Wednesday, June 17, 2015

اخوت


اس وضاحت سے کہ ہمارے دنیا کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے سے آج ہم سے امتیازی سلوک ہورہا ہے، تو کیا ہمیں بھوٹان یا منگولیا کی حکومتی پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے؟ اس سلسلے میں وسطی ایشیا کی کچھ ریاستوں کی بھی مثال دی جاسکتی ہے؟ اس طرح کے کھلے قتل عام پر جو خصوصاً کسی مسلم ملک میں ہو رہا ہو ، کیا ردعمل ہونا چاہیئے؟ملک عزیز میں لڑی جانے والی ایران، امریکہ،بھارت واسرائیل کی پراکسی وار اور مشرق اور مغرب کی طرف سے ہر وقت آتش فشانی کیفیت کی موجودگی اور شمال میں کشمیر کی صورت میں ہر وقت ناگہانی صورت حال اور اسماعیلی حکومت کیلئے تگ ودو ،۔۔۔۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے پہلے ہی دن قبول نہ کئے جانے کے طرز عمل اور ایران کی موجودہ حکومت کے جارحانہ اقدامات۔۔۔ کیا دھشت گردی صرف ہمارا داخلی معاملہ ہے؟ سارے عالمی اور اشتعاری ہتھکنڈوں کو نظر انداز کرنے کے بعد کیا ہم ایک داخلی استحکام حاصل کر پائیں گے ؟ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں ہے ، ذرا غیر جانبدرا ہو کر اس دھشت گردی کی اصل حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔ کُھڑا نائین الیون سے مت ڈھونڈیں، اس کا سرا قیام پاکستان کے فوارً بعد درپیش مجبوریوں اور ہمارے وجود کے عدم استحکام اور ان ریشہ دوانیوں سے ڈھونڈیں جو اس کو مفاد پرست طبقے نے پہنچایا تھا ۔اس دہشت گردی کا سرا آپ کو کولڈ وار کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی اقتصادی اور مذہبی جنگ میں سے ڈھونڈنا پڑے گی۔ملکی دھشت گردی کا معاملات کا تعلق صرف پاکستان سے نہیں ہے اس کے سرے آپ کو دنیا میں ہونے والی ہر دھشت گردی میں ملیں گے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے جو کانٹا کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے
"مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہۓ" اگر یہ درد کوئی دوسرا مسلمان محسوس نہیں کرتا اور صرف پاکستانی مسلمان درد آشنا ہونے کا دعوی کرتا ہے تو میرا خیال ہے کہ کوئی پیمانہ ایسا نہیں جس سے اس کی منافقت کا تعین کیا جاسکے ۔ مسلمان کے خون کی آبرو پوری دنیا میں ایک جیسی ہے، خواہ وہ ہندستان میں ہو یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ ہاں ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو اس خون رائیگاں کا سبب بن رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment