتی اقدار کا ترازو بن گئی ہے۔ اتنے برسوں بعد بھی میرے او ر الرحیق المختوم کے درمیان رومانس میں کبھی کمی نہیں آئی ہے ۔جب بھی دل مغموم ہو، پریشان ہو، اداس ہو، تنہائی کا احساس ہو، یا ذہن انتشار کا شکار ہوہو تو اس کتاب سے سرگوشیاں کر لیتا ہوں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب یہ ثابت کرنانہیں ہے کہ میں ایک پارسا انسان ہوں۔ ولی اللہ ہونے کا دعوی ہے یا شائد ولایت کے کسی درجے پر پہنچ چکا ہوں۔ بیان کرنے کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ ہم سب کو زندگی میں روشنی ملتی ہے۔ صراط مستقیم بھی۔ بند کمروں میں جھانکنے والی دیوار میں لگی دراز بھی ملتی ہے لیکن ہم وہ لمحہ کھو دیتے ہیں یا اپنی آنکھیں بند کر کے خود فرار حاصل کرلیتے ہیں۔ حق اور سچ سب کو ملتا ہے لیکن جب بھی گا ڑی پلیٹ فارم پر آکر لگتی ہے، کسی بہانے سٹیشن سے اتر جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی میرے ایک دوست نے بھی زندگی کا انداز بدل ڈالا تھا لیکن ایک دن لیکچر کے دوران ایک پروفیسر نے مولوی کہہ کر پکارا اور تو ساری کلاس کے سامنے اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر پایا اور اگلے دن جب کلاس میں آیا تو مولوی کا داغ اس کے چہرے سے غائب تھا۔ ایک دن جب مجھے بھی ایک پروفیسر نے مولوی صاحب کہہ کر پکارا تو میرے اندر معلوم نہیں کہاں سے ہمت پیدا ہو گئی اور ساری کلاس کے سامنے کھڑے ہو کر پروفیسر صاحب سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔

You are calling everyone with the name of colour of his shirt. You can also call me، the boy with shalwar qameez, why to discriminate me on the basis of my appearance



ساری کلاس کے سامنے ادا کئے گئے ان چند لفظوں نے ہمیشہ کیلئے ایک نظریاتی اساس مہیا کر دی
میم سین

ایک نصیحت

کہانی وہی زیادہ اثر رکھتی ہے جو حقیقت کے قریب ہو۔ کہانی بیان کرتے وقت اگر اس میں خامیاں رہ جائیں تو اس کا اثر بھی قاری کے ذہن پر وہ قائم نہیں رھتا جس کی توقع اس کہانی سے رکھی گئی ہوتی ہے۔ اب کوئی بحرالکاہل کا سمندر لکھے تو کیا اعتراض نہیں بنتا ؟ تنقید خواہ کیسی ہو اسے ہمیشہ مثبت انداز میں لینا چاہیئے۔ اگر طبیعت میں برداشت اور حس مزاح میں لطافت نہ آئے تو جان لو آپکا ادبی ذوق محض دعوی ہے ۔جب بھی کوئی تحریر لکھیں اسے باآواز بلند پڑھیں۔ اس سے الفاظ کے ردھم اور فقروں کے درمیان پائی گئی بے ترتیبی سے آگاہی ہوگی۔ دو تین بار پڑھنے کے بار آپ اس کی نوک سیدھی ٹیرھی کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ تحریر کا قاری کے ذہن کے ساتھ کیا رشتہ ہوتا ہے۔ جو غلطیاں خواہ وہ بال برابر ہوں ،ہم آج کرنے جا رہے ہیں وہ کل نہیں ہونی چاہیئں،۔سیکھیئے اور سیکھتے رہیں ۔ سیکھنے کی کوئی عمر اور کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور تنقید ہمیشہ نکھار پیدا کرے گی

ایک سوچ

وصل اور فراق کے بیچ کی کسی سمت میں واپس لوٹ آئیں ہیں۔ گنگناتے ہوئے یونہی شام وسحر کا اب کیا حساب رکھیں گے؟ جو اتنے چاہنے والے ہوں تو پھر لفظوں کا ہیر پھیر کیا معنی رکھتا ہے۔مدتوں دل کی آواز پر دھیان رکھا تو سحر ہونے کی خبر نہ ہوئی جو یوں سلسلے چلتے رہے تو خزاں کی کیا فکر اور کس کو شجر کے لٹنے کا غم ؟ ہمیں تو خلق خدا کا غائبانہ سہارا ہی کافی ہے

محبت کی حقیقت

بات دل کے فیصلوں پر چلنے کی نہیں کی ہے۔بلکہ ان برھنہ ہمدریوں کی ہے جو سکہ ہوا میں اچھلا کر سامنے آجاتی ہیں ۔میں نے ذہن کے پہلے قدم کی خواہش کی ہے۔ بارش کی پہلی بوند سے اٹھنے والی مہک کی بات کی ہے۔ جب سکہ ہو ا میں اچھالا جاتا ہے تو وہ لمحات دل کے پیچھے چلنے کے نہیں بلکہ ان ہمدردیوں کی تلاش کا تعین کرنے کیلئے ہوتے ہے جن کے بارے میں ہمارا ذہن غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔۔۔ آپ لاکھ کہیں مجھے کرکٹ سے دلچسپی نہیں ہے۔ سیاست سے کوئی لگائو نہیں ہے۔۔۔ لیکن دل کے کسی حصے میں اپنے ملک کیلئے ایک تڑپ موجود ہوتی ہے۔کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہمدردی موجود ہوتی ہے ۔۔۔۔ جب سکہ ہوا میں اچھلتا ہے تو وہ لمحے آپ کی ہمدردیوں اور جذبات کو عیاں کر دیتے ہیں

چاند


ہمیں تو چاند کی پراسراریت سے زیادہ چاند پر رہنے والی بڑھیا کے بارے میں فکر ہے۔ سناہے چاند پر پریاں بھی رہتی ہیں اور نقاب بھی نہیں کرتی ہیں۔لیکن کسی کالی زبان والے نے بتایا ہے کہ وہ صرف ان کو شرف ملاقات بخشتی ہیں جو اڑن کٹھولوں میں بیٹھ کر ان سے ملنے جائے۔ بس تب سے ہمیں چاند کی پراسرار رومانیت پر یقین نہیں رہا ۔ایک طرح کی نفرت سی ہوگئی ہے۔ جھیل کے پانیوں میں اگر چاند دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر دیتا ہے تو یقیناً بھتہ مافیہ سے ضرور کوئی رشتہ ہے۔ ایسا رشتہ کہ جو اپنے ڈروئنے اور تباہ کن خوابوں کے ساتھ زندگی کے سمندر میں سونامی برپا کر دیتا ہوگا۔ جس کی آوازیں لندن سے چپھنے والی اخباروں سے لے کر شوشل میڈیا کے صفحات تک میں گونج رہی ہوتی ہے۔۔

شادی


ہماری کالج کی مسجد کے امام صاحب نے ایک بار اپنے جمعہ کے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا کہ جس کو اچھی اور نیک صورت وسیرت بیوی ملے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی دوسری بیوی بھی ہو بلکہ تیسری کی خواہش بھی کرتا ہے۔ نہیں نہیں وہ چاہتا ہے اس کی چار بیویاں ہوں۔لیکن یہ بات کنواروں کو سمجھ نہین آسکتی۔ ہم نے گردن گھما کر اپنے ارد گرد شادی شدہ شخص ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تو مولوی صاحب نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے شادی کے بعد بندہ

 اس خلش میں  بھی مبتلا سکتا ہے کہ اس سے تو کنورہ ہی بھلا تھا۔اور موجودہ حالات میں دوسری صورت سے سامنا ہونے کے چانس زیادہ ہیں

اخوت


اس وضاحت سے کہ ہمارے دنیا کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے سے آج ہم سے امتیازی سلوک ہورہا ہے، تو کیا ہمیں بھوٹان یا منگولیا کی حکومتی پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے؟ اس سلسلے میں وسطی ایشیا کی کچھ ریاستوں کی بھی مثال دی جاسکتی ہے؟ اس طرح کے کھلے قتل عام پر جو خصوصاً کسی مسلم ملک میں ہو رہا ہو ، کیا ردعمل ہونا چاہیئے؟ملک عزیز میں لڑی جانے والی ایران، امریکہ،بھارت واسرائیل کی پراکسی وار اور مشرق اور مغرب کی طرف سے ہر وقت آتش فشانی کیفیت کی موجودگی اور شمال میں کشمیر کی صورت میں ہر وقت ناگہانی صورت حال اور اسماعیلی حکومت کیلئے تگ ودو ،۔۔۔۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے پہلے ہی دن قبول نہ کئے جانے کے طرز عمل اور ایران کی موجودہ حکومت کے جارحانہ اقدامات۔۔۔ کیا دھشت گردی صرف ہمارا داخلی معاملہ ہے؟ سارے عالمی اور اشتعاری ہتھکنڈوں کو نظر انداز کرنے کے بعد کیا ہم ایک داخلی استحکام حاصل کر پائیں گے ؟ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں ہے ، ذرا غیر جانبدرا ہو کر اس دھشت گردی کی اصل حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔ کُھڑا نائین الیون سے مت ڈھونڈیں، اس کا سرا قیام پاکستان کے فوارً بعد درپیش مجبوریوں اور ہمارے وجود کے عدم استحکام اور ان ریشہ دوانیوں سے ڈھونڈیں جو اس کو مفاد پرست طبقے نے پہنچایا تھا ۔اس دہشت گردی کا سرا آپ کو کولڈ وار کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی اقتصادی اور مذہبی جنگ میں سے ڈھونڈنا پڑے گی۔ملکی دھشت گردی کا معاملات کا تعلق صرف پاکستان سے نہیں ہے اس کے سرے آپ کو دنیا میں ہونے والی ہر دھشت گردی میں ملیں گے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے جو کانٹا کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے
"مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہۓ" اگر یہ درد کوئی دوسرا مسلمان محسوس نہیں کرتا اور صرف پاکستانی مسلمان درد آشنا ہونے کا دعوی کرتا ہے تو میرا خیال ہے کہ کوئی پیمانہ ایسا نہیں جس سے اس کی منافقت کا تعین کیا جاسکے ۔ مسلمان کے خون کی آبرو پوری دنیا میں ایک جیسی ہے، خواہ وہ ہندستان میں ہو یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ ہاں ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو اس خون رائیگاں کا سبب بن رہا ہے۔

شریکاں دیاں گلاں

دلہے میاں جب بارات کے ساتھ تشریف لائے تھے تو ان کا منہ کچھ بنا ہوا تھا ،لگتا ہے شادی کیلئے دل سے راضی نہیں ہیں۔
 ان کی قمیض پر دائیں جانب سلوٹیں کچھ زیادہ تھیں اسلئےقوی امکان ہے بارات کے ساتھ زبردستی لائے گئے ہیں۔
کیا ان کی آنکھ کے گرد بنے ہالے کو سمجھنے کیلئے کسی سائنس کی ضرورت ہے؟ 
اور جب وہ نکاح کے بعد سب کے گلے مل رہے تھے تو ان کی چہرے کی بے رونقی کو بیان کرنے کیلئے کیا جیو کے نمائندے سے بات کرنا ضروری تھی۔ 
اور تو اور ہم نے تو لڑکے کو ایک بار بھی اپنے تایا سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ 
اور پھوپھی نے تو سر پر ہاتھ پھیرے بغیر پیار دیا تھا۔
اور جب لڑکے کو ملاقات کیلئے گھر کے اندر لے جایا جانے لگا تو لڑکے کے ماموں کے منہ پر جو ناگواری تھی اور اس کا اظہار انہوں نے لڑکے کے خالو کے کان میں کیا تھا ۔تو کیا کہا ہوگا؟ 
یہ بھی کوئی کوئی کھوج لگانے والی بات ہے، سب کو معلوم تھا انہوں نے کیا کہا ہوگا۔

سگریٹ نوشی کے فوائد


میڈایسن کے آئوٹ ڈور میں ایک لڑکے نے سی او پی ڈی کے مریض ایک بابا جی کی ہسٹری لی اور پروفیسر صاحب کو جب بتانا شروع کیا تو جونہی ہسٹری میں سگریٹ نوشی کا ذکر کیا تو انہوں نے سارے طالب علموں کو اکھٹا کر لیا اور سگریٹ کے نقصانات پر ایک طویل لیکچر دیا۔ جس میں سگریٹ سے لاحق امراض اور عارضوں پر انہوں نے کافی روشنی ڈالی۔ پروفیسر صاحب لیکچر دینے کے بعد کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر کمرے سے چلے گئے
 تو بابا جی نے پوچھا کہ یہ ڈاکٹر کون تھا؟ 
ہم نے بتایا یہ ہمارا سب سے بڑا ڈاکٹر ہے
 تو بولا ایویں چولاں ماری جاندا، پتا ککھ دا نہیں، جدوں میں دس سالاں دا سی ، اودوں دا سگریٹاں پینداں پیاں ۔ہن میں اسیاں سالاں دا ہو چکییاں ، بارہ نیانیاں دا میں پیو آٰں، نے تھاڈا وڈا ڈاکٹر آخدا پیا اے کے سارا قصور تمباکو دا اے۔ اینو اے نہیں پتا کہ کھنگ مینوں ٹھنڈی کھیر توں ہوئی اے ، سگرٹاں توں نئیں
 ( ایسے ہی کہے جا رہا ہے۔ اس کو کچھ پتا نہیں ہے۔ دس سال کی عمر سے میں سگرٹ پی رہا ہوں ۔ اور اب میری عمر اسی سال ہے ۔اور بارہ بچوں کا باپ ہوں۔ اور تمہارا ڈاکٹر سارا قصور تمباکو کو دیئے جا رہا ہے۔ اسے یہ بھی نہیں علم کہ مجھے کھانسی ٹھنڈی کھیر کھانے سے ہوئے ہے ، سگریٹ پینے سے نہیں)

میڈیا کی ذمہ داریاں


جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں  وہاں معاملہ صرف حکومتی کوتاہیوں کا نہیں ہے۔اس میں محنت سے جی چرانے والوں کا بھی اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرنے والوں کا بھی ہے۔ انا پرستی بھی اس میں شامل ہے اور امیر شہر کی نااہلیوں کا کردار بھی۔ ہمارے کارخانوں میں آج بھی ہزروں ملازمتیں موجود ہیں لیکن کام چوری کی عادت انہیں کام سے روکتی ہے۔اور دوسری طرف فیکٹری مالکان بھی ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جھوٹی انا ریڑھی لگانے سے روکتی ہے اور چائے کا کھوکا ہماری جھوٹی شان کے خلاف ہے۔
ہمارا میڈیا خود کشی ایک آدھ واقعے کو جس طرح پیش کرتا ہے اسے دیکھ یوں لگتا ہے کہ  جیسے ہمارا پورا معاشرہ مایوسی کا شکار ہے ۔پورا معاشرہ کسی گھٹن کا شکار ہے۔ افلاس کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔ریاستی ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے تجزیہ کریں توخودکشی کے ایسے واقعات تو امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی عام ہیں اور اگر واقعات کے اعدادوشمار اکھٹے کئے جائیں تو آبادی کے تناسب سے ہمارے ہاں ایسے المیے بہت کم جنم لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں جس طرح اصل حقائق سے ہٹ کر  واقعات کو جس طرح رپورٹ کیا جاتا ہے اس کے بعد تو ایسے حقیقی واقعات پر بھی یقین نہیں رہتا۔میڈیا سے نشر ہونے والے  چند ایسے المیوں کی جب تحقیق کی تو صورتحال بالکل مختلف نکلی۔ 

آٹے کی لائن میں انتظار انتظار کرتے کرتے چل بسنے والے کی موت گھر پر ہوئی تھی ۔ایک چینل کے نمائندے کے کہنے پر خبر چلائی گئی کہ اس طرح سرکاری امداد مل جائے گی۔
 چند دن کی زندہ دفنائے جانے والی بچی کی خبر اس کے ہمسائے نے دی تھی جو ایک اخبار کا ہاکر بھی ہے اپنی کسی پرانی رنجش کا بدلا لیا تھا۔
 دو ہزار میں بلوچستان میں قحط سالی کی جو تصویر ہمارے میڈیا میں پیش کی جارہی تھی ایک این جی او کے سات دور دراز کے علاقوں میں گھومنے کے بعد پتا چلا ایسی صورتحال کا سامنا تو وہاں کے مکینوں کو صدیوں سے ہے۔ 
کچھ ایسی ہی داستانیں لکھی جاتی ہیں جب میں سیلاب ے متاثرہ افرد کی بحالی کے لیئ کا، ہورھا ہوتا ہے۔جہاں معمول کی زندگی کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔
میری ساری تمہید کا مقصد ایسے واقعات کو جھٹلانا نہیں بلکہ ان کی اصل عکاسی پیش کرنے کی ضرورت کا ہے۔خودکشی یا ایسے دوسرے سانحوں کی ذمہ دار صرف حکومتی مشنری کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اس میں ذہنی بیماریاں اور دوسرے معاشرتی مسائل براہ راست ملوث ہوتے ہیں۔
جیسے چند سال پہلے ایسے ہی واقعے میں جس میں ایک آدمی نے اپنے سارے گھر کے افراد کو قتل کردیا تھا اور خبر بے روز گاری سے تنگ شخص کے حوالے سے نشر ہوئی تھی ۔ جب کچھ عرصے بعد تفتیش مکمل ہونے کے بعد بات سامنے آئی تو معلوم ہوا معاملہ اس شخص کی دوسری شادی کی خواہش ے شروع ہوا تھا اور اس کی پہلی بیوی کی طرف سے مسلسل رکاوٹ کی وجہ سے ایک رات جھگڑے کے بعد اس نے بیوی اور بچوں کو قتل کر دیا ، خوش قسمتی سے ایک بچہ بچ گیا تھا

وطنیت

میرا خیال میں لفظوں کے گورکھ دھندوں میں الجھ کر مفہوم کو اپنی مرضی کی بھول بھلیوں میں گم کر دینے سے صحت مند فضا ہمیشہ زہر آلود ہوجایا کرتی ہے۔ مختصر سی بات ہے کہ میرے  مطابق وطن کی محبت کا جذبہ آپ کے اسلامی بھائی چارے پر حاوی نہیں ہوسکتا جب تک وہ پرستش کا درجہ اختیار نہ کر لے۔ اس لئے اگر کوئی وطن سے محبت کا دعوی اسلامی اخوت میں رہتے ہوئے کرتا ہے تو کوئی اس کو کفر کے درجہ پر نہ لے جائے۔کیونکہ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے ۔جیسے اپنے شہر اور محلے سے انسیت ہوجاتی ہے جہاں آپ پلے بڑھے ہوں ۔۔۔۔۔ یہ نہ تو نزاع کی بات تھی اور نہ اتنی خطرناک کہ اس سے کسی کے عقیدے پر ضرب پڑنے والی تھی کہ اس کو بنیاد بنا کر بحث کو اس قدر طویل کیا جاتا کہ گروپ کی ہوا پراگندہ ہو جاتی ۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہیں جس نے ہمارے ذہنوں کو کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے نکال لیتے ہیں ۔ہمیں کسی نے سچ بولنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنے اس سچ کو بیان کرنے کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دوسروں کے ذہنوں میں زہر نہ گھولیں جس سے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ہمیں پہلے تو اپنے اس خوف سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور دوسرا بحث کی رسی کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا چاہیئے کہ جہاں سے فضا ،خیالات کے دھویں سے بھرنا شروع ہوجائے اور منظر دھندلانا شروع ہو جائیں وہیں سے اس رسی کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں تا کہ بحث کا رخ تبدیل ہوجائے یا پھر وہ دھواں اس فضا سے نکل جائے۔جب ہم لفظوں سے شعوری یا غیر شعوری استحصال شرع کردیتے ہیں تو ہمارے پاس برف کا پانی رہ جاتا ہے ، برف تو کبھی کی پگھل کر ضائع ہوچکی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی نفسیاتی اور جبلی انا پسندی کے زہر کو خیر خؤاہی کے جذبے سے دور رکھنے کی ضرورت ہےہم وطن سے محبت کے قائل ہیں پرستس کے نہیں ہیں۔۔۔جس علاقے میں انسان کی پیدائش ہوتی ہے جس کلچر اور ماحول میں ہوتی ہے اس سے محبت ہونا ایک فطری عمل ہے۔۔۔ میری نطر میں امت مسلمہ بننے کی سب سے بڑی رکاوٹ قومیت نہیں ہے بلکہ ہماری مسلک پرستی ہے۔۔ ہمارے ملک کے لبرل اور روشن خیال کا تو رونا ہی اس بات کا ہے دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے ہمیں کیوں تکلیف شروع ہوجاتی ہے

عورت اور مزاح

چند دن پہلے ایک فورم پر آرائیوں کا پیاز کے حوالے سے مذاق اڑایا گیا۔ کچھ نے اس پر سخت تنقید کی اور کچھ نے اس کو مزاح میں ٹالا۔ میں نے بھی خوب مذاق اڑایا اور ایک سے بھر کر ایک لطیفہ سنایا ۔ جب کچھ نے اعتراض کیا کہ کہ آپ سے اس تعصب کی توقع نہیں تھی تو مجھے واضح کرنا پرا کہ میرا اپنا تعلق اسی  قبیلے سے ہے لیکن چونکہ بات مزاح کے پیرائے میں ہو رہی تھی تو اس کو مزاح کے انداز میں ہی لیا جانا چاہیئے ۔کیا پیاز کے ساتھ ارائیوں کے تعلق کو جوڑنے سے ان کی شان میں کمی آرہی تھی؟ جو میں برا مان کر اس کے خلاف سخت الفاظ لکھنے بیٹھ جاتا۔مزاح کا جواب مزاح ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات خواتین کی سمجھ میں کیسے آئے؟
میرا موئوقف تو یہ ہے کہ عورت جب اپنی عزت عورت بن کر کروانا چاہے تو سر آنکھوں پر، لیکن اگر برابری کی بنیاد پر اپنی پہچان کرونا چاہے تو پھر اگر مرد دو لطیفے لائیں تو عورت چار لائے۔
مرد طنز کا ایک تیر چلائے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ بھی چار چلائے لیکن یہ بات بات پر مردوں کی حاکمیت اور مرد معاشرے کے طعنے، بات کچھ ہضم نہیں ہوتی
خواتین برابری کی دعوی دار ہونے کے بوجود ہمیشہ مردوں پر ناانصافی کا الزام کیوں لگاتی ہیں۔ہمیشہ محرومیوں کا رونا کیوں روتی ہیں ؟۔ جب برابری کی بات کرتی ہیں تو مرد معاشرے کا الزام کیوں؟؟؟
میم سین

ملک کے اندر ایک ملک

یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے۔ جس کے سامنے حب الوطنی سارے کے جذبے ماند پرجاتے ہیں۔راشد منہاس، میجر عزیز بھٹی اور ایسے کتنے ناموں کے ساتھ زندگی خوابوں میں گزار دی۔ لیکن آج جب آرمی کے شاہانہ انداز، بہترین تنخواہیں، اور سہولیات کے ساتھ۔تھرڈ ورلڈ کی سوا چھ سو ارب سالانہ بجٹ کے ساتھ (جس میں پنشن اور اسلحہ کی خریداری کا بجٹ شامل نہیں ہے) ہماری ملکی سرحدوں کی حفاظت نہ کرسکے۔آئے دن دشمن دندناتا ہماری سالمیت کیلئے خطرہ بنتا رہے اور ہم کوئی بھی ایکشن لینے قاصر ہوں تو پھر محبت کے جذبوں میں دراڑ آنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اورذرا قریب ہو کر دیکھا تو آفیسرز رینک میں سوائے اپنی ترقیوں کے کوئی جذبہ ڈھونڈنے سے قاصر ہوں تو پھر آرمی سے محبت کا دعوی کیسے کیا جائے؟؟؟ ایک ملک کے اندر ایک حکومت قائم ہے۔جس کے اپنے قوانین ہیں ،اپنا انداز ہے اور باقی شہری درجہ دوم سے تعلق رکھتے ہیں۔میرا ایک سوال ہے۔جس ملک کے ایک عام شہری کو بنیادی حقوق بھی میسر نہ ہوں وہاں پر ٓارمی آفیسرز کا علاج کیلئے میجر جنرل رینک کے سپیشلسٹ سے کروانا کیوں ضروری ہے۔کیا ایک عام سپیشلسٹ ان کا علاج نہیں کرسکتا۔؟ جس قدر بجٹ اور پے پیکج آرمی کے آفیسرز کو دستیاب ہیں وہ ایک عام شہری کو کیوں نہیں مل سکتے؟ ابھی چند دن پہلے ہی حکومت پنجاب کا عارضی بنیادوں پر سپیشلیشٹ ڈاکٹر کیلئے اشتہار چھپا ہے۔کیا آرمی میں ایسی تحقیر کسی افسر کے ساتھ ہوسکتی ہے؟؟؟؟؟
میم سین

ایک حقیقت

معاملہ جو کچھ بھی ہے لیکن شاہزیب کے قاتلوں کے ساتھ صلح  سے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے جنہوں نے تبدیلی کیلئے اس معاملے کو سہارا دیا تھا اور ہر فورم پر آواز بلند کی تھی۔اس واقعے کے بعد کس بھی مظلوم کیلئے آواز اٹھانے والا پہلے کئی بارسوچے گا !!
ہر شخص کی برادشت کی ایک انتہا ہوتی ہے اور شاہزیب کے خاندان کی بھی ہوگی۔ ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں رسہ گیر ہوتے ہیں۔ ان کے کئی کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کوئی جگہ پسند آگئی ہے ۔اور اس کا مالک اس کو بیچنے پر تیار نہیں ہے تو اس شخص اور اس کے خاندان کو ان رسہ گیروں کے ذریئے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ بالاآخر اس کو اونے پونے بیچنے پر تیار ہوجاتا ہے اور اسی طرح قتل کے ایک واقعے کا میں خود گواہ ہوں جس میں قتل کرنے والی فیملی نے حیلے بہانوں سے مقتول کے وارثوں کو اس قدر تنگ کیا گیا کہ مقتول خاندان، قاتل کو معاف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔کیوں کہ عدلیہ کے ذریئے سزا تو دلوائی جا سکتی ہے لیکن مظلوم کے وارثوں کو تحفظ دینا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔
میم سین

اعتماد

شوشل میڈیا بھی پروفیشنل کے ہاتھوں میں چلاگیا ہے.اور اس وقت پیڈ شوشل ورکر زیادہ ایکٹو ہیں.جو مخصوص لابی کیلئے کام کرتے ہیں.ساری تخلیق اور ایڈینکنگ وہاں ہورہی ہے اور پھر باقی میرے جیسے ان کو آگے فارورڈ کرتے ہیں.اور share کرتے وقت کوءی تحقیق نہیں کرتا اور نہ ہی تصدیق.الیکشن سے اگلے دن جاوید چوہدری کے کالم کے حوالے جس میں دھاندلی کے حوالے سے سخت تنقید کی گئی تھی.بہت زیادہ گھومتا رہا اور دلچسپ بات یہ ہے. الیکشن کے بعد اس نے پہلا اصلی کالم تین یا چار دن بعد لکھا تھا.کچھ یہی صورتحال حضرت علی کے اقوال اور احادیث مبارکہ کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے اور بخاری مسلم کے حوالے کے ساتھ جھوٹی احادیث پیش کی جاتی ہیں.اور یہ ابھی چند دن پہلے ہی شہباز شریف کے خلاف جو مہم چلی ہے اس کے بعد تو شوشل میڈیا سے بھی اٹھ گیا ہے.

چورنگی نامہ

السلام علیکم ۔ چورنگی پر ہونے والی اس بحث میں دیر سے پہنچنے پر معذرت۔اگرچہ ایسے موقعوں پر بزرگوں کو پہنچنے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے لیکن کیا کرتا کہ اس سے بھی ایک گھمبیر مسئلہ سلجھانے میں مصروف تھا۔ ایک صاحبزادے جو میرے بہت سمجھانے کے باوجود شادی کے انجام کیلئے عین الیقین کیلئے بضد تھے اور پھر اس ضد کو یقین تک نبھایا۔اب اپنی اس ضد پر نادم ایک صدمے اور پژمردگی میں میرے پاس اس مدعا کے ساتھ تشریف لائے تھے کہ کیا زندگی کو ریسٹور کرنا ممکن  ہوسکتا؟ہے ۔ میں اسے سمجھا رہا تھا کہ برخوردار ہمارے بھی بزرگوں نے ہم سے کہا تھا کہ منہ سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تیر کبھی لوٹ کر واپس نہیں اآسکتے ۔لیکن ہم نے بھی تمہاری طرح اپنی آنکھوں کے سوا کسی پر یقین کرنے سے انکار کردیا تھا سو آجکل زیادہ طرح چورنگی پر پائے جاتے ہیں۔ سو اب اپنی غلطی کا خمیازہ اسی طرح پورا کر سکتے ہو کہ تم بھی کوئی گروپ جوائن کر لو اور یہ گنگناتے پھرا کرو


سمجھ ہی میں نہیں آتا کچھ ایسے دلربا وہ ہیں

قیامت ہیں،غضب ہیں،قہر ہیں،آفت ہیں،کیا وہ ہیں؟

استانی کی باتیں

Dear mother-in-law, ''Don't teach me
how to handle my children, I'm living with one of yours and he needs
a lot of improvement.'' 

اس بات سے مجھے ایک استانی کی بات یاد آگئی جو اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی۔ہماری بھی کیا زندگی ہے، سارا دن لوگوں کے بچے سنبھالو، گھر پہنچو تو پہلے اپنے بچوں کو سنبھالو، اس کے بعد اپنی ساس کے بچے کو سنبھالو۔۔
ہماری بھی کیا زندگی ہے

زندگی


یہ جو کشمکش ہے رواں رواں
کہی و ان کہی کے درمیاں
یہ جو تشنگی ہے کشاں کشاں
نہ لذت وصل ہی دائمی
نہ ہجر کے دکھ ہی دیرپا
یہ خدشات و آرزوؤں کے درمیاں اک مقام ہے.
یہ ہے وہ مہلت اجنبی 
زندگی جس کا نام ہے.
میم سین

عورت

ایک کہاوت ہے یاد نہیں کس زبان کی جس میں کہا گیا ہے کہ عورت کو روئی سے پیدا کیا گیا تھا اور مرد کو پتھر سے۔ عورت مرد کو ، اس کے حزن و ملال کو، اس کے احساسات کی شدت کو اس کی بے تابی کو جذب کر لیتی ہے ۔ یہ اس کی فطرت ہے اور مرد ایک پتھر ہے جو سہارا دیتا ہے حفاظت کرتا ہے ۔عورت میں بلا کی جذباتیت اور جاذبیت پائی جاتی ہے۔وہ نازک اور کمزور ہے۔ وہ سہارا نہیں دے سکتی لیکن اپنی آغوش کی گرمی سے دلاسہ ضرور دے سکتی ہےمحبت تو جزا مانگتی ہے۔ یکطرفہ محبت تو گویا ایک سزا ہوگی۔ محبت تو قدم قدم پر ملتی ہے لیکن محبت کا انداز بچوں کا سا ہے جو کھلونے دیکھ کر مچل جاتے ہیں۔ ان کے بہلاوے کیلئے تو بہانے بہترے لیکن یہ تو دل ہے محبت کر تو بیٹھے گا لیکن اس کو بہلائے گا کون؟ محبوب بھی تو تب تک لبھاتا ہے جب شان انداز بے نیازی ہے ۔ جب تک سعی حاصل اور لاحاصل کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔۔ گر دیکھی ان دیکھی کا تکلف برطرف کر دیا جائے تو پھر محبت کیا معنی رکھے گی؟

معرفت

ہمارے علاقے میں روحانیت اتنی عام ہے کہ مرنے کے بعد ہر تیسرے بندے کے بارے میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ معرفت کی ساری منزلیں عبور کرگیا تھا۔ جس کا ادراک ہمیشہ مرنے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں اآئی۔ یہ بھی شائد معرفت کی ہی بات ہے اور میں ٹھہرا وہابی۔ کیا سمجھوں دلوں کے حال :( اور اسی وجہ سے گھر گھر آستانے کھلے ہیں۔ سیاست، ثقافت، سماج، روایات، رسم ورواج ہر جگہ ان کے اثرات نظر اآتے ہیں۔ اس لئے پیری مریدی کے یہ سلسلے ایک منفعت بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن شکر ہے ابھی کلینک سے دال روٹی چل جاتی ہے اسلئے اس طرف آنے کے بارے میں سوچا نہیں ہے۔ 

ملاقات کی داستان

بات صرف دوستوں کے مل بیٹھنے کی یا اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کی نہیں ہے بلکہ.ہم خیال ، لوگوں کے اجتماع اور ان کے اکٹھے ہونے کا ہے. اور وجہ بنی ہے یہ چورنگی جس نے موقع دیا اکٹھے ہونے کا.اپنے خیالات کے اظہار کا، دوسروں کے ساتھ گفتگو کا. ایک گھر کی شکل دی.ایک خاندان بنایا.جہاں روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ ماحول دیا جس میں شادی شدہ جوڑے بھی موجود ہیں اور کنوارے بھی.لیکن ایسے سلجھے ہوئے اور ایسے تہذیب یافتہ کہ کبھی کسی نے اخلاقیات کی حدود کو عبور نہیں کیا.ایک یہی اعتماد ہے جس نے سائیبر ورلڈ کو حقیقی روپ دینے پر اکسایا.مینو کا بھی ذکر خؤب چھیڑا ہے، مجلس کا حسن اور مزہ اتنا زیادہ تھا کہ کھانے سے زیادہ گفتگو کے خؤاہاں تھے، میزبان اصرار کرتے رہے کہ کیا منگوایا جائے لیکن مہمان باتوں کا چسکا لیتے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے تھے، پھر سوئے دار پر ایک دیسی مرغ کو دیسی گھی میں سے گزارنے کا درخواست کی گئی اور ایک عدد بکرےکے دماغ کی بھجیا بنوائی گئی، لوازمات کے ساتھ کھانے کا جو مزہ آیا اس کے بارے میں الفاظ نہیں ہیںاتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت، ساری رات فرشتے وضو کیلئے پانی ڈھونڈتے ریے ہونگے :) ہمارے ایک بزرگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی خوبصورتی کا تعلق دل کی خوبصورتی سے ہے۔ آپ خؤد خوبصورت ہیں تو سب لوگ خؤبصورت نظر آئیں گے۔ اب ذاقی بھیا خود اتنی پیاری شخصیت ہیں کے ان کی دیدہ بینا، ہر طرف خوبصورت لوگ دیکھتی ہے۔ یہ انہی کی محبت اور خلوص کی کشش تھی کہ میں ان سے ملاقات پر مجبور ہوگیا ورنہ میرے جیسا تساہل پسند اور کاہل الوجود شخص کہاں اتنی جستجو کرتا کہ ایک قلمی شخص کیلئے اپنے سفر کو موڑ سکتا۔ بار بار کا اصرار اور سارے سفر کے دوران مسلسل رابطے نے مجبور کردیا کہ ایک گوہر نایاب سے ملاقات کیونکر نہ کی جائے؟ ایک گھنٹہ تک ٹھوکر کے قریب ٹریفک میں پھنسے رہنے اور شب بھر جاگتے رہنے کے بعد یہ ذوقی بھیا کی محبت اور خلوص تھا جس نے کوئی بہانہ نہیں بنانے دیا اورملاقات کے التوا کا کوئی شوشہ دل میں بیدار نہیں ہونے دیا اور بھلا ہو ابوذر کا، مرید ہوں تو ایسے کہ ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے ساری مصروفیات ترک کرکے جہاں کہا وہاں پہنچ گئے، پوچھا بھی نہیں کہاں جانا ہے؟ کس کے پاس جانا ہے۔؟ اور یہ ابوذر کا ہی مشورہ تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک صاحب ذوق کیلئے کیا تحفہ لیجایا جائے تو انہوں نے اریبین ڈیلائیٹس کا رستہ دکھایا ۔کہ نفیس اور شائستہ لوگوں کئلئے معمول کے تحفے زیب نہیں دیتے۔ 
لکھاریوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ان کا قلم جو شخصیت آپ کے ذہن میں ڈھالتا ہے وہ نہیں ہوتی جس میں وہ خود جی رہے ہوتے ہیں۔ اور جب آپ ان سے ملاقات کرتے ہیں تو اکثر شخصیات کا طلسم اور بھرم ٹوٹ جاتا ہے لیکن ذوقی بھیا کی جو شخصیت کا خاکہ ذہن میں ڈھال رکھا تھا ، وہ اس سے بڑی اور بھاری نکلے۔ارادہ تو رضوان بھائی سے بھی ملاقات کا تھا لیکن کچھ ناگزیر گھریلو نوعیت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ملاقات کو التو میں ڈالنا پڑا۔ لیکن انشاللہ جلد ملاقات کی صورت نکالی جائے گی 
ذوقی بھیا تجسس کا صحرا ہیں،شعوری وجدان پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ ان کی تجسس کی رگ بھڑکتی رہتی ہے۔ وہ خوبصورت ہیں، ان کی باتیں خوبصورت ہیں، وہ جب بات کرتے ہیں تو قلب کو دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔گفتگو میں کفائیت شعار ہیں ، لیکن سنہری حروف کا استعمال کوئی ان سے جانے۔ خلوص، چاہت، پریت،الفت،محبت، یگانگی،کا ایک وسیع منبع ہیں۔ اھالیان چورنگی میں سے جو بھی لاھور جائے اور ان سے نہ ملے سمجھو سفرِ بےکار  ہے۔ رخصت ہوتے وقت جس خلوص اور پیار سے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر آنے کی دعوت دی اس میں ذرا برابر تکلف یا بناوٹ نہیں تھی۔ مجھے تو لگتا ہے وہ اس لفظ اور اس کے استعمال سے ہی ناوقف ہیں ۔ ان سے مل کر لگا کہ ہم صدیوں سے ملتے رہے ہیں،ہم سناشا ہیں، کسی ایک گھاٹی میں پہاڑ کے دو اطراف میں آباد رہے ہیں ۔ کوئی ججھک کوئی تکلف آڑے نہیں آیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوقی بھیا آپ کی محبت کیلئے نا الفاظ ہیں اور نہ انداز کہ ان کا شکریہ ادا کیا جاسکے۔ اور ابوذر آپ کی محبتوں کو سلام ۔آللہ سے دعا ہے آپ کو ڈھیروں خوشیاں دے اور دنیا وآخرت میں کامیاب کرے آمین
میم سین

جستجو


سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ  تکمیل کا موضوع  ہمارے معاشرے سے ہے جس میں میں رہ رہا ہوں ۔ اگر اس کامغرب کے ساتھ تقابل کیا جائے تو شائد انصاف نہ ہوسکے۔ ایسے ہی جیسے کالاہاری صحرا میں آباد کسی قبیلے کے تمدن کے حوالے سے اس موضوع پر بحث کی جائے۔ ہاں مغرب کے ہاں اگرتکمیل کے فلسفے سے انکار پایا جاتا ہے تو میں اس  کو میں رد کروں گا۔ کیونکہ تکمیل کے بنیادی فلسفہ کی پیدائش کا ذمہدار دراصل مغرب ہے۔ جب مرد نے تکمیل کی راہ میں حائل عورت کے کردار کو محسوس کیا تو اس پر فیصلہ یہ دیا کہ عورت کا کو جب تک مرد کی برابری تک نہ لایا جائے تب تک وہ اپنے تکمیل کا سفر مکمل نہیں کر سکتا۔ اور اس سے اس نے کیا حاصل کیا ،؟یہ ایک الگ بحث ہے۔ دوسرا یہاں پر آئیڈیل انسان کی بات کیجائے تو آئیڈیل انسان کی تلاش تکمیل کے سفر کا ایک سنگ میل تو ہوسکتا ہے لیکن سفر کا اختتام  نہیں۔

اکیسویں صدی کی عورت


اکیسویں صدی میں جب ہم نے مغرب کی اندھا دھند تقلید شروع کی تو ہم نے عورت کی آزادی کی بات کی اور اس کو اس کے حقوق سے آشنائی دلانا شروع کی لیکن اس کی جملہ ذمہ داریاں بتانے سےاحتراز کیا۔ ہمارے مرد کا ایک مسئلہ یہ کہ وہ آج بھی ڈپٹی نذیر احمد والی آیڈیل خاتون کے سحر میں گرفتار ،اکسویں صدی کی عورت کو تلاش کر رہا ہے۔اور شائد اسی وجہ سے عورت کو سمجھنا اس کیلئے آج بھی مشکل ہورہا ہے۔۔۔۔بیسویں صدی تک عورت کو سمجھے بنا گزارہ ہوسکتا تھا۔کیونکہ وہ برابری کے نعرے سے نا آشنا تھی۔لیکن اکسویں صدی کی عورت  مرد کی برابری تو چاہتی ہے لیکن ایک عورت  کے  روایتی استحقاق سے دستبردار ہونے سے انکاری ہے۔اس کی بنیادی وجہ وہ آج بھی اپنا دفاع خود کرنے میں ناکام ہے۔ مرد کی بھیڑ میں وہ اپنے تحفظ کیلئے الگ قطار کی خواہاں ہے۔ گاڑی میں اپنی سیٹ کیلئے وہ آج بھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور ہے۔ اور عورت اپنی تکمیل کیلئے مرد کو ادھورا دیکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ وہ خوفزدہ ہے۔ ہاں بات یہاں سے شروع ہونی چاہیئے کہ کیا اس میں حقیقت ہے کہ وہ خوفزدہ ہے یا وہ اپنی تکمیل کے بعد مرد کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اور مرد اپنی تکمیل کیلئے تمدنی ڈھانچوں اور الہامی احکامات کے درمیان الجھ جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔

شائد کچھ لوگوں کے نذدیک تکمیل کا لفظ ایک فریب یا سطحی ہو۔ لیکن میرے نذدیک جستجو کا ایک سفر ہے۔ خون کو گرم رکھنے کا بہانہ۔سو بات کو آگے بڑھانے کیلئے مرد و زن کی ذمہ داریوں اور حقوق کے درمیاں بیلنس پر غور کرنا ہوگا۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہوچکا ہے کہ مرد کی حاکمیت میں دراڑ آچکی ہے، وہ مظلوم تو نہیں لیکن اپنے اختیارات سے محروم ضرور ہوا ہے۔ لیکن کیا عورت نے وہ حقوق حاصل کرلینے کے بعد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا ہے؟؟؟

سپیڈ بریکر


یہ مذہب کا سپیڈ بریکر ہی تو ہے، جو ہمیں روکتا ہے، مذہب ہی تو ہماری زندگی کے راستوں پر سگنل لگاتا ہے، یہ مذہب ہی تو ہے جو کچھ راستوں پر یہ شاہرہ عام نہیں ہے کا بورڈ لگاتا ہے۔ کسی بھی فلاحی معاشرے کی بنیاد اقدار اور اس کی سماج پر ہوتی ہے، اور سماج کے قوائد و ضوابط ہمیشہ وہی زیادہ احسن طریقے سے کرسکتا ہے جو اسے بہتر جانتا ہے۔ اور مذہب سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ ایک معاشرے کیلئے کون سے قوانین زیادہ بہتر رہیں گے۔یہ رکاوٹیں اور پابندیاں ہی تو ہیں جو ایک سلجھا ہوا سماج جنم دیتی ہیں ، وہ سماج جو آگے چل کر ایک معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جو انسانیت کیلئے فلاح اور نجات دیتاہے۔ آخر مذہب ہی کیوں ؟؟؟؟ 


ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں ، اور کچھ چیزیں اس کی جبلت میں ہوتی ہیں۔لیکن یہ مذہبی پابندیاں اور قوائد ضوابط ہوتے ہیں جو ان جبلی تقاضوں کی ضروریات کا تعین کرتا ہے۔مرد و عورت کا ایک دوسرے کی طرف میلان اس کی سرشت میں ہے ۔ایک دوسرے کے قرب اور باتوں میں ایک تسکین پائی جاتی ہے۔ لیکن جہاں خونی رشتے آجاتے ہیں ، وہاں یہ سرشت سو جاتی ہے۔ آخر کیوں ؟؟ کیونکہ یہ سماج کے وہ قوائد ہیں جو ہمیں مذہب سکھاتا ہے۔اس لئے ایسے میلوں ٹھیلوں رسوم سے اختلاف کبھی بھی دنیاوی تقاضوں یا رجحانات کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی حدود کی وجہ سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔اس لئے مذہب کو نکال دیں تو پھر تو اعتراض ہی ختم ہوجاتا ہے
میم سین

ڈیپریشن


اپنی روزمرہ کی پریکٹس کے دوران مجھے کئی بار یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بیماریاں بہت کم ہیں اور ذہنی امراض بہت زیادہ۔ ہر دوسرا شخص ڈیپریشن، انزائٹی میں مبتلا ہے یا پھر کسی خودساختہ بیماری کے حصار میں ہے۔ معاشی اور معاشرتی مسائل، کمزور خاندانی نظام ،فرسٹیشن، حقائق سے فرار اور ایسے ہی دوسرے مسائل نے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 

ہمارا معاشرہ ایک کنفیوز معاشرہ بن چکا ہے۔ جو زندگی میں ہر معاملے میں کنفیوز نظر آتا ہے۔ مذہب ہو یا سیاست، تعلیم ہو یا صحت کا کوئی مسئلہ، ہمیشہ بھیڑ چال سے متاثر ہوجاتا ہے اور ڈیپریشن کی سب سے بڑی وجہ یہی کنفیوزنز ہیں
میم سین

مٹی پائو


دھاندلی کے الزامات پر الیکشن کمیشن کو اپنی پوزیشن فوری طور پر کلیئر کرنی چاہیئے۔۔ آخر کب تک بشیر موچی کی بیٹی کے اغوا کا معاملہ یہ کہہ کر دبایا جاتا رہے گا کہ اب لڑکی مل بھی گئی تو کونسا عزت واپس آجانی ہے۔۔۔۔۔۔ مٹی پائو جی ہن۔۔۔۔ ملک کی ترقی کا کام شروع کرو۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہو گے ؟ یا ملک کے لئے بھی کچھ کرو گے ؟۔۔مٹی پائو جی۔۔۔۔ مٹی پائو جی ۔۔۔ جو ہونا تھا ہو چکا ، جو رزلٹ آنا تھا آچکا۔۔۔ گڑے مردے اکھیڑنے سے کیا ہوگا؟ آخر کب تک ہم انصاف کا قتل اس طرح کی باتیں کر کے کرتے رہیں گے۔۔ جس عمارت کی بنیاد ہی بے ایمانی اور انصاف کے قتل پر ہو ، اس کی مضبوطی کی کیا گارنٹی؟؟؟؟ یہ کہہ کر ایوب خان کو تحفظ۔ ضیاالحق کو بھی تحفظ۔ مشرف کو بھی۔۔۔ اور ان تحفظات کے ذریعے ایک اور مارشل آ کی بنیاد رکھ دی جاتی ۔۔۔اور مٹی پائو پالیسی کے تحت اگلے الیکشن کو مشکوک بنانے کی بنیاد آج سے رکھ دی گئی ہے

اور یہ مطالبہ کوئی ممی ڈیڈی یا کسی برگر فیملی کا فرد نہیں کر رہا اور نہ ہی ڈیفنس کالونی کا رہایشی ہے۔ ایک دور افتادہ ، پسیماندہ قصبہ مامونکانجن کا رہاشی ہے جو بھوک لگے تو کسی ٹرکوں کے ہوٹل سے کھانا کھا لیتا ہے اور پیاس لگے تو سڑک کنارے کسی ریڑھی سے سکنجبیں یا ستو پی لیتا ہے۔۔۔۔
میم سین

خوف



کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہیں جس نے ہمارے ذہنوں کو کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے نکال لیتے ہیں ۔ہمیں کسی نے سچ بولنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنے اس سچ کو بیان کرنے کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دوسروں کے ذہنوں میں زہر گھولنے سے بچنا چاہیئے۔ایسا سچ جس سے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ہمیں پہلے تو اپنے اس خوف سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور دوسرا بحث کی رسی کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا چاہیئے کہ جہاں سے فضا خیالات کے دھویں سے بھرنا شروع ہوجائے اور منظر دھندلانا شروع ہو جائیں وہیں سے اس  رسی کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں تا کہ بحث کا رخ تبدیل ہوجائے یا پھر وہ دھواں اس فضا سے نکل جائے۔جب ہم دوسروں کا لفظوں سے شعوری یا غیر شعوری طور پراستحصال شروع کردیتے ہیں تو ہمارے پاس برف کا پانی رہ جاتا ہے ، برف تو کبھی کی پگھل کر ضائع ہوچکی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی نفسیاتی اور جبلی انا پسندی کے زہر کو خیر خؤاہی کے جذبے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے
میم سین


Sunday, June 7, 2015

قلم


آپ نے جتنی بھی رپورٹس  مجھےدکھائی ہیں اورجو پرانے نسخے آپ کے پاس ہیں ان کے مطابق آپ کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ 

بس آپ سوچا مت کریں اور تنہائی سے بچیں۔ گھر والوں سےباتیں کیا کریں اور اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔
میری بات سن کے پینتیس چھتیس سال کی مریضہ نے جواب دیا۔ سب ڈاکٹر یہی کہتے ہیں۔ لیکن میں خود کو خوش کیسے رکھوں؟
میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بولیں
میرا شوہر۔
انہیں میرے ساتھ کوئی رغبت نہیں ہے
مجھے توجہ نہیں دیتے
اور نہ ہی میرا کوئی خیال رکھتے ہیں



اچھا تو یہ بات ہے۔
بچے کتنے ہیں آپ کے؟ میں نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے پوچھا
تین بیٹے اور ایک بیٹی  حیات ہیں۔ ایک بیٹا چھٹے مہینے فوت ہوگیا تھا۔
میم سین

Friday, June 5, 2015

قلم

 کلینک کے تجربات   مسلسل قلمبند کرنے کے بعدارادہ تھا کہ اگلی بار کسی نئے موضوع پر طبع آزمائی کروں گا۔ لیکن آج ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہےکہ ایک بار پھر اپنے کلینک کے حوالے سے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔
ایک سال کے انتہائی لاغر اور کمزور بچے کو میرے پاس لایا گیا ۔ جب میں اس کا چیک اپ کر رھا تھا تو نظر اس کے گلے میں پڑے لاکٹ پر پڑی جس میں ایک نوجون کی تصویر تھی۔ سیاہ بڑے بڑے بال، چھوٹی سے داڑھی اور موچھیں معمول سے کچھ بڑھی ہوئیں۔ 
میں نے پوچھا ۔اس کے گلے   میں کس کی تصویرلٹکا رکھی ہے؟
یہ ہمارے پیر صاحب ہیں۔

انہی پیر صاحب کی دعا سے اللہ نے یہ بچہ ہمیں عطا کیا تھا۔جب بھی بیمار ہوتا  تھا۔پیر صاحب کا دیدا رکروا دیتے تھے تو یہ شفا یاب ہوجاتا تھا۔ لیکن پچھلے تین مہینے سے یہ بار بار بیمار رہنے لگ گیا تو پیر صاحب نے اپنی تصویر عنائیت کر دی۔ چند دن تو یہ بالکل ٹھیک رھا۔لیکن کچھ دن بعد دوبارہ بیمارہونا شروع ہوگیا۔آج پیر صاحب نے کہا ہے کہ بچے کے اندر کمزوری زیادہ ہوگئی ہے اس لئے میری دعائوں کا اثر نہیں ہورھا۔ اسے کوئی ڈرپ لگوا کر لائو۔ کمزوری کچھ کم ہوگئی تو  اسےشفا نصیب ہوجائے گی۔ 

آپ کے پاس اسی کام سے آئے ہیں۔

میم سین

Wednesday, June 3, 2015

میرا قلم

ہمارے پٹھان بھائی بھی بڑے دلچسپ لوگ ہیں۔ کل ایک پٹھان اپنی دو سال کی بچی کو چیک کروانے آیا۔
میں نے نام پوچھا تو کہنے لگا 
کالگہ
مجھے نام سن کر کچھ اچنبھا ہوا اور پوچھا 
خان صاحب اس نام کا مطلب کیا ہے؟
مطلب کا تو ہم کو پتا نہیں
ادھر ہمارے گھر سے صوابی کی طرف جائیں توراستے میں ایک گائوں آتا ہے۔
 ہم کو اس کا نام اچھا لگتا تھا 
اس لئےہم نے اپنی بیٹی کا رکھ دیا
میم سین