زندگی میں بھلا تسلی کیلئے محبت سے بڑی کوئی چیز ہوتی ہے؟ لگن سچی ہوتو سمندر بھی رستہ دے دیتے ہیں۔پہاڑ بھی اپنی چوٹیوں کو سرنگوں کر دیتے ہیں۔اب بھلا کوئ ذہن کی بجائے محض الفاظ کے سہارے جذبات سے کھیلنا چاہے تو پھر جو دل چاہے تصویر بنائے؟؟؟ اس فہم اور شعور کو کیا نام دوں جو چاہے تو مرد کو وحشی درندہ ثابت کرے۔چاہے تو کبھی آوارہ بھنورہ۔ ۔ دل کرے توکبھی دیوتا کی نظر سے دیکھے، من چاہے تو تکمیل کی جستجو میں اس کا تعاقب کرے۔۔۔۔۔۔
پانا اور کھونا محبت کی تسکین بنتے ہیں۔من کی یہ اڑان مرد بھی چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن یہ جو عورت اور مرد میں جنسی تعصب کا پہلو ہے اسے پروان چڑھنے دینا کہاں کا انصاف ہے؟۔ جہاں انسان کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جارھا، وہاں پر خلش، کسک جیسے الفاظ جنم نہیں لیا کرتے۔ اگر ان کو پنپنے کا موقع دیا ہی گیا ہے تو پھر مورد الزام ایک فریق کو کیوں؟ اگر مرد کے پاس خوشنما اور سحر انگیز لفظؤں کا ذخیرہ ہے تو عورت بھی دلفریب ادائوں کے فطری حسن سے مالا مال ہے۔اس کی آواز بھی تو بہت شیریں ہے۔اس کی ہنسی میں کسی آبشار کی دلکشی دکھائی دیتی ہے۔ اور مرد ان ادائوں کو محبت سمجھ کر بندھن کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ اگر محض الفاظ کے طلسم کے زیراثر عورت کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟؟؟
عورت کا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے۔ وہ محبت کے لئے فطری طور پر مجبور ہے۔اپنے تحفظ کیلئے۔۔۔ اپنی بقا کیلئے۔۔اس محبت کیلئے وہ مجبور بھی ہے اور خوشی کی کیفیت لئے ہوئے بھی۔۔۔لیکن محبت کی اس تلاش میں وہ فریب کھائے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟
مرد بھی چاہتا ہے وہ ریشمی بندھن میں بندھا رہے۔ وہ بھی ازل سے ابد تک اس بندھن کو نبھانے کیلئے تگ ودو کرتا ہے۔وہ تو اس قدر معصوم ہوتا ہے کہ عورت سے اسی وارفتگی کی ہمیشہ توقع رکھتا ہے جو اس نے پہلے دن محسوس کی تھی۔ وہ ازل ابد کے معنی اسی بندھن کے ساتھ جوڑ دیتا ہے جو اس نے پہلے دن سیکھے ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن عورت اپنی محبت مرد سے چھین کر اسے رشتوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ محبت کی تلاش میں ڈگمگائے ہوئے قدموں کو مرد کے نام کر دیتی ہے۔ تو مرد کس کو الزام دے؟؟؟؟
چلو یہ مان لیا کہ مرد جو ہمیشہ تسخیر کے جذبے سے مسلح رہتا ہے اور وہ عورت کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کمزوری کا احساس ایک عورت دلائے تو الزام کس کے سر؟؟؟؟
پانا اور کھونا محبت کی تسکین بنتے ہیں۔من کی یہ اڑان مرد بھی چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن یہ جو عورت اور مرد میں جنسی تعصب کا پہلو ہے اسے پروان چڑھنے دینا کہاں کا انصاف ہے؟۔ جہاں انسان کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جارھا، وہاں پر خلش، کسک جیسے الفاظ جنم نہیں لیا کرتے۔ اگر ان کو پنپنے کا موقع دیا ہی گیا ہے تو پھر مورد الزام ایک فریق کو کیوں؟ اگر مرد کے پاس خوشنما اور سحر انگیز لفظؤں کا ذخیرہ ہے تو عورت بھی دلفریب ادائوں کے فطری حسن سے مالا مال ہے۔اس کی آواز بھی تو بہت شیریں ہے۔اس کی ہنسی میں کسی آبشار کی دلکشی دکھائی دیتی ہے۔ اور مرد ان ادائوں کو محبت سمجھ کر بندھن کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ اگر محض الفاظ کے طلسم کے زیراثر عورت کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟؟؟
عورت کا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے۔ وہ محبت کے لئے فطری طور پر مجبور ہے۔اپنے تحفظ کیلئے۔۔۔ اپنی بقا کیلئے۔۔اس محبت کیلئے وہ مجبور بھی ہے اور خوشی کی کیفیت لئے ہوئے بھی۔۔۔لیکن محبت کی اس تلاش میں وہ فریب کھائے تو اس کا الزام مرد کو کیوں؟
مرد بھی چاہتا ہے وہ ریشمی بندھن میں بندھا رہے۔ وہ بھی ازل سے ابد تک اس بندھن کو نبھانے کیلئے تگ ودو کرتا ہے۔وہ تو اس قدر معصوم ہوتا ہے کہ عورت سے اسی وارفتگی کی ہمیشہ توقع رکھتا ہے جو اس نے پہلے دن محسوس کی تھی۔ وہ ازل ابد کے معنی اسی بندھن کے ساتھ جوڑ دیتا ہے جو اس نے پہلے دن سیکھے ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن عورت اپنی محبت مرد سے چھین کر اسے رشتوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ محبت کی تلاش میں ڈگمگائے ہوئے قدموں کو مرد کے نام کر دیتی ہے۔ تو مرد کس کو الزام دے؟؟؟؟
چلو یہ مان لیا کہ مرد جو ہمیشہ تسخیر کے جذبے سے مسلح رہتا ہے اور وہ عورت کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کمزوری کا احساس ایک عورت دلائے تو الزام کس کے سر؟؟؟؟
No comments:
Post a Comment