ایک دفعہ کا ذکر ہوتا تو شائد لکھنے کی نوبت ہی نا آتی، راوی تو لکھ لکھ کر تنگ آگیا ہے اور مزید لکھنے سے انکاری ہے۔ ایک جنگل میں دو شیروں کی لڑائی ہوگئی۔ ایک مینڈکی بھی پاس کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس کی دم پر کسی ایک شیر کا پائوں آگیا اس نے دوڑ لگا دی اور ساتھ والے جنگل مین واویلا شروع کر دیا۔ سنبھل کے، ذرا دھیان میں رکھنا مرد ہمارے پاس بھی بہت ہیں۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں راوی کا ایک دوست لکھتا ہے شیروں کو لڑتا دیکھ کر مینڈکی بھاگ گئی تھی ، دم پر پائوں تو کسی پچھلی بار میں آیا تھا۔اس بار تو بس ایسے ہی بھاگ کر شور ڈال دیا تھا کہ تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے ہم تمہیں رشتہ نہیں دیتے۔ ۔۔۔۔
ایسا کئی بار ہوتا ہے مینڈکیوں کو زکام ہوتا رہتا ہے ۔جب بھی شیروں کے گھر کوئی مسئلہ کھڑاہوتا ہے۔ کوئی خوشیاں پھیلنے لگتی ہے تویہ زکام کی وبا پھیل جاتی ہے۔ یہ جنگل کا دستور بھی بن گیا چکا ہے اور رواج بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بیماریوں کا علاج نہیں کیا جاتا، وہ ہوتی ہین اور ہمیشہ سے ہوتی ہیں انہوں نے رہنا ہے اور یہ مینڈکیوں کو زکام بھی رہنا ہے۔۔۔۔یہ مینڈکیاں سامری کا تماشہ دیکھنے بھی آئی تھیں اور موسی کے ساتھیوں میں بٹھتی تھیں۔۔۔۔۔عیسی کے حورایوں میں بھی تھیں۔۔۔۔۔۔ یہ تو انبیا کو نہیں بخشتیں تھیں۔۔۔۔ اور شاہوں کے منصب پر بھی طعنہ ظن تھیں تو کلیسا پر بھی۔۔۔بس ان کی طبیعت کچھ نازک سی ہے ذرا سی ہوا تبدیل ہوجائے تو ذکام ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔
لیکن نسلیں بدل جاتی ہین شعور بدل جاتا ہے ہر صدی، ایک نیا شعور لیکر آتی ہے جو پہلے شعور سے بہتر ہوتا ہے۔۔لیکن یہ شعور نہیں ہے مینڈکیوں کا زکام ہے، جو کبھی نہیں رکے گا۔کبھی نہیں بدلے گا۔۔۔ یہ چلتا رہنا ہے ہر صدی میں ، ہر دور میں۔۔ اور آنے والے دنوں میں تو وبا کی شکل اختیار کر لے گا۔۔۔ زمین سے بھی یہ مینڈکیاں اگیں گی اور آسمان سے بھی برسیں گی۔۔۔۔۔
میم ۔سین
No comments:
Post a Comment