Wednesday, June 17, 2015

خوف



کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہیں جس نے ہمارے ذہنوں کو کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے نکال لیتے ہیں ۔ہمیں کسی نے سچ بولنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنے اس سچ کو بیان کرنے کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دوسروں کے ذہنوں میں زہر گھولنے سے بچنا چاہیئے۔ایسا سچ جس سے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ہمیں پہلے تو اپنے اس خوف سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور دوسرا بحث کی رسی کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا چاہیئے کہ جہاں سے فضا خیالات کے دھویں سے بھرنا شروع ہوجائے اور منظر دھندلانا شروع ہو جائیں وہیں سے اس  رسی کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں تا کہ بحث کا رخ تبدیل ہوجائے یا پھر وہ دھواں اس فضا سے نکل جائے۔جب ہم دوسروں کا لفظوں سے شعوری یا غیر شعوری طور پراستحصال شروع کردیتے ہیں تو ہمارے پاس برف کا پانی رہ جاتا ہے ، برف تو کبھی کی پگھل کر ضائع ہوچکی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی نفسیاتی اور جبلی انا پسندی کے زہر کو خیر خؤاہی کے جذبے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے
میم سین


No comments:

Post a Comment