اکیسویں صدی میں جب ہم نے مغرب کی اندھا دھند تقلید شروع کی تو ہم نے عورت کی آزادی کی بات کی اور اس کو اس کے حقوق سے آشنائی دلانا شروع کی لیکن اس کی جملہ ذمہ داریاں بتانے سےاحتراز کیا۔ ہمارے مرد کا ایک مسئلہ یہ کہ وہ آج بھی ڈپٹی نذیر احمد والی آیڈیل خاتون کے سحر میں گرفتار ،اکسویں صدی کی عورت کو تلاش کر رہا ہے۔اور شائد اسی وجہ سے عورت کو سمجھنا اس کیلئے آج بھی مشکل ہورہا ہے۔۔۔۔بیسویں صدی تک عورت کو سمجھے بنا گزارہ ہوسکتا تھا۔کیونکہ وہ برابری کے نعرے سے نا آشنا تھی۔لیکن اکسویں صدی کی عورت مرد کی برابری تو چاہتی ہے لیکن ایک عورت کے روایتی استحقاق سے دستبردار ہونے سے انکاری ہے۔اس کی بنیادی وجہ وہ آج بھی اپنا دفاع خود کرنے میں ناکام ہے۔ مرد کی بھیڑ میں وہ اپنے تحفظ کیلئے الگ قطار کی خواہاں ہے۔ گاڑی میں اپنی سیٹ کیلئے وہ آج بھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور ہے۔ اور عورت اپنی تکمیل کیلئے مرد کو ادھورا دیکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ وہ خوفزدہ ہے۔ ہاں بات یہاں سے شروع ہونی چاہیئے کہ کیا اس میں حقیقت ہے کہ وہ خوفزدہ ہے یا وہ اپنی تکمیل کے بعد مرد کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اور مرد اپنی تکمیل کیلئے تمدنی ڈھانچوں اور الہامی احکامات کے درمیان الجھ جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
شائد کچھ لوگوں کے نذدیک تکمیل کا لفظ ایک فریب یا سطحی ہو۔ لیکن میرے نذدیک جستجو کا ایک سفر ہے۔ خون کو گرم رکھنے کا بہانہ۔سو بات کو آگے بڑھانے کیلئے مرد و زن کی ذمہ داریوں اور حقوق کے درمیاں بیلنس پر غور کرنا ہوگا۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہوچکا ہے کہ مرد کی حاکمیت میں دراڑ آچکی ہے، وہ مظلوم تو نہیں لیکن اپنے اختیارات سے محروم ضرور ہوا ہے۔ لیکن کیا عورت نے وہ حقوق حاصل کرلینے کے بعد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا ہے؟؟؟
No comments:
Post a Comment